مولانا عبد المتین
امتِ مسلمہ کی خصوصیت: اعتدال اور میانہ روی
اللہ ربّ العزت فرماتے ہیں: ﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلنٰکُم أُمَّةً وَّسَطًا﴾ ’’اور (مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک معتدل امّت بنایا ہے‘‘۔ اللہ ربّ العزت اس آیتِ کریمہ میں امت ِ محمدیہ کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے ایک خاص اصطلاح ذکر فرماتے ہیں کہ ہم نے تمھیں ’’امتِ وسط‘‘ بنایا ہے۔ عربی میں ’’وسط‘‘ درمیانہ پن، اعتدال، میانہ روی اور بیچ کے راستے کو کہتے ہیں۔ اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ جو چیز درمیان میں ہوتی ہے وہ زیادہ اچھی لگتی ہے اور زیادہ آویزاں ہوتی ہے، اور اسی طرح کسی مجلس میں اسٹیج جب بنتا ہے تو بالکل بیچ میں بنتا ہے اور صدرِ مجلس کی کرسی بالکل اسٹیج کے بیچ میں لگائی جاتی ہے، تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ یہ اس مجلس میں سب سے معزز ہیں۔ تو اللہ ربّ العزت فرماتے ہیں کہ تمہاری بھی خصوصیت ایسی ہی ہے کہ تم اِفراط و تفریط کا شکار نہیں ہو، نہ تم حد سے آگے بڑھنے والے ہو اور نہ حد سے گرنے والے ہو، اس لیے کہ ہم نے تمھیں ایک معتدل اور درمیانی امت بنایا جو اعتدال پر اور انصاف پر قائم رہنے والی ہے۔ تاکہ تم روزِ محشر لوگوں پر گواہ بن سکو اور حضورﷺتم پر گواہ بن سکیں۔ لہذا تمہاری سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ تم امتِ معتدل اور امتِ وسط ہو۔
آپ ﷺکا صحابۂ کرام کو اعتدال کی تربیت دینا
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تین اشخاص نبیﷺکی عبادت کے متعلق پوچھنے کے لیے نبیﷺکی ازواجِ مطہرات کے پاس آئے، جب انھیں اس کے متعلق بتایا گیا، تو گویا انھوں نے اسے کم محسوس کیا، چنانچہ انھوں نے کہا : ہماری نبیﷺسے کیا نسبت؟ اللہ نے تو ان کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف فرما دی ہیں ، ان میں سے ایک نے کہا : میں تو ہمیشہ ساری رات نماز پڑھوں گا ۔ دوسرے نے کہا : میں دن کے وقت ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور افطار نہیں کروں گا اور تیسرے نے کہا : میں عورتوں سے اجتناب کروں گا اور میں کبھی شادی نہیں کروں گا۔ نبیﷺان کے پاس آئے اور پوچھا: ’’تم وہ لوگ ہو جنھوں نے اس طر ح کہا ہے؟ اللہ کی قسم! میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سے زیادہ تقویٰ رکھتا ہوں ، لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں ، رات کو نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں ، پس جو شخص میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں‘‘۔ (بخاری) بہت ہی خوب صورت اور تسلی بخش انداز میں رسول اللہﷺنے صحابہ کے توسط سے امت کو اعتدال کا پیغام دیا اور اپنی مثال دے کر بیان فرمایا تاکہ اس پر عمل کرنا،مشاہدہ کرنا، سیکھنا آسان ہوجائے اور ایک حتمی نکتہ یوں بیان فرمایا کہ یہی میرا طریقہ ہے یہی شریعت ہے اور اسی معتدل انداز میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔
شریعت کا منہج و مزاج
