ڈاکٹر محمد رشید ارشد
قسط نمبر ۲
ایک بہت اہم بات جو اس طرح کے لٹریچر میں سامنے نہیں لائی جاتی وہ یہ کہ اگر ہم یہ تسلیم کریں کہ دولت اور شہرت مقصود ہیں تو اس کے حصول میں جو ایک بہت بڑا عامل ہوتا ہے اس کو وہ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اور وہ عامل یہ ہے کہ اگر آپ خدا کو مانتے ہیں تو آپ اسے تقدیر کہہ لیں یاخدا کا امر کہہ لیں، اور اگر نہیں مانتے تو آپ اسے قسمت کہہ لیں یا حالات کہہ لیں، ان کا کسی کی کامیابی میں بڑا دخل ہوتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بہت کامیاب ہیں اور ان کی سوانح عمریاں بہت بکتی بھی ہیں۔ اگر ان کو آپ غور سے پڑھیں تو آپ کو احساس ہو جائے گا کہ کتنے عوامل ہیں جو ان لوگوں کے لیے جمع ہوئے تھے، جو ان کے اپنے اختیار میں بھی نہیں تھے اورجن کی وجہ سے انھیں یہ کامیابی ملی۔ بل گیٹس اور ایمازون کے صدر کے اس طرح کے بیانات موجود ہیں۔ بل گیٹس نے یہ کہا ہے کہ میں اگر امریکہ میں نہ ہوتا، میں وہی ہوتا، میری صلاحیت وہی ہوتی، اور میں اتنا ہی ماہر ہوتا، تب بھی میں اتنا کامیاب نہ ہوتا۔ یعنی امریکہ کا پورا نظام، پوری ریاست اور پوری مارکیٹ اس طرح کے لوگوں کی کامیابی کے لیے ساز گار ہے۔ بہر حال اتنے سارے عوامل ہیں جو انسان کے اختیار میں نہیں ہوتے اور وہ اس کی کامیابی کا سبب بن رہے ہوتے ہیں۔ مگر پھر بھی اس طرح کی کتابوں میں جو چیز بہت زیادہ اور بار بار سامنے آتی ہے وہ یہ تصور ہے کہ انسان گویا اپنی تقدیر کا خود مالک ہے۔جیسے یہ کہنا مقصود ہو کہ تم جو چاہو کر سکتے ہو، جو پانا چاہو پا سکتے ہو اور تمھارے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں پیدا ہو سکتی۔ تو یہ جو ایک گھمنڈ اور تصور ہے، یہ بجائے خود انسان کے اخلاق اور اس کی شخصیت کو بالکل ماردینے والا ہے۔ یہ تصور کہ میں خودمختار ہوں اور جو چاہوں میں حاصل کرسکتا ہوں، اس سے ایک خاص طرح کا گھمنڈ پیدا ہوتا ہے اور ایک خاص طرح کا اپنے اوپر جھوٹا اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے آدمی کے اندر توکل کی صفت بہت کمزور ہو جاتی ہے اور دعا کے ساتھ اس کا رشتہ بہت کمزور پڑجاتا ہے۔ جب انسان کی سوچ یہ ہوجائے کہ مجھے اپنے اوپر ہی اعتماد کرنا ہے، اپنے معاملات کو خود دیکھنا ہے اور اپنے وسائل پر مجھے بھروسا کرنا ہے، تو اس سے بھی انسان کی شخصیت بہت گھٹیا اور کمزور پڑجاتی ہے۔ پھر اس کا ایک اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ امارت اور غربت کا ذمے دار بھی انسان خود کو قرار دیتاہے۔ اس طرح کا ایک مشہور جملہ ہے کہ اگر آپ غریب پیدا ہوئے ہیں تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے، لیکن اگر آپ غریب مرے ہیں تو اس میں یقیناً آپ کا قصور ہے۔ یہ ذہن سازی کیا ہے؟ اس کا مطلب ایک تو یہ ہے کہ غربت ایک لعنت ہے۔ لیکن اگر آپ اپنی روایت کو دیکھیں تو ہماری روایت تو یہ نہیں ہے۔ مثلاً آپ حدیث کی ایک معروف کتاب ریاض الصالحین پڑھیں تو وہاں ایک باب ہوگا:باب فضل الزهد في الدنيا والحثِّ على التَّقَلُّلِ منها، وفضل الفقر یا آپ کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبيﷺ وأصحابه پڑھ لیں۔