مولانا حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر ماہنامہ مفاہیم، کراچی
۱۹:محمد خان رابع (۱۶۴۲۔۱۶۹۳ء)
محمد خان رابع ابھی تحصیلِ علم کے مرحلے میں تھے کہ عثمانی تخت کا بوجھ ان کے ناتواں کاندھوں پر رکھ دیا گیا۔ ان کے والد سلطان ابراہیم کی معزولی و شہادت نے محض سات سال کی عمر میں محمد خان کو سلطان بنا دیا۔ یہ ۱۶۴۸ء کا زمانہ تھا۔ طویل عرصے تک سلطنت کے امور حرم کی خواتین چلاتی رہیں۔ اس دوران متعدد صدرِ اعظم آتے اور جاتے رہے (عثمانیوں میں سلطان کے بعد صدرِ اعظم کا مرتبہ تھا، اسے وزیرِ اعظم بھی کہہ سکتے ہیں) لیکن سلطنت مستقل زوال کی طرف بڑھتی رہی۔ کہیں باغیوں کی شورش تو کہیں عثمانی فوج کے مظالم، کہیں افسروں کی بد عنوانی تو کہیں دشمن ممالک کے حملوں کا خوف، اس عرصے میں سلطان کا امورِ ریاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ سلطان کو اگر دلچسپی تھی تو صرف شکار سے تھی اور سلطان محمد خان رابع کا لقب ہی ’’شکاری‘‘ پڑ گیا تھا۔ ۱۶۵۶ءمیں والدۂ سلطان نے ایک انتہائی موزوں شخص کو صدرِ اعظم کے طور پر منتخب کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ شخص ’’محمد کو پریلی‘‘ تھا، تعلیم وتعلم سے بے بہرہ اور ان پڑھ لیکن ریاستی امور میں بہت ماہر۔ محمد کوپریلی نے ان شرائط کے ساتھ یہ عہدہ قبول کیا کہ مجھے سلطنت پر کلی اختیار حاصل ہوگا۔ سلطان مجھ سے کسی معاملے پر باز پرس نہیں کریں گے۔ میرا ہر فیصلہ تسلیم کرنا ہوگا۔ میں جسے چاہوں معزول کروں اور جسے چاہوں مقرر کروں میرے فیصلے پر سوال نہیں اٹھایا جائے گا اور میرے خلاف کسی قسم کی شکایت قابلِ سماعت نہیں ہوگی۔ والدہ ٔ سلطان نے محمد کوپریلی کی اہلیت کے پیشِ نظر ان شرائط کو منظور کیا اور کوپریلی نے نظامِ حکومت کی اصلاح کا آغاز کر دیا۔
کوپریلی نے اصلاح کے لیے سلطان مراد خان رابع کا طرز اختیار کیا اور ہر ہر محکمے پرسختی کی انتہا کر دی۔ ہر وہ شخص جو(چاہے فوجی افسر ہو یا کوئی اور عہدے دار) ذرا سی مخالفت کرتا، قتل کر دیا جاتا۔ جو معمولی شبہے کی زد میں آتا، اسے اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتا۔ تمام نا اہل افسر معزول کیے گئے اور اہل لوگ متعین ہوئے۔ چند ہی سالوں میں نظامِ حکومت مستحکم ہوگیا۔ محض پانچ سالوں میں ہر طرف امن و امان ہوگیا۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ اس پانچ سالہ اصلاحی مہم میں چھتیس ہزار لوگ قتل ہوئے۔ اس عرصے میں محمد کوپریلی نے بحری بیڑے کو از سرِ نو منظم کیا اور بحری قوت میں اضافہ کیا۔
