حضرت مولانا مجد القدوس خبیب رومی دامت برکاتہم العالیہ
گزشتہ دنوں مدرسہ عربیہ مظاہرِ علوم، سہارنپور کے صدر مفتی حضرت مولانا مفتی مجد القدوس خبیب رومی صاحب دامت برکاتہم العالیہ تشریف لائے ہوئے تھے، اس سفر کے دوران آپ نے فقہ اکیڈمی کا دورہ بھی کیا۔ اکیڈمی کے جملہ اراکین و احباب کے لیے باعثِ سعادت ہے کہ حضرت نے فقہ اکیڈمی کو رونق بخشی اور قیمتی نصائح سے نوازا، حضرت کی گفتگو ٹرانسکرپشن اور
ضبط و ترتیب کے بعد پیشِ خدمت ہے
﴿وَالْعَصْرِ*إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ*إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾
’’قسم ہے عصر کی۔مقرر انسان ٹوٹے میں ہے۔مگر جو لوگ کہ یقین لائے، اور کیے بھلے کام، اور آپس میں تاکید کرتے رہے سچے دین کی، اور آپس میں تاکید کرتے رہے تحمل کی‘‘۔
’’عصر‘‘ زمانے کو کہتے ہیں، یعنی قسم ہے زمانے کی جس میں انسان کی عمربھی داخل ہے، جسے تحصیلِ کمالات و سعادات کے لیے ایک متاعِ گراں مایہ سمجھنا چاہیے، یا قسم ہے نمازِ عصر کے وقت کی جو کاروباری دنیا میں مشغولیت اور شرعی نقطۂ نظرسے نہایت فضیلت کا وقت ہے (حتیٰ کہ حضورﷺنے حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جس کی نمازِ عصرفوت ہوگئی گو یا اس کاسب گھر بار لٹ گیا) یا قسم ہے ہمارے پیغمبر کے زمانۂ مبارک کی، جس میں رسالتِ عظمیٰ اور خلافتِ کبریٰ کا نور اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکا۔
اس سے بڑھ کر ٹوٹا کیا ہوگا کہ برف بیچنے والے دکاندار کی طرح اس کی تجارت کاراسُ المال جسے عمرِ عزیز کہتے ہیں، دم بدم کم ہوتا جارہا ہے۔ اگر اس روا روی میں کوئی ایسا کام نہ کر لیا جس سے یہ عمرِ رفتہ ٹھکانے لگ جائے، بلکہ ایک ابدی اور غیرِ فانی متاع بن کر ہمیشہ کے لیے کار آمد بن جائے، تو پھر خسارے کی کوئی انتہا نہیں۔ زمانے کی تاریخ پڑھ جاؤ اور خود اپنی زندگی کے واقعات پر غورکرو تو ادنیٰ غور و فکر سےثابت ہو جائے گا کہ جن لوگوں نے انجام بینی سے کام نہ لیا اور مستقبل سے بے پروا ہو کر محض خالی لذتوں میں وقت گزار دیا وہ آخر کار کس طرح ناکام و نامراد بلکہ تباہ و برباد ہو کر رہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وقت کی قدر پہچانے اور عمرِ عزیز کے لمحات کو یونہی غفلت و شرارت یا لہو و لعب میں نہ گنوائے۔ جو اوقات تحصیلِ شرف و مجد اور اکتسابِ فضل و کمال کی گرم بازاری کے ہیں، خصوصاً وہ گراں مایہ اوقات جن میں آفتابِ رسالت اپنی انتہائی نور افشانی سے دنیا کو روشن کر رہا ہے، اگر غفلت و نسیان میں گزار دیے گئے، تو سمجھو کہ اس سے بڑھ کر آدمی کے لیے کوئی خسارہ نہیں ہو سکتا۔ بس خوش نصیب اور اقبال مند انسان وہی ہیں جو اس عمرِفانی کو باقی اور ناکارہ زندگی کو کار آمد بنانے کے لیے جد و جہد کرتے ہیں اور بہترین اوقات اور عمدہ مواقع کو غنیمت سمجھ کر کسبِ سعادت اور تحصیلِ کمال کی کوشش میں سرگرم رہتے ہیں۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جن کا ذکر آگے: ﴿إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ میں کیا گیا ہے۔