ان کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ تصورہماری روایت کے بالکل برعکس ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ انسان اگر غریب ہے تو وہ غربت کا ذمے دار ہے اور اگر وہ امیر ہے تو بھی وہ امارت کا ذمے دار ہے۔ اس سے لوگ بہت زیادہ ذہنی دباؤکا شکار ہوتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم کما نہیں پا رہے اور ہم دنیا میں آگے نہیں بڑھ پا رہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے اندرکوئی عیب اور اخلاقی نقص ہے اور اس کی بنیاد پر ہمیں اپنے اوپر ترس کھانا چاہیے اور اپنے آپ سے نفرت کرنی چاہیے۔ اسی وجہ سے اس کا ایک اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ غریبوں کے ساتھ ہم دردی، محبت اور الفت کا تعلق نہیں رکھ سکتے۔ آپ کہیں گے کہ یہ نالائق ہیں اور یہ اگر نہیں کما پا رہے یا دنیا میں پیچھے رہ گئے ہیں تو یہ ان کا اپنا قصور ہے۔ یعنی غریبوں کے ساتھ محبت، الفت، ہم دردی اور ہم احساسی کاجو تعلق ہونا چاہیے وہ بھی پیدا نہیں ہو پاتا۔
اسی طرح آپ کو معلوم ہوگا کہ آج کل مغرب کے اندرجو اخلاقیات پر مباحثے ہو رہے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ بہت سارے ممالک کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فلاحی ریاستیں ہیں، اور ویلفیئر اسٹیٹس خاص طور پر Scandinavianممالک ہیں۔ تو وہ فلاحی ریاستیں کیسے بن پاتی ہیں، وہ اس وجہ سے بن پاتی ہیں کہ وہ haves اور have notsکی بنیاد پر ہیں لیکن یہ تقسیم تو کبھی دنیا میں ختم نہیں ہو سکتی، یعنی آئیڈیل کے طور پر مساوات کا ایک تصور کہ سب لوگ برابر کر دیے جائیں، یہ ناممکن ہے۔ ایک تو یہ منطقی طور پر ممکن نہیں ہے کہ تمام لوگوں کو یکساں مال دے دیا جائے۔ دوسرے، اگر یہ کر بھی دیا جائے، تب بھی مراتب باقی رہیں گے۔ یعنی آپ نے اگر طے کر دیا کہ ہر مہینے سب لوگوں کو دس ہزار روپے ملنے ہیں، تو کچھ لوگ ان میں سے سمجھ دار ہوں گے، اس پیسے کو سنبھال لیں گے، اس میں سے کم کو خرچ کرنے پر اکتفا کریں گے۔ لیکن کچھ ان میں عیّاش قسم کے ہوں گے وہ پیسے کو اڑا دیں گے۔ چاہے آپ ان کو ایک جیسے پیسے دیں، لیکن کچھ مہینے بعد وہ مراتب پھر سے قائم ہو جائیں گے۔ یہ تو ناممکن ہے کہ آپ تمام لوگوں کوایک سطح پر لے آئیں۔ پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ سب کو یکساں مواقع فراہم ہونے چاہییں، لیکن یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ اگر آپ نے مواقع سب کے لیے فراہم کر بھی دیے، تب بھی وہی بات آئے گی کہ انسان تو سب ایک جیسے نہیں ہیں، ان میں صلاحیت، جذبےاور استطاعت کا فرق ہے، تو پھر وہی مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ اسی لیے آپ کو معلوم ہوگا کہ اب مغرب کے اندر ایک تصور ہے کہ خاص رنگ، قوم، مذہب کے لوگوں کو آپ نے دبایا اور کچھ لوگوں کو آپ نے ترجیح دی، یعنی ایک امتیازی سلوک آپ نے روا رکھا۔