محمد نعیم ندوی صدیقی، ایم۔ اے، رفیق دارالمصنفین
ماخوذ:معارف، فروری ۱۹۷۳ء
تحقیق کا کام ہمیشہ آگے بڑھتا رہتا ہےبہت سے مسلمات وحقائق تحقیق کی کسوٹی پر آکر محض کذب و افترا ثابت ہوتے ہیں، ذیل کا مضمون بھی اسی کی ایک مثال ہے۔ سلطان عبدالحمید کے متعلق یہ عام شہرت ہے کہ وہ ظالم و جابر اور مطلق العنان حکمراں تھے، اسی کے نتیجے میں نوجوان ترکوں کی تنظیم’’عثمانی انجمنِ اتحاد و ترقی‘‘ کے نام سے وجود میں آئی تھی، اور بقول خالدہ ادیب خانم: عبدالحمید کی تخت نشینی کا دن عثمانی خاندان کے لیے قومی یومِ ماتم کے طور پر منائے جانے کا مستحق ہے۔ لیکن کویت کے سرکاری ماہنامے مجلة العربي کے دسمبر ۱۹۷۲ء کے شمارے میں دمشق کے ایک فاضل سعید الافغانی کے قلم سے ایک طویل مضمون شائع ہوا ہے جس میں سلطان عبدالحمید کے ایک نادر دستخطی خط سے یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا ہے کہ انجمنِ اتحاد وترقی دراصل یہودیوں کی ایجنٹ تھی اور سلطان کی معزولی محض اس بناپر ہوئی تھی کہ انھوں نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کے مطالبے کو مسترد کیا تھا۔رسالۂ مذکور نے سلطان کے اصل ترکی خط کا عکس بھی شائع کردیا ہے، اس تحقیق کے سامنے آنے کے بعد سلطان کے متعلق عام بیانات بالکل بے وزن ہوجاتے ہیں اور ان کے عہدِ حکومت کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کا رخ بدل جاتاہے،قارئین معارِف کے لیے اس کا ترجمہ و تلخیص پیش کی جاتی ہے۔دولتِ عثمانیہ کے مشہور حکمراں سلطان عبدالحمید ثانی کی معزولی کے حقیقی سبب کو واشگاف کرنے والی جو نادر تاریخی دستاویز ہم پہلی بار پیش کرنے جارہے ہیں اس کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتاہے کے سلطان کے عہدِ حکومت پر ایک اجمالی تبصرہ کردیا جائے تاکہ مورخین و محققین نےجن غلط بیانیوں سے کام لیا ہے اس کی حقیقت واضح ہوجائے۔
جب سلطان مراد خاں خامس کی معزولی کے بعد۱۸۷۶ء میں شہزادہ عبدالحمید تخت نشین ہوئے،تو دولتِ عثمانیہ شدید داخلی و خارجی بحران سے دوچار تھی،سلطان نے عنانِ حکومت سنبھالتے ہی تمام مشکلات سے عہدہ برآہونے کی پوری جدوجہد کی، ان کے عہد میں سلطنتِ عثمانیہ کی زیرِنگیں یورپی اور ایشیایی ممالک میں ریلوے لائن بچھائی گئی، متعدد بندرگاہیں تعمیر ہوئیں اور بغیر کسی غیر ملکی تعاون کے دمشق اور مدینہ کے درمیان حجاز ریلوے کی بنا پڑی۔(۱)سلطان عبدالحمید کے عہد میں عرب کے بہت سے مشاہیر حکومت کے بلند مناصب پر فائز ہوئے، یہ ایک حقیقت ہے کہ عربوں کو سلطان کے بارے میں خصوصی تقرب حاصل تھا، چنانچہ ان کا سیکنڈ سیکریٹری احمد پاشا دمشق کا ایک عرب تھا، سلطان کے شیخ ابوالہدٰی الصیادی بھی مضافاتِ حلب کے رہنے والے عرب تھے۔ سلطان کو عربوں سے اس حد تک شغف تھا کہ ان کے خاص حفاظتی دستے، فوجی جنرل اور محل کے ملازمین میں عربوں کی بڑی اکثریت تھی، اس التفات خصوصی کے نتیجے میں سلطان کو ترکی الاصل عوام کی مخالفت اور غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا۔اس کی عام داخلہ پالیسی کو’’عرب نواز اسلامی سیاست‘‘ کا نام دیا جاسکتاہے، سلطان عبدالحمید کی خارجہ پالیسی بھی جذبات، ناتجربہ کاری اور نا عاقبت اندیشی کی سیاست نہیں تھی، جیسا کے بعد میں انجمنِ اتحاد وترقی کے نوجوان ترکوں Yong Turksنے مشہور کردیا تھا، بلکہ پختہ شعور، کامل تجربہ اور بالغ اندیشی کی سیاست تھی۔(۲) سلطان کے ایک شدید مخالف سید جمال الدین افغانی نے بھی اس کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے، وہ کہتے ہیں: ’’میں نے انھیں امورِ جہاں بانی کی باریکیوں اور دُوَلِ یورپ کے عزائم سے مکمل طور پر باخبر دیکھا، وہ سلطنت کے خلاف ہر سازش سے آگاہ رہتے تھے۔ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متحیر کیا، وہ ان کا جاسوسی کا مضبوط نظام ہے جس کی وجہ سے یورپین حکومتیں دولتِ عثمانیہ کے خلاف کوئی اہم قدم نہیں اٹھا سکتی تھیں، اور ان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کرنا یورپی ممالک کی تباہی کے بغیر ممکن نہیں،اور جب یورپ نے ریاست ہاے بلقان کے بارے میں ترکی کے خلاف جنگ کرنے کے مسئلے پر اتفاق کرنے کی کوشش کی تو سلطان نے اپنی ذہانت اور عجیب وغریب دانشمندی سے ان طاقتوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنا دیا‘‘۔(۳)
ہرزل کی سلطان سے سودے بازی
۱۸۹۷ءمیں صیہونی تحریک کے بانی ہرزل نے فلسطین مین یہودیوں کا ایک قومی وطن بنانے کے لیے عبدالمجید سے سودے بازی کی تھی،(۴) اس کے معاوضے میں سلطان کی خدمت میں ایک خطیر رقم پیش کرتے ہوئے یقین دلایا تھا کہ اگر سلطان سرزمین فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنانے پر رضامند ہوجائیں تو سلطنتِ عثمانیہ کے ذمے تمام غیر ملکی قرضوں کو ادا کردیا جاےگا،جو نادر دستاویزہم پیش کر رہے ہیں اس سے بتصریح ثابت ہوتا ہے کہ سلطان نے ہر زل کی اس پیشکش کو حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا تھا،روس، فرانس اور انگلستان کی حکومتوں کو اس پر شدید غم و غصہ تھا کہ سلطان نے قسطنطنیہ اور بغداد کے درمیان ریلوے لائن بنانے کا ٹھیکہ ایک جرمن کمپنی کو کیوں دےدیا۔(۵) چنانچہ انھوں نے سلطنت کے مختلف عناصر کو عبدالحمید کے خلاف بغاوت کے لیے اکسایا اور اس کے لیے ان کی خفیہ مدد بھی کی،جس طرح یہ طاقتیں اس سے قبل ریاست ہاے بلقان میں کرچکی تھیں اور اسی سبب سے ترکی میں علیحدگی پسند جماعتیں ابھریں، ان سرکشوں کے رہنما بہت سے ایسے یہودی بھی تھےجو بظاہر اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے، ان جماعتوں کے خفیہ اجلاس غیر ملکوں میں منعقد ہوتے تھے،انجمنِ اتحاد وترقی کے بانیوں نے بھی