مولانا سید اسامہ علی
استاذ و نائب مدیر فقہ اکیڈمی
قصیدة البردة کے منتخب اشعار
حالاتِ زندگی امام شرف الدین محمد بن سعید البوصیری رحمہ اللہ یکم شوال ۶۰۸ ھ بمطابق ۷، مارچ ۱۲۱۳ء کو مصر کے ایک قصبہ دلاص میں پیدا ہوئے۔ ان کا نسلی سلسلہ مشہور بر بر قبیلے صنہاجہ تک پہنچتا ہے ۔ وہ خاندان کی نسبت سے صنہاجی، مقامِ ولادت کی نسبت سے دلاصی اور مقامِ سکونت کے تعلق سے بوصیری کہلاتے ہیں۔ان کی کنیت ابو عبد اللہ تھی۔ تیرہ سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا۔ دیگر علومِ دینیہ کے ساتھ ساتھ علمِ ادب، بدیع، بیان اور صرف و نحو میں انھیں خاص مہارت حاصل تھی۔ شعر گوئی اور خطاطی سے بھی شغف تھا۔ حصولِ علم کے ساتھ ساتھ تصوف کے میدان میں مشہور مصری صوفی ابو العباس احمد المرسی رحمہ اللہ (متوفیٰ: ۶۸۶ھ) سے کسبِ فیض کیا،شیخ کی صحبت کے سبب ان کے کلام میں سوز وگداز نظر آتاہے۔ قاہرہ میں فکرِ معاش انھیں ابتدا میں امرا کے درباروں میں لے گئی، جہاں وہ خطاطی، کتابت، اور شعر گوئی سے اپنی دھاک بٹھاتے رہے۔ ۵۰ سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد اپنے پیر و مرشد سے تعلق قائم ہوا، زندگی کی کایا پلٹی۔ ارضِ مقدس فلسطین اور حرمین شریفین کے اسفار کیے اور ۶۹۵ھ میں مصر ہی میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ قصیدے کا تعارف اس قصیدے کا نام الكواكب الدرية في مدح خير البرية ہے، بعض اس کو قصيدة البردة بھی کہتے ہیں۔ اس کی وجۂ تسمیہ کے سلسلے میں امام بوصیری رحمہ اللہ کا ایک بیان نقل کیا جاتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مجھ پر فالج کا حملہ ہوا، جس سے میرا آدھا دھڑ سُن ہو گیا۔ جب میں اس کے علاج سے مایوس ہو گیا تو میں نے رسول اللہﷺکی شانِ اقدس میں یہ قصیدہ لکھا اور اس کے توسط سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ مجھے صحت عطا فرمائے اور اس بیماری سے نجات دے۔ اس مقصد کے لیے میں نے کئی بار اس قصیدے کو نہایت الحاح و تضرع کے ساتھ پڑھا اور اسے اپنی نجات کا وسیلہ بنایا۔ اسی حالت میں مجھے نیند آ گئی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ جنابِ رسولِ اکرمﷺتشریف لائے اور آپ نے اپنا دستِ مبارک میرے بدن پر پھیرا اور اپنی چادر مبارک (بردہ) مجھ پر ڈال دی۔ جب میری آنکھ کھلی تو مجھے ایسا لگا کہ میرے بدن میں حرکت پیدا ہو گئی ہے۔ میں بے اختیار اٹھ کھڑا ہوا اور چلنے لگا، اور چلتے چلتے گھر سے باہر آ گیا۔ چونکہ اس قصیدے کی برکت کے باعث امام بوصیری رحمہ اللہ کو فالج سے شفا حاصل ہوئی، اس لیے اس قصیدے کا نام البرءة(بیماری سے شفا) پڑ گیا۔ اور چونکہ انھوں نے یہ قصیدہ پڑھنے کے بعد خواب میں دیکھا کہ رسول اللہﷺنے اپنی چادر (بردہ) اُتار کر اُن پر ڈال دی ہے، اس لیے اس قصیدے کو قصيدة البردة بھی کہتے ہیں اور یہی نام زیادہ مشہور بھی ہوا۔
فصلِ اول عشقِ رسولﷺکے ذکر میں
فصلِ اول میں آغاز کےسات اشعار تشبیب پر مشتمل ہیں، مقامات میں سب حجازی نام مذکور ہیں (ذی سلم، کاظمہ، اضم)۔