چنانچہ اب وہ لوگ جو دبے اور پسے ہوئے ہیں، ان کواستحقاق دیا جائے،، ان کو کچھ زیادہ مواقع دیے جائیں۔کیونکہ یکساں مواقع فراہم کریں گے تو بھی کچھ لوگ نیچے رہ جائیں گے، اس لیے تھوڑا سا غیر متناسب نظام رائج کرنا پڑے گا۔ یہ وہی بات ہے جسے ہمارے ہاں کوٹہ سسٹم کہا جاتاہے۔ لہذا اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ اس طرح کی یکسانیت پیدا کرنا تو ممکن نہیں ہے۔ پھر جس طرح میں نے عرض کیا کہ فلاحی ریاست میں یہ ہوتا ہے کہ جو haves ہیں ان پر بہت زیادہ ٹیکس لگایا جائے۔ اب مغرب میں یہ بحثیں زیادہ پیدا ہو رہی ہیں کہ یہ نامناسب اور غیر اخلاقی ہے۔ اس پر اب ایک سوال اٹھ رہا ہے کہ میں کچھ لوگوں کی نالائقی اور غربت کو کیوں بھگتوں، مجھے کس بات کی سزا دی جا رہی ہے۔ میں پیسے کما رہا ہوں اور میرے پاس مال ہے، آپ مجھ سے لے کر ان غریبوں اور مسکینوں کو دے رہے ہیں؟ تو اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اس طرح کا جو ادب ہے جس میں دولت، شہرت اور کامیابی کو اتنا زیادہ نمایاں کیا جاتا ہے، اس میں پھر یہ مسائل پیدا ہوتے ہیں کہ غریبوں سے وحشت، نفرت پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ ہمیں نیچے گرانے کا سبب بنیں گے، ہماری دولت میں سے بلاوجہ یہ حصہ لے جائیں گے۔ پھر کامیابی کے ساتھ اس میں ایک اور تصور خوشی کا ہے، یعنی خوشی کے تصور کو غیرمعمولی اہمیت دینا۔ ویسے تو ظاہر بات ہے کہ خوشی ایک روحانی جذبہ بھی ہے، اور جس طرح ہمارے ایک استاد فرمایا کرتے تھے کہ خوش رہنا ایک دینی ذمے داری ہے، کیونکہ خوش آدمی جیسے شاکر آدمی ہوتا ہے۔ یعنی وہ آدمی جو ہر وقت اداس رہتا ہے، کم امکان ہے کہ وہ آدمی شکر گزار ہو، ان معنوں میں کہ میرے رب نے اپنی نعمتیں میرے لیے میسر کر رکھی ہیں۔ رمضان المبارک کی روایتیں ہم پڑھتے ہیں کہ: «للصائم فرحتان» ’’روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں‘‘، اس میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ جب انسان اپنا روزہ افطار کرتا ہے تو وہ افطار سے خوش ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم پرمیں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سےاجتناب کیا تھا، اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت مل گئی ہے تو میں فوری طور پر اس سے فائدہ اٹھاؤں۔ یہی وجہ ہے کہ افطار میں تعجیل افضل ہے۔ ان معنوں میں خوشی ایک اچھی چیز ہے۔ لیکن خوشی بمعنیٔ لذت، اس نے خوشی کا تصور بہت زیادہ گرا دیا ہے۔
جیریمی بینتھم نے کہا تھا کہ اصل میں انسان کے دو ہی مالک اور ماسٹرز ہیں:الم اور لذت، یعنی انسان کی پوری شخصیت کو یہ دو چیزیں چلاتی ہیں۔ پھر اس کے نزدیک لذت کا لفظ خوشی سے بھی زیادہ ہلکا ہے، جس کو Hedonism کہتے ہیں یعنی لذتوں کے پیچھے بھاگنا۔ ایک تو خوشی کا تصور اس سے پیدا ہوا، پھر اس کو اتنا زیادہ ابھارنا ، حالانکہ کبھی آپ غور کریں، انسان کے سب سے سچے احساسات المیاتی ہوتے ہیں، اور ہر انسان کو اس کا تجربہ ہے۔ یعنی خوشی میں اتنی گہرائی نہیں ہوتی جتنی غم میں ہوتی ہے، غم بہت گہرا ہوتا ہے اور اس کے اثرات بھی انسان پر بہت گہرے ہوتے ہیں۔ بہر حال! ایک تو خوشی کو پوجنے کی حد تک اہمیت دینا ہے، ظاہر ہے یہ رویہ ٹھیک نہیں ہے۔ انسان اصل میں اس دنیا میں اس لیے نہیں آیا کہ وہ اس دنیا میں خوش رہے، بلکہ انسان اس دنیا میں ایک آزمائش کو گزارنے آیا ہے اور ایک بندے کی حیثیت سے اپنی زندگی گزار کر جائے گا۔
پھر ایک اور تصور مثبت سوچ کا ہے کہ آپ جیسا سوچیں گے دنیا میں ویسے ہی حالات شروع ہو جائیں گے، اور اسی کا عکس خارج میں نظر آئے گا۔ آپ اچھا سوچیں گے تو آپ کے ساتھ اچھا ہوگا اور برا سوچیں گے تو آپ کے ساتھ برا ہوگا۔ یہ بھی ظاہر بات ہے کہ زیادہ تر دھوکا ہی ہے، ایسا نہیں ہوتا۔ اگر معاملات اتنے سادہ ہوتے تو اچھا سوچنے میں تو اتنا کوئی خرچہ نہیں ہوتا، سب لوگ ہی اچھا سوچنا شروع ہو جائیں۔ لیکن وہ نتائج نہیں نکلتے جو بیان کیے جاتے ہیں کہ اگر آپ اچھا سوچیں گے تو اس کے نتیجے میں خارج میں حالات آپ کے ساتھ ایسا شروع ہو جائیں گے۔ اسی طریقے سے رجائیت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے کہ امید ہونی چاہیے، لیکن بعض اوقات یہ بھی انسان کے لیے مضر ہو جاتی ہے، یعنی اگر آپ آخرت کو چھوڑ دیں، دین کو چھوڑدیں تو تب بھی یہ امید مضر بن جاتی ہے کہ آپ بلا وجہ خوش کن آرزوئیں کرتے رہیں۔ آدمی کو حقیقت پسند ہونا چاہیے، اور دین جو ہمیں ظن کے بارے میں کہتا ہے، تو اس میں بھی صرف یہ نہیں ہے کہ بد ظنی بری چیز ہے، بلکہ حسن ِظن بغیر کسی بنیاد کے اس میں بھی بہت زیادہ مبالغہ کرنا مضر ہے اور اس سے بھی انسان کا نقصان ہو جاتا ہے۔ ایسے ادب میں رجائیت پر بہت زور ہوتا ہے لیکن اس کے نتائج بھی ویسے نہیں نکلتے۔ پھر یہ تصور کہ کامیابی محض چند عادتوں کو اختیار کرنے سے مل جائے گی یہ بہت زیادہ سادہ لوحی کی بات ہے۔ اگر آپ آخرت کو چھوڑ بھی دیں یا آپ دین کا تصور نہیں بھی رکھتے، تو ایسا نہیں ہوتا کہ آدمی چند عادات اختیار کر لے اور ایک چیک لسٹ بنالے کہ میں اپنے اندریہ یہ چیزیں پیدا کرلوں تو ایسا ہوجائے گا، ایسا نہیں ہوتا۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اسی طرح کے ادب زیادہ پڑھتے ہیں یا وہ کسی موٹیویشنل اسپیچ میں جاتے ہیں، وہ جب تک وہاں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اس وقت تو پُرجوش ہو جاتے ہیں، اور ان میں ایک جذبہ اور ولولہ پیدا ہوجاتا ہے، لیکن بعد میں جب وہ حقیقی زندگی میں آتے ہیں اور وہاں معاملات کرتے ہیں تو بہت زیادہ مایوس ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہاں جو بتایا گیا تھا کہ یہ یہ کروگے تو ایسا ہوجائے گا اور میرے ساتھ تو وہ نہیں ہو رہا، چنانچہ ایسا آدمی سمجھنے لگتا ہے کہ کہیں میں بہت ہی نکما اور بد قسمت آدمی ہوں۔ انسان پھر اپنے بارے میں بہت زیادہ مایوس ہونے لگتا ہے۔ لہذا اس طرح کے ادب کو جو لوگ زیادہ پڑھتے ہیں یا اس طرح کی گفتگو میں زیادہ شرکت کرتے ہیں، ان کے ہاں ذہنی دباؤ اور اس نوعیت کی دیگربیماریاں بہت زیادہ ہوتی ہیں، وہ اداس اور غمگین رہتے ہیں۔
