مولانا حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر ماہ نامہ مفاہیم کراچی
طوفان الاقصیٰ کے سات ماہ بعد
سات اکتوبر ۲۰۲۳ءکو غزہ سے جو سورج طلوع ہوا، آج اس کی روشنی سے پوری دنیا منور ہے۔ ہر نیا دن اس زمین پر اہلِ غزہ کی حمایت میں اضافہ کرتا ہے، کہیں قبلۂ اوّل کی حفاظت کی خاطر تو کہیں مظلوم فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے۔ صیہونی افواج نے شمال سے جنوب تک اہلِ فلسطین کو جھکانے کا ہر حربہ آزما لیا لیکن اب تک کوئی ہدف حاصل نہ کرسکیں۔ یہ غاصب صیہونی اپنی ریاست کی سات دہائیوں پر مبنی تاریخ ہی دیکھ لیتے تو فلسطینیوں کے جذبے اور استقامت سے غافل نہ ہوتے۔ ان کی بے عملی اور کم عقلی پر قرآنِ کریم نے ان کو گدھے سےتشبیہ دی ہے۔
غزہ میں سات اکتوبر سے اب تک پینتیس ہزار شہدا کی میتیں سپردِ خاک کی جاچکی ہیں، جو شہدا ملبے تلے ہیں ان کی تعداد معلوم نہیں۔ اٹھتر ہزار زخمیوں کی نگاہیں اپنے زخموں پر مرہم کے لیے عالمِ اسلام کی طرف اٹھی ہوئی ہیں اور عالمِ اسلام سراپا بےحسی اور بےبسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔اس وقت فلسطینی مسلمان غزہ میں بھی اور مغربی کنارے میں بھی قابض افواج کے خلاف اپنی بساط کے مطابق جہاد میں مصروف ہیں۔ غزہ میں بیتِ حانون سے خان یونس تک ہر محلہ اسرائیلی بمباری سے اجڑ چکا ہے۔ صرف ایک چھوٹا سا شہر رفح باقی ہے جہاں پندرہ لاکھ فلسطینی پناہ گزیں ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور دیگر وزرا بار بار رفح پر زمینی حملے کی دھمکیاں دے کر حماس کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اسرائیلی شرائط پر صلح کرلے لیکن مجاہدین واضح کر چکے ہیں کہ وہ اپنی شرائط پر صلح کریں گے، ورنہ آخری دم تک لڑتے رہیں گے۔ یا شہادت ملے گی یا فتح !
شمالی غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا کے بعد مجاہدین نے دوبارہ مقبوضہ فلسطین پر راکٹ اور میزائل حملے شروع کردیے ہیں۔ یمن، لبنان اور عراق سے بھی مسلسل حملوں کی خبریں الجزیرۃ پر نشر ہوتی رہتی ہیں۔ اسی طرح مغربی کنارے میں ایک طرف مجاہدین مسلسل جہادی کارروائیوں میں مصروف ہیں، دوسری طرف فلسطینی شہری بھی قابض افواج کے خلاف مقدور بھر کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ گذَشتہ دو ماہ میں چاقو سے حملے کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔ اہلِ فلسطین کی قربانیوں کی تاریخ تو بہت طویل ہے،حال ہی میں سیاحت کے لیے فلسطین آئے چونتیس سالہ ترک سیاح حسن سکالان نے مسجدِ اقصیٰ کے قریب ایک گلی میں اسرائیلی فوجی پر چاقو سے حملہ کیا اور فوجی کو زخمی کردیا۔ فورًا ہی ایک دوسرے سپاہی نے حسن کو گولی مار کر شہید کردیا۔ حسن سکالان کا یہ عمل مشعلِ راہ ہے،ان شاءاللہ اس طرح کی کارروائیوں میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید تیزی آتی جائے گی۔
اسرائیلی حکومت کے لیے اس وقت ایک بہت بڑا محاذ غزہ میں قید اسرائیلیوں کے اہلِ خانہ کا احتجاج ہے جو اب شدت اختیار کر چکا ہے۔ اسرائیلی میڈیا آئے روز تل ابیب، رملہ، یروشلم اور دیگر شہروں میں احتجاج کے مناظر شائع کرتا ہے۔ حالیہ جنگ کے دوران گذَشتہ دنوں ایک بڑا واقعہ یہ رونما ہوا ہے کہ امریکی جامعات میں اسرائیل کو جاری کی گئی امریکی امداد کے خلاف طلبہ کا احتجاج شروع ہوچکا ہے اور خاص طور پر جامعہ کولمبیا، جامعہ کیلیفورنیا، جامعہ ایریزونا، جامعہ فورڈھم، جامعہ ٹیکساس، جامعہ فلوریڈا، جامعہ نیومیکسیکو میں بڑے پیمانے پر جبکہ بعض دیگر جامعات میں چھوٹے پیمانے پر اہلِ غزہ سے اظہارِ یکجہتی اور صیہونی مظالم کے خاتمے کا مطالبہ کیا جا رہاہے۔ مذکورہ جامعات میں طلبہ خیمے ڈال کر جامعہ کے احاطوں میں مقیم ہیں اور متعدد اساتذہ بھی ان کے ساتھ شریک ہیں۔ پولیس مارپیٹ، شیلنگ،گرفتاریوں اور رکاوٹوں کے باوجود انھیں روکنے میں ناکام ہے۔ جرمنی، فرانس اور برطانیہ سے بھی کہیں کہیں اس طرح کے واقعات نشر ہوئے ہیں۔
ان سطور میں ہم نے معرکۂ طوفان الاقصیٰ کی حالیہ صورتِ حال پر تبصرے کی کوشش کی ہے، ہم قارئین سے گزارش کرتے ہیں کہ قضیۂ فلسطین کو ہر جگہ اور ہر وقت پیشِ نظر رکھیں۔ کہیں گفتگو سے، کہیں تحریر سے، کہیں سوشل میڈیا پر تبصرے سے اور کہیں فلسطینی جھنڈےاور رومال سے قضیۂ فلسطین کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں۔ اپنے حلقوں میں اس قضیے سے متعلق آگاہی پیدا کریں اور اہلِ فلسطین کے لیے دعاؤں کا اہتمام کرتے رہیں۔ خود بھی وہاں کے لیے زکوٰۃ وصدقات بھیجنے کا اہتمام کریں اور لوگوں کو بھی اس جانب راغب کریں۔ قضیۂ فلسطین کی تفہیم کے لیے ماہ نامہ ’’مفاہیم القدس نمبر‘‘ اگر آپ تک نہیں پہنچا تو ابھی حاصل کیجیے اور نظریاتی سطح پر بھی اس مسئلے کی اہمیت سے خود کو آگاہ رکھیے۔ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