لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

مفتی اویس پاشا قرنی
مدیر فقہ اکیڈمی کراچی

قربانی کے فضائل و مسائل

شرائطِ قربانی

ہر عاقل بالغ مقیم مسلمان پر قربانی کرنا واجب ہے جبکہ اس کی ملکیت میں حاجتِ اصلیہ سے زائد ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کی قیمت کا مال موجود ہو۔اب خواہ وہ مال سونا چاندی یا اس کے زیورات یا مالِ تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان یا مسکونہ مکان سے زائد کوئی مکان وغیرہ کی صورت میں ہو۔ ضرورت سے زائد گھریلو سامان سے وہ برتن وغیرہ مراد ہیں جو عمومًا استعمال میں نہیں آتے۔ اگر ایک شخص کا مال غیر ملکی کرنسی کی صورت میں موجود ہے تو اس کا بھی اعتبار ہوگا۔ وجوب کے لیے اعتبار ۱۰ سے ۱۲ تاریخ تک کا ہوگا۔اگر ان ایام میں کسی بھی وقت وہ صاحبِ وسعت تھا تو اس پر قربانی واجب ہو جائے گی۔نیز اگر کسی کے پاس رہائشی مکان کے علاوہ مزید پلاٹ ہیں یا ضرورت کی سواری سے زائد سواری ہے تو اس پر بھی قربانی کرنا واجب ہے۔مالِ تجارت چاہے جس بھی صورت میں ہو اگر اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہے تو اس کا مالک صاحبِ وسعت قرار پائے گا۔عوام میں یہ بات عام ہو گئی ہے کہ جس شخص پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے اس پر قربانی بھی واجب نہیں ہے۔یہ بات درست نہیں ہے،کیونکہ زکوٰۃ فرض ہونے کے لیے اس مال پر سال کا گزرنا شرط ہے جبکہ قربانی کے وجوب کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں ہے۔نیز زکوٰۃ صرف سونا، چاندی،نقدی و مالِ تجارت پر فرض ہوتی ہے جبکہ قربانی کے نصاب میں اور بھی کئی چیزیں شمار ہوتی ہیں،جیسے کہ ماقبل مذکورہ شرائط سے واضح ہے۔اسی لیے فقہاے کرام رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ صاحبِ نصاب پر فرض ہے جبکہ قربانی و صدقۃ الفطر صاحبِ وسعت پر واجب ہے۔ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جس شخص پر زکوٰۃ فرض ہے اس پر قربانی بھی واجب ہے۔

اگر کسی شخص پر اصلًا تو قربانی واجب نہ تھی لیکن اس نے قربانی کے ارادے سے کوئی جانور خرید لیا تو اب اس پر قربانی لازم ہو گئی۔ہاں اگر اس کا یہ جانور گم ہو گیا یا ضائع ہو گیا تو اس پر اب دوسرا جانور خرید کر اسے قربان کرنا واجب نہ ہوگا۔نیز اگر کوئی شخص خیر میں مزید آگے بڑھنا چاہے تو گھر کے بزرگوں،مرحومین،سلفِ صالحین اور نبیﷺکی طرف سے بھی قربانی کر دے۔یہ عمل اس قربانی کرنے والے اور جس کی طرف سےقربانی کی جارہی ہے دونوں ہی کے لیے اجر کا باعث بن جائے گا۔

