لاگ ان

پیر 13 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 16 ستمبر 2024

لاگ ان

پیر 13 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 16 ستمبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
پیر 13 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 16 ستمبر 2024

پیر 13 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 16 ستمبر 2024

صوفی جمیل الرحمٰن عباسی

مدیر ماہنامہ مفاہیم

بیت المقدس کا تاریخی خاکہ

قسط نمبر۲۹

مارچ ۱۹۴۶ء میں مسئلۂ فلسطین کے ’’حل‘‘ کے لیے قائم کی گئی اینگلو امریکی کمیٹی کا دوسرا اجلاس ’’لوزان‘‘ کے مقام پر ہوا تھا جس میں ۱۹۳۶ء میں جاری ہونے والے وائٹ پیپر کی سفارشات کو ختم کرنے سمیت بہت سے یہودی مفادات کا تحفظ کیا گیا تھا۔ان اقدامات میں اصل کردار امریکہ کا تھا۔امریکی صدر ہیری ایس ٹرو مین نے اعلامیہ جاری ہونے والے دن ہی اس کے قبول و تحسین کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت برطانیہ نے اپنے تئیں ان اقدامات کی مخالفت کی تھی۔ وزیرِ اعظم کلیمنٹ ایٹلی بالخصوص وائٹ پیپر کے خاتمے کا مخالف تھا۔ اس کی وجہ مسلمانوں کی حمایت نہیں تھی بلکہ یہودیوں کی سرکشی تھی کہ وہ برطانوی افواج اور دیگر محکموں پر حملے کرنے سے نہ چوکتے تھے اور برطانوی مفادات اور املاک پر حملہ آور ہوتے رہتے تھے۔

برطانوی وزیرِ اعظم کی اس مخالفت کے اظہار پر یہودیوں نے دہشت گردی کی وارداتیں تیز کر دیں۔جون ۱۹۴۶ء میں یہودیوں نے مختلف علاقوں میں آٹھ پل اڑا دیے۔ اس کے علاوہ کئی مقامات پر ریلوے ٹریک اکھاڑے گئے اور ورکشاپس پر حملے کیے گئے۔اسی دوران پانچ برطانوی فوجی عہدے داروں کو اغوا کیا گیا۔ جن میں سے دو کے لیے موت کی سزا کا اعلان کیا گیا لیکن بعد میں اس سزا کو موخر کیا گیا جس کے سبب فوجی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ برطانوی افواج کی طرف سے دہشت گردی میں ملوث کئی افراد کو گرفتار کیا گیا۔ وزیرِاعظم ایٹلی نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ گذَشہ چند مہینوں میں ہمارے سولہ فوجی اور کئی پولیس والے مارے جاچکے ہیں۔دوسری طرف اعلامیہ مسلمانوں پر بجلی بن کر گرا۔ کئی ملکوں میں احتجاج اور مظاہرے کیے گئے، کئی ممالک کی پارلیمنٹ میں مذمتی قرار دادیں منظور کی گئیں اور مغربی طاقتوں کے سامنے بھی صداے احتجاج بلند کی گئی۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی اس پر صداے احتجاج بلند کی اور قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اس اعلامیے کو خیانتِ کبریٰ قرار دیا۔ مسلمانوں کی طرف سے سووِیَت اتحاد کے ساتھ ربط و ضبط قائم کرنے کی آوازیں بھی بلند ہونے لگیں اور امریکہ اور برطا نیہ سے اظہارِ مایوسی کیا گیا۔

مئی ۱۹۴۶ء میں چند عرب ملکوں نے امریکہ کا سفر کیا اور نائب وزیر ِخارجہ ڈین ایچی سن سے ملاقات کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ نائب وزیرِ خارجہ نے مسلمانوں کو یقین دہانی کرائی کہ لوزان کی سفارشات پر عمل در آمد سے پہلے مسلمانوں سے مشاورت کر کے ا نھیں اعتماد میں لیا جائے گا۔اس کے لیے مسلمان اور یہودی راہنماؤں کے ساتھ مشاورت کا اہتمام کیا جائے گا۔ اسی دوران برطانیہ نے بھی اعلان کیا کہ وہ عن قریب امریکی حکومت، یہودی اور عرب راہنماؤں کے ساتھ مشاورت کر کے کوئی اعلامیہ جاری کرے گا۔۲۸اور ۲۹ مئی ۱۹۴۶ء کو عرب راہنماؤں کی ایک کانفرنس کا انعقاد مصر میں ہوا۔ اس کانفرنس کے داعی شاہِ مصر الملک فاروق الاول تھے جب کہ سعودی ولی عہد امیر سعود بن عبد العزیز ، شاہِ اردن الملک عبد اللہ بن حسین بن علی الہاشمی، امیرِ مملکتِ ہاشمیہ عراقیہ امیر عبد اللہ بن علی الہاشمی، یمن سےامیر سیف الاسلام عبد اللہ حمید الدین، رئیسِ جمہوریۂ لبنان بشارہ الخوری اور رئیسِ مملکتِ شام شُکری القوتلی شریک تھے۔

کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ فلسطین ایک عرب علاقہ بلکہ عرب کا دل ہےلہذا اس کے تحفظ کے لیے تمام وسائل بروے کار لائے جائیں گے۔کانفرنس نے امریکہ اور برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ اپنے وعدوں کے مطابق فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے وطنی حکومت کا قیام عمل میں لائیں۔ یہودیوں کی ہجرت پر پابندی کے ساتھ ساتھ یہودی دہشت گرد تنظیموں کو غیر مسلح کیا جائے اور یہودیوں کی طرف سے دوسرے ملکوں میں فلسطینیوں کی معاشی ناکہ بندی کے لیے قائم کیے گئے دفاتر ختم کیے جائیں۔ کانفرنس میں عرب قوموں سے اپیل کی گئی کہ وہ رضاکارانہ طور پر مال اسلحہ و مجاہدین کے ذریعے سے اہلِ فلسطین کی مدد کریں۔ اعلان کیا گیا کہ آئندہ امریکہ اور برطانیہ یا ان کے عوام کو کسی قسم کی خصوصی مراعات نہیں دی جائیں گی۔لَجْنة العربیةِ العلیا کا الهیئةُ العربیةُ العُلیا کے نام سے احیا کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔مسلمانوں کے اس احتجاج و مطالبات کا امریکہ و برطانیہ پر کوئی ا ثر نہ ہوا۔ جولائی میں امریکی و برطانوی اعلی عہدے داروں کی ایک کونسل کا اجلاس ہوا جس کی سربراہی برطانوی لیڈر ایوانِ زیریں (ہاؤس آف کامنز) ہربرٹ سٹینلے موریسن نے کی۔اس نے فلسطین کو چارحصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا۔ ایک حصہ یہودیوں کو اور ایک حصہ مسلمانوں کو دیا جائے گا۔ قدس کو ایک الگ حصہ بنایا جائے گا جہاں کے رہنے والے انتخابی عمل کے ذریعے اپنی انتظامیہ منتخب کریں گے البتہ کچھ نمائندے ہائی کمشنر خود نامزد کرے گا۔ نقب کے علاقے میں فلسطین کی مرکزی حکومت قائم ہو گی جو برطانوی ہائی کمشنر کے تحت ہو گی۔ تینوں حصے اپنے داخلی قوانین خود بنا سکیں گے جس کے لیے ہائی کمشنر کی منظوری ضروری ہو گی۔ البتہ دفاع وغیرہ مرکزی حکومت کے پاس ہوں گے۔ہجرت کے بارے میں کہا گیا کہ ہر علاقائی حکومت اپنی حدود میں دوسروں کے داخلے کے متعلق قانون سازی کرنے میں خود مختار ہو گی۔

اس کے فوری بعد بعض یہودیوں کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ یورپ کی طرف سے ایک لاکھ یہودیوں کو مجوزہ یہودی علاقے میں لا بسایا جائے۔ ان کی نقل و حرکت کے علاوہ دو مہینے کے اخراجات بھی امریکہ برداشت کرے۔ امریکہ میں اس تجویز کی پذیرائی موجود تھی۔ مسلمانوں نے تو اس کی مخالفت کرنی ہی تھی خود یہودی تحریک کی طرف سے اس تجویز کو ناقابلِ عمل قرار دے دیا گیا۔ان کے خیال میں یہودیوں کے لیے تجویز کردہ علاقہ اتنی بڑی ہجرت کی وسعت ہی نہ رکھتا تھا اور مذکورہ ہجرت کے لیے انھیں مزید علاقہ درکار تھا۔ اس کے علاوہ برطانیہ نے بھی اس امر کی مخالفت کی۔ برطانیہ اگرچہ یہودیوں کا حامی تھا لیکن وہ تدریج و سلیقے سے کام کرنا چاہتا تھا۔اس کا خیال تھا کہ وقت گزرنےکے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی شدت ِجذبات میں کمی آ جائے گی اور وہ یہودیوں اور مسلمانوں کو ایک صفحے پہ لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن سست روی کی یہ پالیسی صیہونی شدت پسندوں کو پسند نہ تھی۔ اسی لیے وہ برطانیہ کے مخالف ہو رہے تھے یہاں تک کہ برطانیہ کے خلاف دہشت گردی کے بھی مرتکب ہو رہے تھے جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔

جنگِ عظیم دوم کے بعد برطانیہ رو بہ زوال تھا جب کہ امریکہ ایک طاقت ور اور با اثر ملک کے طور پر سامنے آیا تھا اور یہودیوں کو امریکہ کی بھر پورتائید حاصل ہو گئی تھی۔چنانچہ وائزمین نے اسرائیل کے قیام کو اپنی خارجہ پالیسی کا حصہ قرار دیا تھا۔ نیز ۱۹۴۶ء کے امریکی الیکشن میں یہودیوں نے ہیری ٹرومین کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا جس کے جواب میں امریکی سرپرستی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔

اگست ۱۹۴۶ءمیں یہودیوں نے بحری جہازوں میں کئی ہزار یہودی مہاجرین غیر قانونی طور پر فلسطین کی طرف روانہ کیے۔ حکومتِ برطانیہ نے اعلان کیا کہ ہم ان جہازوں کو قبرص جزیرے کی طرف بھیج دیں گے اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔ستمبر۱۹۴۶ءمیں لندن میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جو اکتوبر تک جاری رہی جس میں عرب ملکوں کے علاوہ یہودی، امریکہ اور برطانیہ شامل تھے۔ وزیرِ اعظم ایٹلی نے ابتدائی خطاب کیا۔ اس نے کہا کہ موریسن فارمولے پر جب تک تمام فریقین کی آر اسامنے نہ آئیں ہم کوئی فیصلہ نہ کریں گے۔ اس نے تمام لوگوں سے کہا کہ اس کانفرنس میں وہ پوری آزادی سے اپنا نقطۂ نظر بیان کریں۔

عرب وفد کا مطالبہ یہ تھا کہ فلسطین کی تقسیم کے بجائے یہاں ایک متحدہ مملکت اور منتخب دستوری حکومت قائم کی جائے۔مئی ۱۹۳۶ء سے پہلے جن لوگوں کو فلسطین کی شہریت ملی ہوئی ہے صرف انھی کو فلسطین کا شہری تسلیم کیا جائے۔ فلسطین میں قیام کی مدت دس سال مقرر کی جائے۔ پارلیمنٹ میں یہودی اراکین کی تعداد دو تہائی سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ یہودیوں کی ہجرت پر فی الفور مکمل پابندی لگائی جائے۔زمین کی خرید و فروخت اور انتقال پر بھی پابندی لگائی جائے۔ مستقبل کی فلسطینی حکومت کو برطانیہ کا حلیف تسلیم کیا جائے۔ نئی حکومت کے قیام کی آخری مدت ۳۱ ،دسمبر ۱۹۴۸ء تک مقرر کی جائے اور اس سے تاخیر نہ کی جائے۔برطانیہ نے ان شرائط کے مطالعے اور غورو خوض کی غرض سے دوسرے اجلاس کو دسمبر۱۹۴۶ءتک موخر کیا۔ لیکن درمیان میں اقوامِ متحدہ کا اجلاس آ جانے کے سبب اگلا اجلاس جنوری۱۹۴۷ءمیں ہی منعقد ہو سکا۔

اس دوران، برطانوی اور امریکی اعلیٰ عہدے داروں سے یہودیوں کے مختلف وفود کی ملاقاتیں جاری رہیں۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء میں برطانوی وزارتِ استعمار اور وزارتِ خارجہ کے ساتھ لندن میں یہودیوں کے مذاکرات ہوئے، ایسی ہی ایک ملاقات کے بعد لندن میں برطانوی عہدے دار کی طرف سے بیان دیا گیا کہ جن کا موضوع فلسطین کے معاملے کو حل کرنے کے ابتدائی اقدامات تھا۔ ایک ہفتے کے ان مذاکرات کے بعد یہودی کونسل کے ایک رکن ناہوم گولڈ مین نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ہمارے اور برطانیہ کے درمیان ۱۹۳۶ء میں اعلان کردہ حدود پر نقب کے علاقے کے اضافے کے ساتھ یہودی ریاست قائم کرنے پر اتفاق ہو چکا ہے۔ نیا وزیرِاستعمارجونز یہودیوں کا زبردست حامی تھا۔ اس نے یہودیوں کو خوش کرنے کے لیے فلسطین میں یہودیوں پر دہشت گردی کے نتیجے میں قائم مقدمے ختم کرا دیے بلکہ بہت سارے قید دہشت گرد راہنما اور کارندے آزاد کر دیے گئے۔ اس کے باوجود یہودیوں کی دہشت گردی میں کمی نہیں آئی بلکہ صرف پہلے مہینے ہی میں ۱۸، افراد قتل اور ۱۹ زخمی کیے گئے جو برطانوی فوج یا پولیس کے اہلکار تھے۔

