مولانا محمد اقبال
رکنِ شعبۂ تحقیق و تصنیف
﴿وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا* مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا* فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفسَکَ عَلٰی اٰثَارِهِم إِن لَّم یُؤمِنُوا بِهٰذَا الحَدِیثِ أَسَفًا* إِنَّا جَعَلنَا مَا عَلَی الأَرضِ زِینَةً لَّهَا لِنَبلُوَهُم أَیُّهُم أَحسَنُ عَمَلًا* وَإِنَّا لَجٰعِلُونَ مَا عَلَیهَا َصَعِیدًا جُرُزًا﴾
’’اور تاکہ ان لوگوں کو متنبہ کرے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے کوئی بیٹا بنا رکھا ہے۔ اس بات کا کوئی علمی ثبوت نہ خود ان کے پاس ہے، نہ ان کے باپ دادوں کے پاس تھا۔ بڑی سنگین بات ہے جو ان کے منھ سے نکل رہی ہے۔ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں، وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ اب (اے پیغمبر) اگر لوگ (قرآن کی) اس بات پر ایمان نہ لائیں تو ایسا لگتا ہے جیسے تم افسوس کر کر کے ان کے پیچھے اپنی جان کو گھلا بیٹھو گے۔ یقین جانو کہ روے زمین پر جتنی چیزیں ہیں ہم نے انھیں زمین کی سجاوٹ کا ذریعہ اس لیے بنایا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں کون زیادہ اچھا عمل کرتا ہے۔ اور یہ بھی یقین رکھو کہ روے زمین پر جو کچھ ہے ایک دن ہم اسے ایک سپاٹ میدان بنا دیں گے‘‘۔
تفسیر و توضیح
سورۃ الکہف درحقیقت مشرکینِ مکہ کے ان سوالوں کے جواب میں نازل ہوئی ہے جو انھوں نے اصحابِ کہف اور ذو القرنین کے متعلق علماے یہود کے مشورے پر رسول اللہﷺ سے پوچھے تھے۔ البتہ اس سورت کے آغاز میں قرآنِ کریم کے نزول کے اصل مقصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ قرآنِ کریم جو کتابِ قیم اور ہر قسم کی خامیوں اور افراط وتفریط سے پاک ہے، اس کا مقصدِ نزول یہ ہے کہ اس کی پیروی کی جائے اور اس کے ذریعے لوگوں کے اندر فکرِ آخرت پیدا کی جائے۔ اسی طرح اس کتاب کی تعلیمات کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کے بندوں کو شرک جیسے مرض سے سے بچنے کی تلقین کی جائے۔ گزشتہ درس میں شروع کی تین آیات کے مطالعے کے ضمن میں فکرِ آخرت اور اچھے اور برے اعمال کے انجام کے متعلق گفتگو ہوئی ہے، جبکہ آنے والی آیات کے مطالعے میں شرک کی شناعت کا بیان ہوگا۔
قرآنی تعلیمات اور توحیدِ باری تعالیٰ
اللہ تبارک وتعالیٰ نے شرک کو سنگین بہتان قرار دیا ہے اور ایسے لوگ جو شرک میں مبتلا ہیں ان کے لیے قرآن کی تعلیمات کو راہِ نجات قرار دیتے ہوئے فرمایا: ﴿وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا﴾ ’’اور تاکہ ان لوگوں کو متنبہ کرے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے کوئی بیٹا بنا رکھا ہے‘‘۔ یہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے عمومی انذار کے بعد خصوصی طور پر شرک میں مبتلا افراد جو اللہ تعالیٰ کے لیے نعوذ باللہ اولاد ثابت کرتے ہیں، ان کے متعلق فرمایا کہ یہ قرآن ایسے لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دے رہا ہے اور شرک کی شناعت سے خبر دار کر رہا ہے۔ یہ تین قسم کے گروہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کرتے ہیں،ان میں سے ایک گروہ تو مشرکینِ عرب کا ہے جو کہتے ہیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ جبکہ ایک گروہ نصاریٰ کا ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کو ابن اللہ کہتے ہیں۔ اور ایک گروہ ان یہود کا ہے جن کا عقیدہ ہے کہ حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔ تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ عمومی انذار کے بعد شرک میں مبتلا ان گروہوں کو خصوصی طور پر متنبہ کر رہے ہیں کہ توحید کے عقیدے کے بجائے شرک کا عقیدہ اختیار کرنے والے اس عظیم جسارت پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کے خصوصی طور پر مستحق ہیں۔ کیونکہ شرک کوئی معمولی گناہ نہیں ہے بلکہ ظلمِ عظیم ہے، ظاہر ہے اس کی سزا بھی دیگر معاصی کے مقابلے میں سخت ہوگی۔
مشرکین سے دلیل کا مطالبہ
