یسئلونک
دارالافتاء، فقہ اکیڈمی
اجتماعی قربانی میں بقیہ شرکا کی آمدنی کی تحقیق
سوال:جب قربانی کے لیے حصہ ڈالا جاتا ہے تو کیا یہ دیکھنا ضروری ہے کہ بقیہ چھے افراد جو حصہ ڈال رہے ہیں، ان کی آمدنی حلال ہے یا نہیں؟ اگر ہم کسی مسجد یا کسی بڑی جماعت میں حصہ ڈالیں تو باقی حصے داروں کے بارے میں عموماً کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں کیا قربانی ادا ہوجائے گی؟اور ہمارے حصے کا گوشت ہمارے لیے حلال ہوگا؟ رہنمائی فرمادیں، جزاکم اللہ خیراً
جواب: موجودہ دور میں اجتماعی قربانی کا رواج عام ہورہا ہے،اور بہت سارے ادارے یہ خدمت انجام دے رہے ہیں، یہ جائز ہے،شرعا! اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اور اجتماعی قربانی میں ایک بات کا خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ جان بوجھ کر حرام آمدنی والے افراد کے ساتھ شرکت نہ ہو، ورنہ قربانی صحیح نہیں ہوگی، اس لیے اجتماعی قربانی کا انتظام کرنے والے اداروں پر ضروری ہے کہ اس با ت کا خیال رکھیں، اور اس کی آسان صورت یہ ہے کہ جہاں حصوں کی بکنگ ہوتی ہے وہاں بڑے حروف میں یہ اعلان لکھ کر آویزاں کر یں کہ ” حرام آمدنی والے مثلا ،سود، جوا، بینک، انشورنس ، رشوت، ڈا کہ اور چوری کی رقم والے اجتماعی قربانی میں شرکت نہ کریں ور نہ وہ خود ذمے دار ہوں گے‘‘۔ البتہ اگر کسی شخص کے بارے میں حرام آمدنی کے قرائن موجود ہوں تو اس سے درخواست کی جائےکہ وہ کہیں سے حلال مال لاکر قربانی میں شریک ہواور حرام رقم ہر گز شامل نہ کریں۔لہذا صورتِ مسئولہ میں قربانی کے لیے مسجد،یا بڑی جماعت میں حصہ ڈالنا درست ہے،بلاوجہ کسی پر شک شبہہ کرنا درست نہیں۔ البتہ اجتماعی قربانی میں حصہ ڈالنے سے پہلے اس بات کی يقين دہانی کرلیں کہ وہ اداره علماےکرام کی نگرانی میں یا ان سے مسئلہ پوچھ کر شرعی تقاضوں کے مطابق تمام مراحل انجام دیتا ہے۔ تحقیق کرکے اطمینان کرلیں، اس کےبعد حصہ ڈال کر شریک ہوں ۔
لأنا قد أمرنا بحسن الظن بالمؤمنين وحمل أمورهم على ما يجوز فوجب حمله على ما يجوز.(أحكام القرآن للجصاص – (۵ / ۱۶۱)
[الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا](الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا) يجب أن يعلم أن الشاة لا تجزئ إلا عن واحد، وإن كانت عظيمة، والبقر والبعير يجزي عن سبعة إذا كانوا يريدون به وجه الله تعالى، والتقدير بالسبع يمنع الزيادة، ولا يمنع النقصان، كذا في الخلاصة.(الفتاوى الهندية (۵/ ۳۰۴)
وجه الاستحسان أنه لما اشتراها للذبح وعينها لذلك فإذا ذبحها غيره فقد حصل غرضه وأسقط عنه مؤنة الذبح، فالظاهر أنه رضي بذلك فكان مأذونا فيه دلالة فلا يضمن ويجزيه عن الأضحية كما لو أذن له بذلك نصا، وبه تبين وهي قول الشافعي – رحمه الله – أنه يجزيه عن الأضحية ويضمن الذابح؛ لأن كون الذبح مأذونا فيه يمنع وجوب الضمان؛ كما لو نص على الإذن؛ وكما لو باعها بإذن صاحبها ولو لم يرض به وأراد الضمان يقع عن المضحي.(بدائع الصنائع، دارالكتب العلمية (۵/ ۶۵)
۲۳جون ۲۰۲۲ء
فتوی نمبر : ۵۶۱۰
واللہ اعلم بالصواب