پھر اس طرح کے ادب کے بارے میں لوگوں نے ایک بات کہی ہے جو بہت اہم اور صحیح ہے ، وہ یہ کہ اس میں فرد کو بہت زیادہ اہمیت دے دی جاتی ہے اور موجودہ دور کےمعاشرتی ڈھانچے کو یک سر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ سلیم ؔاحمد صاحب کا ایک شعر ہے:
عشق کو شاد کرے غم کا مقدر بدلے |
حسن کو اتنا بھی مختار نہ سمجھا جائے |
تو انسان اتنی بڑی چیز نہیں ہے اور نہ یہ بات کہ ہر آدمی اتنی طاقت رکھتا ہے۔ ایک اچھا شعر پچھلے دنوں سنا تھا:
یہ میرا دل نہیں دنیا ہے میری جان اسے |
تم فقط حسن سے تسخیر نہیں کر سکتے |
تو یہ میرا دل نہیں میری دنیا ہے اور اس کو تسخیر کرنے کے لیے صرف خوب صورتی کافی نہیں ہے، اور بھی بہت کچھ درکار ہے۔ تو اس طرح کا ادب اس بات سے صرفِ نظر کرتا ہے کہ اگر سسٹم کرپٹ ہے یا سسٹم کے اندر ایک غیر معمولی طاقت ہے تو اس میں افراد کچھ زیادہ کر نہیں سکتے۔ اور اس میں ایک اور جو اخلاقی طور پر سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ پھر کوئی عدل کا نظام قائم کرنے کی یا اس استحصال کوختم کرنے کی کوشش کرنےکا خیال آتا ہی نہیں ہے۔ سارا الزام آپ اپنے اوپر دیتے ہیں کہ میں اگر ناکام ہوں یا اورکوئی اور شخص ناکام ہے تو اس ناکامی کا اصل ذمے دار وہ خود ہے۔
بہر حال اس نظام کے اندر ہی کچھ مسئلے اور خرابیاں ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ اس طرح کا سارا ادب گویا اصل میں سرمایہ داری کا معاون ہے کہ اسٹیٹس باقی رہے اور لوگ اس کو بدلنے کے بارے میں نہ سوچیں بھلے اپنے بارے میں سوچتے رہیں کہ میرے اندر یہ فلاں فلاں صلاحیتیں ہیں یا نہیں ہیں۔ اور اگر میں وہ پیدا کروں گا تو میرے لیے وہ نتائج نکل آئیں گے، نہیں کرپایا تو نہیں نکلیں گے، اس تصور سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں کہ آدمی اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ مگر اس نظام اور اس سسٹم کے اندر کچھ مسائل ہیں جن کو ہمیں ٹھیک کرنا ہےاس طرف خیال نہیں جاتا۔ اور اس طرح کا ادب پڑھنے کے بعد جو انسان کا شخصیت کے بارے میں تصور بنتا ہے وہ وہی ہے جس کے لیے ایرک فرام نے ایک اصطلاح استعمال کی تھی: The marketing corrector کہ وہاں پر آدمی کے لیے اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ مجھے اپنے آپ کو ایک قابلِ فروخت جنس بنانا ہے۔ باہر تو بہت عرصے سے یہ ہو رہا تھا، اب آپ کے تعلیمی اداروں کے اشتہار میں یہ بات آ رہی ہے کہ خود کو ایک اچھی جنس بناؤ، اپنے برینڈ کو بہتر کرو، یعنی اپنی قیمت بناؤ تاکہ تمھاری بولی زیادہ لگ سکے۔ ندا فاضلی کا ایک شعر ہے:
یہ شہر ہے کہ نمائش لگی ہوئی ہے کوئی |
جو آدمی بھی ملا بن کے اشتہار ملا |
اس وقت ہمارے ہاں اگر آپ اچھے اداروں میں جائیں اور طلبہ کو دیکھیں تو لگتا ہے وہ جیسے ایک پروڈکٹ بنے پھر رہے ہیں۔ اس کے اسباب میں صرف ملازمت نہیں ہے، اور بھی اسباب ہیں جن میں ایک خواتین کی توجہ حاصل کرنا ہے، وہ بھی ایک مرض ہے۔ وہ بھی خود کو فروخت کرنا ہی ہے، اور ایک اشتہار ہے کہ آدمی جیسے اپنے آپ کو بیچ رہا ہے اور اپنا سودا لگا رہا ہے۔ تو وہ جس کو Commodification کہتے ہیں کہ ہر چیز ایک Commodity بن جائے۔ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے کہ ہر آدمی آپ کوزرِ مبادلہ کے طور پر دیکھے۔ میری اپنی ایک قیمت ہے، میری بولی کیا لگتی ہے۔ اکبرؔ نے اس وقت کہا تھا کہ:
نہیں پرسش کچھ اس کی الفتِ اللہ کتنی ہے |
سبھی یہ پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے |
یعنی پہلے آپ کی قدر و قیمت اس سے ہوتی تھی کہ الفتِ اللہ کتنی ہے، اگر آپ اللہ والے ہیں تو آپ قیمتی ہیں۔ اب آپ کی قیمت آپ کی تنخواہ سے طے ہوتی ہے۔ اصل بات یہ ہے، باقی وہ نماز پڑھتا ہے نہیں پڑھتا یا کردار میں کیسا ہے، یہ بات اتنی اہم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم کے مقاصد بہت گھٹیا ہو چکے ہیں، علم کا جو مقصد پرانے لوگوں نے بتایا ہے،یا جو ارسطو کے زمانے سے چلاآ رہا ہے کہ علم کا اصل مقصد ’’معرفت‘‘ ہے، یعنی حقیقت کی تلاش اور حق کی معرفت ۔ اور کم درجے پر یہ مقصد تھا کہ ایک اچھی پاکیزہ اور سعادت والی زندگی بسر کرنا۔ تیسرے درجے میں یہ تھا کہ آپ کے پاس کوئی ہنر، طاقت یا صلاحیت ہونی چاہیے جس کے ذریعے آپ کچھ کھا کما سکیں۔ اب بہر حال تصورات کافی بدل چکے ہیں، اقبالؔ نےکہا تھا کہ:
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں |
جس علم کا حاصل ہے فقط دو کفِ جو |
اور
عصرِ حاضر ملک الموت ہے تيرا، جس نے |
قبض کی روح تری دے کے تجھے فکر ِ معاش |
بہرحال،اب یہ موٹیویشنل اسپیکنگ اور لٹریچر کی وبا بہت پھیلتی جا رہی ہے، اور ہم لوگ بھی اس طرح کی چیزوں کو بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ ان چیزوں کا ہم پر اثر نہ ہو، ان کا ہم پر اثر ہوتا ہے، چاہے ہم تفریح کے لیے اس طرح کی چیزوں کو سنتےرہیں یا وقت گزارنے کے لیے سنتے رہیں اس کی تاثیر ہم پر ہوتی ہے۔ نبی کریمﷺ کا معمول یہ تھا کہ وہ اس کا بہت دھیان کرتے تھے کہ کوئی بھی چیز لوگوں کو ان کے اصل مقصد سے دور نہ کرے۔ ایک مرتبہ یمن سے کپڑا آیا، صحابۂ کرام اس کو بہت غور سےدیکھ رہے تھے، اور اسے بہت پسند کرنے لگے تھے۔ اس پر نبیﷺ نے فرمایا کہ سعد ابن معاذ رضی اللہ عنہ کو جنت میں جو ناک پوچھنے کا رومال دیا گیا ہے وہ اس سے زیادہ افضل ہے۔ تو آپ دیکھیں کہ آپﷺ بات کو یک دم وہاں لے گئے کہ کہیں لوگ دنیا کی طرف راغب نہ ہو جائیں۔ تو اس طرح کا ادب پڑھنے سے یا ویڈیوز دیکھنے سے تو ویسے ہی بہت مسائل پیدا ہوتے ہیں، مزید یہ کہ یہ زیادہ تر دھوکا اور فریب ہے اور جن مقاصد کے لیے لوگ ان چیزوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں،وہ بھی حاصل نہیں ہوتے۔ یہاں اصل میں سب لوگ تقریباً شکست خوردہ ہی ہوتے ہیں اور فاتح وہ ایک صاحب ہوتے ہیں جو یہ چورن بیچ رہے ہوتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ اس سارے معاملے کے روحانی مضرات بھی لوگوں پر ہوتے ہیں۔ احتیاط اسی میں ہے کہ ان چیزوں پر کان دھرنے کے بجائے حقیقت پسندی کے ساتھ حالات کا جائزہ لیا جائے تاکہ کسی قسم کی مایوسی اور ناامیدی کا سامنا نہ ہو۔