اپنے ابتدائی جلسے پیرس و جنیوا میں کیے تھے، غیر ملکی سفارت خانوں نے سلطان کے خلاف سازش اور بغاوت کو کامیاب بنانے کے لیے اپنے خزانوں کے منھ کھول دیے، اور انجمنِ اتحاد و ترقی کے یہودی الاصل فوجی افسروں کے ذمے سلطان کو معزول اور دستوری حکومت قائم کرنے کی ذمے داری سپرد کی گئی تھی، انگلستان اور فرانس خاص طور پر حکومت کے باغیوں کو پناہ دینے میں پیش پیش تھے، اور اس کا تختہ الٹنے کی لیے اپنے ملک میں کام کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔
جب سلطان عبدالحمید نے ہرزل کا مطالبہ مسترد کردیا تو یہودیوں کو یقین ہوگیا تھا کہ جب تک عبدالحمید تخت نشین حکومت رہےگا فلسطین میں ان کے قومی وطن کا قیام ناممکن ہے، چنانچہ ترکی حکومت کا تختہ اور اس کے حصے بخرے کرنے کے لیے دو میدانون میں سرگرم عمل ہوگئے، بیرونی خصوصاً یورپین ممالک میں اپنی مشنریوں اور حکومت پر اپنے اثرو نفوزکو استعمال کیا، اور اندرونِ ملک سلطنت کے مختلف عناصر ؛کرد، عرب،ارمن اور چرکس وغیرہ میں جداگانہ قومیت کا جذبہ ابھارا۔ان کی کوشش بارآور ہوئیں۔چنانچہ انجمنِ اتحاد وترقی نے اپنی خفیہ سوسائٹی کا صدر دفتر سالونیکا میں قائم کیا۔ یہ شہر اس طرح کی خفیہ سرگرمیوں کے لیے نہایت موزوں تھا، یہاں تحریکِ انقلاب کو کامیاب بنانے کے لیے انجمن جو پروگرام منعقد کرتی، غیر ملکی طاقتیں اس کی پوری پشت پناہی کرتی تھیں،(۶) چند دنوں میں باغیوں کی خفیہ سازشیں علانیہ ظاہر ہونے لگیں، سالونیکا میں انجمنِ اتحاد و ترقی نے ۲۳ جولائی ۱۹۰۸ء کو علمِ بغاوت بلند کردیا اور سرکش فوج کی طرف سے ترکی کے صدرِ اعظم کو تار موصول ہوا کہ اگر پوری طور پر دستوری حکومت قائم نہ کی گئی تو انقلابی فوجیں قسطنطنیہ میں داخل ہوجائیں گی، جب سلطان کو یقینِ واثق ہوگیا کہ اب یہ شورش دبنے والی نہیں ہے، اور دولتِ عثمانیہ کے خلاف یورپین حکومتوں نے گہری سازش کرلی ہے تو اس نے ۲۴ جولائی ۱۹۰۸ء کو دوبارہ دستوری حکومت کا قیام منظور کرلیا۔(۷)عرب نوجوانوں میں جو قومی احساس غیروں نے غیر شعوری طور پر پیدا کردیاتھا وہ بھی ابھر آیا، غیرملکی جماعتیں، تعلیمی ادارے اور سفارت خانے قومی بیداری کے نام سے اس کو ہوا دیتے تھے، سلطنتِ عثمانیہ میں بیرونی قوموں کے جو اسکول اور کالج پھیلے ہوئے تھے، انھوں نے اس موقعے کو غنیمت سمجھ کر نصرانی و یہودی طلبہ کے دلوں کو مسلمانوں کے رعب وخوف سے اتنا بھر دیا کہ ان کو عثمانی شہنشاہیت سے نفرت ہوگئی۔(۸)دولتِ عثمانیہ کے خلاف تمام شورشوں کے پسِ پردہ یہودیوں کا نمایاں ہاتھ ہوتاتھا،انھی نے غیر ترکی عناصر میں قومی شعور پیداکیا اور ظلم و استبداد کے خلاف صف آرا ہونے کی حوصلہ افزائی کی۔