قربانی کے جانور

یہ بات درست نہیں ہے کہ جو جانور حلال ہو اس کی قربانی بھی جائز ہو جاتی ہے۔بلکہ نبیﷺنے بالاہتمام ان جانوروں کو متعین فرما دیا ہے جن کو ذبح کرنے سے واجب قربانی ادا ہوتی ہے۔کُل چھے جوڑے ہیں جنھیں فقہاے کرام رحمۃ اللہ علیہم نے ذکر فرمایا ہے۔گائے بیل،بھینس بھینسا، اونٹ اونٹنی،بکرا بکری،دنبہ دنبی،بھیڑ اور بھیڑا۔ان میں سے پہلے چھے میں سات سات جبکہ بقیہ میں ایک ایک حصہ ہوتا ہے۔اگر بڑے جانور میں سات سے زائد حصے شمار کر لیے جائیں تو کسی ایک حصے میں بھی قربانی درست نہ ہوگی۔ایک اور شرط فقہا یہ بھی لگاتے ہیں کہ اگر بڑے جانور میں الگ الگ لوگ حصہ ڈال رہے ہوں تو سب ہی کی نیت تقرب کی ہونی چاہیے۔واجب قربانی،ایصالِ ثواب اور عقیقہ وغیرہ تقرب کے کاموں میں شامل ہے۔لیکن اگر اس کے علاوہ کسی بھی شخص نے تجارت یا گوشت ذخیرہ کرنے کی نیت سے حصہ ڈالا تو تمام ہی افراد کی قربانی فاسد ہو جائے گی۔ اصل میں فقہاے کرام رحمۃ اللہ علیہم یہ اصول بیان فرماتےہیں کہ قربانی کا جانور مالِ مشاع ہے۔یعنی یہ قابلِ تقسیم نہیں ہے۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی جانور میں چار حصے تو تقرب کے واسطے ہوں اور بقیہ تجارت کی خاطر۔اگر ایسا کیا تو وہ چار حصے بھی غیر معتبر قرار پائیں گے۔اسی بات سے ایک اور مسئلہ نکلتاہے:اور وہ یہ کہ اگر اجتماعی قربانی میں تساہل برتا جائے اور کوئی ایک فرد بھی اپنی حرام آمدن میں سے کسی جانور میں حصہ ڈال دے تو بقیہ شرکا کی بھی قربانی فاسد قرار پائے گی۔آسان سا حل یہ ہے کہ حصہ لیتے وقت یہ اعلان کر دیا جائے کہ تمام شرکا اپنی حلال آمدن میں سے حصہ ڈالیں۔اس کےبعد لوگوں کے ظاہری قول ہی پر اعتماد کر لیا جائے۔زیادہ تفتیش میں پڑنا درست نہیں ہے۔جو حضرات کسی ادارے کے تحت حصہ ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہوں،ان پر شرعًا واجب ہے کہ کسی ایسے ادارے کا انتخاب کریں جہاں مسائلِ شرعیہ کی پابندی کی جاتی ہو اور مستند علماےکرام اور مفتیانِ عظام کی نگرانی میں تمام کام انجام دیا جاتا ہو۔اگر ایسا نہ کیا جائے تو ایک عظیم عبادت کے ضائع ہو جانے کا خدشہ ہے۔

اصول تو یہ ہے کہ جس پر قربانی واجب ہے وہ اپنے ہی مال میں سے اسے ادا کرے گا۔لیکن اگر کوئی دوسرا شخص اسے بتا کر اس کی طرف سے قربانی کردے تو اس سے قربانی کا وجوب ساقط ہو جائے گا۔خواہ اس نے وہ قربانی اپنے مال سے کی ہو یا اس شخص کے مال سے۔مثلًا اگر کسی خاتون کی ملکیت میں اتنا زیور ہے کہ اس پر قربانی واجب ہو جائےلیکن اس کا شوہر اس کو اطلاع دے کر اس کی طرف سے قربانی کر دیتا ہے تو اب اس پر سے قربانی کا وجوب ساقط ہو جائے گا۔اسی کو فقہاے کرام رحمۃ اللہ علیہم وکالت سے تعبیر کرتے ہیں۔اس صورت میں بس مؤکل(جس کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے)کو اطلاع دے دینا لازمی ہے۔کیونکہ اگر اطلاع نہ دی اور مؤکل نے اپنی واجب قربانی الگ سے ادا کردی تو جس جانور میں وکیل نے موکل کے حصے کی نیت کی تھی اس کے تمام حصوں کی قربانی غیر معتبر قرار پائے گی اور تمام شرکا کی ایک عظیم عبادت ضائع ہو جائے گی۔