أَمِنْ تَـذَكُّرِ جِيْرَانٍ بِـذِيْ سَـلَمِ مَزَجْتَ دَمْعـاً جَرٰى مِنْ مُّقْلَةٍ بِدَمِ
أَمْ هَبَّـتِ الرِّيْحُ مِنْ تِلْقَآءِ كَاظِمَـةٍ وَأَوْمَضَ الْبَرْقُ فِي الظَّلْماءِ مِنْ إِضَمِ
’’ کیاتم ذی سلم کے پڑوسیوں (دوستوں) کو یاد کر کے خون کے آنسو رو رہے ہو؟ یا ان آنسوؤں کا سبب کاظمہ کی جانب سے ہوا کا چلنا یا وادیٔ اضم سے اندھیری رات میں بجلی کا چمکنا ہے؟‘‘۔
فصلِ دوم خواہشِ نفسانی سے رُک جانے کے بیان میں
دوسری فصل میں نفسِ امارہ کی سرکشی، گناہوں پر اصرار، عملِ صالح میں کوتاہی اور غفلت پر رنج وغم کا اظہار ہے۔ نفس کو مغلوب کرنے کا طریقہ بیان ہوا ہے کہ اس کی مخالفت کرو۔ طریقت اور سلوک میں ان مراحل کو تخلیة عن الرذائل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جس کے لیے نفس کی خواہشات کی مخالفت میں کھانے پینے، سونے، بات چیت کرنے اور لوگوں سے اختلاط میں وقتی طور پر کمی کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
فَإِنَّ أَمَّارَتيِ بِالسُّوءِ مَا اتَّعَظَتْ مِنْ جَهْلِهَا بِنَذِيرِ الشَّيْبِ وَالهَرَمِ
وَلاَ أَعَدَّتْ مِنَ الفِعْلِ الجَمِيلِ قِرَى ضَيْفٍ أَلَمَّ بِرَأْسِي غَيْرَ مُحْتَشِمِ
إِنَّ الطَّعَامَ يُقَوِّي شَهْوَةَ النَّهِمِ فَلاَ تَرُمْ بِالمَعَاصِي كَسْرَ شَهْوَتِهَا
فَاصْرِفْ هَوَاهَا وَحَاذِرْ أَنْ تُوَلِّيَهُ إِنَّ الهَوَى مَا تَوَلَّى يُصْمِ أَوْ يَصِمِ
وَخَالِفِ النَّفْسَ وَالشَّيْطَانَ وَاعْصِهِمَا وَإِنْ هُمَا مَحَضَاكَ النُّصْحَ فَاتَّهِمِ
وَلاَ تُطِعْ مِنْهُمَا خَصْمًا وَلاَ حَكَمًا فَأَنْتَ تَعْرِفُ كَيْدَ الخَصْمِ وَالحَكَمِ
’’برائیوں کا حکم دینے والے میرے نفسِ امارہ نے اپنی نادانی کے سبب،پیری اور کبر ِسنی کے ڈرانے والے سے بھی نصیحت قبول نہیں کی، اور کبر سنی کے بے تکلفی سے سر پر پڑنے والے مہمان کی ضیافت کا سامان بہم نہ پہنچایا۔تم گناہوں سے نفس کی خواہشات کو توڑنے کا ارادہ نہ کرو، کیونکہ کھانے سے بسیار خور شخص کی شہوت کو تقویت پہنچتی ہے۔ تم نفس کو اُس کی خواہشات سے روکو اور اسے اپنے اوپر مسلط کرنے سےڈرو۔ کیونکہ خواہشات جس پر مسلط ہو جائیں اسے قتل یا عیب دار کر دیتی ہیں۔تم نفس اور شیطان کی مخالفت کرو اور ان کی نافرمانی کرو، اور اگر یہ دونوں تمھیں نصیحت کریں تو انھیں جھوٹا ہی سمجھو۔ اور تم نفس اور شیطان کی جنس کے کسی دشمن کی اطاعت نہ کرو، کیونکہ تم اس دشمن اور ثالث کے مکر کو جانتے ہو‘‘۔
فصلِ سوم رسولِ اکرمﷺکی مدح میں
اس فصل میں آپﷺکی شب زندہ داری اور فاقہ کشی کا بیان ہے۔ آپﷺکی صفات میں سے سید الکونین، سردارِ ثقلین، آقاے عرب و عجم، آمر بالمعروف، ناہی عن المنکر، محبوبِ خداوندی، شافعِ محشر ہونے کا بیان ہے۔ لیکن اس اعتدال کا بھی بیان ہے کہ عیسائیوں کی طرح مسلمان آپﷺکو خدا نہیں مانتے۔
مُحَمَّدٌ سَيِّدُ الكَوْنَيْنِ وَالثَّقَلَيْـ ـنِ وَالفَرِيقَيْنِ مِنْ عُرْبٍ وَمِنْ عَجَمِ
هُوَ الحَبِيبُ الذِّي تُرْجَى شَفَاعَتُهُ لِكُلِّ هَوْلٍ مِنَ الأَهْوَالِ مُقْتَحَمِ
دَعْ مَا ادَّعَتْهُ النَّصَارَى فِي نَبِيِّهِمِ وَاحْكُمْ بِمَا شِئْتَ مَدْحًا فِيهِ وَاحْتَكِمِ
