مولانا حماد احمد ترکؔ نائب مدیر ماہ نامہ مفاہیم کراچی
چَراغ اپنا جلا رہا ہے
معرکۂ طوفان الاقصیٰ کو شروع ہوئے آٹھ مہینے سے زائد عرصہ ہو چکا ہے لیکن فلسطینی مزاحمت استقامت کا پہاڑ بنی ہوئی ہے۔ نہ کھانا ہے نہ پانی، علاج ہے نہ امن و سکون، پھر بھی آٹھ مہینوں سے ارضِ مقدس کا دفاع جاری ہے، ان کی مثال اقبالؔ کے اُ س مردِ درویش کی سی ہے جو ہر حال میں اپنا چراغ روشن رکھتا ہے:
ہَوا ہے گو تُند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں اندازِ خسروانہ
مارچ اور اپریل میں مستقل نیتن یاہو اور اس کے حواری رفح پر حملے کی دھمکیاں دے کر فلسطینیوں کو جھکانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ پوری دنیا کو یہ باور کرایا گیا کہ قطاعِ غزہ شمال سے جنوب تک اسرائیلیوں کے تسلط میں ہے۔ بیتِ حانون سے خان یونس تک صیہونی سپاہی فتح کے پھریرے لہراتے پھرتے ہیں اور اب مصری سرحد سے متصل انتہائی جنوب میں واقع ایک رفح شہر باقی رہ گیا ہے۔ وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے متعدد تقریروں میں یہ بات دہرائی کہ ہم پوری طرح غالب ہیں اور بالخصوص الشفا اسپتال پر قبضے کو یوں پیش کیا گیا کہ گویا کوئی قلعہ فتح ہو گیا ہو۔ نیتن یاہو نے شمالی غزہ کے دورے کے بعد کہا کہ ہماری افواج جہاں چاہیں جا سکتی ہیں۔ نیتن یاہو کی اس بات سے ہم بھی متفق ہیں کہ صیہونی افواج یقیناً جہاں چاہیں جا سکتی ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں جہاں وہ جاتی ہیں بہت بے آبرو ہو کر آتی ہیں۔ خیر، بات ہو رہی تھی رفح کی، وہ رفح جہاں پندرہ لاکھ فلسطینی شہری پناہ گزین ہیں اور ہزاروں خیمہ بستیاں معصوم فلسطینیوں کی آخری امید ہیں۔ اسرائیل نے حماس پر دباؤ ڈالنے کے لیے بار بار رفح شہر میں بڑے زمینی آپریشن کا اعلان کیا اور امریکہ سمیت متعددبڑے ممالک نے اس پر تشویش کا اظہار کیا۔ جو بائیڈن نے اس آپریشن میں امریکی سرپرستی نہ ہونے کا اعلان کیا جس پر نیتن یاہو اور جو بائیڈن میں اختلافات بھی ہوئے۔ قصّہ مختصر، جس وقت دنیا رفح پر ممکنہ حملے سے خوف زدہ تھی، وسیع پیمانے پر شمالی غزہ سے اسرائیل کے متعدد شہروں پر حملے شروع ہو گئے اور ان میں تیزی آتی گئی۔ شمالی غزہ کے وہ شہر جہاں کل تک صیہونی افواج مکمل قبضےکی دعوے دار تھیں، انھی شہر وں سے کہیں کتائب القسام اور کہیں سرایا القدس کے مجاہدین کے مناظر نشر ہونے لگے جو مارٹر گولوں، اسنائپر بندوقوں اور راکٹوں سے ٹینک، پیادہ فوج اور عسکری ٹھکانوں کو تباہ کرنے میں مشغول تھے۔ سرنگوں اور خالی مکانوں کو چارے کے طور پر استعمال کرنے اورفوجیوں کی آمد پر انھیں دھماکے سے اڑا دینے کے دسیوں واقعات قریب قریب رو نما ہونےلگے۔ اس سے اسرائیلی دعووں کی قلعی کھل گئی اور شمال میں از سرِ نو جنگ شروع ہو گئی۔ سب سے پہلے انتہائی شمال میں واقع مجاہدین کے ’’مضبوط قلعے‘‘کمال عَدَوان اسپتال کو نشانہ بنایا گیا، ایسی گولہ باری کی گئی کہ پوری عمارت ناکارہ ہو گئی اور اسپتال کے عملے نے خدمات سے ہاتھ اٹھالیے۔ زخمیوں اور طبیبوں کی بےتوقیری کی گئی، صحافیوں اور طبی عملے پر تشدد کیا گیا اور متعدد شہری گرفتار کیے گئے۔ غزہ کے شمال میں واقع جبالیا کیمپ پر حملہ کیا گیا جو کئی دن تک جاری رہا۔ واضح رہے کہ جبالیا ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں حالیہ جنگ میں سب سے زیادہ بمباری کی گئی۔ کئی دنوں تک یہاں شہریوں کا قتلِ عام ہوا، گھر لوٹ لیے گئے، بازار ویران ہو گئے لیکن نہ کوئی اسرائیلی قیدی چھڑایا جا سکا اور نہ ہی کسی مجاہد کو گرفتار کیا جا سکا، بلکہ ایک مکان کی چھت سے دو مجاہدین کی وڈیو بھی جو اسرائیلی ڈرون کے ذریعے بنائی گئی تھی شائع کی گئی جس میں انھیں بےجگری سے لڑتے اور شہید ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔ جبالیا سے اسرائیلی فوج کی پسپائی کے بعد شمالی غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں کی دریافت کاایک افسوس ناک سلسلہ شروع ہوا جس میں صرف الشفا اسپتال سےتین اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں۔ شمالی غزہ میں مجموعی طور پر سات اجتماعی قبریں ملیں جن میں ۵۲۰ شہدا مدفون تھے جن میں غالب اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔ کتنے ہی شہدا کو ہاتھ پاؤں باندھ کر زندہ دفنا یا گیا تھا: ﴿وَهُمْ عَلَىٰ مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودٌ o وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ﴾’’اور وہ ایمان والوں کے ساتھ جو کچھ کر رہے تھے، اس کا نظارہ کرتے جاتے تھے۔ اور وہ ایمان والوں کو کسی اور بات کی نہیں، صرف اس بات کی سزا دے رہے تھے کہ وہ اس اللہ پر ایمان لے آئے تھے جو بڑے اقتدار والا، بہت قابلِ تعریف ہے‘‘۔ مئی کے آغاز میں ہی مجاہدین کی جانب سے ایک شان دار کارنامہ نشر ہوا تھا جس میں رفح کے قریب جنوبی غزہ کو اسرائیل سے ملانے والی کرم ابوسالم کراسنگ پر حملے میں ایک افسر اورمتعددفوجی جہنم واصل ہوئے تھے۔ یہ حملہ شارٹ رینج میزائل ’’رجوم‘‘ سے کیا گیاجس کے مناظر کتائب القسام نے نشر کیے۔ اس واقعے کے بعد سرکاری عہدے دار ’’آئرن ڈوم‘‘ کی کارکردگی پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔اس حملے کا بدلہ رفح کے مہاجر کیمپوں میں مقیم بےگناہ شہریوں سے لیا گیا اور اسرائیل نے پناہ گزینوں کے کیمپوں پر یکے بعد دیگرے کئی فضائی حملے کیے اور اس کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر زمینی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔ اگر چہ ان حملوں کے نتیجے میں کئی دنوں بعد اسرائیل رفح کراسنگ پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا لیکن اس دوران مرکاوا ٹینکوں، ڈی نائن بلڈوزروں اور نمر بکتر بندوں سمیت پیادہ دستوں کے متعدد افسر اور سپاہی خاک میں مل گئے۔ پورے مہینے شمال میں جبالیا اور جنوب میں رفح مجاہدین کی فتوحات کا مرکز بنے رہے اور روزانہ کی بنیاد پر کامیاب حملوں کی اطلاعات آتی رہیں۔ رفح کراسنگ پر قبضے کے دوران اسرائیلی اور مصری افواج میں بھی جھڑپ ہوئی جس میں ایک مصری سپاہی شہید ہوا۔ اس جھڑپ کی تفصیلات تو معلوم نہ ہو سکیں البتہ الجزیرۃ کے مطابق شہید ہونےوالا سپاہی غزہ کی حالت پر بہت غمگین تھا اور سوشل میڈیا پر مستقل فلسطینیوں کی حمایت کے پیغام نشر کرتا تھا۔ ممکن ہے کہ اسرائیلیوں کو دیکھ کر اس نے اسلحے کا استعمال کیا ہو اور جوابی کارروائی میں شہید ہو گیا ہو، واللہ اعلم!مجاہدین نے انھی دنوں ایک اور کارنامہ یہ انجام دیا کہ مغویوں کی رہائی کے لیے غزہ آنے ’’بہادر‘‘ صیہونی سپاہیوں کے ایک دستے پر حملہ کر کےاکثر کو قتل کر دیا اور دو تین سپاہی زندہ گرفتار کر لیے گئے، جس پر خود اسرائیلی شہری اپنی فوج کی کارکردگی پر غضب ناک ہیں۔ اسرائیل کے لیے قطاعِ غزہ ہی ناقابلِ تسخیرمحاذ نہیں ہے بلکہ مغربی کنارے میں جنین، نابلس، طول کرم، طوباس، رام اللہ اور القدس کا محاذ بھی سیسہ پلائی دیوار ثابت ہو رہا ہے۔ کوئی دن نہیں گزرتا کہ چھری چاقو، فائرنگ اوردیسی ساختہ بموں کےحملے کی اطلاعات نہ آتی ہوں۔ سات اکتوبر سے اب تک صرف مغربی کنارے سے نو ہزار سے زائد فلسطینی گرفتار ہو چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ شمالی اسرائیل پر لبنان سے حملوں میں بہت زیادہ شدت آ چکی ہے۔ کئی تجزیہ کار عن قریب حزب اللہ اور اسرائیل کی باقاعدہ جنگ کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ شمالی اسرائیل کے شہریوں کی اکثریت ملک چھوڑ چکی ہے۔ گذَشتہ دنوں لبنان کے قریب واقع اسرائیلی شہر ’’کریات شمونہ‘‘ کے میئر نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ ریاست ہمارا تحفظ کرنے سے قاصر ہے۔ ایک خبر کے مطابق یہاں کے چوبیس ہزار شہریوں میں سے محض چار ہزار شہری بچے ہیں جو اب تک مقیم ہیں۔الجزیرۃ کے مطابق حزب اللہ کے حملوں میں راکٹ، میزائل، ڈرون اور خودکش ڈرون حملے شامل ہیں جو روزانہ عسکری تنصیبات اور سپاہیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اسرائیل کے حالیہ جنگ میں ایک بڑا دھچکا باب المندب کی بندش ہے جسے یمنی حوثیوں نے نومبر میں بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ آبی گزر گاہ اسرائیل آنے والے بحری جہازوں کے لیے اہم ترین گزر گاہ ہے۔ امریکہ نے یمنی حوثیوں کا بحری حصار توڑنے کے لیے برطانیہ اور فرانس سمیت دس ممالک کا لشکر تیار کیا لیکن سات مہینے گزر جانے کے بعد بھی یہ حصار برقرار ہے بلکہ یمنی فوج ’’انصار اللہ‘‘. مستقل امریکی، برطانوی اور اسرائیل سے وابستہ ہر کشتی اور جہاز کو نشانہ بنا رہی ہے۔ نہایت افسوس ہے کہ اس آبی گزرگاہ کی بندش سے اسرائیل کی اکثر درآمدات بند ہو چکی تھیں لیکن دبئی، سعودی عرب اور اردن نے زمینی راستہ فراہم کر کے غداری کی خاندانی روایت کو برقرار رکھا، آلِ سعود اور شاہِ اردن کا یہ غدر بلاشبہہ امتِ مسلمہ کی درخشاں تاریخ میں سیاہ باب کے طور پر لکھا جائے گا، نگاہے یا رسول اللہؐ نگاہے! اور اب بھی اسرائیلی سامان براستہ اردن صیہونی افواج کو تقویت پہنچا رہا ہے، بقولِ اقبالؔ : بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفیؐ مصر اور قطر کی ثالثی سے مئی کے مہینے میں مذاکرات کی کوششوں میں تیزی نظر آئی بالخصوص امریکہ نے جنگ بندی اور مذاکرات پر بہت زور دیا لیکن تاحال فریقین میں شرائط پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ حماس نے مذاکرات کی لازمی شرط یہ رکھی ہے کہ صیہونی افواج کا مکمل انخلا،۶۷ء کی سرحدوں کی بحالی اور دائمی جنگ بندی ہوگی تو مذاکرات آگے بڑھیں گے، عارضی جنگ بندی منظور نہیں۔ فلسطین کی حمایت میں امریکی جامعات میں پرزور مظاہرے تاحال جاری ہیں جن کا تذکرہ گذَشتہ شمارے میں کیا جا چکا ہے۔ان کی وجہ سے جلد ہونے والے امریکی انتخابات میں جوبائیڈن کی سیاسی حالت کمزور ہو چکی ہے۔ کئی جامعات کی تقریبِ تقسیمِ اسناد میں یہ مناظر نظر آئے کہ منظم انداز میں طلبہ و طالبات اپنی سند وصول کرتے ہوئے فلسطین کا جھنڈا یا اہلِ فلسطین سے ہمدردی پر مبنی کوئی عبارت حاضرین کو دکھاتے ہوئے گزرتے رہے، سالانہ تقاریب اہلِ فلسطین سے اظہارِ یک جہتی کے جلسوں میں تبدیل ہوتی دکھائی دیں۔ مزید یہ کہ اسپین، آئر لینڈ اور ناروے نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور اسپین نے اسرائیلی جانے والے کسی بھی جہاز کو اپنی بندر گاہ فراہم نہ کرنے کا پیغام دیا۔ جنوبی افریقا مستقل عالمی عدالت میں فلسطین کا مقدمہ لڑ رہا ہے۔ برازیل نے اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کھیل کے میدان، فیشن شوز، سیاسی جلسوں اور دیگر عوامی اجتماعات میں دنیا بھر کے لوگ فلسطینیوں سے اظہارِ یک جہتی کر رہے ہیں۔ مئی میں سوشل میڈیا پر دنیا بھر میں All eyes on Rafah ٹاپ ٹرینڈ رہا۔ بائیکاٹ مہم اب بھی زور و شور سے جاری ہے۔ ہر رات کی ایک صبح ہوتی ہے اور عن قریب یہ تاریکی چھٹ جائے گی، اہم یہ ہے کہ اس ظلمت میں ہمارا کردار کیا تھا؟ حالیہ جنگ میں اسرائیلی سپاہیوں کی بڑی تعداد زخمی یا معذور ہو گئی، جس کے بعد نیتن یاہو نے یہودی مدارس کے طلبہ ’’حریدیم‘‘ کے لیے قانون بنایا کہ وہ بھی متعین مدت تک اسرائیلی فوج میں خدمات ادا کرنے کے پابند ہیں اور انھیں کوئی استثنا حاصل نہیں۔ مذہبی یہودی اس قانون پر نیتن یاہو سے سخت نالاں ہیں اور جگہ جگہ احتجاج کر رہے ہیں۔ دوسری طرف،مغویوں کے اہلِ خانہ اسرائیل کے مختلف شہروں میں کئی مہینوں سے احتجاج کر رہے ہیں اور جیسے جیسے اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں حماس مغویوں کی ہلاکت کا اعلان کررہی ہے اس احتجاج میں شدت آتی جا رہی ہے اور مغویوں کے اہلِ خانہ اسرائیلی ریاست پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ حماس سے قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کرے۔ آئرن ڈوم کی ناکامی اور مجاہدین کے گولوں کا اسرائیلی بستیوں کو نشانہ بنانا شہریوں کو مزید اشتعال دلا رہا ہے۔ اپوزیشن بھی نیتن یاہو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔حال ہی میں سابق فوجی جنرل،سابق وزیرِ دفاع، سابق نائب وزیرِ اعظم اور موجودہ جنگی کابینہ کا رکن بینی گانٹز استعفا دے کر حکومت سے الگ ہو گیا ہے اور نئے انتخابات کا خواہش مند ہے۔