شریعت یہ نہیں بتاتی کہ زندگی میں بیک وقت دین رہے گا یا دنیا رہے گی، یہ نہیں کہ اگر میں عبادت میں مگن رہا تو کسی سے تعلق نہیں رکھوں گا، نہ یہ کہ میں مکمل بازار سے چمٹ جاؤں یا پھر مسجد سے۔ بلکہ شریعت بتاتی ہے کہ تم نے دین دنیا کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا ہے۔ تم نے تجارت بھی کرنی ہے اور عبادت کے فرائض بھی انجام دینے ہیں، تم نے اللہ کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں اور اللہ کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ تم اللہ کے حقوق ادا کرنے میں بندوں کے حقوق سے غافل ہوجاؤ اور نہ ایسا کہ بندوں کی خدمت میں ایسے لگے رہو کہ خدا کی بندگی ہی بھول جاؤ۔ البتہ شریعت فرق سمجھادیتی ہے کہ تم مال کے لیے محنت ضرور کرو لیکن اسے اپنی ضرورت سمجھو اپنا مقصد مت سمجھو ورنہ تم ’’حبِ مال‘‘ کی بیماری کا شکار ہو جاؤگے۔ اسی طرح دنیاداری کرو لیکن دنیا کے لیے اتنی ہی کوشش کرو جتنا تمھیں یہاں رہنا ہے اور آخرت کے لیے اتنی کوشش کرو جتنا تمھیں وہاں رہنا ہے اگر تم دنیا کی مختصر سی زندگی کے لیے آخرت والی محنت کرنا شروع کروگے تو تم ’’حبِ دنیا‘‘ کی بیماری میں مبتلا ہوجاؤگے، جسے رسول اللہﷺتمام خرابیوں کی جڑ والی بیماری قرار دیتے ہیں۔
عقائد میں اعتدال کی تعلیم
ایک مسلمان کے لیے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ تمام عقائد ایک برابر نہیں بلکہ ان میں ایک ترتیب قائم ہے، مثلاً توحید کو عقائد میں سب سے پہلا درجہ حاصل ہے اور رسالت کو دوسرا۔ اب اگر کوئی عقیدۂ رسالت پر اتنا زور دینے لگ جائے کہ اسے توحید سے بھی زیادہ اہم ثابت کرے تو یہ اعتدال کی پٹڑی سے ہٹ جانے والی بات ہے۔ اسی طرح عقائد میں اعتدال نہ ہونے کی ایک بڑی شکل یہ ہے کہ عقیدۂ توحید کو اس درجہ شدت سے بیان کیا جائے کہ امت کے ہر دوسرے فرد کو مشرک سمجھنے لگے۔ توحید پر ایمان لانے کا یہ مطلب ہرگز درست نہیں کہ اولیاء اللہ کی گستاخی کی جائے، ان کی کرامات کا انکار کیا جائے اور توحید کو سمجھانے کے بہانے اہل اللہ پر مزاحیہ جملے کسے جائیں معاذ اللہ! یہ توحید کے بیان کرنے کا طریقہ ہے نہ ہی دعوتی حکمت عملی کے موافق ہے۔ بےشک توحید دین کا مرکزی ستون ہے اور شرک گناہ عظیم بلکہ ظلم عظیم ہے، لیکن اس کی آڑ میں اسی توحید کے داعی صوفیا اور اولیا کی کردار کشی کرتے ہوئے سستے بازاری جملوں کا استعمال بالکل مناسب نہیں۔ اسی طرح انبیاعلیہ السلام اور بزرگانِ دین کے ساتھ عقیدت و محبت کا تعلق پیدا ہوجانا ایک بہت لازمی امر ہے اور اس کے بغیر دین کے بہت سے پہلو ادھورے رہ جاتے ہیں، لیکن اپنے سوا ہر ایک کو گستاخ قرار دینا اور محبت و عقیدت کو اپنا ٹھیکہ سمجھ لینا غلط بات ہے۔ اسی طرح عقیدت کی آڑ میں اولیا کو صحابہ سے بلند مرتبہ دینا یا انبیا کو خدا کا مرتبہ دینا اور پھر عقیدت کی اوڑھنی اوڑھ کر شرک، بدعت کے دھندوں میں لگ جانا، اسلاف کے مدفن بیچ کھانا اور یہ سب عاشقِ رسول کا لیبل لگاکر کرنا، جس پر اضافہ یہ کہ اس عقیدت کے سہارے خود کو توحید نماز روزہ حج جیسی بنیادی عبادات سے بری سمجھنا یہ سوچ کر کہ یہی عقیدت میری نجات کے لیے کافی ہے یہ جہالت کی انتہا ہے، جو کہ امت مسلمہ کی اعتدال والی خصوصیت کے یکسر خلاف ہے۔
تحریکات میں اعتدال کی ضرورت
