فتاویٰ یسئلونک
دارالافتاء، فقہ اکیڈمی
سوال: عاشورا کے دن اہل و عیال پر وسعت کے حوالے سے ایک روایت ملتی ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا یہ حدیث درست ہے؟ اور اس کا مفہوم کیا ہے یعنی اس پر عمل کیسے کیا جائے؟
جواب:اس روایت کو علامہ ابنِ تیمیہ ،علامہ ابنِ جوزی ،حافظ عقیلی وغیرہم رحمہم اللہ نے موضوع قرار دیا ہے ، لیکن واضح رہے کہ اس روایت کو موضوع کہنا صحیح نہیں کیونکہ یہ روایت کئی طرق سے مروی ہے۔ اگرچہ اکثر سندوںمیں کوئی نہ کوئی راوی ضعیف ہے لیکن بعض طرق دیگر بعض کے مقابلے میں قوی ہیں۔ چنانچہ یہ روایت حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔اس روایت کو امام طبرانی نے کبیر میں اور امام بیہقی رحمہما اللہ نے شعب الایمان میں هیصم بن شداخ عن الأعمش عن إبراهیم عن علقمة عن عبد الله کی سند سے نقل کیا ہے۔اس روایت میں ہیصم ضعیف راوی ہیں۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت دو طرق سے مروی ہے:
1۔عن محمد بن إسماعیل الجعفري ثنا عبد الله بن سلمة الربعي عن محمد بن عبد الله بن عبد الرحمن بن صعصه عن أبیه عن أبي سعید الخدري۔اس سند کو امام طبرانی رحمہ اللہ نے اوسط میں ذکر کیا ہے اور یہ سند اسماعیل بن جعفری کی بناپر ضعیف ہے کیونکہ اسماعیل بن جعفر منکر الحدیث ہیں۔
2۔دوسری سندعن خالد بن خداش حدثنا عبد الله بن نافع حدثني أیوب بن سلیمان بن میناء عن رجل عن أبي سعید الخدري۔ اس روایت کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں ذکر کیا ہے۔یہ روایت ایک مجہول شخص کی بنا پر ضعیف ہے۔امام ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کے بارے میں فرمایا اگر اس روایت میں مبہم راوی نہ ہوتا تو اس کی سند جید ہوتی ہے۔ (مرعاة المفاتیح ،کتاب الزکاة، باب فضل الصدقة،الفصل الثالث)
حضرت جابررضی اللہ عنہ کی روایت عبد الله بن إبراهیم الغفاري حدثنا عبد الله بن أبي بکر ابن أخي محمد بن المنکدر عن محمد بن المنکدر عن جابر.اس سند کو بھی امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں ذکر کیا ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت بہت ضعیف ہے کیونکہ اس روایت میں ایک سے زائد راوی ضعیف ہیں۔بہر حال امام بیہقی رحمہ اللہ یہ ساری اسانید ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں یہ اسانید اگرچہ ضعیف ہیں لیکن ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ان کو قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ (شعب الإیمان،کتاب الصیام،فصل یوم التاسع مع العاشر)یہ روایات اب تک مرفوعاً ذکر کی گئی ہیں اور مرفوع حدیث میں کوئی نہ کوئی راوی ضعیف تھا جبکہ اس روایت کی ایک سند اور بھی ہے جس کے اعتبار سے یہ روایت مرسل ہے مرفوع نہیں اور اس سند میں تمام راوی ثقہ ہیں۔
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ حدثنا محمد بن يعقوب حدثنا العباس بن محمد الدوري حدثنا شاذان أخبرنا جعفر الأحمر عن إبراهيم بن محمد بن المنتشر قال كان يقال مَنْ وَسَّعَ عَلى عِيالِهِ يَومَ عَاشُوراءَ لَمْ يَزالوا في سِعَةٍ مِنْ رِزْقِهِمْ سَائِرَ سَنَتِهِمْ(شعب الإیمان، کتاب الصیام،فصل یوم التاسع مع العاشر)
ایک روایت امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے الاستذکار میں ذکر کی ہے جو کہ مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے اور اس سے صحابہ و تابعین کا اس حدیث پر عمل بھی ثابت ہوتا ہے۔ حدثنا أحمد بن قاسم ومحمد بن إبراهيم ومحمد بن حكم قالوا حدثنا محمد بن معاوية قال حدثنا الفضل بن الحباب قال حدثنا هشام بن عبد الملك الطيالسي قال حدثنا شعبة عن أبي الزبير عن جابر قال سمعت رسول اللهﷺيقول:«مَنْ وَسَّعَ على نَفْسِه وأَهْلِه يومَ عاشوراءَ وَسَّعَ اللهُ عليه سائرَ سَنَتِه». قال جابرٌ: جَرَّبْناه فَوَجَدْناه كذلك.وقال أبو الزبير وقال شعبة مثله.