چونکہ شرک میں مبتلا ان گروہوں کے پاس اپنے عقیدے پر کوئی دلیل نہیں ہے تو ان کے متعلق فرمایا: ﴿مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ﴾ ’’اس بات کا کوئی علمی ثبوت نہ خود ان کے پاس ہے، نہ ان کے باپ دادوں کے پاس تھا‘‘۔یعنی ایسے مشرکین جو اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد کا عقیدہ رکھتے ہیں، اس عقیدے پر ان کے پاس کوئی دلیل ہے اور نہ ہی ان کے ان باپ دادوں کے پاس کوئی دلیل ہے جن کی یہ لوگ اس گھناؤنی اورسنگین بات میں تقلید کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کا علم نہ براہِ راست انھیں خود ہے اور نہ ہی ان کے باپ دادوں سے انھیں بالواسطہ حاصل ہے۔ تو بغیر کسی دلیل کے انتہائی بے ہودہ عقیدے پر کار بند رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یعنی ایک عاقل بالغ آدمی جس کے حواس بھی ٹھیک ٹھیک کام کر رہے ہوں اسےایسی بے بنیاد بات نہیں کرنی چاہیے۔ یہاں مشرک سےدلیل کا مطالبہ اس لیے کیا جا تا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کا دعویٰ کر رہا ہے اور ظاہر بات ہے بارِ ثبوت مدعی پر ہوتا ہے۔ جب ان کے پاس اس پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے اور پھر بھی وہ اس کے قائل ہیں، تو اس کے بارے میں فرمایا: ﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ﴾ ’’بڑی سنگین بات ہے جو ان کے منھ سے نکل رہی ہے‘‘۔یعنی ان لوگوں کا یہ قول اللہ تعالی کی ذات پرجس کی عظمت و کبریائی کی کوئی انتہا نہیں ہے، بہت بڑا بہتان اور افترا ہے۔ اور یہ بڑی قبیح اور بے ہودہ بات ہے، جس کی سنگینی کا انھیں اندازہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جو ہر قسم کی کمزوریوں اور حاجات سے منزہ ہے، اس کے لیے اولاد ثابت کرنا اور پھر اسے اس کے ساتھ شریک قرار دینا بہت بڑا جرم اور بہت بڑی جرات وجسارت ہے۔ شرک بہت بڑا جرم ہے، اس کی شناعت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر قسم کے گناہ کی معافی ممکن ہے مگر شرک کو کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا۔ قرآنِ کریم کے دیگر مقامات میں بھی اس جرم پر بڑی وعید آئی ہے اور اس کی سنگینی کا احساس دلایا گیا ہے: ﴿وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا* لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا* تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا* أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا* وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمَنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا﴾ (سورۂ مریم: ۸۸تا ۹۲) ’’اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ خداے رحمٰن کی کوئی اولاد ہے۔ (ایسی بات کہنے والو!) حقیقت یہ ہے کہ تم نے بڑی سنگین حرکت کی ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ اس کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ٹوٹ کر گر پڑیں۔ کہ ان لوگوں نے خداے رحمٰن کے لیے اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ حالانکہ خداے رحمٰن کی یہ شان نہیں ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو‘‘۔ یہاں اس عقیدے کی شناعت کے لیے انتہائی زور دار تعبیر اختیار کی گئی ہے کہ حقیقت میں یہ خالق کے حق میں ایسا سنگین جرم اور گستاخی ہے جو اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے فطری نظام کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی ہے۔ لہذا ایسا عقیدہ رکھنا جو ہر اعتبار سے موجِبِ فساد ہو، عقل و نقل کے لحاظ سے اس کا بطلان ظاہر ہے۔ چنانچہ ایسے جھوٹے عقیدے کے متعلق جس میں ذرہ برابر سچائی نہیں ہے، فرمایا گیا کہ: ﴿إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا﴾ ’’جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں، وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں‘‘۔
اس سورت کے اوّلین مخاطبین کے لیے دعوت ِفکر