وَانْسُبْ إِلَى ذَاتِهِ مَا شِئْتَ مِنْ شَرَفٍ وَانْسُبْ إِلَى قَدْرِهِ مَا شِئْتَ مِنْ عِظَمِ
أَكْرِمْ بِخَلْقِ نَبِيٍ زَانَهُ خُلُقٌ بِالحُسْنِ مُشْتَمِلٍ بِالبِشْرِ مُتَّسِمِ
كَالزَّهْرِ فِي تَرَفٍ وَالبَدْرِ فِي شَرَفٍ وَالبَحْرِ فِي كَرَمٍ وَالدَّهْرِ فِي هِمَمِ
’’محمد کریمﷺدنیا و آخرت، انس و جن اور عرب و عجم کے سردار ہیں۔ وہ ایسے حبیب ہیں کہ ہر اُس خوف و جبر کے مقابلے میں اُن کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے جو لوگوں پر مسلط کر دیا جائے۔جو باتیں عیسائیوں نے اپنے نبی (مسیح علیہ السلام) کی طرف منسوب کی ہیں انھیں چھوڑ دو۔ ان کے سوا آپﷺکی مدح میں جو چاہو یقین کے ساتھ کہو۔ آپﷺکی ذاتِ گرامی کی طرف جس شرف کو چاہو منسوب کرو اور آپﷺکے مرتبے کی جانب جس عظمت کو چاہو منسوب کرو۔کیا ہی اچھی ہے نبیِ اکرمﷺکی صورت جسے حسنِ سیرت نے زینت بخشی ہے۔ یہ حسن پر مشتمل اور کشادہ روئی و خندہ پیشانی سے موسوم ہے۔ آپﷺترو تازگی میں پھول کی طرح، بلندی میں بدرِ کامل کی طرح، جود و کرم میں بحرِ زخار کی طرح اور بلند ہمتی میں زمانۂ طویل کی طرح ہیں‘‘۔ آخری شعر تشبیہ کے اعتبار سے فصاحت و بلاغت کی معراج ہے، اور نبیِ اکرمﷺکا اپنی صفاتِ عالیہ کے اعتبار سے خُلقِ عظیم پر فائز ہونا بدرجۂ تمام و کمال بیان کر رہا ہے۔
فصلِ چہارم رسولِ اکرمﷺکی ولادتِ با سعادت کے بارے میں
چوتھی فصل میں ارہاصاتِ نبوت (بعثت سے پہلے کے خرقِ عادت واقعات) میں سے متعلق مختلف روایات کا جامع بیان ہے۔ جن میں ایوانِ کسریٰ کے کنگروں کا گرنا، آتش کدۂ فارس کا بجھنا، بحیرۂ ساوہ کا خشک ہونا، آسمان پر نور کا چھا جانا، بتوں کا ٹوٹنا، اور شہابِ ثاقب کا برسنا قابلِ ذکر ہیں۔
أَبَانَ مَوْلِدُهُ عَنْ طِيبِ عُنْصُرِهِ يَا طِيبَ مُبْتَدَإٍ مِنْهُ وَمُخْتَتَمِ
يَوْمٌ تَفَرَّسَ فِيهِ الفُرْسُ أَنَّهُمُ قَدْ أُنْذِرُوا بِحُلُولِ البُؤْسِ وَالنِّقَمِ
وَبَاتَ إِيوَانُ كِسْرَى وَهُوَ مُنْصَدِعٌ كَشَمْلِ أَصْحَابِ كِسْرَى غَيْرَ مُلْتَئِمِ
وَالنَّارُ خَامِدَةُ الأَنْفَاسِ مِنْ أَسَفٍ عَلَيْهِ وَالنَّهْرُ سَاهِي العَيْنِ مِنْ سَدَمِ
’’آپﷺکی ولادت سے آپﷺکی اصل پاکیزگی ظاہر ہوئی۔ آپﷺکا زمان و مکانِ ولادت و وفات کیا ہی پاکیزہ ہیں! وہ دن ایسا تھا کہ اہلِ فارس نے اپنی فراست سے یہ بات جان لی کہ انھیں عذاب و عقوبت کے نزول سے ڈرایاگیا ہے۔کسریٰ (نوشیرواں) کا ایوانِ حکومت ویسے ہی پھٹ گیا جیسے کہ کسریٰ (یزد جرد) کے ساتھیوں کی جمعیت (اسلامی حملوں) سے پراگندہ ہو گئی۔ افسوس و رنج کی وجہ سے آتش کدۂ ایران کی آگ کے شعلے ماند پڑ گئے، اور دریاے فرات اپنے منبع کو بھول گیا‘‘۔ ان اشعار میں شاعر نے دو الگ الگ ادوار کے کسریٰ کا ذکر کیا ہے۔ پہلا وہ جو نبیِ اکرمﷺکی پیدائش کے وقت فارس کا فرماں روا تھا، اور دوسرا وہ جو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمان مجاہدین کے ہاتھوں مغلوب ہوا تھا۔
فصلِ پنجم آپﷺکی دعوت کے برکات اور چند مشہور معجزات کے بیان میں
