یسئلونک
دارالافتاء، فقہ اکیڈمی
کتاب ’’احیاء علوم الدین‘‘ اور موضوع روایات
سوال: امام غزالی رحمہ اللہ بہت ہی علمی اور رسوخ فی العلم رکھنے والی شخصیت ہیں، مگر امام غزالی رحمہ اللہ کی کتاب”احیاء العلوم“ میں کچھ موضوع احادیث بھی موجود ہیں اور مذکورہ کتاب میں موضوع احادیث کی صراحت اور تنبیہ بھی موجود نہیں ہے۔ از راہِ کرم، یہ رہنمائی فرمادیجیے کہ امام غزالی رحمہ اللہ جیسی عظیم شخصیت نے بغیر کسی صراحت کے ”احیاء العلوم“ میں موضوع احادیث کس علت و حکمت کے تحت تحریر فرمائی ہیں؟ جواب: علوم میں رسوخ رکھنے والے حضرات ،حدیث کے حوالے سے مختلف مزاج رکھتے ہیں۔ بعض متشدد ہوتے ہیں جو معمولی خرابی کے باعث حدیث کے ضعف کو بیان فرما کر نا قابلِ استدلال قرار دیتے ہیں جیسے امام دار قطنی رحمہ اللہ اور بعض متساہِل ہوتے ہیں جو ہر حدیث کو قبول کرتے ہیں اور بڑی سے بڑی خرابی کے باوجود بھی حدیث قبول لیتے ہیں جیسے امام حاکم رحمہ اللہ، تو معتدل مزاج محققین کے نزدیک دونوں قسم کے اشخاص کے اقوال کا اعتبار اس وقت تک نہیں جب تک کہ کسی محقق محدث نے ان کی تصحیح نہ فرمائی ہو ۔جیسے مستدرک حاکم میں موجود بہت سی احادیث کو امام حاکم نے بخاری و مسلم کے درجے کا کہا ہے جب کہ ان میں بعض روایات ضعیف ہیں تو امام حاکم کی تصحیح کا اعتبار نہیں بلکہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے مستدرک کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد جو کچھ فرمایا اسی کا اعتبار ہے ۔ اور علمی رسوخ رکھنے والے کسی امام کا یہ مزاج بعض اوقات علمِ حدیث کے علاوہ دوسرے علوم میں مشغولیت یا غلبے کے باعث ہوتا ہے۔ اور امام غزالی رحمہ اللہ پر بھی چونکہ فلسفہ اور تصوف کا غلبہ تھا اس لیے حدیث میں ان کا تساہُل ہونا کوئی بڑی بات نہیں جب کہ امام غزالی رحمہ اللہ اور ان کی کتاب اِحیاءُ علومِ الدین پر تنقید کرنے والے حضرات نے بھی اس کی افادیت اور امام غزالی رحمہ اللہ کے علوِّ مرتبت اور جلالتِ شان کا اعتراف کیا ہے ۔ چنانچہ شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : كلامه في الإحياء غالبه جيد۔ احیاء کے اندر اکثر باتیں عمدہ ہیں ( فتاوى شيخ الاسلام ابنِ تیمیہ،ص:۱۹۴) نیز بہت سے بڑے علما نےامام غزالی رحمہ اللہ کی کتاب احیاء علوم الدین میں موجود احادیث کی تخریج فرمائی ہے جن میں حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ بہت مشہور ہیں۔ لہذا احیاء میں درج شدہ احادیث میں سے جن احادیث کو محققین نے صحیح اور قابلِ عمل قرار دیا انھی کو قابلِ عمل سمجھا جائے گا اور جن احادیث پر کلام کر کے انھیں موضوع قرار دیا ہے ان پر عمل نہیں کیا جائے گا ۔ ’’الكشف والإنباء على المترجم بالإحياء‘‘ وهو نقد وإصلاح لما ورد في كتاب ’’إحياء علوم الدين‘‘ للغزالي من الأحاديث الموضوعة، وكلنا يعلم أن حجة الإسلام الغزالي – رَضِيَ اللهُ عَنْهُ – بالرغم عن علو مقامه في العلوم الدينية وتفرده بالآراء الصائبة في فلسفة الإسلام والأخلاق، لم يكن متحريًا غاية التحري في الأحاديث التي أوردها في تأليفه المتقدم ومن هنا انتقد عليه المازري – وهو المحدث الثقة – تلك الأنقال فأثبت منها ما أثبت، وأسقط ما سواه.(الإمام المازري (ص: ۶۴) كتاب ’’إحياء علوم الدين‘‘ لأبي حامد الغزالي فيه من الأحاديث الباطلة جملة، وفيه خيرٌ كَثِيْرٌ لَوْلاَ مَا فِيْهِ مِنْ آدَاب وَرسوم وزهد من طرائف الحكمَاء وَمُنحَرِفِي الصُّوْفِيَّة۔(سير أعلام النبلاء ط الحديث (۱/ ۸۹) وَللإِمَامِ مُحَمَّد بن عَلِيٍّ المَازَرِي الصَّقَلِّي كلامٌ عَلَى ’’الإِحيَاء‘‘ يَدُلُّ عَلَى إِمَامته، يَقُوْلُ: وَقَدْ تَكرَّرت مُكَاتبتكُم فِي اسْتَعلاَمِ مَذْهَبِنَا فِي الكِتَابِ المُتَرْجَمِ بِـ’’إِحيَاءِ عُلُوْمِ الدِّينِ‘‘، وَذَكَرتُم أَنَّ آرَاء النَّاس فِيْهِ قَدِ اخْتلفت، فطائفةٌ انْتَصَرت وَتعصَّبت لإِشهَاره، وَطَائِفَة حَذَّرت مِنْهُ وَنفَّرت، وَطَائِفَة لِكُتُبِهِ أَحرقت، وَكَاتِبنِي أَهْلُ المَشْرِق أَيْضاً يَسْأَلونِي، وَلَمْ يَتقدم لِي قِرَاءة هَذَا الكِتَاب سِوَى نُبَذٍ مِنْهُ، فَإِنْ نَفَّسَ اللهُ فِي العُمُرِ، مَدَدتُ فِيْهِ الأَنفَاس، وَأَزلتُ عَنِ الْقُلُوب الالْتِبَاس: اعْلمُوا أَنَّ هَذَا رَأَيْتُ تَلاَمِذَتَهُ، فُكُلٌّ مِنْهُم حَكَى لِي نوعاً مِنْ حَالِهِ مَا قَامَ مقَام العِيَانِ، فَأَنَا أَقتصرُ عَلَى ذكر حَاله، وَحَالِ كِتَابِهِ، وَذِكْرِ جُمَلٍ مِنْ مَذَاهِب الموحِّدين وَالمتصَوِّفَة، وَأَصْحَابِ الإِشَارَات، وَالفَلاَسِفَة، فَإِنَّ كِتَابهُ مترددٌ بَيْنَ هَذِهِ الطّرَائِق.(سير أعلام النبلاء ط الحديث (۱۴/ ۲۷۶) قسم الذهبي النقاد إلى ثلاثة أقسام: 1ـ قسم متشدد، متعنت في الجرح متثبت في التعديل، يغمز الراوي بالغلطتين والثلاث، كابن معين، وأبي حاتم. 2ـ وقسم متساهل، كالترمذي، والحاكم. 3ـ وقسم معتدل، كأحمد، والدارقطني، وابن عدي.(الطبقات الكبرى – متمم التابعين – محققا (ص: ۷۷) ۱۴ مارچ ۲۰۲۲ء فتوی نمبر : ۵۳۴۷ واللہ اعلم بالصواب