شرکا کے مابین تقسیم

اگر بڑے جانور میں مختلف شرکا موجود ہیں تو قربانی کے بعد گوشت کو برابرتقسیم کرنا لازمی ہوگا۔ باقاعدہ تول کر تمام شرکا کو ان کا حصہ دیا جائے گا۔ کمی زیادتی سے گناہ ہوگا۔البتہ اگر شرکا ایک ہی گھر سے ہیں اور سب ساتھ مل کر کھاتے ہیں تو اس صورت میں گوشت تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے۔اسی طرح اگر تمام شرکا الگ الگ بھی رہتے ہیں لیکن سب اس بات پر راضی ہو جائیں کہ گوشت تقسیم کرنے کی بجائے ایک جگہ پکا کر کھا لیا جائے یا پورا صدقہ ہی کر دیا جائے تب بھی تقسیم کرنا لازمی نہیں ہے۔البتہ اگر ایک فرد بھی اس پر راضی نہ ہو تو اب تقسیم کرنا لازم ہو جائے گا۔جانور کے بقیہ حصے جنھیں تولنا ممکن نہ ہو انھیں اس طرح تقسیم کیا جائے کہ کوئی بھی معقول شخص اس تقسیم کو عدل پر مبنی شمار کرے۔اگر کھال اور کلہ پائے گوشت کے ساتھ تقسیم کر دیے جائیں تو اب گوشت کو تولنا لازم نہ ہوگا۔ایک شریک کو اگر کھال کے ساتھ کچھ گوشت دے دیا جائے اور بقیہ گوشت دوسرا شریک رکھ لے تو یہ بھی درست شمار ہوگا۔

جانور کی شرائط

نبیﷺ نےجب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قربانی کے جانور خریدنے کے لیے یمن کی طرف روانہ کیا تو فرما دیا تھا کہ جانور کے کان، آنکھ اور دانت اچھی طرح دیکھ لیے جائیں۔معلوم ہوا کہ ہر قسم کا معیوب جانور ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔ان شرائط کو فقہاے کرام رحمۃ اللہ علیہم نے بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے جنھیں مدِّ نظر رکھتے ہوئے قربانی کا جانور خریدنا چاہیے۔ پہلی شرط جانور کی عمر سے متعلق ہے:

۱)بکرا،دنبہ اور بھیڑا کم از کم ایک سال کا ہو۔       ۲)گائے اور بھینس کم از کم دو سال کے ہوں۔

۳)اونٹ کم از کم پانچ سال کا ہو۔

اگر کسی جانور کی عمر پورے ہونے کا یقین ہو تو اب اس کے دانت دیکھنے کی حاجت نہیں ہے، لیکن چونکہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا اسی لیے دانت دیکھ لینے کا بھی حکم دیا جاتا ہے۔نیز دنبے اور بھیڑ میں علما نے ایک استثنا بیان کیا ہے کہ اگر وہ سال بھر کے نہ بھی ہوں لیکن ان کی عمر چھے ماہ سے زیادہ ہو اور وہ اتنے موٹے تازے ہوں کہ اگر سال بھر کے بھیڑ اور دنبوں میں چھوڑ دیے جائیں تو کم عمر نہ نظر آتے ہوں تو اس صورت میں ان کی قربانی بھی جائز قرار پائے گی۔

پھر نبیﷺنے کچھ ایسے عیوب بھی بیان فرمائے کہ جن کی موجودگی میں ایک جانور کی قربانی کرنا جائز نہیں ہوتی۔یعنی عام حالات میں تو انھیں ذبح کر کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن قربانی کے لیے ان کو پیش کرنا جائز نہیں ہے۔سنن ابی داؤد میں ارشادِ نبوی ہے: «أَرْبَعٌ لَا تَجُوزُ فِي الْأَضَاحِيِّ : فَقَالَ الْعَوْرَاءُ بَيِّنٌ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ بَيِّنٌ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ بَيِّنٌ ظَلْعُهَا، وَالْكَسِيرُ الَّتِي لَا تَنْقَى»’’چار ایسے جانور ہیں جنھیں قربانی کی خاطر ذبح کرنا جائز نہیں ہے،ایسا کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو،ایسا بیمار جس کا مرض ظاہر ہو،ایسا لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو اور ایسا کمزور کہ جس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو‘‘۔حضراتِ فقہاے کرام رحمۃ اللہ علیہم نے ان عیوب کی مزید وضاحت فرمائی ہے۔ ایسا جانور جو اندھا ہو یا بالکل کانا ہو یا اس کی ایک آنکھ کی تہائی یا اس سے زیادہ روشنی جاتی رہی ہو یا اس کے ایک کان کا تہائی یا اس سے زیادہ حصہ کٹ چکا ہو یا دم کا ایک تہائی یا اس سے زیادہ حصہ کٹ چکا ہو یا وہ اتنا کمزور ہو کہ اس کی ہڈیوں میں بالکل گودا ہی نہ رہا ہو تو اس کی قربانی کرنا نا جائز ہے۔اگر جانور دبلا ہو مگر اتنا زیادہ دبلا نہ ہو تو اس کی قربانی جائز ہو گی۔