جنوری ۱۹۴۷ء میں لندن کانفرنس کے دوسرے دور کے لیے مسلمانوں اور یہودیوں کو بلایا گیا۔ برطانیہ کی طرف سے یہ سفارشات پیش کی گئیں کہ پانچ سال میں تدریجی طور پر ایک داخلی حکومت تشکیل دی جائے گی۔اقلیتوں کے تحفظ کی ذمے داری ہائی کمشنر کی ہو گی جو ایک مجلسِ مشاورت تشکیل دے گا۔چوتھے سال کے اختتام پر تاسیسی اسمبلی کا انتخاب کرایا جائے گا اور جب مسلم و یہود کے منتخب نمائندے باہم متفق ہو جائیں گے تو پھر حتی الامکان جلد از جلد مستقل ریاست قائم کر دی جائے گی۔عدم اتفاق کی صورت میں معاملہ اقوامِ متحدہ کی ٹرسٹی شپ کونسل میں پیش کیا جائے گا۔

پہلے دو سالوں میں چھیانوے ہزار یہودی مہاجرین کی آباد کاری کا منصوبہ بھی تیار کیا گیا البتہ اس میں ہائی کمشنر کو اختیار دیا گیا کہ وہ مختلف شہروں کے وسائل کے مطابق فیصلہ کرے کہ کس شہر میں کتنے مہاجرین کو آباد کرنا ہے۔ اس اعلامیے سے یہود و مسلم دونوں نے اپنی اپنی وجوہات کے سبب مخالفت کی جس کو بنیاد بنا کر ۱۴، فروری ۱۹۴۷ء کو برطانیہ نے اپنا مینڈیٹ (حقِ استبداد)اقوامِ متحدہ کو سونپتے ہوئے خود اس قضیے سے علاحدگی اختیار کر لی تاکہ عالمی ادارہ اس مسئلے کا کوئی حل نکال سکے۔

۲۵ فروری کو ارنسٹ بیوِن نے برطانوی پارلیمنٹ میں خطاب کیا جس میں اس نے یہودیوں کو مکار اور دھوکے باز قرار دیا۔اس نے معاملے کو اقوامِ متحدہ میں پیش کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اقوامِ متحدہ کو سب سے پہلے اس پر غور کرنا چاہیےکہ کیا فلسطین کو یہودیوں کے دعووں کے مطابق یہودی ریاست بننا چاہیےیا دوسری قوموں کا بھی اس پر حق ہے۔بیوِن نے کہا کہ معاملہ صرف ایک لاکھ یہودی مہاجرین کی آباد کاری کا نہیں بلکہ یہ محض ابتدا ہے اور یہود کے ارادے اس سے کہیں زیادہ کے ہیں۔ اس نے کہا کہ عربوں کا سوال یہ ہے کہ یہود فلسطین میں اقلیت ہو کر بھی مسلمانوں کے زیرِ حکومت نہیں رہنا چاہتے تو ہم مسلمان ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ میں اس معزز ایوان سے پوچھتا ہوں کہ اس فلسطینی سوال کا ان کے پاس کیا جواب ہے؟ میرے پاس تو اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔

جاری ہے

*****

کتابیات:

القدس و المسجد الأقصی عبر التاریخ، دکتور محمد علي البار، دارالقلم، دمشق


واقدساه، دکتور سید حسین العفاني مکتبة دار البیان الحدیثیة، السعودیة، الطائف


فلسطین في عهد الانتداب، دکتور أحمد طربین،shorturl.at/druNO

الثورة الکبریٰ العربیة في فلسطین، صبحي محمد یاسین، noor-book.com/wgper0

مذکرات عوني عبد الهادي، مرکز دراسات الوحدةالعربیة، بیروت لبنان، سبتمبر ۲۰۰۲ء

لرننگ پورٹل