بینی گانٹز اسرائیلی کابینہ کا بہت اہم رکن تھا، اس نے بیان دیا کہ ہمیں اپنی ناکامی کو تسلیم کرنا چاہیے اور سات اکتوبر کی شکست کی تحقیقات ہونی چاہییں۔ اسی طرح جنگی کابینہ کے ایک اور اہم رکن آئیزن کوٹ نے بھی حال ہی میں استعفا دیا ہے۔ آئزن کوٹ اسرائیلی فوج کی مشہور گولانی بریگیڈ میں افسررہا ہے اور کچھ عرصہ چیف آف اسٹاف کا عہدہ بھی اس کے پاس تھا۔ حالیہ جنگ کے آغاز میں اس کا ایک بیٹا بھی قتل ہوا تھا۔ آئیزن کوٹ نیتن یاہو کی پالیسی سے متفق نہیں ہے، اس کا خیال ہے کہ قیدیوں کی واپسی کا واحد راستہ معاہدہ ہے۔ جون کے آغاز میں ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ اسرئیل اور امریکہ نے مشترکہ بحری، برّی اور فوجی آپریشن کر کے چار مغویوں کو رہا کرا لیا۔ اس واقعے کی تفصیل سے قبل آپ کو تیرتی بندر گاہ کا قصہ سناتے ہیں۔ چھے مہینے سے سننےمیں آ رہا تھا کہ امریکہ غزہ میں عارضی بندر گاہ بنا رہا ہے۔ مئی میں امریکہ کی اس عارضی بندرگاہ سے(جسے تیرتی ہوئی بندر گاہ کہا جا رہا ہے) غزہ میں بڑی مقدار میں امدادی ٹرک داخل ہوئے۔ چند ہی دنوں بعد امریکہ نے یہ آپریشن بند کر دیا۔ جون کے پہلے ہفتے میں دوبارہ شمالی غزہ کے ساحل پر یہ بندرگاہ فعال ہو گئی۔ جبالیا سے انخلا کے بعد اسرائیلی افواج نے وسطی غزہ میں نصیرات کیمپ کا محاصرہ کیا اور چار مغوی رہا کروائے۔ سات اکتوبر سے اب تک اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ مغویوں کی تلاش میں جتے ہوئے تھے لیکن کوئی سراغ نہیں مل سکا تھا، یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ نے نصیرات کیمپ کے ایک مکان میں مغویوں کی موجودگی کی اطلاع دی۔ الجزیرۃ کے مطابق اسرائیل نے اپنی کمانڈو فورس کے دستے کو اس آپریشن کے لیےنصیرات بھیجا۔ دوسری طرف سےاسرائیلی اور امریکی سپاہیوں کادستہ ایک امدادی ٹرک میں رضاکاروں کا بھیس بدل کر مطلوبہ مکان پہنچا۔ عارضی امریکی بندر گاہ سے بھی اس آپریشن کی معاونت کی گئی اور انتہائی شدید فضائی بمباری اور دھماکوں میں یہ آپریشن انجام دیا گیا۔بمباری کے نتیجے میں تین سو کے قریب فلسطینی شہید اور چار سو سے زائد زخمی ہوئے۔ اس آپریشن میں تین مغوی ہلاک ہوئے۔ اسرائیلی فوج کا ایک اعلیٰ افسر اور اٹھارہ اسرائیلی کمانڈو جہنم واصل ہوئے اور چار مغوی زندہ حالت میں واپس اسرائیل پہنچا دیے گئے۔ الجزیرۃ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ چار میں سے ایک مغوی کو جس ہیلی کاپٹر نے ریسکیو کیا وہ عارضی بندر گاہ سے اڑا تھا، امریکہ نے اس کی تردید کی ہے۔یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ امریکہ کبھی بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور رہا جھوٹا بیان… تو وہ آج تک امریکہ کی حکومت نے کبھی نہیں دیا، کم از کم عراق اور افغانستان کے معاملے میں تو ہرگز نہیں۔ اب یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ اٹھارہ بہترین کمانڈو، ایک افسر اور تین شہری مروا کر چار قیدی چھڑانا، وہ بھی رضا کاروں کے بھیس میں، بہادر صیہونی فوج کی کامیابی ہے یا نہیں۔