۱۶۶۱ء میں محمد کوپریلی کی وفات پر ان کا بیٹا احمد کوپریلی صدرِ اعظم بنا۔ احمد کوپریلی بھی صلاحیتوں میں اپنے والد کی طرح تھا البتہ مزاج میں سختی بالکل نہیں تھی۔ احمد کوپریلی نہایت صاحبِ علم اور علوم وفنون سے آراستہ شخص تھا۔ خوش اخلاقی، تواضع اور پابندیٔ شریعت کے سبب اسے فاضل احمد کہا جاتا تھا۔ ۱۶۶۳ء میں احمد کوپریلی بذاتِ خود عثمانی لشکر کی قیادت کرتا ہوا آسٹریا کی طرف بڑھا اور بلغراد سے ہوتا ہوا نوہزل پہنچ گیا۔ محض پانچ ہفتوں کے محاصرے میں یہ مضبوط قلعہ عثمانیوں کے قبضے میں آ گیا۔ ۱۴۶۴ء میں احمد کوپریلی دوبارہ لشکر کے ساتھ روانہ ہوا۔ چھوٹی موٹی فتوحات کے بعد آسٹریا کے فوج سے مقابلے کے لیے سینٹ گا تھرڈ کے میدان میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ مقابلے پر آسٹریا کے ساتھ ساتھ ہنگری اور فرانس کی فوج بھی موجود ہے۔ عثمانیوں کے پاس سلطان سلیمان القانونی کے عہد کے ہتھیار تھے جبکہ یورپ اس عرصے میں جنگی ساز و سامان میں بہت ترقی کر چکا تھا۔ عثمانیوں نے جم کر مقابلہ کیا لیکن عیسائی افواج غالب آ گئیں۔ عثمانی فوج کو شدید نقصان اٹھا کر واپس آنا پڑا۔ اس شکست کے بعد آسٹریا سے صلح کر لی گئی۔
گزشتہ طویل عرصے سے کریٹ پر عثمانی لشکر بر سر پیکار تھا لیکن خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں ہو سکے تھے۔ ۱۶۶۷ء میں احمد کوپریلی نےلشکرکے ساتھ کینڈیا پہنچ کر محاصرہ کرلیا۔ چند دنوں میں ہی یہ محاصرہ شدت اختیار کر گیا۔ دوسری طرف فرانس کے جہاز اہلِ وینس کی مدد کو پہنچے اور عثمانی لشکر پر شدید گولہ باری کی لیکن احمد کوپریلی کی ثابت قدمی کے آگے مخالفین کی پیش نہ گئی۔ طویل محاصرے سے تنگ آکر ۱۶۶۹ء میں محصورین نے ہتھیار ڈال دیے اور کریٹ پر عثمانیوں کا قبضہ ہوگیا۔ ۱۶۷۲ء میں سلطان محمد خان رابع بھی احمد کوپریلی کے ساتھ جنگ پر روانہ ہوا اور پولینڈ کے دو اہم شہر فتح کر لیے۔ عثمانی فوج سے خائف ہو کر شاہِ پولینڈ نے صلح کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی اور لشکر واپس آ گیا۔
۱۶۷۳ء میں احمد کو پریلی کی وفات پر سلطان نے صدرِ اعظم کے عہدے پر اپنے داماد قرہ مصطفیٰ کو مقرر کیا۔ یہ تقرری سلطنت کے حق میں انتہائی نا مبارک ثابت ہوئی۔ قرہ مصطفیٰ ایک حریص اور خود غرض انسان تھا۔قرہ مصطفیٰ کی حرص اور بد انتظامی سے ہر شعبے میں خرابی آنی شروع ہوگئی اور افسران و رعایا سب اس کی سختی سے تنگ ہوگئے۔ رشوت کے عوض عہدے تقسیم ہونے لگے اور سرکاری اَملاک ذاتی استعمال میں صرف ہونے لگیں۔ ۱۶۸۲ء میں قرہ مصطفیٰ نے آسٹریا پر حملے کا ارادہ کیا اور دو لاکھ پچھتر ہزار فوج لے کر روانہ ہوا۔ ۱۶۸۳ء میں عثمانی لشکر نے ویانا کا محاصرہ کر لیا۔ اس عظیم لشکر کے ساتھ ویانا جیسےاہم شہر کو فتح کرنا مشکل نہیں تھا۔ محاصرے کے دوران قلعے کی دیواریں بھی گولہ بھاری سے مخدوش ہو چکی تھیں لیکن قرہ مصطفیٰ نے سپاہیوں کو حملے کی اجازت نہیں دی۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ قرہ مصطفیٰ پرلے درجے کا لالچی انسان تھا اور چاہتا تھا کہ اہلِ شہر ہتھیار ڈال دیں تاکہ سارا مال قرہ مصطفیٰ کے قبضے میں آجائے، جبکہ حملہ کرنے کی صورت میں بہت سا مال تلف ہونے اور مجاہدین میں تقسیم ہونے کا خدشہ تھا۔ محض ذاتی فائدے کے لیے قرہ مصطفیٰ نے عام حملے کو اتنا مؤخر کیا کہ ویانا کے لیے بڑی تعداد میں کمک پہنچ گئی۔ یہ کمک دو لشکروں پر مشتمل تھی: ایک لشکر پولینڈ کا تھا جس کی قیادت مشہور جنرل سوبیسکی کر رہا تھا جبکہ دوسرا لشکر آسٹریا کا تھا جس کی رہنمائی شہزادہ چارلس آف لورین کر رہا تھا۔ اس متحدہ لشکر کے حملے میں ترکوں کو بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ تین سو توپیں اور گولہ بارود کی ہزاروں گاڑیاں عیسائی لشکر کے قبضے میں چلی گئیں۔ بے شمار عثمانی مجاہدین شہید ہوئے اور قرہ مصطفیٰ جان بچا کر بودا کی طرف بھاگ کھڑا ہوا جہاں اسے سلطان کے حکم پر قتل کر دیا گیا۔ اس شان دار فتح سے اہلِ یورپ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انھوں نے ترکوں کے خلاف ایک متحدہ لشکر تشکیل دیا۔ ۱۶۸۴ء میں آسٹریا، پولینڈ، وینس اور مالٹا اس اتحاد میں شامل ہوئے، ۱۶۸۶ء میں روس بھی اس اتحاد کا حصہ بن گیا۔ اس کے ساتھ ہی سلطنتِ عثمانیہ کا وجود گھٹنا شروع ہوگیا۔ وہ شہر جنھیں سلیمان القانونی نے فتح کیا تھا یکے بعد دیگرے عیسائیوں کے قبضے میں جانے لگے۔ ترکوں کے پاس جنگی سامان بہت تھوڑا رہ گیا تھا۔ نئے سامان کی تیاری کے لیے طویل عرصہ درکار تھا۔ اس شکست وریخت سے تنگ آ کر لوگوں نے سلطان کی معزولی کا مطالبہ شروع کر دیا جس کے نتیجے میں ۱۶۸۷ء میں سلطان محمد خان رابع کو معزول کر دیا گیا۔ سلطان محمدخان رابع بھی سابقہ سلاطین کی طرح علم پرور انسان تھے۔ مؤرخین کی بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے، مصنفین کی سر پرستی ان کا معمول تھا۔ شکار کے بے حد شوقین تھے، تعمیرات کا ذوق آبا سے ورثے میں ملا تھا۔ استنبول کا مشہور مصر بازار انھوں نے ہی تعمیر کروایا جو آج بھی سیاحوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح استنبول کے علاقے ایمی نونو میں واقع ینی جامی (نئی مسجد) بھی اسی دور کی یاد گار ہے جسے عثمانی طرزِ تعمیر کے شاہ کاروں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ سلطان محمد خان رابع دوسرے طویل ترین عہدِحکومت رکھنے والے سلطان ہیں جنھوں نے تقریباً انتالیس سال حکومت کی۔ ان سے قبل سلیمان القانونی چھیالیس سال سلطان رہ چکے ہیں۔