انجمنِ اتحاد وترقی نے بھی عوام اور بالخصوص نوجوان طبقے کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ’’آزادی، مساوات اور عدل‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور جھوٹا پروپیگنڈا کیا کہ سلطان عبدالحمید نہایت استبداد پسند اور مطلق العنان حکمران ہے، اس کے عہد میں ہزاروں آدمی قتل کردیے گئے، اور ہزاروں جیل خانوں میں قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں، ایسے حاکم کا معزول کیا جانا ازروے ایمان بے حد ضروری ہے۔اس پروپیگنڈے کا اثر یہ ہوا کہ اندرونِ ملک اور پوری دنیا میں یہ خیال عام ہوگیا کہ ترکی عوام شدید گھٹن کے ماحول میں زندگی گذاررہے ہیں۔
جیسا کہ ناظرینِ کرام جانتے ہیں کہ سالونیکا کی باغی فوج پیش قدمی کرکے پایۂ تخت قسطنطنیہ میں داخل ہوگئی اور قصر ِیلدیز کا محاصرہ کرکے معزولی کی قرداد سلطان کے سامنے پیش کردی، آپ جانتے ہیں کہ اس قراداد کو سلطان تک پہنچانے والا کون تھا؟ انجمنِ اتحاد وترقی کا ایک یہودی نژادرکن قرا صو! جیسے ہی سلطان کی معزولی اور دستوری حکومت کے قیام کا اعلان ہوا، پوری عثمانی مملکت میں شادیانے بجنے لگے، اور عنانِ حکومت انجمنِ اتحاد وترقی کے نوجوان ترکوں کے ہاتھوں میں آگئی، انھوں نے سلطان عبدالحمید کے خلاف جھوٹے الزامات اور افتراوبہتان کی مہم تیز کردی، پورا پریس اس پرپیگنڈے میں سرگرم ہوگیا کہ عبدالحمید نہایت ظالم وجابر، متعصب، استبداد پسند اور مطلق العنان حکمران ہے، اس کے دورِ حکومت میں ترکوں اور غیر ترکوں کے خون کا دریا بہایا گیا۔ ہزاروں بے گناہوں کو زندان میں ڈالا گیا، اسکول اور کالجوں میں دولتِ عثمانیہ کی جو تاریخ پڑھائی جاتی، اس میں عبدالحمید کے عہد کو نہایت مسخ کرکے پیش کیا گیا تھا، پروپیگنڈے کے نتیجے میں خیال عام ہوگیا کہ انجمنِ اتحاد وترقی دراصل مملکتِ عثمانیہ کی نجات دہندہ ہے، اس نے ملک کو ایک نازک وقت میں جور واستبداد کے چنگل اور تباہی کے دہانے سے بچالیا، جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے، نوجوان ترکوں (Young Turks)نے حریت، مساوات اور عدل کے نام پر انقلاب کا علم بلند کیا تھا،لیکن بعد میں وقت نے خود ہی ان کے جھوٹے اصولوں کا کھوٹا پن ثابت کردیا، اور اس انجمن کے قائدین کی نا اہلی کی بدولت سلطنتِ عثمانیہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر فنا ہوگئی۔
ان واقعات پر زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ فلسطین کا غم انگیز حادثہ پیش آگیا، اور اہلِ دانش کی نگاہوں میں واقعات و حقائق خود بخود منکشف ہوگئے، اگر سلطان عبدالحمید نے یہودیوں کا مطالبہ تسلیم کرلیا ہوتا تو آخری سانس تک بڑے اطمینان سے حکومت کرتا رہتا، اب اس حقیقت میں کس شک وشبہے کی گنجائش باقی رہ گئی ہے کہ حکومتِ ترکی کے خلاف تمام شورشیں اور انقلابی تحریکیں دراصل ایک صیہونی ریاست کے قیام کا دیباچہ تھیں؟ نوجوان ترکوں کے عہدِ حکومت میں ہمارے اساتذہ نے سلطان عبدالحمید اور انجمنِ اتحاد وترقی کے بارے میں جو معلومات ہمیں فراہم کیں وہ سراسر کذب وافترا کا پلندہ تھیں، جس حقیقت کا ادراک ہم کو اب ہو رہاہے، دور اندیش عبدالحمید نے ساٹھ سال قبل ہی اس کو اپنی چشمِ بصیرت سے دیکھ لیا تھا، لیکن بدقسمتی سے سلطان کو کوئی ایسا شخص نہیں مل سکا جو اسی کی طرح معاملے کی تہ کو پہنچ سکتا، عبدالحمید کا تختِ حکومت دراصل صیہونیت کا شکار اور فلسطین کی راہ میں پہلی قربانی ثابت ہوا جس طرح حجاز کا سابق مرحوم فرمانروا حسین بن علی بھی اس راہ میں قربانی کا بکرا بنا تھا، جب اس نے فلسطین کے عربوں کے حقوق کے تحفظ میں زیادہ اہتمام کیا تو انگریزوں نے اسے تخت سے اتار کر قبرص میں جلاوطن کردیا۔
سلطان عبدالحمید کی معزولی کے وقت قصر ِیلدیز میں جو واقعات پیش آئے وہ ایک مقرب درباری زاہد پاشا اکثر اپنے ہم نشینوں کو سنایا کرتا تھا، دمشق کے جن معمر بزرگوں نے ان تفصیلات کو زاہد پاشا سے زبانی سنا ہے انھوں نے خود راقمِ سطور سے اس کی پوری تفصیل بیان کی کہ جب انقلاب پسندوں کی شورش بے حد بڑھ گئی اور سالونیکا میں اعلان کردیا گیا تو صدرِ اعظم نے فوراً سلطان کو اس سے آگاہ کیا، سلطان نے اس کے جواب میں صرٖف اتنا کہا:طَیِّبْ (یعنی اچھا)۔ پھر اس نے سلطان کو مطلع کیا کہ باغی قسطنطنیہ کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں، سلطان پھر طَیِّبْ کہہ کر خاموش ہوگیا، صدرِ اعظم تھوڑی دیر کے بعد سلطان کو خبر کرتا رہا کہ اب انقلابی فوج دارالسلطنت میں داخل ہوگئی ہےاب وہ قصرِ شاہی کی طرف بڑھ رہی ہےاس نے قصرِ یلدیز کا محاصرہ کرلیا ہےاس کے جواب میں سلطان صرف ایک لفظ طَیِّبْ کہتا رہا، صدرِ اعظم سلطان سے بہت خوف کھاتا تھا، اس لیے اس کو مزید کچھ کہنے کی ہمت نہیں پڑی۔ عثمانی فوج کے ایک اطاعت شعار افسر نے سلطان کی خدمت میں حاضر ہوکر باغیو ں سے مقابلہ کرنے کی اجازت طلب کی، سلطان نے ان کو نہایت سختی سے روک دیا، تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ اسی افسر نے دوبارہ آکر عرض کیا کہ ہمارے سپاہی مقابلہ کرنے کی اجازت چاہتے ہیں، عبدالحمید نے اس کے جواب میں جو کچھ کہا وہ اس کی صلح جوئی، نیکی وصلاحیت اور ایثار وقربانی کی بہت بڑی مثال ہے، اس نے کہا:’’میں خوب جانتا ہوں کہ انقلابیوں کا مقصد یا تو میری معزولی ہے یا میرا قتل، اورظاہر ہے میں فردِ واحد ہوں، جب میں تم کو مقابلہ کرنے کا حکم دے دوں گا تو تمھارے اور باغیوں کے ہاتھوں سیکڑوں افراد خاک وخون میں لوٹیں گے، اور تم سب اسی امت کے افراد ہو، اور یہ امت عن قریب پیش آنے والے شدائد و مشکلات میں تمھاری زیادہ ضرورت مند ہوگی‘‘۔مذکورہ بالا جواب سے ’’استبداد پسند‘‘ سلطان عبدالحمید کی جو تصویر نظر کے سامنے آتی ہے وہ اس سے قطعی مختلف ہے جو اتحادی نوجوانوں کی پروپیگنڈا مشینری نے برسرِاقتدار آنے کے بعد پیش کی تھی۔
دستاویز اور اس کا واقعہ
