یہود کی ازلی بزدلی
سیدنا عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سورۃُ الحشر کو ’’سورۃُ بنی نضیر‘‘ بھی کہا کرتے تھے، اس لیے کہ اس سورت میں یہودِ مدینہ کے ایک قبیلے بنو نضیر کو اس کی غداریوں اور بد عہدیوں کی سزا دیتے ہوئے جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ اس جلاوطنی کے لیے اَلْحَشْرِکا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جس کی بنا پر اس سورت کا نام سورۃ الحشر پڑ گیا۔ یہاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے أَوَّلِ الْحَشْرِ کی ترکیب استعمال کی یعنی یہ تو پہلا حشر ہے ابھی اور بھی ہونے ہیں۔ فلسطین میں حماس اور اسرائیل کی جنگ کئی مہینوں سے جاری ہے، ہم کہتے ہیں کہ عن قریب مجاہدین اسرائیل کا حشر نشر کریں گے، لیکن بظاہر ِاحوال یہ دیوانے کی بڑ معلوم ہوتی ہے۔ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں لیکن پھر بھی کہتے ہیں کہ یہود کا حشر نشر ہونے والا ہے، اس لیے کہ ’’پہلے حشر‘‘ کے موقعے پر بھی بظاہر احوال کچھ ایسے ہی تھے۔ لوگوں کو یقین نہیں تھا کہ یہود کا حشر ہونے والا ہے نہ مسلمانوں کو اور نہ ہی یہودیوں کو۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقعے پر دو طرفہ کیفیات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿مَا ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا وَظَنُّوا أَنَّهُمْ مَانِعَتُهُمْ حُصُونُهُمْ مِنَ اللَّهِ﴾ (سورۃالحشر: ۲) ’’تم نہیں سمجھتے تھے کہ وہ نکل جائیں گے اور وہ یہود بھی سمجھتے تھے کہ انھیں ان کے قلعے اللہ کی پکڑ سے بچا لیں گے‘‘۔ لیکن ہوا کیا کہ اللہ نے انھیں آ لیا، ان کے دلوں میں رعب طاری ہو گیا اور اپنے گھر بار اُجاڑ کر مدینہ کی بستی کو اپنے ناپاک وجود سے پاک کر دیا۔ سورۃ الحشر کے اشارے اور احادیثِ مبارکہ کی تفصیلات کی روشنی میں ہمارا ایمان ہے کہ عن قریب یہود شکست کھا کر تتر بتر ہونے والے ہیں۔ حق و باطل کے اس معرکے میں یہ تو نتیجے کا بیان تھا جو ابھی ظہور پذیر ہونا ہے لیکن اس معرکے میں جو مرحلہ اس وقت مسلمانوں کو درپیش ہے اور یہود کی جس بری خصلت کا ظہور ہو رہا ہے اس کی طرف بھی اشارہ سورۃ الحشر میں پایا جاتا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلا فِي قُرًى مُحَصَّنَةٍ أَوْ مِنْ وَرَاءِ جُدُرٍ﴾ (سورۃ الحشر:۱۴) ’’وہ تم سے نہیں لڑیں گے اکھٹے ہو کر مگر قلعہ بند بستیوں میں یا دیواروں کے پیچھے سے‘‘۔ دو بدو لڑائی میں تو ان کا یہی شیوہ رہا۔ اب جب کہ لڑائیاں دو بدو کے بجائے ’’دور دور‘‘ سے ہونے لگیں تو ان کی قلعہ بندی کی صورت بھی بدل گئی اب وہ زیادہ تر جنگ ’’جہاز بند‘‘ ہو کر لڑتے ہیں۔ ذرا رُکیے! اس سے پہلے کہ بھائی لوگ ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانے کی ’’حقیقت کا آئینہ دکھا‘‘ کر ہمارا منھ چڑانے کی کوشش کریں ہم جلدی سے کہتے ہیں کہ ہمیں ا ن کے جہاز بند ہونے پر بھی کوئی شکوہ نہیں ہے۔ لیکن قابلِ مذمت بات دوسری ہے، یہ وہ بات ہے جس کی طرف ہمیں بعض تفسیروں میں آدھا ادھورا اشارہ ملتا ہے۔ جہاں﴿لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا﴾ ’’وہ تم سے نہیں لڑیں گے اکھٹے ہو کر‘‘۔ کی تفسیر میں کہا گیا: لَا يَقْدِرُونَ عَلَى مُوَاجَهَةِ جَيْشِ الْإِسْلَامِ.’’وہ لشکرِ اسلام کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے‘‘۔ تو جس طرح ہر بزدل ہمیشہ بزدل نہیں ہوتا بلکہ کمزور فریق کو دیکھتے ہی بہادر بن جاتا ہے تو یہودی بھی ’’اتنے بزدل‘‘ نہیں ہیں، نہتے عوام کے سامنے ان کی بہادری خوب چلتی ہے۔ غزوۂ خندق میں بھی یہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے مسلمانوں کے ان گھروں پر حملہ آور ہونے میں کوشاں رہے جہاں عورتوں اور بچوں کو محفوظ رکھا گیا تھا۔ آج بھی ان کی اسی خباثت کا ظہور ہو ر رہا ہے۔ خان یونس اور جبالیہ میں مار کھانے کے بعد انھوں نے اب میدانِ جنگ رفح کے مہاجر کیمپوں کو بنا لیا ہے۔ درحقیقت رفح پر ان کے حملے ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ کی مثال ہیں۔ اللہ کے فضل سے مجاہدین نے ان کی خوب خبر لی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ امتِ مسلمہ کے حکمرانوں کی بے حسی انتہائی تکلیف دہ ہے جس سے بحیثیتِ مجموعی امتِ مسلمہ میں مایوسی و ناامیدی کی فضا بنی ہوئی ہے۔ مگر اس ساری صورت حال میں اللہ کے فضل وکرم سے چند حوصلہ افزا باتیں سامنے آ رہی ہیں، جن کی تفصیلات ’’مفاہیم‘‘ کے قارئین کی خدمت میں پیش ہیں: ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ جب سے نیتن یاہو نے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ رفح پر حملہ کرنے کا اعلان کیا ہے تب سے اسرائیلی قابض فوج القسام بریگیڈ سے توقعات کےبرعکس مسلسل مار کھا رہی ہے۔ بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ شاید یہ اس جنگ کا آخری مرحلہ ہوگا اس لیے نیتن یاہو جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے مگر القسام کی جوابی کارروائی نے پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ قابض فوج کو جب میدان میں سخت جواب ملا تو اس نے حسبِ عادت معصوم اور بےگھر فلسطینی بچوں اور عورتوں کے کیمپوں پر اندھا دھند بمباری کر کے شہید کرنا شروع کر دیا اور مزید اپنی رسوائی اور روسیاہی میں اضافہ کیا۔ اب اس کے سرپرست ممالک برطانیہ، جرمنی، فرانس اور بالخصوص امریکہ کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ دنیا کے سامنے اسرائیل کے احمقانہ اقدامات کی کیا توجیہ پیش کرے۔ دوسری بات جو اہلِ فلسطین کے لیے نہایت حوصلہ افزا ہے وہ یہ کہ اب مغرب میں بھی ان کی آواز مؤثر انداز میں سنی جانے لگی ہے۔ عوامی سطح سے اٹھ کر تعلیمی اداروں میں خاص طور پر اسرائیل کے سرپرست امریکہ کی متعدد معروف جامعات میں اہلِ فلسطین کے حق میں تاریخ ساز احتجاج شروع ہوا ہے، جس نے امریکی اشرافیہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسی طرح برازیل نے تل ابیب سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسپین، ناروے، اور آئرلینڈ نے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اٹھائیس مئی سے فلسطینی ریاست کو باقاعدہ تسلیم کیا ہے۔ پرتگال، بلجیم اور سلووینیا نے بھی اس اقدام کو نہ صرف سراہا ہے بلکہ خود بھی اس اقدام پر غور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سال جن ممالک نے فلسطین کو تسلیم کیا ہے ان میں بہاماس، ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو، جمیکا اور بارباڈوس بھی شامل ہیں۔ ان ممالک سے پہلے متعدد یورپی اور امریکی ممالک سویڈن، میکسیکو، کولمبیا، ویٹی کن، ارجنٹائن، بولیویا، چلی، مالٹا اور آئس لینڈ فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں۔ ایشیائی اور افریقی ممالک کے بعد مغربی ممالک کے یہ اقدامات درحقیقت انسانی ضمیر کی آواز ہے اور یہی اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے لیے شکست کا پیغام ہے۔ ایک انتہائی اہم بات یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کی مدعیت میں عالمی عدالتِ انصاف نے نیتن یاہو اور دیگر اسرائیلی رہنماؤں کو جنگی مجرم قرار دیا اور رفح پر حملہ کرنے سے باز رہنے کے ساتھ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو ناجائز قرار دیا۔ یہ فیصلہ جہاں اہلِ فلسطین کی امنگوں کے عین مطابق ہے وہاں اس نے جنگی مجرم نیتن یاہو اور اس کے سرپرست امریکہ کی مایوسی میں اضافہ کیا ہے۔ نوبت یہاں تک آئی ہے کہ یورپی یونین اب اسرائیل پر پابندیوں کا عندیہ دے رہی ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ اقدامات مظلوم فلسطینیوں کو حوصلہ دے رہے ہیں کہ ظلم کی یہ سیاہ رات جلد روشن دن میں بدلنے والی ہے، لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے!