مدیر ماہنامہ مفاہیم، کراچی
حفاظت و حفظ ِقرآن کریم
اللہ کریم نے قرآنِ کریم کو ابدی و دائمی ہدایت بنا کر ، اپنے آخری نبیِ کریمﷺپر نازل فرمایا تو اس کی حفاظت کا ذمہ بھی خود ہی لیا اور فرمایا: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾(الحجر:۹) ’’بے شک ہم نے آپ پر یہ نصیحت نازل کی ہے اور ہمی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔ اگرچہ رسول اللہﷺاور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کتابتِ قرآن کا اہتمام بھی کیا جو آج بھی جاری و ساری ہے، لیکن حفاظتِ قرآن کریم کا اصل مدار کتابت کے بجائے حفظ یعنی زبانی یاد کرنے پر رکھا گیا۔ ایک حدیثِ قدسی میں رسول اللہﷺکو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا: «وَأَنْزَلْتُ عَلَيْكَ كِتَابًا لا يَغْسِلُهُ المَاءُ»’’اے محمد! میں آپ پر وہ کتاب نازل کر رہا ہوں جسے پانی دھو نہ سکے گا‘‘۔ پانی سے نہ دھل سکنے کی وضاحت میں امام نوَوِی رحمہ اللہ نے فرمایا: محفوظ في الصدور، ’’وہ کتاب سینوں میں محفوظ ہو گی‘‘۔ اسی روایت میں آگے آتا ہے: «تَقْرَؤُهُ نَائِمًا وَيَقْظَانَ» ’’اے محمد! آپ اس کتاب کو پڑھیں گے حالتِ نیند میں بھی اور حالتِ بیداری میں بھی‘‘۔ امام نووی رحمہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں: فقال العلماء: معناه يكون محفوظا لك في حالتي النوم واليقظة، وقيل: تقرؤه في يسر وسهولة.’’علما فرماتے ہیں کہ اس کا معنیٰ یہ ہے آپﷺ اس کتاب کو نیند و بیداری میں پڑھ سکیں گے، یعنی ہر حال میں آپ کو یاد رہے گی اوراس کا یہ معنیٰ بھی بیان کیا گیا کہ آپﷺآسانی و سہولت سے اسے پڑھ سکیں گے‘‘۔ (صحیح مسلم مع شرح النووی) اس تشریح کا حاصل یہ ہے کہ قرآنِ کریم آپﷺکے سینے میں ، بغیر آپ کی محنت و کوشش کے اس طرح محفوظ کر دیا جائے گا کہ آپ جب چاہیں جہاں چاہیں اسے پڑھ سکیں گے اور اس محفوظ کرنے میں آپ پر مشکل نہ ہو گی بلکہ سہولت سے یہ کام ہو جائے گا ۔ عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب جبریل علیہ السلام وحی لے کر آتے تو نبیِ کریمﷺ قرآن یاد کرنے کی کوشش میں بہت مشقت اٹھاتے اور جبریل علیہ السلام کی وحی کے ساتھ ساتھ دہرانے کی غرض سے زبان کو تیزی سے حرکت دیتےاس پر سورۃ القیامۃ کی یہ آیات نازل ہوئیں: ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ۞ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ۞ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ۞ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾’’اے نبی آپ اپنی زبان کو حرکت نہ دیجیے تاکہ آپ جلدی حاصل کریں اس (قرآن ) کو ، بے شک ہمارے ذمے ہے(آپ کے سینے میں ) اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھوا دینا، پس پھر جب ہم اس کو (بوساطت جبریل )پڑھ چکیں تو آپ ہمارے پڑھے کی پیروی کیجیے پھر اس کا بیان کرنا بھی ہمارے ہی ذمے ہے‘‘۔ علامہ ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَتَكَفَّلَ لَهُ أَنْ يَجْمَعَهُ فِي صَدْرِهِ، وَأَنْ يُيَسِّرَهُ لِأَدَائِهِ عَلَى الْوَجْهِ الَّذِي أَلْقَاهُ إِلَيْهِ، وَأَنْ يُبَيِّنَهُ لَهُ وَيُفَسِّرَهُ وَيُوَضِّحَهُ. فَالْحَالَةُ الْأُولَى جَمْعُهُ فِي صَدْرِهِ، وَالثَّانِيَةُ تِلَاوَتُهُ، وَالثَّالِثَةُ تَفْسِيرُهُ وَإِيضَاحُ مَعْنَاه. ’’اللہ تعالیٰ نے نبیِ کریمﷺ کو ضمانت دی کہ وہ قرآن پاک ان کے سینے میں جمع کرے گا اور پھر جس ترتیب کے مطابق آپ پر نازل کیا گیا اسی طریقے سے قرآن کو پڑھنا بھی آپ پر آسان کر دے گا اور اس کی بھی ضمانت دی کہ وہ آپ ﷺ کے لیے قرآن کی وضاحت و تفسیر بھی کر ے گا۔ پس پہلی حالت رسول اللہ کے سینے میں قرآن کو محفوظ کر دینا ہے اور دوسری حالت اس کی تلاوت ہے اور تیسری حالت قرآن کی تفسیر اور معنیٰ کی وضاحت ہے‘‘۔ آیتِ مبارکہ اور اس کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم کے الفاظ نبیِ کریمﷺکے سینے میں اس طرح محفوظ کر دیے گئے کہ آپ جب چاہیں سہولت سے انھیں پڑھ سکتے اور دوسروں کو پڑھا سکتے تھے۔ دوسری اہم بات یہ کہ جس طرح قرآن کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کیے گئے اسی طرح ان الفاظ کے معنیٰ بھی اللہ ہی کی طرف سے آپ کو بذریعۂ الہام سکھائے گئے۔ یہ اہم نکتہ ہے۔ چنانچہ علامہ ابنِ کثیررحمہ اللہ نے الفاظ مبارکہ: ﴿ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾ کی وضاحت میں لکھا ہے: أَيْ: بَعْدَ حِفْظِهِ وَتِلَاوَتِهِ نُبَيِّنُهُ لَكَ وَنُوَضِّحُهُ، وَنُلْهِمُكَ مَعْنَاهُ عَلَى مَا أَرَدْنَا وَشَرَعْنَا. ’’ یعنی قرآن پاک کے حفظ اور تلاوت آسان کرنے کے بعد ہم آپﷺکے لیے کھول کر بیان کریں گے اور اس کی وضاحت کریں گے اور اپنی مراد اور مرضی کے مطابق اس کے معنیٰ بھی آپ کو الہام کریں گے‘‘۔ تو حفاظتِ قرآن کا ایک مرحلہ تو یہ طے ہوا کہ الفاظِ قرآنی اپنے معنیٰ کے ساتھ نبیِ کریم ﷺکے سینے میں محفوظ کر دیے گئے۔ اب اس کا اگلا مرحلہ درپیش تھا اور وہ تھا امّت کو قرآنِ کریم کی منتقلی۔ نبیِ کریمﷺنے امّت کو قرآن مجید منتقل کیا تو اگرچہ آپﷺنے کتابت کو بھی اختیار کیا لیکن اس کا اصل انحصار حفظ پر ہی تھا۔ فرمانِ الہٰی ہے: ﴿بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْم﴾ (العنكبوت: ۴۹) ’’بلکہ وہ واضح آیات ہیں ان لوگوں کے دلوں میں جنھیں علم دیا گیا‘‘۔ تفسیرِ جلالین میں ہے: ﴿الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْم﴾ أَيْ الْمُؤْمِنُونَ يَحْفَظُونَهُ، ’’ جنھیں علم دیا گیا، اس سے وہ اہلِ ایمان مراد ہیں جو قرآن کے حفظ کرنے والے ہیں‘‘۔ علامہ ابنِ جوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: والذين أوتوا العلم: المؤمنون الذين حَمَلُوا القرآن على عهد رسول اللهﷺو حَمَلُوا بعده وإِنما أُعطي الحفظ هذه الأمة، وكان من قبلهم لا يقرءون كتابهم إِلاَّ نظراً.(زاد المسير في علم التفسير) ’’جنھیں علم دیا گیا سے وہ اہلِ ایمان مراد ہیں جنھوں نے رسول اللہﷺکے دور میں بھی اور اس کے بعد قرآنِ پاک کی حفظ کی ذمےداری اٹھائی اور حفظ کی امتیازی خصوصیت اللہ نے اس امّت کو دی ہے اور پہلی امتّوں کے عوام اپنی کتابیں صرف دیکھ کر ہی پڑھا کرتے تھے‘‘۔ تو نبیِ کریمﷺکی طرف سے علومِ وحی سینہ بہ سینہ منتقل ہوئے۔ نبیِ کریمﷺنے اپنے اصحابِ کرام کو قرآن سکھایا اور حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے تابعینِ کرام رحمہم اللہ نے قرآن کا علم حاصل کیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ یہ بات مشہور روایت میں بیان ہوئی ہے کہ: «يَحْمِلُ هَذَا الْعِلْمَ مِنْ كُلِّ خَلَفٍ عُدُوْلُهُ».( مشکاۃ المصابیح) ’’یہ علم ہر اگلی نسل کے لوگ پچھلی نسل کے عادل لوگوں سے اٹھائیں گے‘‘۔ سمجھنا یہ چاہیے کہ نبیِ کریمﷺ کی طرف سے قرآنِ کریم کی منتقلی ’’لفظ اور معنیٰ‘‘ دونوں کے ساتھ تھی۔ تابعیِ جلیل عبد الرحمٰن السلمی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: حَدَّثَنَا الَّذِينَ كَانُوا يُقْرِئُونَنَا أَنَّهُمْ كَانُوا يَسْتَقْرِئُونَ مِنَ النَّبِيِّﷺفَكَانُوا إِذَا تَعَلَّمُوا عَشْرَ آيَاتٍ لَمْ يَخْلُفُوهَا حَتَّى يَعْمَلُوا بِمَا فِيهَا مِنَ الْعَمَلِ فَتَعَلَّمْنَا الْقُرْآنَ وَالْعَمَلَ جَمِيعًا. ’’جن لوگوں نے ہمیں قرآن پڑھایا ( یعنی صحابۂ کرام ) وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ نبیِ کریمﷺسے قرآن پڑھا کرتے تھے تو جب دس آیات پڑھ لیتے تھے آگے نہیں بڑھتے تھے یہاں تک کہ وہ جان لیں کہ ان میں عملی رہنمائی کیا ہے پس ہم نے قرآن اور عمل ساتھ ساتھ سیکھا‘‘۔ اگرچہ عملی احکام سیکھنا، معنیٰ و تفسیر سیکھنے کو مستلزم ہے کہ اس کے بغیر عمل سیکھنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا ، لیکن ایک دوسری روایت میں اس کی تصریح میں بھی موجود ہے۔ حضرت عبد اللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا إِذَا تَعَلَّمَ عَشْرَ آيَاتٍ، لَمْ يُجَاوِزْهُنَّ حَتَّى يُعْرَفَ مَعَانِيَهُنَّ وَالْعَمَلَ بِهِنَّ.(تفسیرِ طبری ) ’’کہ ہم میں سے کوئی آدمی دس آیات پڑھ لیتا تو وہ آگے نہیں بڑھتا تھا یہاں تک کہ ان کے معنیٰ اور ان میں عمل کی چیزیں نہ جان لیتا‘‘۔ فضیلتِ حفظِ قرآن و حفاظ کے متعلق وارد احادیث میں ’’تعلم اور اتباع ‘‘ وغیرہ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ حفظ ِقرآن معنیٰ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ سرِدست ہم چند روایات کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں: «مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاسْتَظْهَرَهُ فَأَحَلَّ حَلاَلَهُ وَحَرَّمَحَرَامَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِ الجَنَّةَ وَشَفَّعَهُ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ».(سننِ ترمذی) ’’جس نے قرآن پڑھا اور اسے زبانی یاد کیا پھر اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھا تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور اس کے گھر والوں میں سے دس لوگوں کے حق میں شفاعت کی اجازت دے گا جو دوزخ کے مستحق بن کے تھے‘‘۔ «مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَتَعَلَّمَهُ وَعَمِلَ بِهِ أُلْبِسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَاجًا مِنْ نُورٍ ضَوْءُهُ مِثْلُ ضَوْءِ الشَّمْسِ، وَيُكْسَى وَالِدَيْهِ حُلَّتَانِ».