یعنی انسان کو خسارے سے بچنے کے لیے چار باتوں کی ضرورت ہے: اول خدا اور رسول پر ایمان لائے اور ان کی ہدایات اور وعدوں پر خواہ دنیا سے متعلق ہوں یا آخرت سے، پورا یقین رکھے۔ دوسرے، اس یقین کا اثر محض قلب و دماغ تک محدود نہ رہے بلکہ جوارح میں ظاہر ہو، اور اس کی عملی زندگی اس کے ایمانِ قلبی کا آئینہ ہو۔ تیسرے، محض اپنی انفرادی صلاح و فلاح پر قناعت نہ کرے بلکہ قوم و ملت کے اجتماعی مفاد کو پیشِ نظر رکھے، جب دو مسلمان ملیں ایک دوسرے کو اپنے قول و فعل سے سچے دین اور ہر معاملے میں سچائی اختیار کرنے کی تاکید کرتے رہیں۔ چوتھے ہر ایک کو دوسرے کی یہ نصیحت و وصفت رہے کہ حق کے معاملے میں اور شخصی و قومی اصلاح کے راستے میں جس قدر سختیاں اور دشواریاں پیش آئیں یا خلافِ طبع امور کا تحمل کرنا پڑے، پورے صبر و استقامت سے تحمل کریں، ہر گز قدم نیکی کے راستے میں ڈگمگانے نہ پائے۔ جو خوش قسمت حضرات ان چار اوصاف کے جامع ہوں گے اور خود کامل ہو کر دوسروں کی تکمیل کریں گے ان کا نام صفحاتِ دہر پر زندہ جاوید رہے گا، اور جو آثار چھوڑ کر دنیا سے جائیں گے وہ بطور باقیاتِ صالحات ہمیشہ ان کے اجر کو بڑھاتے رہیں گے۔ فی الحقیقت یہ چھوٹی سی سورت سارے دین و حکمت کا خلاصہ ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے سچ فرمایا کہ اگرقرآن میں سے صرف یہی ایک سورت نازل کر دی جاتی تو (سمجھ دار بندوں کی) ہدایت کے لیے کافی تھی۔ بزرگانِ سلف میں جب دو مسلمان آپس میں ملتے تھے، جدا ہونے سے پہلے ایک دوسرے کو یہ سورت سنایا کرتے تھے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ وقت کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ یہ وقت اور یہ نظامِ عالم اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہے جو اسی کے حکم کے تابع رہتا ہے، وہ ہماری مرضی کے مطابق ہو یا نہ ہو لیکن مومن کے لیے خیر اِسی میں ہے کہ وہ اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی میں فنا کر دے۔ احقر کے شیخ و مرشد حضرت جلال آبادی نور اللہ مرقدہٗ فرمایا کرتے تھے کہ پریشانی اُس وقت ہوتی ہے جب آدمی خود تجویز کر لیتا ہے۔ جب وہ تفویض کی صورت اختیار کر لے کہ ہم اللہ کے سپرد ہیں تو پھر پریشانی ختم ہو جاتی ہے ورنہ کم تو ہو ہی جاتی ہے۔ آدمی جب بھی کوئی حساب کتاب لگاتا ہے اور اُس کے خلاف ہوتا ہے، اُسی سے پریشانی ہوتی ہے۔ پریشانی نام ہے خلافِ طبیعت بات کے پیش آنے کا، اِسی لیے حضرت حکیم الامت نور اللہ مرقدہٗ کا بڑا جامع ارشاد ہے، جس کو حضرت کے عاشقِ صادق حضرت خواجہ عزیز الحسن غوری مجذوب رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے۔اصل ارشاد تو حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا نثر میں ہے، اُس کو خواجہ صاحب رحمہ اللہ نے نظم کر دیا ہے بات کو یاد رکھنے کے لیے:
رکھ ہمیشہ نظر میں دو باتیں اے دو عالم کی خیر کے طالب |
طبع غالب نہ عقل پر ہو کبھی اور نہ ہو عقل عشق پر غالب |
طبیعت کو عقل پر غالب نہ کرے، عشقِ الٰہی جس کا نام دستورِ شریعت ہے۔ہمارے ایک بزرگ فرماتے ہیں:
اگر آزاد ہم ہوتے خدا جانے کہاں ہوتے؟ |
مبارک عاشقوں کے واسطے دستور ہو جانا |