 اگر کسی جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں تو اس کو بھی قربانی کے لیے ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔اگر اس کےپیدائشی سینگ نہ ہوں تو اس کی قربانی جائز ہے۔ اسی طرح اگر سینگ تھے لیکن ٹوٹ گئے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ البتہ اگر سینگ جڑ سے ٹوٹا ہوا ہو یا اس طرح اکھڑا ہو کہ دماغ تک چوٹ کا اثر پہنچ جائے تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہ ہو گی۔اسی طرح اگر کسی جانور کے اکثر یا سارے دانت ٹوٹ گئے ہوں تو اس کی بھی قربانی جائز نہیں ہے۔خصی جانور ذبح کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ افضل بھی ہے۔ ابو داؤد کی روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے خود بھی ایسے مینڈھے ذبح فرمائےتھے:«ذَبَحَ النَّبِيُّﷺ يَوْمَ الذَّبْحِ كَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مُوجَأَيْنِ»’’نبیﷺ نے بقر عید کو دو سینگ والے،چتکبرے،خصی مینڈھے ذبح کیے‘‘۔

قربانی کا وقت

تمام ہی مذاہبِ اسلامیہ میں قربانی کا وقت ۱۰ ذو الحجہ کو نمازِ عید کے بعد شروع ہوتا ہے۔اگرچہ اس کے اختتامی وقت میں دو اقوال پائے جاتے ہیں۔ احناف،مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک ۱۲ ذو الحجہ کی مغرب سے پہلے پہلے تک قربانی کرنا جائز ہے۔جبکہ شوافع کے نزدیک ۱۳ ذو الحجہ کا دن بھی ایامِ قربانی میں شامل ہے۔فضیلت کے اعتبار سے ۱۰ ذو الحجہ کی قربانی اولیٰ ہے۔

جس بستی میں عید کی نماز نہ ہوتی ہو جیسے دیہات تو وہاں فجر کے بعد ہی سے قربانی کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔لیکن جہاں اس کا اہتمام ہوتاہو جیسے شہر وہاں نماز کے بعد ہی قربانی جائز ہوگی۔فقہا نے یہ بھی وضاحت فرمائی ہے کہ یہ بات لازمی نہیں ہے کہ قربانی کرنے والے شخص نے نماز ادا کرلی ہو بلکہ اگر پوری بستی میں ایک جگہ بھی نماز ادا ہوگئی تو اب قربانی کی جاسکتی ہے۔البتہ اگر کسی نے اس سے پہلے جانور ذبح کر دیا تو اس کی قربانی ادا نہ ہوگی اور اگر وہ صاحبِ استطاعت ہے تو اس پر ایک دوسری قربانی واجب ہوگی۔

منت و وصیت کی قربانی

اگر کسی شخص نے قربانی کی منت مانی اور اس کا کام بھی پورا ہوگیا تو اب اس پر یہ قربانی کرنا واجب ہوگا۔ وجوب کی ایک قسم من اللہ ہوتی ہےجیسا کہ بقر عید کی قربانی کا معاملہ ہے۔جبکہ وجوب ہی کی ایک دوسری قسم بھی ہے جو بندے کی اپنی طرف سے ہوتی ہے۔البتہ منت کی قربانی میں ایک فرق ضرور واقع ہوتا ہے،اور وہ یہ کہ اس کا گوشت صرف فقرا و مساکین میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔یعنی اغنیا پر اس کا کھانا ممنوع ہے۔بعینہٖ یہ حکم وصیت کی قربانی کا بھی ہے۔اس کی صورت یہ ہے کہ کسی شخص نے ایک تہائی مال کے اندر اندر یہ وصیت کردی کہ ہر سال اس میں سے ایک قربانی کردی جائے تو اب ورثا پر اس وصیت کو پورا کرنا لازم ہوگا۔ اس قربانی کا بھی پورا گوشت فقرامیں تقسیم ہوگا۔مزید برآں نفلی قربانی کے برعکس ان قربانیوں میں صرف ایک ہی نیت معتبر ہوتی ہے۔یعنی منت و وصیت کی قربانی میں کسی اور نفلی قربانی کی نیت نہیں کی جاسکتی۔