اعتدال کا جنازہ نکالنے میں مختلف دینی تحریکات کے ناسمجھ کارکن بھی پیش پیش رہتے ہیں اور ہر ایک کی یہ چاہت ہوتی ہے کہ دین کا کام اسی طرز پر کرنے کی ضرورت ہے جس طرز پر ہماری تحریک کارفرما ہے۔ حالانکہ یہ بات ہم بخوبی جانتے ہیں کہ دین کے مختلف شعبہ جات ہیں اور تمام شعبہ جات کو ایک ساتھ کرنے کی خصوصیت صرف رسول اللہﷺ کو حاصل تھی جو تلاوتِ کتاب، تعلیمِ کتاب، تعلیمِ حکمت اور تزکیۂ نفس کی صورت میں قرآن آپ کے اوصاف و منصب کے ضمن میں بیان کرتا ہے۔ باقی آپ کے دنیا سے جاتے ہی امت کے پہلے طبقے یعنی صحابہ کی جماعت میں ہی یہ سارے کام خوب صورت انداز میں تقسیم ہوچکے تھے۔ ٹھیک یہی ترتیب امت کے موجودہ طبقے میں پائی جاتی ہے جو کہ سیاست، تعلیم و تعلم، سلوک و تصوف، دعوت و تبلیغ، تحقیق و تصنیف، جہاد و اعلاے کلمۃ اللہ وغیرہ کی صورت میں امت کر رہی ہے۔ ان میں سے کسی ایک کام کو ناگزیر سمجھنا اور باقی سب کو بےکار یا کم اہمیت کا حامل سمجھنا یا پھر ہر ایک سے اپنی تحریک کے نظم کا تقاضہ کرنا یہ سب کے سب بے اعتدالی کے رویے ہیں۔ ان سب کو اعتدال پر لانے کی یہی ایک صورت ہے کہ امت کے کسی ایک شعبے پر لگ کر محنت کی جائے اور بقیہ شعبوں کو اپنا حریف اور مخالف سمجھنے کی بجائے ان کا رفیق بنا جائے۔ اور اس ایک درجہ یہ بھی ہے کہ بقیہ شعبہ جات کی مخالفت نہ کرے۔
دین و دنیا میں اعتدال کی تعلیم
حضرت عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں ایک آدمی رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ سے جہاد میں شریک ہونے کی اجازت طلب کی تو آپﷺنے فرمایا: ’’ کیا تیرے والدین زندہ ہیں ؟‘‘ اس نے عرض کیا : جی ہاں! آپﷺنے فرمایا: ’’ان دونوں (کی خدمت) میں مجاہدہ (انتہائی کوشش) کر‘‘۔ (بخاری) معلوم ہوا کہ جہاد تو بہت ہی عظیم عمل ہے لیکن ان صحابی کے لیے اس وقت ان کے والدین کی خدمت کرنا زیادہ عظیم عمل تھا تو آپ نے ان کو والدین کے ہاں جا کر ان کی خدمت میں لگے رہنے کا حکم دیا اور آپﷺنے اپنے اس فیصلے سے گویا شریعت کا یہ مزاج سمجھایا کہ تمہارے لیے اس موقعے پر دین پر عمل کرنے کی بہتر صورت کون سی ہے۔
خالق اور مخلوق کے حقوق کی ادائی میں اعتدال
علما بیان کرتے ہیں کہ اگر ایک ایسا شخص ہے کہ جس کا گھر مسجد حرام کے بالکل قریب ہے اتنا کہ وہ گھر سے نکلے اور مسجدِ حرام میں پہنچ جائے، لیکن اس کے گھر میں اس کی والدہ بیمار ہیں اور انھیں تیمارداری کی ضرورت ہے۔ اور وہ مریضہ ایسی صورتِ حال کا شکار ہے کہ اگر کوئی اسے چھوڑ کر چلا جائے تو اس کی حالت مزید بگڑ سکتی ہے، ضرورت ہے کہ اس کے پاس کوئی نہ کوئی رہے۔ جب اسی دوران عشا کی نماز کا وقت ہوتا ہے تو اس کا اکلوتا بیٹا یہ کہے کہ میں جاؤں اور مسجدِ حرام میں نماز پڑھوں تاکہ مجھے ایک لاکھ نمازیں پڑھنے کا ثواب ملے۔ تو شریعت یہ رہنمائی کرتی ہے کہ تم ایک لاکھ نمازیں پڑھنے کا ثواب حاصل مت کرو، بلکہ فی الحال تم گھر میں ہی نماز پڑھو اور اپنی ماں کا خیال رکھو،اس موقعے پر تمہارے لیے یہ زیادہ بہتر ہے۔ شریعت کی تعلیمات ایسی ہیں جو اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کے درمیان درمیانی راہ دکھلاتی ہیں کہ دنیا کے ایسے بھی نہ بنو کہ دین کو بالکل اپنی زندگی سے ہی نکال دو اور ایسے بھی نہ بنو کہ دنیا ہی کو اپنے دل میں بسا بیٹھو۔
