مسلکِ شافعی کے مؤسس حضرت امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ قریش کی معروف شاخ بنو ہاشم سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ فلسطین کے مردم خیز علاقے غزہ میں ۱۵۰ھ میں پیدا ہوئے، یہ وہ سال ہے جس میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی وفات ہوئی۔ آپ نے محض سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا۔ اس کے بعد علم کے حصول میں مشغول ہوئے اور تحصیلِ علم کے سلسلے میں وقت کے ائمہ سے استفادہ کیا۔ آپ نے جن شیوخ سے شرَفِ تلمُّذ پایا، ان میں عالمِ مدینہ حضرت امام مالک، امام اعظم حضرت امام ابو حنیفہ کے ممتاز شاگرد حضرت امام محمد بن الحسن الشیبانی، مشہور محدث حضرت سفیان بن عیینہ، حضرت عمر بن ابی سلمہ اور حضرت وکیع بن الجراح رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے نام آتے ہیں۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ کا آپ پر بھرپور اعتماد تھا، ان سے آپ کا تعلق ان کی وفات تک برقرار رہا۔ آپ نے اصولِ فقہ پر عمدہ تصانیف تحریر فرمائیں ان میں ’’الرِّسالہ‘‘ اور ’’الاُم‘‘ کو بہت قبولیت ملی۔ آپ کے بلند علمی مرتبے کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ملتِ اسلامیہ کے ان چار ائمۂ متبوعین میں آپ بھی شامل ہیں، جن کے فقہی مسالک کو قبولیتِ عامّہ نصیب ہوئی۔ آپ کے فقہی مسلک کے پیروکار آج کل مصر، شام، فلسطین، لبنان اور یمن میں موجود ہیں۔ آپ نے 204ھ میں مصر میں وفات پائی۔
امام مُزَنی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کی خیریت دریافت کرنے آیا جب کہ وہ مرض الموت میں مبتلا تھے۔ میں نے ان سے پوچھا: اے ابو عبد اللہ کیا حال ہے؟ انھوں نے جواب میں فرمایا: دنیا سے کوچ کرنے کا وقت ہے، دوست و احباب سے جدائی قریب ہے، موت کا جام پینے کی گھڑی آ گئی ہے، اعمالِ بد کے انجام سے ملاقات ہونے والی ہے، اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی ہے۔ پس مجھے نہیں معلوم کہ میری روح جنت کی طرف پرواز کرےگی کہ میں اسے مبارک باد دوں، یا جہنم کی طرف جائےگی کہ میں اس سے تعزیت کروں؟ پھر رونے لگے اور یہ اشعار پڑھنے لگے:[1]
ولمّا قَسا قلبي وضاقتْ مذاهبي تَعاظَمَني ذنبي فلمّا قَرَنْتُه فما زِلتَ ذا عفو عن الذنب لمْ تزَلْ فلولاك لمْ يَصْمُدْ لإبليسَ عابد وإنّيْ لآتي الذَنْبَ أَعرِفُ قدرَه وأعلمُ أنّ اللهَ يَعْفُو تَرَحُّما وکنْ بین هاتین مِن الخوفِ و الرَّجا إليك إلٰهَ الخلقِ أرفعُ رَغْبَتِي فيا ليت شِعْري هل أصيرُ لِجَنَّةٍ
يُقيمُ إِذا ما اللَيلُ مَدَّ ظَلامَهُ فَصيحاً إِذا ما كانَ في ذِكرِ رَبِّهِ وَيَذكُرُ أَيّاماً مَضَت مِن شَبابِهِ فَصارَ قَرينَ الهَمِّ طولَ نَهارِهِ
أَلَستَ الَّذي غَذَّيتَني وَهَدَيتَني عَسى مَن لَهُ الإِحسانُ يَغفِرُ زَلَّتي
فإن تعفُ عني تَعْفُ عن مُتَمَرّدٍ فجرُمي عظيمٌ من قديمٍ وحادثٍ حَوَاليَّ فضلُ اللهِ من كلِّ جانبٍ وفي القَلْبِ إشراقُ المحبِّ بوصْلهِ حواليَّ إيناسٌ من اللهِ وحدَهُ أصونُ وِدَادِي أن يُدَنِّسَه الهَوَى ففي يَقْظَتِي شوقٌ وفي غَفْوَتي مُنًى ومن يَعْتَصِمْ باللهِ يسْلَمْ من الوَرَى |
جب میرا دل سخت ہو گیا اور میری راہیں تنگ ہونے لگیں تو آپ سے عفو کی امید کو میں نے نجات کے لیے سیڑھی بنایا۔
مجھے اپنے گناہ بھاری معلوم ہوئے، لیکن جب میں نے انھیں آپ کی بخشش کے ساتھ ملایا تو آپ کی بخشش ان سے بہت بڑھ کر نظر آئی۔