دستور کیا ہے؟ شریعت۔ اِسی لیے حضرت، محدثِ فقیہ، حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ ہمارے بزرگوں کا سوچا سمجھا خیال ہے کہ شریعت؛ اللہ تبارک و تعالیٰ سے محبت کی میزان ہے، جس درجے کی محبتِ الٰہیہ ہو گی، اُسی درجے کے حکمِ شرعی پر عمل ہوگا۔، اگر اُس کو محبت اعلیٰ درجے کی حاصل ہے تو مستحبات پر عمل کرے گا، درمیانی درجے کی ہے تو مسنونات نہیں چھوڑے گا۔ ورنہ کم از کم یہ ہے کہ وہ فرائض و واجبات سے نیچے نہیں جائے گا کیونکہ اُس کے نیچے کوئی درجہ نہیں، وہ تو آخری درجہ ہے کہ فرائض و واجبات پر اکتفا کرے گا۔ تو فرائض و واجبات کے اوپر مسنونات ہیں، اُن کے بعد مستحبات ہیں اور یہ میزانِ محبت ہے، ترازو ہے کہ کس درجے کی محبت دل میں ہے؟ اِسی لیے خود کو جانچنے اورپرکھنے کے حوالے سے ہمارے بزرگوں کا ایک اور ارشاد ہے: اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں اپنا مقام جاننا چاہو کہ کیا ہے تو یہ دیکھو کہ ہمارے دل و دماغ میں اللہ تعالیٰ کے احکام کا کیا درجہ ہے، جو درجہ ہمارے یہاں اُس کے احکام کا ہے، وہی درجہ ہمارا اس کے وہاں ہے، ہم اُس کو کتنا پیشِ نظر رکھتے ہیں اور کتنا پسِ پشت، بس اِسی کو جانچتے اور پرکھتے رہنا ہے۔ اِسی مناسبت سے خیال آیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو ہمارے مولانا موصوف(مفتی اویس پاشا قرنی صاحب) کی نسبت سے جو معمولات ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی، اِس وقت جو مغرب کے بعد ادا کیے گئے ہوں گے، اُس میں، میں حائل نہیں ہوا اور آپ حضرات نے سکون سے اُس کو ادا کر لیا ہو گا۔ میں نے اپنے عزیز ذاکر میاں سے کہلوا دیا تھا کہ بھئی وہ معمولات اپنے معمول کے مطابق جاری رکھیں تاکہ مغرب سے عشا تک انتظار میں وقت نہ ضائع ہو جائے، طبیعت یکسو رہے۔حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا ارشاد ہے: ’’چاہے ایک سوئی نہ ہو مگر یکسوئی ہو‘‘۔ ایک سوئی سے مراد ہےمال۔ چاہے مال وال نہ ہو آدمی کے پاس لیکن یکسوئی ہو، کوئی حائل اور حارج نہ ہو، مانع نہ ہو، یہ کب ہو گا، اُسی وقت ہو گا جب آدمی اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے۔ اور جب تک ہم لوگ اپنے آپ کو نفس اور شیطان کے حوالے رکھیں گے، اندر سے نفس کے اور باہر سے شیطان کے تو اِسی کشمکش میں رہیں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اِس کا استحضار نصیب فرمائے اور اِس کی ہمت نصیب فرمائے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی نور اللہ مرقدہٗ کا دو لفظی ارشاد ہے جو بڑے کام کا ہے: استحضار اور ہمت، استحضار کے لیے دعا کرے، بھول نہ ہو، یاد رہے، موقعے پر یاد آ جائے اور کرنے کے لیے جو ارادہ اور قوت چاہیے، وہ آدمی کر گزرے۔
حضرت حکیم الامت کے مرض الوفات کے ملفوظات خاتمۃ السوانح میں دیکھیں، بالکل دریا بکوزہ ہیں۔ ہمارے دو بزرگوں نے اُس کوجمع فرمایا، اللہ تعالیٰ اُن کو جزاے خیر دے: ایک توحضرت خواجہ عزیز الحسن صاحب غوری مجذوب رحمہ اللہ ، اُنھوں نے تذکرے کے دوران حضرت کے وہ تمام ملفوظات خاتمۃ السوانح میں جمع فرما دیے، اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمہ اللہ نے باقاعدہ تاریخ وار ملفوظات مرض الوفات کے جمع فرما دیے ہیں، ایک ایک ملفوظ کے عنوان سے، تاریخ وار، وہ بھی خاتمۃ السوانح میں ہیں تو اُس میں حضرت نے ایسی دریا بکوزہ ایک ایک لفظی بات فرمائی کہ اُس کو آدمی حرزِ جاں بنائے ساری عمر کام آنے والی چیز ہے۔