حدثنا قاسم بن أصبغ قال حدثنا أبو وضاح قال حدثنا أبو محمد العابد عن بهلول بن راشد عن الليث بن سعد عن يحيى بن سعيد عن سعيد بن المسيب قال قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: مَنْ وَسَّعَ على أَهْلِه يومَ عاشوراءَ وَسَّعَ اللهُ عليه سائرَ السنة. قال يحيى بن سعيد جربنا ذلك فوجدناه حقّا.
وروى بن عيينة وإبراهيم عن إبراهيم بن محمد بن المنتشر قال: مَنْ وَسَّعَ على أَهْلِه في عاشوراءَ وَسَّعَ اللهُ عليه سائرَ السنة.قال سفيان جربنا ذلك فوجدناه كذلك. (الاستذکار،کتاب الصیام،باب صیام یوم الفطر)
ابو زبیر جو کہ مدلس ہیں ان کی روایت عن سے ہو تو قابلِ قبول نہیں ہوتی، اسی وجہ سے سند اگرچہ صحیح ہے لیکن عن سے روایت ہونے کی بنا پر اس کو قبول نہیں کیا جاتا لیکن یہ دیگر گزشتہ روایات کے لیے تائید کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے۔لہذا مجموعی اعتبار سے یہ حدیث حسن لغیرہ ہے کیونکہ محدثین کا اصول ہے: ایک حدیث ضعیف اگر کئی طرق سے مروی ہو اور بعض طرق دوسروں کے مقابلے میں قوی ہوں تو وہ حدیث حسن کے درجے کی شمار ہوتی ہے اور گزشتہ سطور میں خود امام بیہقی رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ بات گزر چکی ہے۔
الحدیث الضعیف اذا تعددت طرقه ولو طریقاواحدة أخریٰ ارتقی بمجموع ذلک إلی درجة الحسن وکان محتجا به (إعلاء السنن ، جلد ۱۹،ص ۷۸،بحث أنواع الحدیث)
نیزیہ روایت فقہا کے درمیان معمول بہ ہے اور دیگر حضرات کے ہاں بھی اس روایت پر عمل ثابت ہے جیسا کہ ماقبل میں بیان ہوا۔ لہذا یہ حدیث قابل ِ عمل ہے اور اس کو ضعیف یا موضوع کہہ کر ناقابل ِ عمل قرار دینا درست نہیں۔ یہ روایت نبی اکرمﷺ سے منقول عاشورا کے دن روزہ رکھنے کی فضیلت سے متعارض نہیں کیونکہ اس روایت میں وسعت عام ہے جو گھر کا بڑا اپنے اہلِ خانہ پر وسعت کرتا ہے چاہے وہ کھانے میں پینے میں ہو یا پہننے اوڑھنے کے اعتبار سے ہو۔
أنه لا يقتصر فيه على التوسعة بنوع واحد بل يعمها في المآكل والملابس وغير ذلك، وأنه أحق من سائر المواسم بما يعمل فيها من التوسعات الغير المشروعة فيها كالأعياد ونحوها.(رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، فرع يكره إعطاء سائل المسجد)
فتوی نمبر : 1593
والله اعلم بالصواب