لاگ ان

پیر 13 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 16 ستمبر 2024

لاگ ان

پیر 13 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 16 ستمبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
پیر 13 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 16 ستمبر 2024

پیر 13 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 16 ستمبر 2024

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری

ہمیں اسماعیل پر حیرت ہے نہ اسرائیل پر ! ’’نہ اُن کی رَسم نئی ہے نہ اپنی رِیت نئی‘‘۔ تو ایک اور ’’مکتب کی کرامت اور فیضانِ نظر‘‘ کے شاہ کار نے ’’نکل کر خانقاہوں سے رسمِ شبیری ادا کر دی‘‘ :

غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم نہایت اس کی حسین، ابتدا ہے اسماعیل

 مذکورہ یہ بالا شعر دورِ قدیم کی داستانِ حرم کو بیان کرتا ہے ورنہ دورِ جدید میں شاہ اسماعیل شہید سے لے کر ’’شیخ اسماعیل شہید ‘‘ تک بہت سے نئے کردار شامل ہو چکے۔قدیم روش پر چلنے والے ’’جدید اسماعیل‘‘ کا پورا نام اسماعیل عبد السلام احمد ہنیہ ہے۔ آپ کی پیدائش ۲۳ مئی ۱۹۶۳ ء کو قطاعِ غزہ میں، غزہ شہر سے چارکلومیٹر دور بحرِ ابیض المتوسط (Mediterranean sea) کے کنارے آباد ہونے والے الشاطی مہاجر کیمپ میں ہوئی۔آپ کا خاندان ۱۹۴۸ ء میں یہودیوں کی جبری بے دخلی کے نتیجے میں عسقلان کے ایک قصبے الجورہ سےآکر یہاں آباد ہوا تھا۔ الشاطی مجاہدین کی سرزمین ہے۔ حماس کے بانی شیخ احمد یاسین(شہادت ۲۰۰۴ء ) حماس کے اسلحہ ساز شیخ عدنان الغول (ش۲۰۰۴ ء ) اور معروف راہنما صلاح الشحادہ (ش۲۰۰۲ء ) کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا۔آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت اور نشو ونَما صوفی مذہبی ماحول میں ہوئی۔ اسماعیل ہنیہ کے ایک انٹرویو کے مطابق ان کے والد ایک صوفی اور شیخِ طریقت تھے جن کے پاس اکثر اوقات مشائخ تشریف لایا کرتے تھے۔ ان کے گھر کے قریب ہی ایک خانقاہ ہوا کرتی تھی جس میں ان کے والد ذکر کی مجالس کا انعقاد کیا کرتے تھے اور اسماعیل ان کے ساتھ مجالس میں جایا کرتے تھے۔ یہاں مولود شریف کی محفلیں ہوا کرتیں، تین روزہ تعزیتی جلسے ہوا کرتے جن میں قرآن مجید پڑھا جاتا۔ اسماعیل ہنیہ بھی ان جلسوں میں قرآن شریف پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ ان کے والد صاحب ایک مسجد کے مؤذن بھی تھے۔ جب وہ نمازِ فجر کی اذان کے لیے مسجد تشریف لے جاتے تو ننھے اسماعیل چراغ ساتھ لے کر جایا کرتے تھے۔ چنانچہ اسماعیل ہنیہ کی شخصیت میں ’’مکتب کی کرامت اور فیضانِ نظر‘‘ دونوں نظر آتے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ نے ابتدائی تعلیم اقوامِ متحدہ کے پناہ گزین اسکول میں حاصل کی۔ ثانوی تعلیم انھوں نے غزہ کے ایک ادارے معهد الأزهر الدیني سے حاصل کی۔اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ نے الجامعة الإسلامية غزة کا رخ کیا۔ شیخ احمد یاسین رحمہ اللہ اورحماس کے رہنما حسن ابو شنب اس جامعہ کے بورڈ میں شامل تھے۔ یہاں سے آپ نے عربی زبان و ادب میں ماسٹر کی ڈگری مکمل کی۔اس کے بعد آپ کچھ عرصہ اسی جامعہ میں اہم مناصب پر فائز رہے۔۲۰۰۹ء میں آپ کو اسی جامعہ نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ دورانِ تعلیم آپ ایک بہترین اسپورٹس مین تھے اور فٹ بال کھیلا کرتے تھے۔ اسکول کی تعلیم کے دوران آپ مجلسِ اتحادِ طلبہ کے سرگرم رکن بلکہ ۱۹۸۳، ۸۴ میں اس تنظیم کے صدر بھی رہے۔ یہ تنظیم، طلبہ میں نظم و ضبط، صحت مند جسمانی مشاغل،انسانی حقوق، ملی ذمے داریوں اور جمہوری اقدار کا شعور عام کرتی تھی۔اس دوران اسماعیل ہنیہ بعض مساجد میں خطبات بھی دیا کرتے تھے۔ دورانِ تعلیم ہی آپ کا تعلق شیخ احمد یاسین شہید رحمہ اللہ اور ان کی تحریک حماس سے قائم ہو چکا تھا اور آپ تحریک میں سرگرم اور فعال کارکن کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔۱۹۸۷ء میں آپ کو پہلی بار اٹھارہ دن کے لیے پابندِ سلاسل کیا گیا۔ اگلے سال آپ کو چھے مہینے کے لیے قید کیا گیا۔ ۱۹۸۹ء میں آپ کو تین سال کے لیے قید کیا گیا۔قید مکمل ہونے کے بعد آپ کو جنوبی لبنان کے علاقے مرج الزہور میں جلاوطن کر دیا گیا۔ ۱۷، دسمبر ۱۹۹۲ء کو معاہدۂ اوسلو کے بعد آپ کو واپسی کی اجازت ملی۔ جلا وطنی ختم ہونے کے بعد آپ جامعہ اسلامیہ کے ڈین مقرر کیے گئے۔ ۱۹۹۷ء میں شیخ احمد یاسین رحمہ اللہ نے آپ کو اپنے دفتر کا مدیر مقرر کیا۔ ۲۰۰۳ء میں جب شیخ احمد یاسین رحمہ اللہ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو اسماعیل بھی ان کے ساتھ ہی تھے۔ دونوں حضرات اللہ کے حکم سے محفوظ رہے۔ شیخ احمد یاسین رحمہ اللہ کو ۲۲ مارچ ۲۰۰۴ء کواسرائیلی گن شپ ہیلی کاپٹروں سے اس وقت شہید کر دیا گیا جب وہ فجر کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر آ رہے تھے۔ شیخ احمد یاسین رحمہ اللہ کی شہادت کے بعد عبد العزیز رنتیسی رحمہ اللہ حماس کے سربراہ منتخب ہوئے۔ چند ہفتوں بعد رنتیسی رحمہ اللہ بھی ہیلی کاپٹر سے کیے گئے میزائل حملے میں جامِ شہادت نوش کر گئے۔عبد العزیز الرنتیسی رحمہ اللہ کی شہادت کے بعد ۲۰۰۴ء سے۲۰۰۷ء تک حماس نےحملے کے خدشے کے پیشِ نظر اپنے سربراہ کا نام مخفی رکھا۔۲۰۰۷ء میں اسماعیل ہنیہ حماس کے سربراہ کے طور پر سامنے آئے۔ ۲۵ جنوری ۲۰۰۶ء کوفلسطین میں انتخابات ہوئے جس میں حماس نے کامیابی حاصل کی۔ حماس نے اسماعیل ہنیہ کا نام بطورِ وزیر اعظم تجویز کیا اس طرح مارچ ۲۰۰۶ء میں آپ فلسطین کے وزیرِ اعظم قرار پائے۔ آپ کی وزارتِ عظمی کا دور لگ بھگ ایک سال پر محیط رہا۔ مغربی ممالک نے عوامی مینڈیٹ کے حامل اس منتخب وزیرِ اعظم کے خلاف مختلف قسم کی سازشیں شروع کیں۔ نتیجے کے طور پر فتح اور حماس کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی۔آخر کار الفتح سے تعلق رکھنے والے صدر محمود عباس نے اسماعیل ہنیہ کو معزول کر کے ایمرجنسی لگا دی۔ ۲۰۱۷ء کے جماعتی الیکشن میں اسماعیل ہنیہ خالد مشعل کی جگہ حماس کے سیاسی ونگ کے صدر مقرر ہوئے۔ آپ اپنی سیاسی و سفارتی سرگرمیوں کے سبب ہمیشہ دشمن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے رہے یہاں تک کہ امریکی وزارتِ خارجہ نے انھیں دہشت گردی کا ستون قرار دیا۔ ۲۰۱۹ء میں پہلے ترکیہ اور پھر قطر میں رہائش پذیر ہو گئے۔ ۲۰۲۱ء میں جب اس عہدے کی مدت ختم ہوئی تو رائے شماری کی بنیاد پر آپ اگلے چار سال کے لیے دوبارہ سیاسی ونگ کے سربراہ منتخب ہو گئے۔ طوفان الاقصیٰ سے پہلے اور بالخصوص اس کے بعد آپ نے جرات و بہادری کے ساتھ مصائب کا سامنا کیا اور اپنے موقف سے سرِ مو انحراف نہیں کیا۔ اسماعیل ہنیہ عرصۂ دراز سے اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ ان پر متعدد قاتلانہ حملے ہوچکے تھے۔ آپریشن طوفان الاقصیٰ کے بعد پچھلے سال اکتوبر میں الشاطی میں واقع ان کے گھر پر جہازوں سے بمباری کر کے اسے تباہ کر دیا گیا تھا۔ ۱۰، اپریل ۲۰۲۴ء کو ایک گاڑی پر حملہ کیا گیا جس میں ان کے تین بیٹوں سمیت تین پوتے شہید ہوئے، یہ لوگ عوام کو عید الفطر کی مبارک باد دینے جا رہے تھے۔اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹوں، پوتوں اور بہن سمیت خاندان کے ستر سے اوپر افراد شہید کیے جا چکے ہیں جب کہ بعض بیانات کے مطابق یہ تعداد اناسی تک جا پہنچتی ہے۔ انھوں نے ان شہادتوں پر ہمیشہ بہادرانہ اور مومنانہ ردِّ عمل ظاہر کیا اور کہا: ’’شہادتیں ہمیں آزادی کی امید دلاتی ہیں چاہے ہمارے گھر تباہ اور بچے شہید کر دیے جائیں ہم اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘۔جب آپ کے بیٹے اور پوتے شہید ہوئے تو آپ نے فرمایا میرے شہید بیٹوں اور پوتوں کا خون ہمارے دوسرے فلسطینی شہدا کے خون سے افضل نہیں ہے میں اس شرف پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں جو میری اولاد کی شہادت کی صورت میں مجھے عطا ہوا ہے‘‘۔ ۲۰۱۲ء میں رائٹر زکے ایک صحافی نے آپ سے سوال کیا کہ کیا حماس کے مقاومت سے پیچھے ہٹنے کا کوئی امکان ہے تو انھوں نے قطعی انکار کرتے ہوئے کہا: ’’ہرگز نہیں! ہمارا مقابلہ تمام میدانوں میں جاری رہے گا، ملی، سیاسی، ڈپلومیٹک اور عسکری سمیت ہر میدان میں ہم ڈٹے رہیں گے‘‘۔ اسماعیل ہنیہ نے اپنے عمل سے اس بات کو سچ ثابت کر دکھایا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے بارے میں یہ فرمان نازل ہوا ہے:﴿مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا﴾’’ انھی ایمان والوں میں وہ لوگ بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا۔ پھر ان میں سے کچھ وہ ہیں جنھوں نے اپنا نذرانہ پورا کردیا اور کچھ وہ ہیں جو ابھی انتظار میں ہیں۔اور انھوں نے (اپنے ارادوں میں) ذرا سی بھی تبدیلی نہیں کی‘‘۔

شیخ احمد یاسین رحمہ اللہ کی شہادت پر ردعمل دیتے ہوئے اسماعیل ہنیہ رحمہ اللہ نے جو خوب صورت الفاظ کہے تھے۔ وہی الفاظ آج ہنیہ اور ان کے دشمن پر صادق آتے ہیں : ’’شیخ یاسین تو کب سے منتظر تھے کہ انھیں شہادت ملے البتہ ایریل شیرون نے اپنے لیے جہنم کا دروازہ کھول دیا ہے‘‘۔لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے!

لرننگ پورٹل