یہاں شرک کی مذمت بیان کرنے میں ایک لطیف نکتے کی طرف بھی اشارہ موجود ہے کہ سورۃ الکہف میں ان نوجوانوں کا واقعہ ہے جو شرک سے بچنے کی خاطر اپنے شہر سے نکل گئے تھے اور اس عظیم مقصد کے لیے ہر قسم کے تعلقات اور دنیوی فوائد سے کنارہ کش ہوئے تھے۔ لہذا اس واقعے میں اس سورت کے اوّلین مخاطبین کے لیے بڑا سبق موجود ہے کہ ایک طرف اصحابِ کہف کی یہ عظیم قربانی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کی بدولت انھیں معجزاتی طور پر تین سو سال تک ایک غار میں زندہ رکھ کر ان کو شرف بخشا ہے، جبکہ دوسری طرف یہود اور مشرکینِ مکہ کا طرزِ عمل ہے۔ چنانچہ اس واقعے میں ایک طرف یہود کو یہ بتا یا جار ہا ہے کہ جب تمھیں یہ واقعہ معلوم بھی ہے کہ اصحابِ کہف کی یہ قربانی صرف شرک سے اجتناب کے لیے تھی، پھر بھی تم حضرت عزیرعلیہ السلام کو ابن اللہ کہتے ہو؟ یعنی واقعے کے علم نے تمھیں کوئی فائدہ نہیں دیا کیونکہ تم نے اس کی اصل حقیقت کو نظر انداز کر دیا اور خود شرک میں مبتلا ہوئے۔ اسی طرح اس واقعے میں قریشِ مکہ کو بھی تنبیہ ہے کہ اصحابِ کہف کی یہ فضیلت اس بنا پر ہی تو تھی کہ وہ شرک سے بچنے کے لیے اپنے شہر اور عزیز و اقارب سے بے زار ہوئے، جبکہ ایک تم لوگ ہو کہ نبی اکرمﷺ اور ان کے متبعین تمھیں اسی فضیلت کے لیے بلا رہے ہیں اور تم بھاگے جا رہے ہو۔ بجائے اس کے کہ تم اصحابِ کہف کی پیروی کرو تم اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہو۔ اور اس انکار کے ساتھ تمھارا حضورِ اکرمﷺ اور ان کے متبعین کے ساتھ معاملہ بھی ایسا ہے کہ تم انھیں اپنے شہر سے ہجرت کرنے پر مجبور کر رہے ہو، حالانکہ تمھیں اس واقعے سے سبق لینا چاہیے تھا۔
حضورِ اکرمﷺ کو تسلی
مسلسل دعوت کے باوجود مشرکین کے حق کی قبولیت سے انکار اور معاندانہ طرزِ عمل نے حضورِ اکرمﷺ کو حد درجہ پریشان کیے رکھا تھا، اس وجہ سے آپﷺ ہر وقت غم کی کیفیت میں ہوتے تھے۔ چنانچہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا﴿فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفسَکَ عَلٰی اٰثَارِهِم إِن لَّم یُؤمِنُوا بِهٰذَا الحَدِیثِ أَسَفًا﴾ ’’اب (اے پیغمبر) اگر لوگ (قرآن کی) اس بات پر ایمان نہ لائیں تو ایسا لگتا ہے جیسے تم افسوس کر کر کے ان کے پیچھے اپنی جان کو گھلا بیٹھو گے‘‘۔ اس آیت کے شانِ نزول میں صاحبِ روح المعانی نے لکھا ہے کہ حضورِ اکرمﷺ نے قریش کے سرداروں کو حق قبول کرنے کی دعوت دی اور انھوں نے صاف انکار کیا، ان کے اس طرزِ عمل نے حضورِ اکرمﷺ کو سخت صدمہ پہنچایا۔ چنانچہ آپ کے اس صدمے اور بے چینی پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر وہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو کیا تم شدتِ غم سے اپنی جان کھو دینے والے بن جاؤگے؟ (روح المعانی، ج:۸، ص:۱۹۶) آگے آپﷺ کی تسلی کے لیے فرمایا گیا: ﴿إِنَّا جَعَلنَا مَا عَلَی الأَرضِ زِینَةً لَّهَا لِنَبلُوَهُم أَیُّهُم أَحسَنُ عَمَلًا﴾ ’’یقین جانو کہ روے زمین پر جتنی چیزیں ہیں ہم نے انھیں زمین کی سجاوٹ کا ذریعہ اس لیے بنایا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں کون زیادہ اچھا عمل کرتا ہے‘‘۔ یعنی یہ دنیا تو جاے آزمائش ہے، یہاں لوگوں کا امتحان لیا جاتا ہے کہ کون ہے جو اس چند روزہ دنیا کی سجاوٹ سے متاثر ہو کر اپنے خالق کو بھول جاتا ہے اور کون ہے جو اسے اپنے پیدا کرنے والے کی معرفت کا وسیلہ بناتا ہے اور اس کے حلال ساز وسامان سے فائدہ اٹھا کر اس پر شکر کر کے اسے اپنے لیے آخرت کا ذخیرہ بناتا ہے۔ اس اختیار کے بعد اگر کوئی جان بوجھ کر کفر و شرک کا راستہ اپناتا ہے تو اس پر آپ کو اتنا افسوس نہیں کرنا چاہیے۔ جو اچھا عمل کرے یا برا اسے آخر کار اس کا حساب دینا ہے، کیونکہ اس کے لیے ایک دن مقرر ہے: ﴿وَإِنَّا لَجٰعِلُونَ مَا عَلَیهَا صَعِیدًا جُرُزًا﴾ ’’اور یہ بھی یقین رکھو کہ روے زمین پر جو کچھ ہے ایک دن ہم اسے ایک سپاٹ میدان بنا دیں گے‘‘۔ یعنی ہم یقینی طور پر قیامت برپا کر دیں گے، پھر اس زمین پر جتنی چیزیں سجی ہوئی ہیں یہ سب اس دن ختم ہو جائیں گی اور ہم اس زمین کو ایک چٹیل میدان میں بدل دیں گے۔ پھر اس دن سب لوگوں کو اس دنیا کی ناپائیداری اور اس کی حقیقت کا اندازہ ہو جائے گا اور منکرینِ حق اپنے برے انجام سے دو چار ہوں گے۔ لہذا کسی معاند کے انکار سے آپ کو اتنا صدمہ نہیں ہونا چاہیے کہ مارے غم کے آپ اپنی جان گنوا دیں، اس لیے کہ آپ کا کام حق کی دعوت دینا ہے، اسلام قبول کرنا نہ کرنا ہر آدمی کی اپنی ذمے داری ہے۔