ابنِ عباس
معاون قلم کار
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ:«أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ».(الجامع الصحيح للسنن والمسانيد و قال: رواه مسلم و الترمذي و النسائي و أبوداؤد و أحمد)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’رمضان کے بعد افضل روزے اللہ کے مہینے مُحرَّم کے ہیں‘‘۔
تشریح
اسلامی تقویم میں سال کا آخری مہینا، ذو الحجہ ایک مقدس مہینا ہے جس میں حج کی عظیم عبادت بجا لائی جاتی ہے۔ جب کہ نئے سال کی ابتدا محرم سے ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک قابلِ احترام مہینا ہے۔اس میں نفلی روزے کے اہتمام کا حکم دیا گیا ہے، گویا اسلامی سال کا اول و آخر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مدار پر قائم ہے۔ اسی لیے بعض اسلاف نے فرمایا کہ جو شخص ذو الحجہ اور محرم دونوں کی عبادات کا اہتمام کرتا ہے تو اس کے سال کا اول و آخر عبادت میں گزرا اور جس کا اول و آخر عبادت میں گزرا تو امید ہے کہ اس کا پورا سال ہی عبادت میں گزرے گا‘‘۔(لطائف المعارف لابن رجب الحنبلي)
حدیثِ زیرِ مطالعہ میں مذکور عبادت یعنی روزے پر بات کرنے سے پہلے یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ روایت ماہِ محرم کی فضیلت پر بھی دلالت کرتی ہے۔ چنانچہ ایک مرسل روایت میں ہے:’’رمضان کے بعد تمام مہینوں میں افضل مہینا محرم ہے‘‘۔(لطائف المعارف لابن رجب الحنبلي)
حدیثِ زیرِ مطالعہ میں بتایا گیا کہ رمضان کے بعد افضل ترین روزے محرم کے ہیں۔ چونکہ بعض روایات سے بعض دوسرے دنوں کے روزے کی زیادہ فضیلت معلوم ہوتی ہے، تو ابنِ رجب الحنبلی رحمہ اللہ نے حدیثِ زیرِ مطالعہ اور دیگر احادیث میں یوں تطبیق قائم کی ہے کہ تطوع کی دو اقسام ہیں: ایک تو وہ جنھیں تطوع مقید کہتے ہیں یعنی وہ جو کسی خاص وقت یا دن کے ساتھ مخصوص ہیں جیسے یومِ عرفہ کا روزہ یا ماہِ شوال کے چھے روزے جبکہ دوسرا تطوع مطلق ہے یعنی وہ نفلی روزے جو کسی خاص دن کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں بلکہ کسی بھی ایسے دن میں رکھے جا سکتے ہیں جو روزے کے لیے ممنوع نہ ہو۔ تو مذکورہ حدیث میں جو محرم کے روزے کو افضل قرار دیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مطلق نفلی روزوں میں محرم کے مطلق روزے دیگر مہینوں کے مطلق روزوں سے افضل ہیں۔
جس طرح ذوالحجہ کا پہلا عشرہ فضیلت کا حامل ہے لیکن خاص فضیلت نو ذوالحجہ کی ہے۔ تو اسی طرح محرم میں اگرچہ خاص فضیلت تو دس محرم کی ہے لیکن پہلا عشرہ سارے کا سارا ہی باعث فضیلت ہے۔اس لیے عبادت کے اہتمام کے ذریعے اس پورے عشرے کی تعظیم کرنی چاہیے۔چنانچہ حضرت ابو عثمان نہدی رحمہ اللہ صحابہ کرام کے بارے میں روایت کرتے ہیں: كانوا يعظمون ثلاث عشرات العشر الأخير من رمضان والعشر الأول من ذي الحجة والعشر الأول من محرم. (لطائف المعارف لابن رجب الحنبلي)’’صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تین عشروں کی بہت تعظیم کیا کرتے تھے: رمضان کا آخری عشرہ،ذو الحجہ کا پہلا عشرہ اور محرم کا پہلا عشرہ۔قریشِ مکہ یومِ عاشورا کے روزے سے ایامِ جاہلیت میں بھی واقف تھے اور نیک لوگ اس روزے کا اہتمام بھی کیا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺبھی آغازِوحی سے پہلے اور ہجرت کے قبل و بعد اس روزے کا اہتمام کیا کرتے تھے بلکہ یہ روزہ مسلمانوں پر فرضیت کا درجہ رکھتا تھا۔ البتہ جب رمضان کے روزوں کی فرضیت آ گئی تو عاشورا کے روزےکی فرضیت منسوخ کر کے اسے نفل قرار دے دیا گیا۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں: كَانَتْ قُرَيشٌ تَصُومُ عَاشُورَاءَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ رَسُولُ اللهِﷺيَصُومُهُ، فَلَمَّا هَاجَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ شَهْرُ رَمَضَانَ قَال:«مَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ».(صحیح مسلم) ’’قریش ایامِ جاہلیت میں بھی یومِ عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ بھی اس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ جب آپ ﷺ ہجرت کر کےمدینہ منورہ میں تشریف لے آئے تب بھی آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن کے روزے کا حکم دیا۔البتہ جب رمضان کی فرضیت کا حکم نازل ہوا تو پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو چاہے اس دن کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے‘‘۔