آپ ہمیشہ گناہوں کو معاف کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی از راہِ کرم! فیاضی اور عفو و درگزر سے کام لیتے رہیں ۔
اگر آپ مجھ سے انتقام لیں تب بھی میں آپ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں، خواہ میری جان میرے جسم کے ساتھ جہنم میں داخل ہو۔
اگر آپ نہ ہوتے تو کوئی عبادت گزار،شیطان کے سامنے نہ ٹک سکتا ، اور کیسے ہوتا؟ جب اس نے آپ کے منتخب حضرتِ آدم کو بھی بہکا دیا۔
میں گناہ کرتا ہوں اسے عظیم جانتے ہوئے اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے معاف بھی فرما دیتے ہیں۔ خدا سے ڈر اور ہر بڑی مصیبت میں اس سے امید رکھ، اور گناہوں میں ڈوبے نفس کی پیروی نہ کر تاکہ تجھے بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔
اور خوف اور امید کے درمیان رہ اور خدا کی بخشش سے پُر امید رہ اگر تو مسلمان ہے۔
اے مخلوق کے خدا! میں تجھ سے اپنی مرادوں کی تکمیل کا خواست گار ہوں، اگرچہ میں مجرم ہوں اے احسان اور سخاوت والی ذات! ۔
کاش مجھے اتنا معلوم ہوتا کہ مجھے جنت جانا ہے تو میں خوشی مناتا، یا (خدانخواستہ) دہکتی ہوئی آگ کی طرف، تو میں ندامت کا اظہار کرتا۔
اللہ بھلا کرے اس نیک صفت عارف کا، جس کی پلکیں فرطِ جذبات کی وجہ سے خون کے آنسو بہاتی ہیں۔
جب رات کا اندھیرا چھا جاتا ہے تو وہ عارف کھڑا ہوجاتاہے اور شدتِ خوف کی وجہ سے اپنے اوپر ماتم کرتا ہے۔
جب وہ اپنے رب کا ذکر کرتا ہے تو بڑا فصیح اللسان بن جاتا ہے، اور ماسوی اللہ کی تعریف میں گونگا ہو جاتا ہے۔
وہ اپنی جوانی کے وہ دن یاد کرتا ہے، جب وہ جہالت کے سبب گناہ کیا کرتا تھا۔
وہ دن بھر گناہوں کے سبب غمگین رہتا ہے، اور جب رات کا اندھیرا چھا جاتا ہے تو اسےبیداری اور سرگوشی میں گزارتا ہے۔
وہ کہتا ہے: میرے محبوب! آپ ہی میری مراد اور منتہاے مقصود ہیں، امید والوں کے لیے آپ ہی کی ذات مدد کے لیے کافی ہے۔
کیا آپ کی ذات وہ نہیں ہے جس نے میری پرورش کی اور میری رہنمائی کی؟ اور کیا آپ کا مجھ پر احسان و انعام مسلسل نہیں ہے؟
امید ہے کہ وہ ذات جس کا احسان ہے وہ میری خطاؤں کو معاف کر دے، اور میرے گناہوں پر اپنی رحمت سے پردہ ڈال دے۔
مجھ پر میرے گناہوں کا بوجھ بہت بڑھ گیا تو میں سر جھکائے چلا آیا، اے رب! اگر آپ کی رضا نہ ہوتی تو بندوں پرآپ کا انعام کیسے ہوتا۔
اگر آپ مجھے معاف کر دیں گے تو آپ ایک سرکش، ظالم شخص کو معاف کر دیں گے جو پوری زندگی گناہوں میں پڑا رہا۔
میرے نئے اور پرانے گناہ بہت بڑے ہیں، اور آپ کی بخشش بندے کے پاس اس سے بڑھ کر پہنچتی ہے۔
مجھے چاروں طرف سے خدا کے فضل نے ڈھانپ لیا ہے اور رحمٰن کا نور آسمان تک پھیلا ہوا ہے۔ اور دل میں محبوب کے وصل کی روشنی طلوع ہو رہی ہے، خوش خبری اور حرم میں داخل ہونے کا وقت قریب ہے۔
میں اپنے ارد گرد اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کی اُنسیت محسوس کر رہا ہوں، جو قبر کے اندھیرے میں ستاروں کی طرح میرے اوپر طلوع ہو رہی ہے۔
میں اپنے اس تعلق کو خواہشاتِ نفسانی کے میل کچیل سے بچاؤں گا، اور عہدِ محبت کو کسی صورت ٹوٹنے نہیں دوں گا۔
بیداری میں اشتیاق اور غفلت میں آرزو میرے ساتھ جوش و خروش اور ترنم کی کیفیت میں چلتے ہیں۔
اور جو خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے وہ مخلوق سے بےنیاز ہو جاتا ہے، اور جو اس کی ذات سے امید وابستہ کرتا ہے وہ کبھی اس پر پشیمان نہیں ہوتا۔ |