صوفی جمیل الرحمٰن عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم
بیت المقدس کا تاریخی خاکہ
قسط نمبر۲۸
فلسطینیوں کی تحریکِ آزادی کی ’’انقلابی لہر‘‘ ۱۹۳۶ء سے جاری تھی اور اس میں کئی اتار چڑھاؤ آتے رہے۔ اس دوران برطانوی فوج اور پولیس پر ہزاروں حملے کیے گئے اور یہودیوں کی بستیوں پر چھے سو سے زائدحملےہوئے۔ صرف ۱۹۳۸ء کے ریکارڈ کے مطابق اس سال عرب شہدا کی تعداد چھے سو کے لگ بھگ رہی اور تین سو کے قریب یہودی اور تقریباً ایک سو برطانوی واصلِ جہنم ہوئے۔ اڑھائی ہزار عرب گرفتار کیے گئے جن میں سے پچاس کے قریب لوگوں کو پھانسی دی گئی۔ جب اگست ۱۹۳۸ء میں برطانوی وزیرِ نو آبادیات میلکم جان میکڈونلڈ فلسطین کے دورے پر آیا تو اس نے اپنے بیان میں کہا کہ فلسطینی تحریک کو آسانی سے کچلا نہیں جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک طرح سے برطانوی فوج کو اشارہ تھا کہ وہ مزید سختی کر سکتی ہے۔ اسی عرصے میں برطانوی فوجی قیادت کا بھی یہ بیان سامنے آتا رہا کہ فلسطینیوں کے پاس باہمی ربط و ضبط بھی ہے اور ان کے پاس عوامی طاقت بھی ہے۔ ۱۹۳۶ء میں جو مجاہد پانچ ہزار تھے اب وہ پندرہ ہزار ہو چکے ہیں۔ یہ بھی طاقت کے اندھے استعمال کے لیے جواز فراہم کرنا تھا۔ چنانچہ اکتوبر ۱۹۳۸ء میں جنرل رابرٹ ہین انگ کو فلسطین میں برطانوی فوج کا نیا آفیسر بنا کر بھیجا گیا۔ اس نے برطانوی فوجی ہیبت کا سکہ جمانے کے لیے مزید فوج منگوائی اور پڑوسی ممالک کی سرحدوں پر پہرے داری کا نظام قائم کیا اور چھے ہزار یہودی سپاہیوں کو یہاں متعین کیا تاکہ دوسرے ملکوں سے مجاہدین کو کمک نہ مل سکے۔ اس کے بعد اس نے انقلابیوں کے زیرِ انتظام علاقے واپس لینے کے لیے وحشیانہ کارروائیاں شروع کیں اور تحریک کو سختی سے کچلنا شروع کیا۔ تشدد کی اس نئی لہر میں کئی ہزار لوگوں کو شہید اور زخمی کیا گیا۔ چنانچہ فلسطینیوں کی انقلابی تحریک بہت کمزوری ہو گئی۔ خاص طور پر مارچ ۱۹۳۹ء میں امیرِ جہاد عبد الرحیم الحاج محمد ابو کمال کی شہادت کے بعد تحریک بالکل آخری مراحل میں داخل ہو گئی۔ مئی ۱۹۳۹ء میں فلسطین کی برطانوی حکومت نے وائٹ پیپر کے نام سے فلسطین کے بارے میں اپنی نئی پالیسی جاری کی۔ وائٹ پیپر میں کہا گیا کہ مسئلۂ فلسطین کا حل بہت مشکل ہے اس لیے فی الوقت تو کچھ نہیں کیا جا سکتا، البتہ دس سال کی مدت تک حکومتِ برطانیہ فلسطین کی مستقل حکومت قائم کر دےگی جو برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدے میں جڑی ہو گی۔ آزاد فلسطین کی ریاست کا قیام اس صورت میں عمل میں لایا جائےگا جب یہود و عرب دونوں قومیں اس حکومت میں مل جل کر رہنے کی قائل ہوں بلکہ ایک دوسرے کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے پر بھی راضی ہوں۔ ظاہر ہے ایسا ہو بھی جاتا تو یہ ایک طرح سے یہودی ریاست بنانے کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اس میں ایک شق یہ بھی تھی کہ جب دس سال کی مدت پوری ہونے کو آئےگی تو اگر حالات قیامِ سلطنت کے لیے سازگار نہ ہوں تو حکومتِ برطانیہ اسے موخر بھی کر سکتی ہے۔ البتہ اس کے لیے وہ اہلِ فلسطین، مجلسِ اقوامِ عالم اور پڑوسی عرب ممالک سے مشاورت کرےگی۔ عربوں کا دیرینہ مطالبہ یہ تھا کہ فلسطین میں جاری یہودی ہجرت پر پابندی لگائی جائے۔ حکومتِ برطانیہ نے ’’کمالِ انصاف ‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجراے اعلامیہ کے پانچ سال بعد سے ہجرت پر پابندی لگانے کا اعلان کیا۔ البتہ عربوں پر ’’احسان‘‘ کرتے ہوئے قرار دیا گیا کہ اس پانچ سال کے دوران اتنی ہی ہجرت کی جائے گی جس کا سہار فلسطینی زمین اور معیشت کر سکے گی (اس کا فیصلہ بھی ظاہر ہے فرنگیوں ہی نے کرنا تھا)۔
یہودیوں اور عربوں میں ایک مسئلہ زمینوں کی خرید و فروخت کا تھا۔ یہودی اور فرنگی باہمی ساز باز اور مکر وسازش سے مسلمانوں کی زمینیں بالخصوص زرخیز زرعی زمینیں ہتھیا رہے تھے۔ فلسطینی تحریک کا ایک اہم مطالبہ یہ بھی تھا کہ زمینوں کی خریدو وفروخت اور انتقال پر قانونی پابندی لگائی جائے۔ وائٹ پیپر میں زمینوں کی کچھ اقسام بنا دی گئیں۔ ایک قسم کی زمین کو ناقابلِ انتقال قرار دیا گیا جبکہ ایک قسم کی زمین کے انتقال کا محدود جواز رکھا گیا جبکہ ایک قسم کی زمین کو مطلق قابلِ انتقال قرار دیا گیا، لیکن ساتھ ہی یہ تصریح کر دی گئی کہ برطانوی ہائی کمشنر کو ان ضوابط پر ہر وقت نظرِ ثانی کا حق حاصل رہےگا۔ وائٹ پیپر میں یہودیوں کے ساتھ انگریزوں کے فوجی تعاون کو مزید وسیع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ چنانچہ یہودیوں نے اس کے بعد بہت زیادہ فوجی ترقی کی۔ وائٹ پیپر کی اشاعت کے کچھ عرصے بعد دوسری عالمی جنگ (ستمبر یکم ۱۹۳۹ء تا دو ستمبر ۱۹۴۵ء ) شروع ہو گئی۔ اس دوران فلسطینی تحریک تقریباً مفلوج ہی رہی۔ اس عرصے میں فلسطین اور دوسرے عرب ممالک کی سیاست مطالبات تک محدود رہی۔ کبھی یہودی ہجرت پر پابندی کا مطالبہ اور کبھی نئی بستیوں کے قیام پر پابندی کا مطالبہ اور کبھی کوئی اور مطالبہ، البتہ یہود نے اس موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر محوری طاقتوں کے خلاف لڑنا قبول کیا۔ انھوں نے شرط لگائی کہ ہمارے لوگ صرف جرمن محاذ پر ہی لڑیں گے اور یہ کہ یہودی افواج، یہودی جھنڈے کے ساتھ لڑیں گی تاکہ وہ ممتاز ہو سکیں اور ان کی پہچان نمایاں ہو سکے۔ جنگِ عظیم دوم میں برطانیہ کی حمایت میں جنگ میں شا مل ہونے سے یہودیوں نے بہت فائدہ اٹھایا۔ اس دوران یہودی دہشت گرد تنظیموں ’’ہاگاناہ‘‘، ’’ارگون‘‘ اور ’’نوتریم‘‘ کو بہت زیادہ منظم کیا گیا۔ ان کے تربیتی کیمپ بنائے گئے اور انھیں اسلحے کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اسلحے کے استعمال کی تربیت بھی دی گئی۔ اسی دور میں یہودیوں نے اپنے زرعی رقبوں میں اسلحہ سازی بھی شروع کی ساتھ ہی بولونیا وغیرہ اور خود برطانیہ سے کئی لاکھ پونڈ مالیت کا اسلحہ یہودیوں نے خریدا۔ جنگ کے دوران پولینڈ اور برطانیہ کے ہزاروں یہودی فوجی چوری چھپے اسرائیل میں آباد کر کے جماعتِ یہود کا حصہ بنا دیے گئے۔ اس طرح منظم یہودی افواج کی تعداد ساٹھ ہزار تک جا پہنچی۔ جنگِ عظیم کی آڑ میں یہودیوں نے غیر قانونی ہجرت کا سلسلہ جاری رکھا۔ درجنوں فارم ہاوس اور نئی بستیاں قائم کی گئیں۔ الجلیل اور الخلیل وغیرہ کے علاقے میں پچاس کے قریب بستیاں آباد کی گئیں جن میں یہودی دہشت گرد تنظیموں کے اراکین کو بسایا گیا تاکہ آنے والے مراحل میں جنگی قوت مہیا رہے۔ یہودی دہشت گرد تنظیمیں ’’ہاگاناہ‘‘ اور ’’ارگون‘‘ مختلف دہشت گردانہ کارروائیوں میں مصروف تھیں۔ 1941ء میں ہاگاناہ کے دو درجن کے قریب دہشت گردوں نے کسی برطانوی افسر کی قیادت میں ایک آئل ریفائننری کو تباہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا جو جرمن فوجوں کو پٹرول فراہم کرتی تھی۔ یہ مہم ناکام رہی اور اس میں شامل تمام یہودی واصلِ جہنم ہوئے۔ اسی سال یہودی دہشت گرد تنظیم ہاگاناہ نے ارگون تنظیم کے ساتھ مل کر مفتی الحاج امین الحسینی مقیم بغداد کو گرفتار یا اغوا کرنے کی کوشش کی۔ اللہ کے فضل سے یہ مہم بھی ناکام رہی اور دیگر یہودیوں کے ساتھ ارگون کا ایک لیڈر ڈیوڈ رازیل بھی مارا گیا۔ مئی ۱۹۴۲ء میں نیویارک کے بلٹ مور ہوٹل میں ایک یہودی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جو ’’بالٹ مور کانفرنس‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کانفرنس نے یہودی ہجرت پر سے ہر قسم کی پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ کانفرنس کے اعلامیے میں یہودی ریاست کے قیام کو ایک نیا رخ دیا گیا۔ اعلانِ بال فور کے مطابق فلسطین میں یہود کی قومی ریاست بنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ لارڈ بیل کمیٹی نے ۱۹۳۷ء میں فلسطین کے ایک حصے میں یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کیا تھا، لیکن بالٹ مور کانفرنس نے پورے فلسطین میں ’’یہودی دولتِ مشترکہ‘‘ بنانے کا مطالبہ کیا۔
یہ پہلے بیان ہو چکا کہ بعض یہودی انتہا پسند دہشت گرد تنظیمیں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ فلسطین کی برطانوی حکومت کے خلاف بھی دہشت گردانہ کارروائیاں کیا کرتی تھیں۔ ان کے خیال میں فلسطین انتدابِ برطانیہ یہودی ریاست کے قیام میں تاخیر کر کے جرم کا مرتکب ہو رہی ہے۔ ۱۹۴۴ء میں یہودی دہشت گردوں نے قاہرہ میں ایک برطانوی وزیر پر حملہ کیا۔ اس کا الزام فلسطینی مسلمانوں پر لگا کر ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کر دی گئیں اور سینکڑوں مسلمانوں کو جلا وطن کر دیا گیا۔ جنگِ عظیم میں اگرچہ اتحادیوں کو فتح ہوئی تھی لیکن اس فتح میں امریکی مداخلت کا کردار بہت زیادہ تھا۔ برطانیہ کی ریاست جنگِ عظیم کے سبب بہت کمزور ہو چکی تھی۔ کئی علاقے برطانیہ کے قبضے سے نکل چکے تھے اور برطانیہ بھی آزادی مانگنے والوں کو آزاد کرتا جا رہا تھا۔ جس کی نمایاں مثال برِصغیر پاک و ہند ہے۔ اگرچہ برطانیہ کی ہمدردیاں یہودیوں کے ساتھ تھیں لیکن جنگ کے بعد کے حالات کے سبب وہ ذرا سنبھل کے چل رہے تھے جبکہ یہودی انتہا پسند اپنے مقاصد کی تکمیل میں زیادہ تیزی دکھا رہے تھے۔ انھوں نے اب دو رُخوں پر کام کرنا شروع کیا۔ انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ برطانیہ کی اب وہ حیثیت نہیں رہی جو جنگ سے پہلے تھی بلکہ اس مقام پر اب امریکہ فائز ہو چکا ہے، لہذا انھوں نے امریکہ میں اپنی لابی کو متحرک کر کے اسے اپنے قضیے میں ملوث کرنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ دوسری طرف یہودیوں نے فلسطین میں برطانیہ مخالف ’’دہشت گردی‘‘ کرتے ہوئے نہ صرف سرکاری املاک بلکہ برطانوی افواج اور پولیس پر حملے شروع کیے۔ برطانوی حکومت نے اس کے جواب میں ظاہر ہے کہ ’’سختی‘‘ سے کام لیا۔ لیکن انھیں علاقائی اور عالمی حالات اور طاقت کے نئے مراکز اور بدلتے توازن کا خوب اندازہ تھا۔ اس لیے برطانیہ کی بھی خواہش تھی کہ مسئلۂ فلسطین میں ’’نیو سپر پاور‘‘ امریکہ کی مداخلت کو یقینی بنایا جائے۔ چنانچہ برطانوی سیاست دان آرنسٹ بیون نے ایوانِ نمائندگان میں مسئلۂ فلسطین پر خطاب کرتے ہوئے مسئلے کے حل کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کی تجویز دی جو برطانوی اور امریکی نمائندوں پر مشتمل تھی، چنانچہ ’’اینگلو امریکن کمیٹی‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مارچ ۱۹۴۶ء کے ابتدائی دنوں میں کمیٹی نے فلسطین کا دورہ کیا۔ یہود کی طرف سے وائز مین اور بن گوریان شریک ہوئے جبکہ فلسطینیوں کی طرف سے جمال الحسینی شریک ہوئے۔ مارچ کے آخر میں اینگلو امریکی کمیٹی کا دوسرا اجلاس ’’لوزان‘‘ کے مقام پر ہوا جس میں حتمی سفارشات کا اعلان کیا گیا۔ یہ سفارشات یہودی مفادات کے تحفظ میں تھیں اور برطانیہ کے بجائے امریکی ارکانِ کمیٹی ان تجاویز کے مُجَوِز تھے۔ سفارشات کے مطابق فلسطینی زمینوں کی خریدو فروخت اور انتقال پر تمام پابندیاں اور ضوابط معطل کر کے ہر کسی کو ہر قسم کی زمین خریدنے اور انتقال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ یہودی آباد کاری کے لیے فلسطین سے بہتر علاقہ کوئی نہیں ہے۔ حکومتِ برطانیہ نے کسی وقت پچھتر ہزار یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس تعداد کے مکمل ہونے کے بعد ’’مسلمانوں کی موافقت‘‘ کے بغیر ایک یہودی بھی فلسطین میں آباد نہ کیا جا سکے گا۔ بعد میں حکومتِ برطانیہ نے اپنے اس وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پندرہ سو یہودیوں کو ہر مہینے ہجرت کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ اب اینگلو امریکن کمیٹی نے قرار دیا کہ ہم یہودیوں کی ہجرت پر مسلمانوں کی اجازت کی شرط کو مسترد کرتے ہیں، اس لیے کہ اس سے مسلمانوں کو یہودیوں پر فوقیت حاصل ہونے کا اندیشہ ہے۔ کمیٹی نے یہودیوں کی ہجرت پر سے پابندی اٹھاتے ہوئے ایک لاکھ یہودیوں کو سال ۱۹۴۶ء میں یہاں آباد کرنے کا اعلان کیا۔ کمیٹی نے قرار دیا کہ امن و امان کے لیے یہودی مسلح تنظیموں کا وجود بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کمیٹی کی کئی سفارشات صحت و تعلیم وغیرہ کے متعلق تھیں۔ یہ یہود کی ایک بڑی کامیابی تھی۔ یہودی صحافیوں نے اس پر بہت خوشیاں منائیں اور اسے مسلمانوں کی شکست سے تعبیر کیا۔ جس دن یہ اعلامیہ صادر ہوا اسی دن امریکی صدر ہیری ایس ٹرو مین نے اس کی حمایت میں تقریر کی اور اسے یہودیوں کے قومی وطن کی جانب ایک پیش رفت قرار دیا۔
جاری ہے
کتابیات:
القدس و المسجد الأقصی عبر التاریخ، دکتور محمد علي البار، دارالقلم، دمشق
واقدساه، دکتور سید حسین العفاني مکتبة دار البیان الحدیثیة، السعودیة، الطائف
فلسطین في عهد الانتداب، دکتور أحمد طربین،shorturl.at/druNO
الثورة الکبریٰ العربیة في فلسطین، صبحي محمد یاسین، noor-book.com/wgper0
مذکرات عوني عبد الهادي، مرکز دراسات الوحدةالعربیة، بیروت لبنان، سبتمبر ۲۰۰۲ء