احمد جاویدؔ
مُنعم کے پاس قاقُم و سَنْجاب تھا تو کیا |
اُس رند کی بھی رات گزر گئی جو عُور تھا |
اس شعر میں کچھ لفظ قدرے مشکل ہیں کیو نکہ شعروادب میں بھی ان لفظوں کا استعمال اب نہ ہونے کے برابررہ گیا ہے۔منعم،قاقم،سنجاب،اور عور۔ بلکہ عور کوبھی ذرا مشکل لفظ ہی سمجھنا چاہیے۔ تو پہلے ان الفاظ کو کھول لیتے ہیں پھر شعر کی شرح کریں گے۔ منعم:دولت مند اور مال دارآدمی۔قاقُم:مخمل جیسا دبیز ریشمی کپڑا جسے کمبل کی طرح اوڑھا جاسکتاہے۔ سنجاب:کمخواب کی طرح کا ایک چمکیلا اور نقش ونگار والا کپڑا جسے بچھایا جاسکتاہے۔ عور:مے خوار،آزاد مشرب،فقیر،یہاں مراد ہے بے سروسامان۔اور عور:جس کے پاس کوئی کپڑا نہ ہو۔ شعریہ ہے کہ یہ دنیا اور زندگی ایک رات کی ہے جو بھاری سازوسامان کے ساتھ بھی گزر جاتی ہے اور بے سروسامانی کی حالت میں بھی بیت جاتی ہے۔ یہ رات جب تک بیتی نہ تھی تو مفلس، امیر کو رشک سے دیکھتا تھا اور امیر، مفلس کو حقارت سے۔رات گزرگئی تو پتا چلا کہ امیر بھی احمق تھا اور مفلس بھی نادان تھا۔ امیر کی نظر اپنے قاقم وسنجاب پر تھی اور مفلس کی نگاہ اپنی بے سروسامانی پر۔ دونوں رات کی معرفت اور تجربے سے محروم رہے۔ یعنی دنیا اور زندگی کے حقائق سے بے خبر رہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ بظاہر شعر میں مفلس کی بے وقوفی نہیں بتائی گئی لیکن ذرا غور کریں تو عور کا لفظ لا کر میر ؔنے مفلس کی نادانی کی طرف ایک بلیغ اشارہ کردیاہے۔یعنی جس مفلس کو رندی کی حالت نصیب نہ تھی، وہ اس رات میں ڈرتا اور کڑھتا رہا،لیکن جسے یہ حالت حاصل تھی اس نے یہ رات ایک بے خودی کی رو میں گزاردی۔
لیکن اگر عور کے لفظ کو ایک اصطلاح نہ سمجھنا جائے اور اس کے روایتی معانی کو یہاں وارِدنہ کیاجائے تو پھر شعر کا مضمون بالکل سادہ ہے۔جاڑ ے کی لمبی رات ہے،یہ رات گزارنے کی زیادہ فکر میں نہ پڑے،یہ تو ویسے ہی گزرجائے گی۔ اگر ہم اس شعر کو اسی مفہوم تک محدود رکھیں تو اس سے بس ایک اخلاقی سبق حاصل ہوتاہے کہ راستا چاہے ہموار ہو یا ناہموار،کٹ ہی جاتا ہے۔ عقل مند آدمی کو راستے کی ہمواری میں منہمک رہنے یا ناہمواری پر کڑھنے کی بجائے منزل پر نظر رکھنی چاہیے جو بہر حال سب مسافر وں کے لیے ایک ہی ہے۔ اگر شعر کا مطلب اتنا ہی ہے تو پھر عُور بھی کوئی صوفیانہ اصطلاح نہیں ہے بلکہ محض ایک عام سا کلمہ ہے جو شراب نوش، فقیر اور مفلس کے معنی میں استعمال کیا جاتاہے۔ اب اس شعر میں داد کے قابل صرف ایک چیز رہ جاتی ہے۔اور وہ ہے عُور کا استعمال۔اتنا نادر،غیر معروف اور نا مانوس لفظ جس سہولت کے ساتھ برتا گیا ہے وہ حیران کن ہے۔ قاری اس لفظ کو نہ جاننے کے باوجود روانی سے پڑھ جاتاہے اور یہ احساس بعد میں ہوتاہے کہ میں یہ لفظ پہلی مرتبہ پڑھ رہاہوں اور ظاہر ہے کہ اس کا مطلب بھی میرے علم میں نہیں ہے۔ یعنی عور پر ذہن تو اٹکتا ہے مگر زبان نہیں۔ یہ بڑا کمال ہے۔ اس شعر کا جو فوری مفہوم ابھی ہم نے سمجھا ہے،اسی میں رہتے ہوئے اس کے اندر دنیا اور انسان یا تاریخ اور آدمی کے بارے میں ایک بصیرت اور ایک گہرے احساس کو بوجھا جاسکتاہے۔دنیا یا تاریخ کے زوایے سے دیکھا جائے تو انسان ایک لگی بندھی حرکت کے نظام میں رہتاہے۔وہ یہاں فاعلی پوزیشن اختیار کرلے یا انفعالی حیثیت قبول کیے رکھے،دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے۔ اور جس چیز کو ہم گہر ے احساس سے تعبیر کررہے ہیں وہ تاریخ اور آدمی کے جبری تعلق کو انسانی زاویے سے دیکھنے سے گرفت میں آتاہے۔یعنی اس شعر میں مخفی بصیرت تو تاریخ اور دنیا کو حوالہ بنا کر سمجھ میں آتی ہے اور اس میں پوشیدہ احساس انسان کو حوالہ بنا کر دسترس میں آتاہے۔ وہ احسا س اپنی پوری بناوٹ میں ایک جدلیاتی احساس ہے جس میں دو چیزیں بیک وقت لاتعلقی اور تصادم کا احاطہ کیے ہوئے ہیں،دونوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔منعم اور عورمیں تصادم کی حالت ہے۔ اور’’تو کیا‘‘ کے ٹکڑے سے اس میں لاتعلقی اور بے نیازی کا عنصر بھی داخل کردیا گیا ہے۔گویا ایک گہری المنا کی اور ایک لا تعلق بے نیازی جیسے ایک دوسرے کے متوازی چلے جارہی ہیں۔ یہ اپنی جگہ دو مستقل احساسات بھی ہیں اور ایک نامعلوم اور ناموسوم احساس کا حصہ بھی ہیں۔ وہ نامعلوم احساس جسے کوئی نام نہیں دیا جاسکتا،اس شعر میں کارفرمادو متوازی یا متضاد کیفیات کوایک محسوساتی بلکہ احوالی وحدت فراہم کردیتا ہے۔بلکہ وحدت کی بجائے یہ کہنا چاہیے کہ وہ احساس ان دونوں کیفیتوں کے لیے کل کا درجہ رکھتاہے جس سے منسوب ہو کر یہ دونوں اپنی تکمیل کے ایک مشترک نقطے تک پہنچ جاتے ہیں۔اب بات ٹھیک ہوگئی۔ اس شعر میں عور کا کردار مرکزی ہے۔اس کو ٹھیک سے سمجھنا ضروری ہے۔تصوف میں عور مستقل احوالِ حضور میں رہنے والے اس مجذوب کو کہتے ہیں جس کے لیے اللہ کے سوا ہر شے غائب بلکہ معدوم ہے،جس کے پاس اللہ کے سوا کچھ نہیں،حتیٰ کہ وہ خود بھی نہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ میرؔ کا متصوفانہ روایت سے کوئی قابل ِذکرتعلق نہیں ہے لہذا یہاں عور کے صوفیانہ مفاہیم کو نظر انداز کردینا چاہیے۔عور کا اصلی مطلب ہے شراب نوش جو ہر وقت میخانے میں ہوتاہے اور نشے میں رہتاہے۔ مے خواری اور مے خانہ نشینی کی وجہ سے ظاہر ہے کہ مفلس ونادار بھی ہوتاہے اور مےخانے کے باہر دنیا میں کیا ہورہاہے،اس سے بے خبر اور لاتعلق ہوتاہے۔ تو اگر عور کو اس کے اصلی مفہوم کے ساتھ دیکھاجائے تو شعر میں یہ کہا گیاہے کہ منعم رات کی خبر رکھتا تھا لہذا اسے کسی ساز وبرگ کر ضرورت ہی نہ تھی۔یا اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ منعم کی دولت مندی اس وجہ سے ہے کہ وہ دنیا میں رہتا ہے جبکہ عور کی تہی دستی اس سبب سے ہے کہ وہ دنیا میں نہیں رہتا، اسے مال ودولت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔غرض اس طرح کے کئی چھوٹے چھوٹے پہلو نکالے لے جاسکتے ہیں جو اس شعر میں منعم اور عور کے کرداروں کو ذرا باریکی سے سمجھنے میں مدددے سکتے ہیں۔
میں بھی شعر کا ایک ایسا پہلو اجاگر کرنا چاہتا ہوں جس سے شعر کی معنویت میں ایک آدھ پرت کا اضافہ ہوسکتاہے اور اس کی پر لطفی بھی بڑھ سکتی ہے۔اس شعر میں منعم اور عور میں جو تضاد کی نسبت دکھائی گئی ہے،اس میں ایک رمز یہ بھی ہے کہ منعم مال مست ہوتاہے اور عور حال مست۔ ایک اپنے کمتر سے مغلوب ہے اور دوسرا اپنے سے برتر کا مفتوح،ایک کا ہوش بھی بے خبر ی ہے اور دوسری کی بے ہوشی بھی ہوشمندی۔ منعم اور عورمیں پائے جانے والے تضاد کے ان اسباب کو دیکھنے سے شعر کی معنویت بھی بڑھ جاتی ہے اور کیفیت بھی۔ یہاں تک پہنچ کرمیں آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ بہرصورت گزرجانے والی یہ رات منعم کے لیے وجود کی رات ہے جو عدم پر ختم ہوتی ہے اور عور کے لیے یہ عدم کی رات ہے جو وجود پر تما م ہوتی ہے۔