۲۰:سلیمان خان ثانی(۱۶۴۲۔۱۶۹۱ء)
سلطان سلیمان خان ثانی کم سنی میں ہی محل میں نظر بند کر دیے گئے تھے۔ البتہ تعلیم وتربیت کے لیے کبار علما سے استفادہ کرتے رہے۔ ۱۶۸۷ءمیں اپنے بھائی کی معزولی پر تخت نشین ہوئے۔ سلیمان ثانی کو جو ریاست ملی وہ اندرونی و بیرونی ہر جانب سے خطرات کا شکار تھی۔ متعدد مفتوحہ خطے واپس دشمنوں کے قبضے میں جا چکے تھے۔ فوج میں لڑنے کی سکت نہیں تھی۔ مزید یہ کہ فوج اپنے ہی شہریوں پر ظلم وستم ڈھانے میں مشغول تھی۔ ریاستی امور فوجی افسروں کی دھمکیوں پر چلتے تھے۔ سلطان سلیمان ثانی نے بڑی حکمت سے ان مسائل کا سامنا کیا۔ اندرونی طور پر فوج کو قابو کرنا اور بیرونی طور پر پے درپے شکستوں کو روکنا یہ دو اہم مسئلے سلطنت کو درپیش تھے۔ آسٹریا، وینس، پولینڈ، روس اور یورپ کا متحدہ لشکر سلطنتِ عثمانیہ کے نحیف جسم کو درندوں کی طرح نوچ رہا تھا۔ متعدد صدرِ اعظم تبدیل ہو چکے تھے۔ ایسے میں سلطان نے بعد از مشاورت کوپریلی خاندان کے مصطفیٰ پاشا کو پریلی کو صدرِ اعظم منتخب کیا۔ کوپریلی خاندان کی خدمات سلطنت میں کسی تعارف کی محتاج نہیں تھیں اور اب بھی مصطفیٰ کوپریلی مسائل حل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ کہیں بہت نرمی کے ساتھ اور کہیں سختی کے ذریعے مصطفیٰ پاشا نے جملہ مسائل کوکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اندرونی مسائل سے فارغ ہو کر مصطفیٰ پاشا نے آسٹریا کی گوش مالی کا فیصلہ کیا۔ ایک مجلس میں ترک اور غیر ترک کمانداروں کو جمع کیا اور مقدونیا پر ہونے والے متوقع حملے سے بچنے کی تدبیر پر مشاورت کی۔ اس کے بعد ترکوں اور تاتاریوں کا متحدہ لشکر مقدونیا روانہ ہوا اور جرمنی، آسٹریا اور البانیا کے متحدہ لشکر کو شکست سے دوچار کیا۔
۱۶۹۰ءمیں مصطفیٰ کوپریلی ایک بڑے لشکر کے ساتھ بلغاریہ کے راستے نیش پہنچا۔ اس سفر میں صوفیا، نیش اور سمندریا کی فتح ترکوں کی حصے میں آئی۔ اسی سفر میں مصطفیٰ کوپریلی نے محض بارہ روز کے محاصرے کے بعد بلغراد فتح کر لیا اورسرویا سے آسٹریا کی فوج کا مکمل خاتمہ کر دیا۔ بلغراد کی فتح کوپریلی کا غیرمعمولی کارنامہ تھا۔ اس فتح سے واپسی پرمصطفیٰ کوپریلی کا شاندار استقبال کیا گیا۔ اس کے اگلے سال دوبارہ مصطفیٰ کوپریلی لشکر کی قیادت کرتا ہوا آسٹریا کے مد مقابل جا کھڑا ہوا۔ ابھی یہ جنگ جاری تھی کہ سلطان سلیمان ثانی کی وفات کی اطلاع ملی۔ انھیں سلیمانیہ مسجد استنبول میں دفن کیا گیا۔ سلیمان ثانی کا چار سالہ عہد مجموعی طور پر سلطنت کے لیے مفید ثابت ہوا۔ سلیمان ثانی کا ایک نمایاں کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے ینی چری کوجو ہر موقعے پر ضد اور نخرے سے کام لیتی تھی ضوابط کا پابند کیا اوراس کی طاقت میں کمی کی۔ سلیمان ثانی کو مسافر خانے اور سبیلیں لگانے میں خاص دلچسپی تھی۔