انصاف اور اعتدال
ایک موقعے پر کسی قبیلے میں جنگ و جدل کا معاملہ پیش آیا تو آپﷺنے صحابہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: ”اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم“۔ صحابہ میں سے کسی نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے مظلوم ہونے کی صورت میں تو اس کی مدد کی لیکن ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کیسے کروں؟ آپﷺ نے فرمایا: ”اسے ظلم سے باز رکھو، اس کے لیے یہی تمہاری مدد ہے“۔ (ترمذی) شریعت نے دونوں کے متعلق احکام سمجھا دیے کہ تم نے یہاں کون سا رویہ اپنانا ہے اور وہاں کیا رویہ اپنانا ہے۔
مال کمانے کے متعلق اعتدال
اگر کوئی کہے کہ میں کماتا ہی نہیں کیونکہ کمانا دنیاداری ہے اور میں دین دار بننا چاہتا ہوں، تو یہ غلط رویہ ہے۔ کیونکہ حلال کمائی بھی دینی فرائض میں شامل ہے کتنی ہی ایسی عبادات ہیں جو مال خرچ کرکے ادا کی جاتی ہیں جیسے زکوۃ، صدقہ، فطرہ، قربانی، حج، صلہ رحمی وغیرہ۔ اسی طرح اگر کوئی مال کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لے اور اس پر کمانے جمع کرنے کی دھن سوار ہوجائے تو شریعت رہنمائی کرتی ہے کہ یہ بھی غلط طریقہ ہے کیونکہ مال کو اللہ نے انسان کی خدمت و ضرورت کے لیے پیدا کیا ہے اپنے آپ کو اس پر کھپانے کے لیے پیدا نہیں کیا، لہذا تم مال کماؤ مگر اپنے مقصد کے لیے نہیں بلکہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے جب تمہاری ضرورت پوری ہو جائے تو تم مزید مال کو اپنا مقصد مت بناؤ۔
مال خرچ کرنے کے متعلق اعتدال
اسی طرح جب مال خرچ کرنے کی باری آتی ہے تو کوئی اپنے مال کو بے تحاشا خرچ کرتا ہے تو شریعت منع کرتی ہے کہ تم فضول خرچی اور اسراف سے بچو۔ اور اگر کوئی اپنے مال کو خرچ ہی نہیں کرتا تو شریعت یہ کہتی ہے کہ تم کنجوسی سے بھی بچو، جیسے اللہ ربّ العزت قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتے ہیں: ﴿وَالَّذِینَ إِذَا أَنفَقُوا لَم یُسرِفُوا وَلَم یَقتُرُوا وَکَانَ بَینَ ذٰلِکَ قَوَامًا﴾(الفرقان: ۶۷) ’’اور جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں ، نہ تنگی کرتے ہیں ، بلکہ ان کا طریقہ اس (افراط و تفریط ) کے درمیان اعتدال کا طریقہ ہے ‘‘۔ یعنی اللہ کریم ہمیں یہ بتلا رہے ہیں کہ رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو اعتدال اور میانہ روی پر قائم ہیں اور خرچ کرنے میں اعتدال پر قائم و دائم ہیں، افراط اور تفریط سے بچے ہوئے ہیں۔ کیونکہ جب ایک شخص فضول خرچی کرے گا تو پھر گناہ اور عیاشی میں مبتلا ہوجائے گا اور بہت سی غیر ضروری چیزوں کو ضروری سمجھ کر خریدنے کا بوجھ اٹھائے گا اور اگر کنجوسی کرے گا تو زکوۃ،قربانی،حج،صدقہ، خیرات،صلہ رحمی،اہل و عیال کے حقوق وغیرہ کیسے ادا کرےگا؟ اسی لیے شریعت نے اعتدال کی راہ دکھلائی کہ تمھیں انفاق بھی کرنا ہے اور اسراف سے بھی بچنا ہے۔
نوافل اور فرائض کے درمیان اعتدال