فصلِ پنجم میں معجزاتِ نبوت میں سے درختوں کا سرنگوں ہونا، بادل کا سایہ فگن رہنا، آپﷺکے اشارۂ انگشت سے چاند کا دو ٹکڑے ہونا، متعدد مرتبہ آپﷺکا سینۂ انور چاک کر کے پاک کرنا اور علم و نور سے بھر دیا جانا، ہجرت کے دوران کفار کی پہنچ سے معجزانہ شان کے ساتھ محفوظ رہنا مذکور ہیں۔ فصل کے اختتام پر وحی کی حقیقت پر بھی کلام کیا گیا ہے۔
جَاءَتْ لِدَعْوَتِهِ الأَشْجَارُ سَاجِدَةً تَمْشِي إِلَيْهِ عَلَى سَاقٍ بِلاَ قَدَمِ
كَأَنَّمَا سَطَرَتْ سَطْرًا لِمَا كَتَبَتْ فُرُوعُهَا مِنْ بَدِيعِ الْخَطِّ بِاللَّقَمِ
مِثْلَ الغَمَامَةِ أَنَّى سَارَ سَائِرَةً تَقِيهِ حَرَّ وَطِيسٍ لِلْهَجِيرِ حَمِي
أَقْسَمْتُ بِالْقَمَرِ المُنْشَقِّ إِنَّ لَهُ مِنْ قَلْبِهِ نِسْبَةً مَبْرُورَةَ القَسَمِ
’’آپﷺکی پکار پر درخت تابعِ فرمان ہو کر اپنے تنوں کے بَل پربغیر پیروں کے چلتے ہوئے آئے۔ گویا انھوں نے آپﷺکے کمالات کی ایک سطر کھینچ دی، جب اِن کی شاخوں نے بیچ رستے میں آپﷺکی نعت میں نادر تحریر لکھی۔ اُن درختوں کا اتباع اُس بادل کی طرح تھا جودوپہر کی گرمی کی شدت سے بچانے کے لیے آپﷺکے ساتھ چلتا تھا۔ میں شق شدہ چاند کی سچی قسم کھاتا ہوں کہ اُس چاند کو نبیِ اکرمﷺسے ایک گونہ نسبت ہے‘‘۔ چاند کے دو ٹکڑے ہونے کے واقعے کو نبیِ اکرمﷺسے جو نسبت ہے، وہ شقِ صدر کے اُن متعدد واقعات کی بنا پر ہے جن میں نبیِ اکرمﷺکا سینۂ انور چاک کر کے پاک کیا گیا، اور علم و نور سے بھر کر دوبارہ بند کیا گیا۔
وَمَا حَوَى الغَارُ مِنْ خَيْرٍ وَمِنْ كَرَمِ وَكُلُّ طَرْفٍ مِنَ الكُفَّارِ عَنْهُ عَمِي
فَالصِّدْقُ فِي الغَارِ وَالصِّدِّيقُ لَمْ يَرِمَا وَهُمْ يَقُولُونَ مَا بِالْغَارِ مِنْ أَرِمِ
ظَنُّوا الحَمَامَ وَظَنُّوا الْعَنْكَبُوتَ عَلَى خَيْرِ الْبَرِيَّةِ لَمْ تَنْسُجْ وَلَمْ تَحُمِ
وِقَايَةُ اللهِ أَغْنَتْ عَنْ مُضَاعَفَةٍ مِنَ الدُّرُوعِ وَعَنْ عَالٍ مِنَ الأُطُمِ
’’اور میں قسم کھاتا ہوں اس خیر و کرم کی جس پر غارِ ثور مشتمل تھا، جبکہ کفار کی آنکھیں اس سے اندھی تھیں۔ اُس غار میں آپﷺاور صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ موجود تھے اور ہٹے نہ تھے، اور وہ کہتے تھے کہ غار میں کوئی بھی نہیں ہے۔ انھوں نے گمان کیا کہ غار کے دہانے پر مکڑی نے جالا نہیں بُنا اور کبوتر نے اسے اپنا گھونسلا نہیں بنایا۔ اللہ تعالیٰ کی حفاظت نے آپﷺکو دوہرے حلقوں والی زرہوں اور بلند قلعوں سے مستغنی کر دیا‘‘۔ ان اشعار میں نہایت خوب صورتی کے ساتھ نبیِ اکرمﷺکو صدق (سچائی) اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو صدیق (سچائی کی تصدیق کرنے والے) کے القاب سے ذکر کیا گیا ہے، اور ہجرت کے موقعے پر غارِ ثور کے واقعے کو نہایت دل نشیں انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
لاَ تُنْكِرِ الْوَحْيَ مِنْ رُؤْيَاهُ إِنَّ لَهُ قَلْبًا إِذَا نَامَتِ العَيْنَانِ لَمْ يَنَمِ
وَذَاكَ حِينَ بُلُوغٍ مِنْ نُبَوَّتِهِ فَلَيْسَ يُنْكَرُ فِيهِ حَالُ مُحْتَلِمِ
تَبَارَكَ اللهُ مَا وَحَيٌ بِمُكْتَسَبٍ وَلاَ نَبيُّ عَلَى غَيْبٍ بِمُتَّهَمِ
