لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

مولانا معراج محمد

رکنِ مجلسِ مشاورت، ماہ نامہ مفاہیم، کراچی        

الحاد اور مذہب کی بحث

سوشل میڈیا اور خصوصاً فیس بک پر ہمارے پختون بھائیوں میں الحاد کی بحث جاری ہے، مگر یہ صرف پختونوں کا نہیں، پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ مغرب سب سے زیادہ اس مسئلے کا شکار ہے اور وہاں جو چیز چل جائے باقی دنیا میں اس کی شہرت اور رواج کا اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ الحاد یا ایتھی ازم کی تاریخ بھی کوئی نئی نہیں،بلکہ دوسری گمراہیوں کی طرح صدیوں پرانی ہے۔ مگر یہ ایک شاذ اور غیر معقول نظریہ سمجھا جاتا تھا۔ دورِ جدید میں خواہشات کی بے بہا فراوانی اور ریاستی بلکہ بین الاقوامی سطح پر سرپرستی نے اسے فروغ دیا اور اسے پوری دنیا میں پھیلانے میں جدید ذرائعِ ابلاغ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ گذَشتہ صدی میں بھی سووِیَت یونین اور سرخ انقلاب کی سرپرستی میں الحاد کافی مشہور ہوا تھا مگر ذرائعِ ابلاغ کی حالیہ فراوانی نہ ہونے کی وجہ سے عام آدمی اس سے اتنا متاثر نہیں ہوا تھا، بس کالج، یونیورسٹیوں کے کچھ طلبہ اور بعض قوم پرست اس کی زد میں آئے تھے۔ اس وقت سووِیَت یونین میں الحاد کا طُوطی اس زور سے بول رہا تھا کہ ستر کی دہائی میں جب علامہ محمد اسد (مصنفِ ’’طوفان سے ساحل تک‘‘) وہاں گئے تو سڑکوں پر بینر لگے ہوئے تھے جس میں علامتی طور پر خدا کو بلندیوں سے گرایا ہوا دکھایا گیا تھا۔ (نعوذبااللہ) گذَشتہ صدی میں بہت سے پڑھے لکھے مغربی لوگوں کا خیال تھا کہ بیسویں صدی کی نصف آخر تک دنیا سے مذہب کا خاتمہ ہوجائے گا۔ بدنامِ زمانہ عالمی ملحد رچرڈ ڈاکنز کی تصنیفThe God Delusionکے رد میں Alister McGrath نے کتاب لکھیThe Dawkins Delusion، وہ کہتے ہیں کہ میں ملحد تھا اور بے چینی سے منتظر تھا کہ ساٹھ کی دہائی کے خاتمے تک دنیا سے مذہب کا صفایا ہوجائے گا اور دنیا بغیر خدا کے ایک آزاد دنیا بن جائے گی۔ مگر ساٹھ کی دہائی کا آنا تھا کہ مشرق و مغرب میں مذہبی تحریکیں اس زور سے اٹھیں کہ ماضی میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ امریکہ کے ایک بڑے ماہر ِسماجیات پیٹر برگرنےThe Desecularization of the World ایک بہترین مقالہ لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سیکیولر ازم جس جوش و خروش سے نمودار ہوا تھا مذہب نے اس کے جذبے کو مدھم کرکے اس میں بہت سی اصلاحات کر دی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر چہ سیکیولر ازم نے مذہب پر بھی اثرات مرتب کیے ہیں مگر جس دعوے کے ساتھ اس کا آغاز ہوا تھا اس میں مکمل طور پر ناکامی نظر آتی ہے۔ انھوں نے امریکہ، مصر، ایران، سعودی عرب اور برِصغیر میں مذہبی تحریکوں کا جائزہ لے کر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ دنیا سے مذہب کا خاتمہ نہیں ہو سکتا اور سیکیولر ازم کو اس کے ساتھ سمجھوتہ کر کے گزارا کرنا ہو گا۔

اگر موجودہ حالات میں ملکی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو چند سال پہلے جب غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ سامنے آیا، تو ہر کوئی ان کی زبان بول رہا تھا، کیا پالیسی ساز ادارے اور کیا دانش ور اور کیا نشریاتی ادارے، ہر جگہ اس کی گونج سنائی دیتی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ گویا اب ملک میں مذہب کے نام پر کسی بڑی سرگرمی کی گنجائش ختم ہو گئی ہے۔نائن الیون کے بعد دنیا کے حالات بھی کچھ اس طرح کا منظر پیش کر رہے تھے۔ مگر زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ علامہ خادم حسین رضوی نے خالص مذہبی مسئلے پر ملکی سطح پر غیر معمولی تحریک برپا کی، نیز جمعیتِ علماے اسلام اور مولانا فضل الرحمٰن نے ملکی سیاست میں ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل کرلی اور اب تک مولانا فضل الرحمٰن پورے قومی سیاسی منظر نامے پر چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگر چہ ان جماعتوں کا مقام بوجوہ یہ نہیں کہ یہ ملک کا نظام بدل سکیں، مگر یہ بھی ضرور ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے مذہب کے خلاف علانیہ کارروائی ایک دشوار ہدف ہے۔ ماضی میں قراردادِ مقاصد اور آئین سے اسلامی دفعات اور توہینِ رسالت کے قانون کے خاتمے کی کوششوں کی ناکامی اس پر دال ہیں۔

عالمی سطح پر دیکھا جائے تو امریکہ سمیت یورپی ممالک میں دائیں بازو کی جماعتوں کو نمایاں کامیابی ملی ہے اور بعض ملکوں میں تو ان کی حکومت بنتے بنتے بچی ہے جیسا کہ فرانس اور جرمنی میں ہوا۔ پڑوس کے ملک بھارت میں سیکیولرازم خطرے میں ہے، عملاً تو وہ ہندو دھرم کا ملک بن چکا ہے مگر آئینی طور پر بھی اس کے قریب ہے۔ مودی صاحب نے اسی نعرے کے ساتھ انتخابی مہم چلائی اور اس کے باوجود وہ تیسری بار حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اگر چہ وہ اس ترمیم سے فی الحال دور ہیں مگر اس نعرے کے ساتھ اتنا ووٹ حاصل کرنا کہ اور حکومت بنانا معمولی بات نہیں ہے۔

مشرق وسطیٰ میں تو گیم کا مرکزی محور مذہب اور مذہبی لوگ ہیں اسی طرح فلسطین کے معرکے نے مذہب کی اخلاقی اور عملی صلاحیت کو دنیا پر آشکار کردیا ہے۔ ترکی کا سو سال تک سیکولر ازم آزمانے کے بعد مذہب کی طرف واپسی اور ایران اور افغانستان میں مذہب کی فیصلہ کن حیثیت یہ سب کچھ اس بات کا تاریخی اور بین ثبوت ہیں کہ جو لوگ مذہب کے خاتمے کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ ایسا خواب دیکھ رہے ہیں، جس کی کوئی تعبیر نہیں اور ایسے لوگ ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔

لرننگ پورٹل