۲۱: احمد خان ثانی(۱۶۴۳۔۱۶۹۵ء)
سلطان سلیمان خان ثانی کی وفات پر ۱۶۹۱ء میں ان کے بھائی احمد خان ثانی عثمانی تخت پر جلوہ افروز ہوئے۔ علومِ دینیہ کی تحصیل کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی پر عبور حاصل تھا۔ خطاطی کا شوق رکھتے تھےاور عمدہ خطاط تھے۔ قرآنِ کریم کے متعدد نسخے اور دیگر کتابیں اپنے ہاتھ سے تحریر کیں۔ انتہائی متواضع شخصیت تھے، عام آدمی کے بھیس میں رعایا کے درمیان گشت کرتے اور ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے۔ تخت سنبھالا تو مصطفیٰ پاشا جنگ پر روانہ ہوچکے تھے۔ انھوں نے مصطفیٰ پاشا کو صدرِ اعظم برقرار رکھا۔ احمد خان ثانی کی تخت نشینی کے اگلے مہینے ہی عثمانی افواج اور آسٹریا کی افواج میں زبردست جنگ ہوئی۔ بحری جنگ میں تو عثمانی فتح یاب رہے لیکن بری جنگ میں آسٹریا کے سپاہی غالب آ گئے۔ مصطفیٰ کوپریلی جرات اور بہادری سے لڑتے ہوئے جان کی بازی ہارگئے۔ بہت سے سپاہی بھی دادِ شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوگئے۔ باقی عثمانی فوج بھاگ کھڑی ہوئی۔ یوں آسٹریا کے ہاتھوں بد ترین شکست عثمانیوں کے حصے میں آئی۔ احمد خان ثانی کے باقی دورِحکومت میں کوئی قابلِ ذکر معرکہ نہ ہوسکا۔ سابق سلطان محمد خان رابع کا انتقال بھی اسی عہد میں ہوا۔ ۱۶۹۵ء میں سلطان احمد خان ثانی اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
۲۲:مصطفی خان ثانی(۱۶۶۴۔۱۷۰۳ء)
احمد خان ثانی کی وفات پر ۱۶۹۵ء میں سلطان مصطفیٰ خان ثانی تخت نشین ہوئے۔ مصطفیٰ ثانی جید علما کے زیرِ تربیت رہے اور علوم کے ساتھ ساتھ تیر اندازی اور گھڑ سواری میں بھی مہارت پیدا کی۔ شعر بھی کہتے تھے اور ’’مفتونی‘‘ اور ’’اقبالی‘‘ تخلص کرتے تھے۔ اپنے والد سلطان محمد خان رابع کے ساتھ کئی جنگوں میں حصہ لے چکے تھے اور ریاستی امور سے بخوبی واقف تھے۔ تخت نشینی کے پہلے سال ہی لشکر کی قیادت کرتے ہوئے آسٹریا کی افواج سے مقابلہ کیا اور انھیں عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔ متعدد قلعے جو دشمنوں کے قبضے میں تھے، دوبارہ عثمانیوں کے قبضے میں آ گئے۔ اس فتح کے اگلے سال ۱۶۹۶ء میں دوبارہ سلطان مصطفیٰ ثانی نے آسٹریا اور ہنگری کی افواج کو شکست دی اور بہت سے قلعے فتح کیے۔ ان فتوحات سے عثمانیوں کا اعتماد کافی حد تک بحال ہوگیا اور فوج مستحکم ہونے لگی۔ لیکن ۱۶۹۷ء میں ایسا واقعہ ہوا جس سے سلطنتِ عثمانیہ صرف اندرونی طور پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک کمزور ریاست کے طور پر شمار ہونے لگی۔ واقعہ یہ ہوا کہ ۱۶۹۷ء میں سلطان ایک بڑے لشکر کو لے کربلغراد کے راستے ہنگری میں داخل ہوا۔ زنتا کے مقام پر ترک سپاہی پل کے ذریعے ساحل پر اترنا شروع ہوئے تو فوج کے منظم ہونے سے پہلے ہی دشمنوں نے گولہ باری شروع کر دی۔ اس حملے سے ترک فوج میں بد نظمی پیدا ہوگئی اور وہ لڑنے کے قابل نہ رہی۔ مخالف فوج نے گھیر گھیر کر ترکوں کا قتل عام کیا، تقریباً بیس ہزار سپاہی اس جنگ میں کام آ گئے۔ سلطان اور باقی سپاہی بمشکل واپس پہنچے۔ زنتا کی شکست نے ترک سپاہیوں اور سلطان کو بالکل مایوس کر دیا۔ دوسری طرف ہنگری اور دیگر مخالفین اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر عثمانی مقبوضات پر پے در پے حملے کرنے لگے۔ اس نازک مرحلے پر سلطان مصطفیٰ ثانی نے صدرِ اعظم کے لیے کوپریلی خاندان کے حسین کوپریلی کو منتخب کیا۔ حسین کوپریلی نے اپنے آبا کی پیروی کرتے ہوئےتھوڑی مدت میں نظامِ حکومت کو مستحکم کیا اور خاص طور پر مالی خسارے کو کم کرنے کے لیے دانش مندانہ فیصلے کیے۔ اس دوران وینس اور روس کی طرف سے حملے برابر جاری رہے۔ اس مرحلے پر جبکہ سلطنتِ عثمانیہ مستقل زوال پذیر تھی برطانوی سفیر لارڈ پیجٹ نے صلح کی تحریک شروع کی اور ہالینڈ نے اس کی مدد کی۔ سفیر نے صلح کے لیے یہ ضابطہ طے کیا کہ جو خطے اس وقت ریاستوں کے پاس ہیں وہ انھی کی ملکیت شمار کیے جائیں گے اور ان میں کمی بیشی نہیں ہوگی۔ اس صلح میں سلطنتِ عثمانیہ، برطانیہ، آسٹریا، وینس، روس، پولینڈ اور ہالینڈ شریک تھے۔ یہ معاہدہ صلح نامۂ کارلو وِٹز کہلاتا ہے جو ۱۶۹۹ء میں تحریر ہوا۔ یہ معاہدہ سلطنتِ عثمانیہ کے ضعف کا منھ بولتا ثبوت ہے کہ وہ کس طرح چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے ساتھ برابری کی سطح پر صلح پر مجبور ہوئی۔ اس کے بعد حسین کوپریلی اندرونی معاملات کی اصلاح میں مشغول ہوگیا لیکن بعض مخالفین کے سبب ۱۷۰۲ء میں مستعفی ہوگیا۔ اس کے اگلے سال یعنی ۱۷۰۳ء میں ینی چری نے بڑے پیمانے پر بغاوت کا اعلان کیا اور بہت سے افسراس کے ساتھ شامل ہوگئے۔ انھوں نے علما سے سلطان کی معزولی کا فتویٰ حاصل کر لیا۔ یوں مصطفیٰ خان ثانی اپنے والد کی طرح تخت سے معزول کر دیے گئے۔ اسی سال مصطفیٰ خان ثانی کا انتقال ہوا۔
کتابیات
السلاطین العثمانیون، راشد کوندوغدو،الناشر:دار الرموز للنشر،إسطنبول،۲۰۱۸ء
آلبوم پادشاہانِ عثمانی،مترجم:میلاد سلمانی،ناشر:انتشاراتِ قَقْ نُوس،استنبول،۲۰۱۵ء
تاریخِ سلطنتِ عثمانیہ، ڈاکٹر محمد عزیر، ناشر: کتاب میلہ، ۲۰۱۸ء
سلطنتِ عثمانیہ، ڈاکٹر علی محمد الصلابی،مترجم: علامہ محمد ظفر اقبال، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور، جون ۲۰۲۰ء