’’وہ وحی جو آپﷺکے پاس رویاے صادقہ سے آتی تھی اُس کا انکار مت کرو، کیونکہ آپﷺکا قلبِ اطہر ایسا تھا کہ جب آنکھیں سوتی تھیں تو دل نہیں سوتا تھا۔ ان خوابوں کا ظہور آپﷺکے منصبِ نبوت پر پہنچنے کے زمانے میں ہوا، اس لیے اس میں کسی عاقل بالغ کے حال کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ با برکت ہیں، وحی کوشش سے حاصل نہیں کی جاسکتی، اور نہ کسی نبی پر غیب کی باتوں میں غلط بیانی کی تہمت لگائی گئی ہے‘‘۔
فصلِ ششم قرآنِ مجید کی قدر و منزلت کے بیان میں
قرآنِ مجید نبیِ اکرمﷺکے معجزات میں خاص تفوّق رکھتا ہے، لہٰذا اس کی فضیلت بیان کرنے کے لیے شاعر نےعلیٰحدہ فصل قائم کی ہے۔
آيَاتُ حَقٍّ مِنَ الرَّحْمَانِ مُحْدَثَةٌ قَدِيمَةٌ صِفَةُ المَوْصُوفِ بِالقِدَمِ
لَمْ تَقْتَرِنْ بِزَمِانٍ وَهْيَ تُخْبِرُنَا عَنِ المَعَادِ وَعَنْ عَادٍ وَعَنْ إِرَمِ
دَامَتْ لَدَيْنَا فَفَاقَتْ كُلَّ مُعْجِزَةٍ مِنَ النَّبِيِّينَ إِذْ جَاءَتْ وَلَمْ تَدُمِ
مُحْكَمَاتٌ فَمَا تُبْقِيْنَ مِنْ شُبَهٍ لِذِي شِقَاقٍ وَمَا تَبْغِيْنَ مِنْ حَكَمِ
قَرَّتْ بِهَا عَيْنُ قَارِيْهَا فَقُلْتُ لَهُ لَقَدْ ظَفِرْتَ بِحَبْلِ اللهِ فَاعْتَصِمِ
إِنْ تَتْلُهَا خِيفَةً مِنْ حَرَّ نَارِ لَظَى أَطْفَأْتَ حَرِّ لَظَىَ مِنْ وِرْدِهَا الشَّبِمِ
’’رحمٰن کی یہ سچی آیات الفاظ و نزول کے اعتبار سے حادث، لیکن معانی و مفاہیم کے اعتبار سے ایسے ہی قدیم ہیں جیسے ذاتِ باری تعالیٰ قدیم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی آیات کسی زمانے سے وابستہ نہیں ہیں۔ یہ ہمیں امورِ آخرت، عاد اور ان کے مقامِ ارم کی خبریں دیتی ہیں۔آیاتِ قرآنیہ کو دوام نصیب ہوا، اس لیے وہ تمام انبیاے کرام علیہم السلام کےاُن معجزات پر فوقیت لے گئیں جن معجزات کو دوام نہ ملا۔ یہ آیات ایسی واضح اور پختہ ہیں کہ مخالف کے لیے کسی شک و شبہے کو باقی نہیں رکھتیں، اور نہ یہ کسی ثالث کے فیصلے کی محتاج ہیں۔قرآن کی تلاوت سے قرآن پڑھنے والے کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں تو میں نے اُس سے کہا کہ تم نے اللہ کی رسی کو پا لیا ہے، اسے مضبوطی سے پکڑے رہو۔ اگر تم نارِ جہنم کے خوف سے قرآن کی تلاوت کرو گے تو اِس کے ٹھنڈے پانی یا اِس کے ورد و وظیفے سے اُس آگ کو بجھا دو گے‘‘۔ لفظ ’’ورد‘‘ سے مراد پانی کا گھاٹ بھی ہو سکتا ہے، اوراد و وظائف بھی۔ ترجمے میں دونوں معنیٰ کی رعایت کی گئی ہے۔
كَأَنَّهَا الحَوْضُ تَبْيَضُّ الوُجُوهُ بِهِ مِنَ العُصَاةِ وَقَدْ جَاءُوهُ كَالحُمَمِ
وَكَالصِّرَاطِ وَكَالمِيزَانِ مَعْدِلَةً فَالقِسْطُ مِنْ غَيْرِهَا فِي النَّاسِ لَمْ يَقُمِ
’’یہ آیات حوضِ کوثر کی مثل ہیں جس کے پانی سے گناہ گاروں کے کوئلے جیسے چہرے اُجلے سفید ہو جاتے ہیں۔ یہ آیات عدل و انصاف میں صراط اور میزان کی طرح ہیں، اور ان کے سوا لوگوں میں عدل و انصاف قائم نہ ہوا‘‘۔
فصلِ ہفتم رسول ِ اکرمﷺکے سفرِ معراج کے بیان میں