(المستدرک) ’’جس نے قرآن پڑھا اور اسے سیکھا اور اس پر عمل کیا تو اسے قیامت والے دن نور کا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے زیادہ ہو گی اور اس کے والدین کو بھی جبۂ فضیلت پہنایا جائے گا‘‘۔ «مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاتَّبَعَ مَا فِيهِ هَدَاهُ اللَّهُ مِنَ الضَّلَالَةِ، وَوَقَاهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ سُوءَ الْحِسَابِ، وَذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ:فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى».(المستدرک) ’’جس نے قرآن پڑھا اور اور جو کچھ اس قرآن میں ہے اس کی پیروی کی، اللہ اسے گمراہیوں سے بچا کر ہدایت سے نوازے گا اور قیامت کے دن اسے سخت اور برے حساب سے بچائے گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:پس جس نے میری ہدایت کی پیروی کی نہ تو وہ گمراہ ہو گا اور نہ ہی وہ بدبخت ہو گا‘‘۔ حفظ ِقرآن مع التفسیرکا ایک گونہ تعلق ’’تدبرِ قرآن‘‘ کے ساتھ بھی ہے جس کا ایک خاص فائدہ جذبۂ جہاد کی فراوانی ہے۔ سورۂ محمد میں جہاں منافقین کے جہاد سے اعراض اور ان کے اندھے بہرے بن جانے کا ذکر کیا تو اس کے فوراً بعد فرمایا: ﴿أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا﴾ (محمد:24) ’’یہ لوگ قرآن پر تدبر کیوں نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگ چکے ہیں‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تدبرِ قرآن سے دینی جذبات ترقی پاتے ہیں اور جہاد جیسے مشکل کام پر بھی انسان کمرِ ہمت کس لیتا ہے۔ اس بات کی شہادت چند تاریخی مثا لوں سے بھی پیش کی جا سکتی ہے۔ جنگِ یمامہ میں سینکڑوں حفاظِ کرام شہید ہوئے تھے۔ سالم مولیٰ ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ بھی اس جنگ میں شامل تھے۔ آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن سے قرآن سیکھنے کی اجازت رسول اللہﷺنے دی تھی۔ جنگِ یمامہ میں کسی نے آپ سے کہا کہ کیا آپ ڈرتے ہیں کہ آپ کی طرف سے دشمن حملہ آورہو جائے؟ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بِئْسَ حَامِلُ الْقُرْآنِ أَنَا إِذًا. ’’میں بہت ہی برا حاملِ قرآن ہوں اگر اس بات سےڈر جاؤں‘‘۔گویا کہ ان کا عالمِ قرآن ہونا بزدلی کے امکان کے منافی ہے۔ خیر جب جنگ زوروں پر پہنچی تو صحابہ آواز لگانے لگے: یا أَصْحَابَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ. ’’اے سورہ بقرۂ والو‘‘۔ سیدنا ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ آواز لگا رہے تھے: يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ زَيِّنُوا الْقُرْآنَ بِالْفِعَالِ. ’’اے اہلِ قرآن، اپنے عمل کے ذریعے قرآن کو خوب صورت کرو‘‘۔ آخر اہلِ قرآن کی شجاعت سے مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ اسی طرح جنگِ یرموک میں جب مسلمانوں پر جنگ بھاری پڑنے لگی تو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سامنے آئے، آپ آوازیں لگا رہے تھے: يَا أهلَ القرآن، ومُتَحَفَظِي الْكِتَابِ.’’