یہ اصول ہے کہ جب کسی کام کی فرضیت منسوخ ہوتی ہے تو اس کا جواز اور استحباب باقی رہتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے جب عاشورا کے روزے کی فرضیت کے منسوخ ہونے کا اعلان کیا تو اپنے روزے دار ہونے کا ذکر کر کے اس کے جواز کی طرف اشارہ فرمایا:«هَذَا يَوْمُ عاشوراء وَلَمْ يَكْتُبِ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ وَأَنَا صَائِمٌ فَمَنْ شَاءَ فَلْيَصُمْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيُفْطِرْ»(صحیح البخاري) ’’ اے لوگو! یہ عاشورا کا دن ہے، اللہ نے تم پر اس کی فرضیت نہیں لکھ رکھی، پھر بھی میں آج روزے سے ہوں۔ لیکن تمھیں اختیار ہے کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے‘‘۔مسندِ احمد کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ فَصَامَ النَّاسُ’’ پس لوگوں نے روزہ رکھا ‘‘۔معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ اس دن کے روزے کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں: مَا عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺصَامَ يَوْمًا يَطْلُبُ فَضْلَهُ عَلَى الأَيَّامِ إِلَّا هذَا الْيَوْمَ. (صحیح مسلم)’’ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ فضیلت حاصل کرنے کے لیے اس دن سے زیادہ کسی دن کا اہتمام کرتے تھے‘‘۔آپ ﷺ نے عاشورا کے روزے کی ترغیب دیتے ہوئے اس کا ایک خاص اجر بھی بیان کیا : «صَوْمُ يَوْمِ عَرَفَةَ يُكَفِّرُ سَنَتَيْنِ مَاضِيَةً وَمُسْتَقْبَلَةً وَصَوْمُ عاشوراء يُكَفِّرُ سَنَةً مَاضِيَةً».(مسند أحمد) ’’ یومِ عرفہ دو سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے: ایک پچھلے سال کے اور ایک آنے والےسال کے، جب کہ یومِ عاشورا پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے‘‘۔
یومِ عاشورا کی ایک تاریخی حیثیت یہ ہے کہ اس دن اللہ کا دشمن فرعون غرق ہوا اور حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو اس کے ظلم سے نجات ملی۔ اس کے شکرانے میں یہود نے اس دن کا روزہ رکھا۔جب نبی کریم ﷺ کے علم میں یہ بات آئی تو آپ ﷺنے اپنے روزہ رکھنے میں اس نسبت کو بھی داخل فرما لیا۔چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ میں تشریف لائے اور یہود کو پایا کہ وہ عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں تو یہود سے اس دن کے بارے میں پوچھا۔یہودیوں نے کہا: یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نےفرعون کو غرق کر کے حضرت موسی اور بنی اسرائیل کو کامیابی عطا کی تھی۔اسی احسان کے شکرانے کے طور پر ہم اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا«نَحْنُ أَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ» ’’ہم تم سے بڑھ کر موسیٰ کے حق دار ہیں‘‘۔ پھر آپ ﷺ نے صحابۂ کرام کو اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا‘‘۔(صحيح بخاری)
البتہ آپ ﷺ نے عبادت والے پہلو میں بھی ان کی مشابہت سے بچنے کی خاطر، دس محرم کے ساتھ ساتھ نو محرم کا روزہ رکھنے کا بھی ارادہ فرمایا جو پورا نہ ہو سکا۔ آپ ﷺنے فرمایا تھا:«فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللهُ صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِع».(صحیح مسلم)’’ جب اگلا سال آئے گا تو ان شاء اللہ ہم نویں تاریخ کا روزہ بھی رکھیں گے ‘‘۔ راوی کہتے ہیں :فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِﷺ.’’ لیکن اگلے سال یہ دن آنے سے پہلے پہلے ہی آپ ﷺ وصال فرما گئے۔
ایک دوسری حدیث میں صراحت سے یہود کی مخالفت اور دس محرم کے ساتھ نو یاگیارہ محرم کا روزہ رکھنے کا حکم بھی منقول ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:«صُومُوا يَوْمَ عاشوراء وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا» (مسند أحمد) ’’ یومِ عاشورا کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو اور عاشورا سے پہلے یا اس کے بعد مزید ایک دن روزہ رکھ لیا کرو‘‘۔اس حدیث کی ایک روایت میں «صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا وَبَعْدَهُ يَوْمًا». (شعب الإیمان)’’ اس دن سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد کا روزہ بھی رکھ لیا کرو‘‘ان احادیث کی رو سے افضل ترین صورت تو یہ ہے کہ انسان عاشورا کے سلسلے میں تین روزے رکھ لیا کرے یعنی دس محرم اور ایک روزہ اس سے پہلے ( نو محرم ) اور ایک روزہ اس کے بعد ( گیارہ محرم ) اس کے بعد دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان دس محرم کا روزہ رکھے اور اس سے پہلے ایک دن یعنی نو محرم کا روزہ رکھ لیا کرے۔البتہ علماے کرام فرماتے ہیں کہ صرف دس محرم ہی کا روزہ رکھنا بھی جائز ہے۔ اس لیے کہ اضافی روزے رکھنے کی علت یہود سے مشابہت کا خاتمہ تھا چونکہ آج کل یہود عاشورا کا روزہ نہیں رکھتے اس لیے مشابہت کا اندیشہ جاتا رہا پس کوئی ایک روزہ بھی رکھے تو جائز ہے۔