فرائض وہ ہیں جو کسی حال میں معاف نہیں جب کہ نوافل کہتے ہی ہیں اس عبادت کو جو لازم نہیں بلکہ اضافی اجروثواب کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اس حوالے سے بھی بہت افراط و تفریط ہے کہ ہم نوافل کو تو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ جتنا فرائض کو نہیں دیتے، جیسے فضیلت والی راتیں آجاتی ہیں تو ان میں ساری رات عبادت کی جاتی ہے، لیکن جب فجر کی فرض نماز ادا کرنے کا وقت آجاتا ہے تو یہی نفلی عبادت کرنے والے سب سو جاتے ہیں۔ اس صورت میں نفلی عبادت کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے جس سے متعلق کوئی بازپرس نہیں ہوگی، لیکن فرض کو چھوڑا جا رہا ہے، حالانکہ پہلا سوال ہی قیامت کے دن فرض نماز سے متعلق ہوگا۔ اسی طرح قربانی کے موقعے پر ہم میں سے جو قربانی کرنے کا اردہ کرتے ہیں وہ یکم ذی الحجہ سے قربانی تک اپنے ناخن اور جسم کے اضافی بالوں کو صاف نہیں کرتے، جب کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک مستحب عمل ہے جس کا مطلب جو یہ عمل کرےگا اسے ثواب ملےگا اور جو نہیں کرے گا اسے کوئی گناہ نہیں ملے گا۔ لیکن حیرت ہے کہ ایک شخص دس دن تک یہ نفلی کام کرتا رہتا ہے ایک ایسا کام جو ثواب کا کام ہے اگر نہیں کرے گا تو اسے گناہ بھی نہیں ملے گا، لیکن جیسے ہی وہ قربانی کرتا ہے تو اپنی داڑھی کے بال بھی صاف کر دیتا ہے۔ حالانکہ وہ یہ بات جانتا ہے کہ اگر میں ان دس دنوں وہ بال کاٹ لیتا تو مجھے کوئی گناہ نہ ملتا، لیکن داڑھی کاٹنا گناہِ کبیرہ ہے۔ ایک طرف نفلی عبادت کی فکر ہے اور دوسری طرف حرام کی بھی فکر نہیں تو یہ افراط وتفریط ہے ۔
شادی بیاہ کے موقعے پر اعتدال
ہماری شادی بیاہ کی جو رسومات ہیں عام طور پر ان کے متعلق علما یہ فرماتے ہیں کے شادی شریعت کے مطابق کرو تو ہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ شریعت کے مطابق شادی شاید سوگ منانے جیسا عمل ہے۔ اگر شادی شریعت کے مطابق ہوگی تو سوگ والا ماحول ہوگا، تسبیح پڑھنی ہوگی، قرآن خوانی یا آیت ِکریمہ کا ختم کرنا ہوگا اور پھر ایسا لگے گا کہ خوشی کا ماحول ہی نہیں ہے۔ جب کہ ایسا بالکل نہیں ہے، شادی ایک خوشی کا موقع ہے اور اسے خوشی خوشی ہی منانا چاہیے اور خوشی منانے کا جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے اس سے منع نہیں کیا جا رہا، لیکن چند شرائط بتائی جارہی ہیں جن کا لحاظ ضروری ہے، مثلاً، بےپردگی نہ ہو، ڈھول باجا نہ ہو، ہندوانہ رسم و رواج نہ ہوں، ان شرائط کے ساتھ جیسے چاہو اپنی خوشی منالو۔ یہاں تک کہ آپﷺخود اس کی ترغیب دے رہے ہیں کہ نکاح کی تقریب کا بھرے مجمع میں اہتمام کرو، ولیمہ کر کے سب کو اپنی خوشی میں شریک کرو۔
آپس کے تعلقات میں اعتدال
اکثر ہمارے آپس کے تعلقات میں بھی افراط و تفریط پائی جاتی ہے، کسی سے اگر تعلق بنانا ہے تو ایسا تعلق قائم کریں گے کہ اس پر جان بھی نثار کریں گے، ہر وقت اسی کے ساتھ بیٹھک لگائیں گے، گپ شپ لگی رہے گی، وقت بے وقت یار کو ڈھونڈتے رہیں گے، کہیں آنا جانا ، تقریبات میں شرکت کرنا، یہاں تک کہ لین دین بھی اسی کے ساتھ کرنے کا سوچیں گے۔ لیکن ایک اختلاف سے یہ گہری دوستی دشمنی میں بدل جاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارہ نہیں ہوتا۔ یہ ہمارے تعلقات میں پائی جانے والی بڑی عام بے اعتدالی ہے جو ہم کرتے رہتے ہیں۔ اب شریعت یہ نہیں کہتی کہ ہم ہر ایک سے دوستیاں کرتے پھریں اور ہر ایک کو اپنے سر کا تاج بنالیں اور ہر ایک سے لین دین شروع کر دیں۔ بلکہ عام مسلمانوں کے حوالے سے جو روش اپنانی چاہیے اس کے متعلق فرمایا کہ ایک مسلمان کے مال، جان، عزت و آبرو کی تم حفاظت کرو، اس کے ساتھ علیک سلیک رکھو، ضرورت پڑنے پر اس کی مدد کرو بس اتنا ہی کافی ہے۔ باقی کسی سے ایسی دوستی کرنا کہ اس کے غلط کو بھی صحیح قرار دینا اور کسی سے ایسی نفرت کرنا کہ اس کی ساری اچھائیاں نظر انداز کرنا دونوں رویے غلط ہیں۔ گر ہم کسی سے تعلق رکھتے ہیں تو اس میں خوبی بھی ہو سکتی ہے اور خامی بھی تو ہم اس کی خوبی پر نظر رکھیں اور اس کی خامی کو نظر انداز کریں۔
مزاج کا اعتدال
کوئی اپنے مزاج میں اتنی زیادہ بہادری رکھتا ہے کہ وہ ظالم بن جاتا ہے تو شریعت اس رویے کی مذمت کرتی ہے اور اگر کوئی اپنے مزاج میں اتنا ڈھیلا پن لاتا ہے کہ بالکل بزدل ہی بن جاتا ہے تو شریعت اس بزدلی کی بھی ممانعت کرتی ہے اور تاکید کرتی ہے کہ تم اپنے اندر شجاعت پیدا کرو اگر تم بزدل بنے رہوگے تو جہاد کیسے کروگے، صبر آزما حالات کا مقابلہ کیسے کروگے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اس قدر احساسِ کمتری کا شکار ہے کہ وہ ناشکری میں مبتلا ہونے لگتا ہے تو شریعت کہتی ہے کہ یہ ناشکری تمھیں اللہ کی رحمت سے مایوس کر سکتی ہے اور کفر کے منھ میں دھکیل سکتی ہے۔ کوئی بہت زیادہ احساسِ برتری کا شکار ہے جس سے گھمنڈ اور تکبر میں مبتلا ہو رہا ہے تو شریعت اس رویے کی بھی روک تھام کرتی ہے کہ تم اپنے اندر تواضع اور عاجزی پیدا کرو، خود کو بہت گھٹیا بھی مت سمجھو اور خود کو بہت اعلیٰ بھی مت سمجھو، اپنے اندر عاجزی کی روش پیدا کر کے اعتدال پر قائم رہو۔
عقل اور جذبات میں میانہ روی
اسی طریقے سے انسان میں عقل اور جذبات کے بہت شدید مادے پائے جاتے ہیں جو کہ اکثر اوقات انسان کو اعتدال پر قائم رہنے نہیں دیتے۔ چنانچہ قرآنی تعلیمات سے ہمیں یہ اہم اصول ملتا ہے کہ تم امتِ وسط ہو، تم دین کا مزاج اور دین کی جو اصل بنیاد اور ریڑھ کی ہڈی ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اپنے جذبات اور عقل کو بیچ میں مت لاؤ۔ چونکہ انسان ایسا ہے کہ کبھی وہ جذبات میں آ کر غلط فیصلہ کرتا ہے، اور کبھی اپنی عقل کے خودساختہ پھندے میں پھنس کر ناقص فیصلہ کرسکتا ہے، نفسانی خواہشات کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس امت کو سمجھایا کہ تم فیصلے اپنی طبیعت کے مطابق مت کرو، بلکہ جیسے شریعت رہنمائی کرے ویسے فیصلے کرو چاہے تمہاری عقل میں آئے یا نہ آئے، چاہے تمہارا دل مانے یا نہ مانے، چاہے تمہاری طبیعت کے مطابق ہو یا نہ ہو۔
خلاصہ یہ کہ اللہ ربّ العزت نے امتِ محمدیہ کی جو خصوصیت اس آیت میں بیان کی کہ: ’’ہم نے تمھیں ایک معتدل امت بنا دیا‘‘۔اسے سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنے ہر عمل میں اعتدال پیدا کرنے کی ضرورت ہے، عقیدے میں بھی، عبادت میں بھی ، حقوق کی ادائی میں بھی، خرچ میں بھی، سیاست میں بھی، نیکیوں میں بھی، آپس کے تعلقات میں بھی اور ہمارے مزاج اور اہم فیصلوں میں بھی اعتدال ہونا چاہیے تاکہ ہم امت مسلمہ کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