یہ فصل واقعۂ اِسرا و معراج کے بیان پر مشتمل ہے، جس میں اختصار اور جامعیت کے ساتھ آپﷺکا انبیاے کرام علیہم السلام کی امامت کروانے، ذاتِ الٰہی سے قرب کی انتہا تک پہنچنے، اور رفعت و بلندی کے اعلیٰ درجات کے حصول کا ذکر کیا گیا ہے۔
سَرَيْتَ مِنْ حَرَمٍ لَيْلاً إِلَى حَرَمٍ كَمَا سَرَى البَدْرُ فِي دَاجٍ مِنَ الظُّلَمِ
وَبِتَّ تَرْقَى إِلَى أَنْ نِلْتَ مَنْزِلَةً مِنْ قَابِ قَوْسَيْنِ لَمْ تُدْرَكْ وَلَمْ تُرَمِ
وَقَدَّمَتْكَ جَمِيعُ الأَنْبِيَاءِ بِهَا وَالرُّسْلِ تَقْدِيمَ مَخْدُومٍ عَلَى خَدَمِ
وَأَنْتَ تَخْتَرِقُ السَّبْعَ الطِّبَاقَ بِهِمْ فِي مَوْكِبٍ كُنْتَ فِيهِ الصَّاحِبَ العَلَمِ
بُشْرَى لَنَا مَعْشَرَ الإِسْلَامِ إِنَّ لَنَا مِنَ العِنَايَةِ رُكْنًا غَيْرَ مُنْهَدِمِ
لَمَّا دَعَا اللهُ دَاعِينَا لِطَاعَتِهِ بِأَكْرَمِ الرُّسْلِ كُنَّا أَكْرَمَ الأُمَمِ
’’ آپﷺرات کے وقت حرمِ مکی سے حرمِ بیت المقدس تک یوں تشریف لے گئے جیسےماہِ تمام شب کی ظلمتوں میں راہ طے کرتا ہے۔ آپﷺنے شبِ معراج ترقی کی منازل طے کیں، تا آں کہ قرب کی انتہائی منزل تک پہنچ گئے، جہاں پہنچنا نہ تو کسی کے ادراک میں آ سکتا ہے، اور نہ تو کوئی اُس کا قصد کر سکتا ہے۔آپﷺکو تمام انبیا و رُسل نے یوں اپنا پیشوا بنا لیا جیسے خدام اپنے آقا کو آگے کرتے ہیں۔ اور آپﷺتمام انبیاورُسل کے ہمراہ فرشتوں کی جماعت کے ساتھ ان کے قائد کی حیثیت سے ساتوں آسمانوں کو طے کر رہے تھے۔اے مسلمانو! خوش خبری ہو کہ ہمیں عنایتِ الٰہی کا ایک ایسا ستون اور سہارا عطا کیا گیا ہے جو منہدم ہونے والا نہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے داعیﷺکو اکرم الرسل کہہ کر اپنی اطاعت کے لیے بلایا ہے، اس لیے ہم بھی تمام امتوں سے افضل قرار پائے‘‘۔ یہاں مضبوط ستون اور سہارے سے مراد ذاتِ رسالت مآبﷺ، قرآنِ مجید، یا نماز ہے، جو اس سفر میں آپﷺکی امت کے لیے ہدیۃً عطا کی گئی تھی۔
فصلِ ہشتم رسولِ مکرمﷺکے جہاد اور غزوات کے بیان میں
نبیِ اکرمﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شجاعت، غزوات کی تفصیلات، کفار کی شکست و ریخت اور اسلام کی شوکت کو کامرانی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔
مَا زَالَ يَلْقَاهُمُ فِي كُلِّ مُعْتَرَكٍ حَتَّى حَكَوْا بِالْقَنَا لَحْمًا عَلَى وَضَمِ
وَدُّوا الفِرَارَ فَكَادُوا يَغْبِطُونَ بِهِ أَشْلاَءَ شَالَتْ مَعَ الْعِقْبَانِ وَالرَّخَمِ
تَمْضِي اللَّيَالِي وَلاَ يَدْرُونَ عِدَّتَهَا مَا لَمْ تَكُنْ مِنْ لَيَالِي الأَشْهُرِ الْحُرُمِ
كَأَنَّمَا الدِّينُ ضَيْفٌ حَلَّ سَاحَتَهُمْ بِكُلِّ قَرْمٍ إِلَى لَحْمِ العِدَا قَرِمِ
هُمُ الجِبَالُ فَسَلْ عَنْهُمْ مُصَادِمَهُمْ مَاذَا رَأَى مِنْهُمُ فِي كُلِّ مُصْطَدَمِ
وَسَلْ حُنَيْنًا وَسَلْ بَدْرًا وَسَلْ أُحُدًا فُصُولَ حَتْفٍ لَهُمْ أَدْهَى مِنَ الوَخَمِ