جیسے یہی ارشاد ہے کہ طبیعت کو عقل کے ماتحت رکھے، اِس کا فائدہ کیا ہو گا؟ دنیا میں آدمی پریشان نہیں ہو گا اور عقل کو شریعت کے ما تحت رکھے، آخرت میں پشیمان نہ ہو گا ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ اِس کا استحضار اور ہمت نصیب فرمائے۔ حضرت مجدد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ نے فرمایا: دو چیزیں حاصلِ تصوف ہیں:ایک تو محبتِ شیخ اور دوسرے اتباعِ سنت۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کو عجیب ذہن دیا تھا، حضرت نے فرمایا: اس میں اصل مقصود تو اتباعِ سنت ہے اور محبتِ شیخ وسیلہ ہے ۔ شیخ العالَم حضرت مولانا محمودحسن صاحب دیو بندی رحمہ اللہ حضرت جب مالٹا سے واپس تشریف لائے، اللہ تعالیٰ کا فضل، اُس کا احسان کہ احقر نے اُن بزرگوں کی زیارت کی ہے، جنھوں نے حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی رحمہ اللہ سے وہ کلمات سنے تھے دار العلوم دیو بند کے دار الافتاء کی چھت پر تراویح کے بعد حضرت تشریف فرما ہوئے۔ اور وہاں یہ دو ارشاد فرمائے کہ میں نے مالٹا میں، وہاں کی اسیری اور قید کے زمانے میں دو سبق یاد کیے ہیں، لوگوں کو خیال ہوا کہ بھئی کیا سبق یاد کیے ہیں! یہ تو استاذ الاساتذہ ہیں اور یہ کیا دو سبق وہاں سے پڑھ کر آئے ہیں، سب گوش بر آواز ہوئے،فرمایا:’’امت کا عالمی طور پر جوانحطاط و زوال ہے، اُس کے دو سبب معلوم ہوئے، ایک قرآنِ پاک کو چھوڑ دینا اور دوسرے آپس میں انتشاراور مخالفت‘‘۔ اختلاف مراد نہیں ہے، حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کی بڑی بہترین تعبیر ہے، میں نے حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی سے سنی، اُنھوں نے اپنے والد صاحب سے سنی، اُنھوں نے اپنے والد صاحب سے، اُنھوں نے حضرت نانوتوی سے کہ ’’اختلاف تو بات سے ہوتا ہے اور مخالفت ذات سے ہوتی ہے‘‘۔ فرمایا: کیونکہ بعض اوقات اختلاف واجب اور اتفاق ممنوع ہوتا ہے، اِسی لیے حضرت حکیم الامت، مجدد الملت، محی السنۃِ الظاہرۃ والباطنۃ، حضرت مولانا تھانوی نور اللہ مرقدہٗ نے اختلاف کی جو ممکنہ صورتیں ہیں، اصولی طور پر اُن کا حکم لکھوایا کہ اِس قسم کا اختلاف حرام ہے، اِس قسم کا اختلاف جائز ہے بلکہ واجب ہے، اگر اختلاف نہیں کرے گا تو سب معاملہ گڑ بڑ ہو جائے گا۔
احقر جب حضرت جلال آبادی نور اللہ مرقدہٗ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے پہلے دن فرمایا: اصلاح تو واجب ہوتی ہے مگر اعتراض حرام ہوتا ہے۔ فرمایا: یہ سلوک میں ضروری ہے، اِس کے بغیر سلوک طے نہیں ہوتا۔اعتراض میں منشا فضیحت کا ہوتا ہے، نصیحت کا پہلو نہیں ہوتا، اِسی لیے ایک بڑے عالم نے بات لکھی ہے کہ اصلاح اور اعتراض میں بسا اوقات صورت ملتی جلتی ہوتی ہے لیکن منشا مختلف ہوتا ہے، اصلاح دوست کرتا ہے اور اعتراض دشمن کرتا ہے۔ فرمایا: دونوں کے منشے الگ الگ ہوتے ہیں، اِس کا منشا ہوتا ہے کہ اِ س کی اصلاح ہو جائے، درستی ہو جائے، اُس کا منشا یہ ہوتا ہے کہ ہم اِس کو اخبار میں، اشتہار میں دے دیں تاکہ یہ بدنام ہو۔ ساہیوال میں حضرت مولانا مفتی عبد الشکور ترمذی رحمہ اللہ تھے ، اُنھوں نے مجھے بتایا کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے خواص وعشاق کی نظر میں ایک تحریر آئی،حضرت تھانوی رحمہ اللہ پر کسی مفتی صاحب کا کوئی اعتراض اخبار میں چھپا تھا۔ اُنھوں نے حضرت پر اعتراضات کیے تھے۔ تو حضرت کی طرف سے جن حضرات نے صفائی میں مضمون لکھا تو فرمایا کہ، ہمارے والد صاحب نے بھی لکھا تو اُنھوں نے اُس میں تحریر فرمایا: ’’ایک اخباری مفتی صاحب۔۔۔‘‘۔حضرت نے جب مضمون ملاحظہ فرمایا تویہ تعبیر لکھوائی: ’’ایک مفتی صاحب نے اخبار میں۔۔۔‘‘، فرمایا: اخباری مفتی لکھو گےتووہ چڑ جائیں گے اور پھر وہ کچھ دوسرا وار شروع کر دیں گے، کہا کہ ملا آں باشد کہ چپ نہ شود۔ کسی نے خواجہ مجذوب صاحب سے پوچھا تھا کہ آپ ’’مسٹر‘‘تھے، حضرت ’’ملا‘‘ تھے، دوستی کیسے ہو گئی؟۔ ’’ملا اور مسٹرکی نوک جھونک‘‘ اُن کی نظم ہے بہت مشہور، وہ بی اے تھے اورڈپٹی کلیکٹر بھی رہے۔انھوں نے محض تقوے کی بنا پر استعفیٰ دے دیا۔ ایک شخص آیا درخواست لے کر، اُس نے سود کی درخواست دی تھی، فرمایا: نہیں بھئی، سود لینا، دینا، لکھنا، گواہ بننا، سب حرام ہے، سب پر لعنت آئی ہے، ہم ملعون چیز پر دستخط نہیں کر سکتے، اُس نے جا کے کلیکٹر سے شکایت کی کہ صاحب یہ ڈپٹی کلیکٹر صاحب عجیب آدمی ہیں، کہہ رہے ہیں کہ ہم اِس پر دستخط نہیں کر سکتے ہیں، ملعون چیز ہے۔ تو کلیکٹر انگریز تھا، حضرت فرماتے تھے: ’’دانا دشمن ہے‘‘۔وہ انگریز سمجھ دار تھا، مسکرایا، اُس نے پوچھا: کیا بات ہے خواجہ صاحب؟ آپ نے منظور کیوں نہیں کیا؟ آپ نے کہا: نہیں، نہیں ہم اِس پر سود کی منظوری نہیں دے سکتے۔ تو کلیکٹر نے کہا کہ یہ تو آپ کی ڈیوٹی ہے۔ فرمایا:اچھا میری ڈیوٹی ہے؟ ٹھیک ہے،کاغذ دیں۔ بیٹھے، کاغذ لیا، استعفیٰ لکھا، استعفیٰ لکھ کر دے دیا تووہ کہنے لگا کہ یہ کیا کیا آپ نے؟ کہا: نہیں میں ایسی ملازمت نہیں کر سکتا جس میں سود کی اجازت دینی پڑے اور ملعون بنوں۔ اب وہ سمجھ دار تھا، اُس نے فوراً اُس درخواست پر منظوری کے ساتھ ساتھ لکھا:’’ آدمی بہت کام کےہیں ،مگر اِن کو تقوے کا ہیضہ ہے، یہ بہت احتیاط کرتے ہیں، اِس لیے اِنھوں نےسود کی ڈگری نہیں دی ،اور میرا خیال یہ ہے کہ اگر اِن کو شعبۂ تعلیم میں بھیج دیا جائے تو اُس کا نظام بہت اچھا ہو سکتا ہے، آدمی بہت منتظم ہے اور اپنے کام میں بہت اصولی ہے‘‘۔کام چور سے کون کام لے؟ دین دار اِس کا بڑا خیال رکھتے ہیں کہ ہماری روزی، ہماری کمائی حرام نہ ہو جائے، تطفیف میں داخل ہے کام چوری، اُس نے سفارش لکھی اور حضرت کو اگلے ماہ سے دوسری ملازمت مل گئی۔ تو خواجہ صاحب سے کسی نے کہا کہ آپ مسٹر تھے، حضرت تھانوی ملا تھے، دوستی کیسے ہو گئی؟ تو خواجہ صاحب چونکہ شاعر اور ادیب بھی تھے، مزاحیہ تھے ، فرمایا: میں نے اپنی ٹر miss کر دی،کہا: ملا جو ہے، یہ بہت ٹرّا ہوتا ہے، مسٹر کا دماغ درست کر دیتا ہے،اِس لیے اِس کے سامنے نہیں بولنا چاہیے۔ تو حضرت سے میں دین سیکھنے گیا تھا تو فرمایا: میں نے اپنی ٹر مِس کر دی، دوستی ہو گئی اور پھر تو حضرت کے عاشق ہوگئے۔