یسئلونک دارالافتاء، فقہ اکیڈمی
مہمان نوازی کا طریقہ
سوال: سوال یہ ہے کہ مہمان نوازی کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ آج کل مہنگائی بہت زیادہ ہوگئی تو مہمانوں کی خاطر مدارت کس طرح کی جائے؟ کیا ایک کھانا رکھا جاسکتا ہے یا زیادہ ڈشز رکھنی چاہییں؟ اگر جیب اجازت نہ دیتی ہو تو مہمان نوازی کس طرح کی جائے؟ تفصیلی رہنمائی فرما دیں۔ جواب: مہمان کے حق سے متعلق رسول اللہﷺکا ارشاد گرامی ہے: «مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَجَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَ صَاحِبِهِ حَتَّى يُحْرِجَهُ، الضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، وَمَا أَنْفَقَ عَلَيْهِ بَعْدَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، فَهُوَ صَدَقَةٌ» .(سننِ ابن ماجہ) ’’رسول اللہﷺسے مروی ہے کہ جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتاہو اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے اور مہمان کے لیے اچھے یعنی پُرتکلف کھانے کا اہتمام ایک دن ایک رات ہے۔ اورمہمان کےلیے یہ حلال نہیں کہ میزبان کے پاس اتنا ٹھہرے کہ وہ تنگ ہوجائے۔ اورایک مہمانی تین دن تک ہے، اس کے بعد میزبان جو کچھ خرچ کرےگاوہ صدقہ ہوگا‘‘۔ مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں علماے کرام نے لکھا ہے کہ مہمان کے اکرام میں اپنی وسعت کے مطابق پہلے دن گھر کے عام کھانے میں تھوڑا تکلف کرے، مثلاً ایک کے بجائے دو کھانے ہو جائیں، اوردوسرے اور تیسرے دن گھر کا عام کھانا کھلایا جائے۔ یہ ضروری نہیں کہ مہمان کے لیے بہت سارے کھانے پکائے جائیں۔ اپنی وسعت کے بقدر جتنا اکرام و اعزاز کیا جاسکتا ہے، کیا جائے، اگر ایک کھانا تیار کرنے کی بھی گنجائش نہ ہو تو میزبان اپنی وسعت کے مطابق جو کچھ بھی میسر ہو پیش کر سکتا ہے۔ قوله: (وجائزته) الجائزة العطية، أي: ليتكلف في اليوم الأول بما اتسع له من بر أو ألطاف، وفي اليوم الثاني والثالث يكفي الطعام المعتاد. (أن يثوي) من ثوى بالمكان، أي: أقام به من حد ضرب. (حتى یحرجه) بالحاء المهملة من الإحراج والتحريج والحرج هو الضيق أي: حتى يضيق عليه ويحتمل أنه بالحاء المعجمة من الإخراج، لكن المشهور رواية الأول. (حاشية السندي على سنن ابن ماجه، ج:۲، ص: ۳۹۲) جائزته: أَي الطَّعَام الْمُكَلف وَهُوَ من إجَازَة كَذَا أَي أعطَاهُ والطفه، ووجوبها كَانَت فِي ابْتِدَاء الإسَّلَام عِنْد الْجُمْهُور ثمَّ من مَكَارِم الْأَخْلَاق. وَفِي قَوْله من كَانَ يُؤمن بِاللَّه وَالْيَوْم الاخر: إِشَارَة الى ان هَذِه الْخصْلَة من خِصَال الْمُؤمنِينَ، وَأول من سنه إِبْرَاهِيم عَلَيْهِ السَّلَام، وَذكر الْعَارِف الجامي فِي النفحات ان القطب الرباني أَبَا مَدين المغربي قيل لَهُ يَا أَبَا مَدين مَالك لَا تحترف، قَالَ: الضَّيْف إِذا نزل عنْدكُمْ كم حق ضيافته؟ قَالُوا: جائزته يَوْم وَلَيْلَة وضيافته ثَلَاثَة أَيَّام. قَالَ: الله أكبر انا نرحل من الدُّنْيَا وَيبقى لنا على رَبنَا ضيافتنا فان يَوْمًا عِنْد رَبك كالف سنة مِمَّا تَعدونَ فانا جِئْنَا فِي الدُّنْيَا ضيفا على رَبنَا فَيبقى عَلَيْهِ بقيات. وَقَوله ان يثوى: أَي يُقيم من ثوى يثوى إِذا أَقَامَ وَحَتَّى يحرجه أَي يوقعه فِي الْحَرج والضيق (إنْجَاح) قَوْله وجائزته يَوْم وَلَيْلَة. قَالَ فِي النِّهَايَة أَي يُضَاف ثَلَاثَة أَيَّام فيتكلف فِي الْيَوْم الأول مِمَّا اتَّسع لَهُ من بر والطاف وَيقدم فِي الْيَوْم الثَّانِي وَالثَّالِث مَا حَضَره عَادَة ثمَّ يُعْطِيهِ مَا يجوز بِهِ مَسَافَة يَوْم وَلَيْلَة، وَتسَمى الجيزة وَهِي قدر مَا يجوز بِهِ من منهل الى منهل فَمَا كَانَ بعد ذَلِك فَهُوَ صَدَقَة مُخَيّر فِيهِ وَكره لَهُ الْمقَام بعده لِئَلَّا يضيق بِهِ اقامته مِصْبَاح الزجاجة. (شرح سنن ابن ماجه للسيوطي، ص: ۲۶۱) ۱۰ نومبر ۲۰۲۲ء فتوی نمبر : ۵۶۶۸ واللہ اعلم بالصواب