شیخ محمود ابوالشامات سلسلۂ شاذلیہ کے مشہور صاحبِ نسبت بزرگ گزرے ہیں، ان کا مزار دمشق کے محلہ قنوات میں مرجعِ انام ہے، شیخ کے مریدوں میں قصرِ یلدیز کے مہتمم راغب رضابے بھی تھے۔جب شیخ قسطنطنیہ تشریف لاتے تو اپنے مرید کے پاس محل کے گوشے میں قیام کرتے۔ سلطان عبدالحمید جو سلطنت کی معمولی سے معمولی بات سے آگاہ رہتے تھے، اپنے محل میں شیخ کے قیام سے کس طرح ناواقف رہتے، انھوں نے راغب رضا بے سے اس بارے میں پوچھا، اس نے اپنے مرشد کا تعارف کچھ اس طرح کرایا کہ سلطان بھی اس سے ملنے کا مشتاق ہوگیا، اور پھر ان سے مل کر اتنا متا ثر ہوا کہ طریقۂ شاذلیہ میں ان سے بیعت کرلی، سلطان کے ساتھ قسطنطنیہ کے بہت سے معززین، قصرِ شاہی کے ملازمین اور سپاہی وفوجی بھی شیخ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگئے۔
جب معزولی کے بعد سلطان کو سالونیکا کے ایک محل میں رکھا گیا تو اس کے حفاظتی دستے میں شیخ ابو الشامات کا ایک مرید بھی تھا، اس کے واسطے سے سلطان اور شیخ کے درمیان خفیہ مراسلت ہوا کرتی تھی، چنانچہ سلطان عبدالحمید کا اسی قسم کا ایک اہم خط زمانے کی دست برد سے محفوظ رہ کر ہم تک پہنچا، اس تاریخی خط میں سلطان نے اپنی معزولی کے راز سے بہت صراحت کے ساتھ پردہ اٹھایا ہے۔
انجمنِ اتحاد وترقی کے دورِ اقتدار میں شیخ نے اس خط کو ایک سربستہ راز کے طور پر محفوظ رکھا،شیخ کی وفات کے بعد ان کے صاحب زادوں نے بھی اس کی پوری حفاظت کی، اور سوائے چند ثقہ اہلِ تعلق کے کوئی اس سے واقف نہیں ہوا، یہاں تک کے جب اس دستاویز ی خط پر مرورِایام کے اثرات ظاہر ہونے لگےتو بعض دمشقی احباب نے میری توجہ اس طرف منعطف کرائی، میں نے شیخ کے لڑکوں سے اس خط کو دینے کی درخواست کی، کیونکہ اب اس کو پوشیدہ رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا تھا، اور حق کو منظر عام پر ہی لانا چاہیے تھا، تاکہ علما و محققین اپنی غلط تحقیقات کی تصحیح کرلیں، میں نے اس خط کا عکس لے کر اصل ترکی خط کو شکریے کے ساتھ شیخ کے ورثہ کو واپس کردیاہے، اس خط کا عربی ترجمہ اسی عہد کے ایک ایسے اہلِ علم نے کیا ہے جو عربی و ترکی دونوں زبانوں پر کامل عبور رکھتے تھے، شیخ ابو الشامات کے ورثہ نے اصل ترکی خط کے ساتھ اس عربی ترجمے کو بھی حفاظت سے رکھا ہے، اب خط ملاحظہ فرمائیں:(۹)
’’اس تمہید کے بعد میں آنجناب اور دوسرے اہلِ دانش کی خدمت میں تاریخ کی امانت کے طور پر ایک اہم معاملہ پیش کرتا ہوں، میں خلافتِ اسلامیہ سے کسی اور سبب کی بنا پر معزول نہیں کیا گیا۔ سوائے اس کے کہ نوجوان ترکوں کی انجمنِ اتحاد و ترقی کے لیڈروں نے مجھے دھمکیاں دیں اور بہت تنگ کیا جس کی وجہ سے مجبور ولاچار ہوکر مجھے خلافت چھوڑنی پڑی۔بلاشبہہ اتحادیوں نے مجھ پر حد درجہ اصرار کیا کہ میں ارضِ مقدس فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کا مطالبہ منظور کرلوں۔ ان کے اصرار ودھمکی کے علی الرغم میں نے کسی صورت میں اس کو قبول نہیں کیا، آخر میں انھوں نے بطورِ رشوت پندرہ کروڑ ڈالر سونے کی پیشکش کی، میں نے قطعی طور پر اس کو بھی ٹھکرادیا اور انھیں درج ذیل قطعی جواب دیا:’’ اگر تم پندرہ کروڑ انگریزی ڈالر سونے کے بجاے پوری دنیا کو سونے سے بھر کر مجھے دو تو بھی میں کسی طرح اس مطالبے کو منظور نہیں کرسکتا، میں نے تیس سال تک ملتِ اسلامیہ اور امتِ محمدیہ کی خدمت کی تھی، اور عثمانی خلفاوسلاطین میں سے میرے آبا واجداد نے مسلمانوں کے صحیفۂ اعمال کو سیاہ نہیں کیا، اس لیے میں بھی تمھاری اس پیشکش کو کسی حال میں قبول نہیں کرسکتا‘‘۔میرے اس قطعی جواب کے بعد انھوں نے میری معزولی پر اتفاقِ رائے کرلیا، اور مجھے مطلع کیا کہ وہ جلد ہی مجھے سالونیکا کے ایک محل میں نظر بند کردیں گے، میں نے ان کے اس عتاب کو گوارا کرلیا۔ میں خداوندِ قدوس کا ہزار شکر ادا کرتا ہوں کہ ارضِ فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام سے جو ابدی تنگ وعار لاحق ہوتا، میں نے عالمِ اسلام اور دولتِ عثمانیہ کو اس سے آلودہ کرنا قبول نہیں کیا،اور اس کے بعد جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا، میرا خیال ہے میں نے اس مسئلے پر صراحت کے ساھ تمام باتیں عرض کردی ہیں اور اسی پر اپنا یہ خط ختم کرتا ہوں۔ فی ۲۲ ایلول ۱۳۲۹ء۔ خادم المسلمین عبدالحمید بن عبد المجید ‘‘۔
سلطان نے اس خط میں یہودیوں اور ان کے ایجنٹ اتحادیوں (انجمنِ اتحاد وترقی کے ارکان ) کے اعمال پر جتنی صراحت سے روشنی ڈالی ہے اس سے زیادہ توضیح و تشریح کی گنجائش نہیں ہے، راقمِ سطور کو خود یاد ہے کہ جب پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریاں برپا ہوئیں اور ترکی کے ساتھ جو حوادث پیش آئے، اس زمانے میں ترکی عوام سلطان عبدالحمید کے عہد کو بڑی حسرت سے یاد کرتے تھے، اور جب کسی مجلس میں اس دور کا ذکر آجاتا تو بار بار لوگ سقی الله تلک الأیام ( یعنی خدا وہ زمانہ پھر لے آئے) کے الفاظ دہرایا کرتے تھے، اور اس وقت یہ عام خیال ہوگیا تھا کہ عبدالحمید کی معزولی نے درحقیقت ملک پر مصائب و شدائد اور بربادی کا دروازہ کھول دیا ہے۔
اب بھی جب کبھی راقم سطور کو عمر رسیدہ بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے کا اتفاق ہوتا ہے تو ان کی زبانوں سے اکثر عبدالحمید اور ان کے عہد کے لیے خیر وبرکت اور ترحم کے کلمات سنتا ہے، اب لوگ انجمنِ اتحاد وترقی کے نوجوان ترکوں اور ان کے پشت پناہ یہودیوں کے مکر و فریب کو بھول چکے ہیں، اور ان کا یہ عقیدہ پختہ ہوگیا ہے کہ انجمنِ اتحاد وترقی دراصل صہیونیوں کا ہر اول دستہ تھی، اور اگر سلطان نے یہودیوں کے ایجنٹ اتحادیوں کے مطالبے کے آگے سر جھکا دیا ہوتا تو یہودی ریاست کا خواب ۱۹۴۸ء کے بجائے ۱۹۰۸ء ہی میں پورا ہوجاتا، اس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ سلطان عبدالحمید ( خدا ان کی تربت کو اپنے انوار سے مالامال کرے) پہلا شخص ہے جس نے فلسطین کی دفاع میں جامِ شہادت نوش کیا۔(۱۰)