’’آپﷺکفار سے ہمیشہ گھمسان کی لڑائیوں میں مقابلہ فرماتے رہے، یہاں تک کہ وہ اُس کٹے ہوئے گوشت کی طرح ہو گئے جسے کاٹ کر تختے پررکھ دیا جاتا ہے۔ کفار نے میدانِ جنگ سے فرار کی تمنا کی۔ گویا وہ اپنے کٹے ہوئے اعضا پر رشک کر رہے ہیں جنھیں باز اور گدھ لے اڑے تھے۔ وہ اس قدر بدحواس تھے کہ انھیں وقت گزرنے کا پتا نہ چلتا تھا، سواے اشہرِ حُرُم کی راتوں کے کہ جن میں جنگ بندی ہوتی تھی۔ گویا دینِ اسلام ایک مہمان ہے جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے مکانوں میں اترا، اور دشمنوں کے گوشت کا نہایت خواہش مند اور مشتاق ہے۔یہ مجاہدین پہاڑ کی طرح جم کر لڑتے ہیں۔ ان کے حریفوں سے پوچھو کہ انھوں نے گھمسان کے رن میں ان کی کیا شان دیکھی ہے؟ اور ذرا ’’حنین‘‘ سے پوچھو، ’’بدر‘‘ سے پوچھو، اور ’’اُحد‘‘ سے اُن طرح طرح کی ہلاکتوں کا پوچھو جو وباؤں سے سخت بن کر نازل ہوئیں‘‘۔ شاعر نےحنین و اُحد کا خاص طور سے ذکر کیا ہے، جن میں ابتداءً سخت حالات پیش آئے، لیکن بالآخر نبیِ اکرمﷺاور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی پامردی، دلیری، اور استقامت کی بنا پر فتح و کامرانی نصیب ہوئی۔
فصلِ نہم اللہ تعالیٰ سے طلبِ مغفرت اور نبیِ اکرمﷺسے التجاے شفاعت کے بیان میں
شاعر نے اپنی سابقہ زندگی پر حسرت و افسوس کا ذکر کیا ہے، اور نبیِ اکرمﷺکی شفقت اور شانِ کریمی کو اپنی آخری اُمید کے طور پر ذکر کیا ہے۔
خَدَمْتُهُ بِمَدِيحٍ أَسْتَقِيلُ بِهِ ذُنُوبَ عُمْرٍ مَضَى فِي الشِّعْرِ وَالخِدَمِ
إِذْ قَلَّدَانِيَ مَا تُخْشَى عَوَاقِبُهُ كَأَنَّنِي بِهِمَا هَدْىٌ مِنَ النَّعَمِ
إِنْ آتِ ذَنْبًا فَمَا عَهْدِي بِمُنْتَقِضٍ مَنَ النَّبِيِّ وَلاَ حَبْلِي بِمُنْصَرِمِ
فَإِنَّ لِي ذِمَّةً مِنْهُ بِتَسْمِيَتيِ مُحَمَّداً وَهْوَ أَوْفَى الخَلْقِ بِالذِّمَمِ
إِنْ لَمْ يَكُنْ فِي مَعَادِي آخِذًا بِيَدِي فَضْلاً وَإِلاَّ فَقُلْ يَا زَلَّةَ القَدَمِ
وَمُنْذُ أَلْزَمْتُ أَفْكَارِي مَدَائِحَهُ وَجَدْتُهُ لِخَلاَصِي خَيْرَ مُلْتَزِمِ
’’میں آپﷺکی خدمتِ اقدس میں ایک مدحیہ قصیدہ پیش کرکے ایک عمر کے گناہوں کی معافی کا طالب ہوں جو شعر گوئی اور امرا کی خدمت گزاری میں بسر ہوئی۔ کیونکہ ان دونوں نے میری گردن میں ایسا قلادہ ڈال دیا ہے جس کے انجامِ کار سے ڈرا جاتا ہے، اور میں اُن اونٹوں کی طرح ہوں جو بغرضِ قربانی کعبے کی طرف لے جائے جا رہے ہوں۔اگر میں گناہ گار ہوں تب بھی نبیِ اکرمﷺسے نہ تو میرا عہد ٹوٹنے ولا ہے نہ ہی میرا رشتہ منقطع ہونے والا ہے۔ کیونکہ میرا نام محمد ہونے کی وجہ سے ان کی جانب سے عہدو پیمان ہے، اور وہ دنیا میں سب سے وفا کرنے والے ہیں۔ اگر آپﷺآخرت میں اپنے فضل و کرم سےمیری دستگیری نہ فرمائیں گے تو میرے پاؤں پھسل جائیں گے۔ میں نے جب سے آپﷺکے نعتیہ اشعار کو اپنے افکار کا موضوع بنایا تو انھیں اپنی نجات کا بہترین ضامن پایا‘‘۔ شاعر نے اپنا نام محمد ہونے سے ایک نیک فال لیا ہے، ورنہ اصلاً اعمال ہی ہیں جن کی بنیاد پر کامیابی و ناکامی کافیصلہ ہوتا ہے۔
فصلِ دہم مناجات اور عرضِ حاجات کے بیان میں
امام بوصیری رحمہ اللہ نے اپنے گناہوں کی مغفرت اور باری تعالیٰ سے عفوِ تقصیرات کی التجا کی ہے۔
يَا أَكْرَمَ الخَلْقِ مَالِي مَنْ أَلُوذُ بِهِ سِوَاكَ عِنْدَ حُلُولِ الحَادِثِ العَمِمِ