اے اہلِ قرآن اور اے حفاظِ قرآن‘‘۔ ۸۸ ہجری میں جنگِ طوانہ میں ایک بار مسلمان پسپا ہونے لگے تو عباس بن ولید بن عبد الملک نے آواز لگائی: أَيْنَ قُرَّاءُ الْقُرْآنِ الَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟۔۔۔۔ يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ.’’ کہاں ہیں وہ قرآن کے قاری جو اللہ کی رضا کے طالب ہیں۔۔۔اے اہلِ قرآن‘‘۔ اس پر اہلِ قرآن اور ان کے ساتھ اہلِ اسلام نے پلٹ کر ایسا حملہ کیا کہ قلعہ فتح کر کے دم لیا۔ یہ تو ہوئی تاریخی شہادت، لیکن اب اگر عصرِ حاضر میں آپ نے ’’حفظِ قرآن‘‘ کا معجزہ دیکھنا تو وہ آپ کو اہلِ غزہ دکھائیں گے۔ حماس کی بنیاد شیخ احمد یاسین رحمہ اللہ نے ایک مدرسے سے رکھی تھی اور آج بھی حماس کے حفظِ قرآن کے حلقے بڑوں اور بچوں دونوں کے لیے قائم ہیں، جہاں کلی یا جزوی طور پر حفظِ قرآن کا سلسلہ جاری ہے۔ حفظِ قرآن کو ان لوگوں نے ’’قومی رواج ‘‘ بنا دیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ان کے ہاں حافظ پائے جاتے ہیں ، ان کے مجاہد ہوں یا ان کے مجروح، اُن کے لبوں پر: ﴿وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى﴾ اور ﴿حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ﴾ کے نغمے گونج رہے ہیں۔ امّت میں قرآنِ پاک کے لفظ اور معنیٰ کی تعلیم کی مختلف صورتیں اختیار کی جاتی رہیں۔ عام طور پر بچپن میں بچوں کو الفاظِ قرآنی بطورِ ناظرہ یا بطورِ حفظ سکھا دیے جاتے ہیں اور بعد میں ترجمہ و تفسیر اور متعلقہ علوم سکھائے جاتے ہیں۔ ہماری دینی تعلیم میں زیادہ تر اسی کا اہتمام ہوتا ہے۔ البتہ وہ بچے جو حفظ پر اکتفا کرتے ہیں اور باقاعدہ دینی تعلیم حاصل نہیں کرتے ان کی ایک بڑی تعداد ہمیشہ قرآن کے معانی سے محروم رہتی ہے۔ ایک دوسری صورت جس کی ایجاد کا سہرا استاذ الاساتذہ حضرت مولانا ابو لبابہ شاہ منصور صاحب دامت برکاتہم کے سر ہے وہ ’’حفاظ عربک کورس‘‘ ہے جس میں حافظ بچوں کو ترجمۂ قرآن ، عربی گرامر کے ساتھ انگریزی اور عصری علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کورس میں درسِ نظامی کے پہلے دو سال کے علاوہ میٹرک تک تعلیم کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ حضرت مفتی صاحب نے اس کے لیے قدیم و جدید کے امتزاج سے ’’قرآنی عربی سیکھیے‘‘ اور ’’الفاظِ قرآنی‘‘ کے نام سے نہایت عرق ریزی سے ایک نصاب تیار کیا ہے۔ یہ ایک بہترین نظام ہے جو پاکستان میں کئی مقامات پر کامیابی سے جاری ہے۔ جن میں ہمارے ادارے ’’الحکمہ وقف پاکستان‘‘ کے بھی چند مراکز شامل ہیں۔ قرآنِ مجید کے حفظ ِ لفظ و معنیٰ کی تیسری صورت یہ ہے کہ بچوں کو حفظ کے ساتھ ہی معنیٰ بھی پڑھا دیے جائیں۔ اس منصوبے کو بھی حضرت مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب دامت برکاتہم کی تائید و سرپرستی حاصل ہے اور بعض جگہ اس پر عمل در آمد بھی شروع ہو چکا ہے۔ ہمیں ان تین صورتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ جڑ کر حفظ و حفاظتِ قرآن کی خدمت میں مصروف ہونا چاہیے ۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے۔