حواشی وحوالہ جات
(۱) فلسفۃ التاریخ العثمانی،ج ۲، ص ۱۲۶
(۲) فلسفۃ التاریخ العثمانی، ج ۲،ص۱۲۹
(۳) خاطرات، جمال الدین افغانی، ص ۳۵
(۴) مترجم: ۱۸۹۷ء میں بیسل میں پہلی صیہونی کانفرس منعقد ہوئی تھی، جس میں ہرزل نے اعلان کیا کی بیت المقدس کو یہودیوں کا قانونی وطن بنانا چاہیے، اس کے بعد نشرواشاعت کے ذریعے تحریک ترقی کرتی رہی، بیت المقدس کے یہودیوں کو منظم کیا گیا جنھوں نے عربی زبان تک بولنا اور لکھنا چھوڑدیا اور عبرانی وسریانی زبان کی ترویج شروع کی۔
(۵)َ مترجم: ایشیاے کو چک میں جدید ذرائع حمل ونقل کی عدم موجودگی کے باعث سفر کرنا دقت طلب تھا، جس کی وجہ سے جرمنی کو تجارت میں بہت دشواری ہوتی تھی، عثمانی حکومت کے صدر مقام سے ایشیاے کوچک تک جانے کے لیے کوئی ریلوے لائن نہ تھی، چنانچہ ایک جرمن کمپنی نے ۱۸۹۳ء میں ایک ریلوے لائن انقرہ تک تعمیر کی، اس کی وجہ سے سفر اور تجارت میں بڑی سہولت پیدا ہوگئی، چنانچہ سلطان نے اس ریلوے لائن کو بغداد تک بڑھانے کی اجازت دے دی اور تعمیر کاکام ایک جرمن ریلوے کمپنی کے سپرد کردیا گیا، اس ریلوے کی تعمیر سے فرانس اور برطانیہ دونوں کو تشویش پیدا ہوگئی، کیونکہ اس کی تعمیر سے نہ صرف ایشیاے کوچک میں جرمنی کا مکمل اقتصادی تسلط قائم ہوجاتا بلکہ مسو پوٹا میا اور خلیج فارس کی اقتصادی تسخیر کا بھی خطرہ تھا، جرمنی کے تاجر ’’بغداد ریلوے‘‘ کے جاری ہونے سے مشرقِ ادنیٰ کے بازاروں پر قابض ہوجاتے، اس کے علاوہ نہرِ سویز کے مقابلے میں اس ریلوے کے ذریعے تجارتی اشیا بہت کم وقت میں خلیجِ فارس تک بھیجی جاسکتی تھیں، حکومتِ برطانیہ کے لیے زیادہ تشویش ناک بات یہ تھی کہ ممکن ہے جرمن حکومت ’’ جرمن ریلوے کمپنی‘‘ کے تمام حقوق حاصل کر لے اور اس طرح ایک اقتصادی مسئلہ کہیں سیاسی حربہ نہ بن جائے، ان ہی وجوہ کے باعث روس، فرانس اور برطانیہ کو قسطنطنیہ میں جرمنی کا بڑھتا ہوا اثر ناگوار گزرا۔
(۶) فلسفۃ التاریخ العثمانی، ج ۲، ص ۱۶۷
(۸) فلسفۃ التاریخ العثمانی، ج۲، ص۱۶۸
(۹) مترجم: یہ خط کافی طویل ہے اور ایک مخلص مرید نے اپنے مرشد کو لکھا ہے، اس لیے خط کا ابتدائی اور آخری حصہ رسمی آداب واظہارِ عقیدت پر مشتمل ہے، جو عموماً مستر شد اپنے شیخ کے لیے ظاہر کرتے ہیں یعنی طویل آداب والقاب، قلبی ورود و اذکار کی پابندی کا ذکر اورسلام و تحیات وغیرہ، موضوع سے خارج ہونے کی بنا پر میں نے ان حصوں کو حذف کر دیا ہے۔
(۱۰) سلطان کی شہادت والی بات غالباً مصنف سے سہواً درج ہوگئی ہے، ورنہ یہ مشہور و معروف ہے کہ سلطان کی وفات بیماری کے سبب ہوئی۔(ادارہ)