وَلَنْ يَضِيقَ رَسُولَ اللهِ جَاهُكَ بيِ إِذَا الكَرِيمُ تَجَلَّى بِاسْمِ مُنْتَقِمِ
فَإِنَّ مِنْ جُودِكَ الدُّنْيَا وَضَرَّتَهَا وَمِنْ عُلُومِكَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالقَلَمِ
يَا نَفْسُ لاَ تَقْنَطِي مِنْ زَلَّةٍ عَظُمَتْ إِنَّ الكَبَائِرَ فِي الغُفْرَانِ كَاللَّمَمِ
لَعَلَّ رَحْمَةَ رَبِّي حِينَ يَقْسِمُهَا تَأْتِي عَلَى حَسَبِ العِصْيَانِ فِي الْقِسَمِ
يَا رَبِّ وَاجْعَلْ رَجَائِي غَيْرَ مُنْعَكِسٍ لَدَيْكَ وَاجْعَلْ حِسَابِي غَيْرَ مُنْخَرِمِ
وَالْطُفْ بِعَبْدِكَ فِي الدَّارَيْنِ إنَّ لَهُ صَبْرًا مَتَى تَدْعُهُ الأَهْوَالُ يَنْهَزِمِ
وَأْذَنْ لِسُحْبِ صَلاَةٍ مِنْكَ دَائِمَةٍ عَلَى النَّبِيِّ بِمُنْهَلٍّ وَمُنْسَجِمِ
ثُمَّ الرِّضَا عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَعَنْ عُمَرٍ وَعَنْ عَلِيٍّ وَعَنْ عُثْمَانَ ذِي الْكَرَمِ
وَالآلِ وَالصَّحْبِ ثُمَّ التَابِعِيَن فَهُمْ أَهْلُ التُّقَى وَالنَّقَا وَالحِلْمِ وَالْكَرَمِ
’’اے مخلوقات میں بزرگ ترین ذات! آپ کے سوا میرا کوئی نہیں ہے جس کی میں وقوعِ قیامت کے وقت پناہ لوں۔ اے رسول اللہ! جب خداے کریم بھی انتقام لینے کی صفت سے متصف ہوگا، اس وقت آپ کا جاہ و مرتبہ میرے بارے میں تنگ نہ ہوگا۔ کیونکہ دنیا و آخرت آپ ہی کے جود و عطا سے قائم ہیں، اور آپ کے علوم میں سے لوح و قلم کا علم بھی ہے۔اے میرے نفس! اپنے بڑے گناہوں کی وجہ سے رحمتِ الٰہی سے مایوس نہ ہو، کیونکہ مغفرتِ الٰہی کے سامنے کبیرہ گناہ بھی چھوٹے ہیں۔ امید ہے کہ جب میرا رب اپنی رحمت تقسیم کرے گا تو وہ میرے گناہوں کے بقدر ہو گی۔ اے میرے رب! اپنے حضور میری امید کو برعکس نہ کر،اور میرے اعتقادِ عفو و درگزر کو منقطع نہ کر۔ دونوں جہانوں میں اپنے غلام پر لطف و کرم فرما، کیونکہ اس کا صبر ایسا ہے کہ جب اسے شدائد ِ زمانہ پکارتے ہیں تو وہ شکست کھا جاتا ہے۔اے اللہ! اپنے درود و سلام کے بادلوں کو اجازت دے کہ وہ نبیِ اکرمﷺپر درود و سلام کی موسلادھار اور لگاتار بارش برسائیں۔ پھر اے اللہ! راضی ہوجا ابو بکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہم اجمعین سےجو سب کے سب شریف و کریم ہیں۔ اور آپﷺکی آل، صحابۂ کرام اور ان کی پیروی کرنے والوں سے، جو سب تقویٰ اور فہم و فراست والے، پاک سیرت اور حلم و کرم والے ہیں‘‘۔
يِا رَبِّ بِالمُصْطَفَى بَلِّغْ مَقَاصِدَنَا وَاغْفِرْ لَنَا مَا مَضَى يَا وَاسِعَ الكَرَمِ
وَاغْفِرْ إِلَهِي لِكُلِ المُسْلِمِينَ بِمَا يَتْلُونَ فِي المَسْجِدِ الأَقْصَى وَفِي الحَرَمِ
’’اے میرے رب! نبیِ اکرمﷺکے وسیلے سے ہمارے تمام مقاصد پورے فرما، اور اے وسیع کرم والے! ماضی کے تمام گناہ معاف فرما۔ اے میرے الٰہ! تمام مسلمانوں کو مسجدِ اقصیٰ اور مسجدِ حرام میں قرآن پڑھنے کے عوض معاف فرما‘‘۔ ***** کتابیات: شرح البردة،محمد بن عبد الله بن بهادر الزرکشي، علم لإحیاء التراث و الخدمات الرقمیة، قاهرة، مصر، ۲۰۱۷ء بردۃ المدیح، پروفیسر علی محسن صدیقی، قدیمی کتب خانہ، آرام باغ، کراچی، ۱۹۸۷ء