قربانی کی قضا

اگر کسی شخص پر قربانی تو واجب تھی مگر وہ کسی بھی وجہ سے اسے ادا نہ کر سکا تو اب اس پر ایک حصے کی کم از کم قیمت صدقہ کرنا واجب ہوگا۔

آدابِ قربانی

کسی بھی عمل کو بدرجۂ احسن ادا کرنے کے لیے اس کے آداب کو ملحوظ رکھنا لازمی ہے۔ہمارے اسلاف کا بھی یہ ہی طرز تھا کہ وہ اپنے ہر عمل کو اس کے آداب بجا لاکر مزین کیا کرتے تھے۔قربانی بھی ایک عظیم عبادت ہے اور جو شخص بھی اسے سر انجام دے رہا ہو اسے چاہیے کہ اس کے تمام آداب کو ملحوظِ خاطر رکھے تاکہ اللہ کے یہاں مکمل اجر پا سکے۔سب سے پہلے دل میں قربانی کی نیت کرلینی چاہیے۔زبان سے کچھ کہنا لازمی تو نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص یکسوئی کی خاطر کچھ کلمات بھی ادا کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔البتہ ذبیحے پر بِسْمِ اللهِ اَللهُ أَکْبَر زبان سے پڑھنا لازمی ہے،اس کے بغیر جانور حلال نہ ہوگا۔جانور کو ذبح کرنے کے وقت قبلہ رو لٹانا بھی قربانی کے آداب میں شامل ہے۔جانور کو لٹانے کے بعد ابنِ ماجہ میں واردیہ دعا پڑھنا مسنون ہے: إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ* قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ* لَا شَرِيكَ لَه وَبِذٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ* اَللّٰهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِه’’میں اس ذات کے لیے یکسو ہوتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، بلا شبہہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو کہ تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، اے اللہ (یہ توفیقِ قربانی) تیری طرف سے ہے اور (یہ قربانی) تیرے ہی لیے ہے اور (یہ قربانی) محمدﷺاور آپ کی امت کی طرف سے ہے‘‘۔ پھر بسم الله الله اکبر‘‘ کہہ کر ذبح کریں،اورذبح کرنے کےبعداگر یہ دعا یاد ہو تو پڑھ لیں:اللّٰهُمَّ تَقَبَّلْهُ مِنِّي کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِكَ مُحَمَّدٍ وَ خَلِیْلِكَ إبْرَاهِیْمَ عَلَیْهِمَا السَّلَامُ.’’اے اللہ! تو مجھ سے بھی یہ قربانی اسی طرح قبول کرلے جس طرح تو نےاسے اپنے حبیب محمدﷺ اور اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام سے قبول فرمالیا تھا‘‘۔ اگر ذبح کرنے والا کسی اور کا جانور ذبح کرے تومِنِّي کی بجائے مِنْ کے بعد جس کی قربانی ہے اُس کا نام لے، اگر گائے ہے تو مناسب یہ ہے کہ تمام حصے داروں کے نام لے۔جانور کو کچھ دن پالنا بھی افضل ہے۔مزید برآ ں چونکہ نبیﷺنے ذبح کرنے میں بھی احسان کا حکم دیا ہے، اسی لیے چاہیےکہ ذبح کرنے سے قبل چھری خوب تیز کرلی جائے اور ایک جانور کو دوسرے کے سامنے نہ ذبح کیا جائے۔اسی طرح ذبح کرنے کے بعد جانور کو ٹھنڈا ہونے دیا جائے اور جب پوری جان نکل جائے تب کھال اتاری جائے۔اپنی قربانی کو خود ذبح کرنا اولیٰ ہے لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم اس وقت وہاں حاضر رہنا چاہیے۔

گوشت کی تقسیم

ویسے تو یہ بات جائز ہے کہ ایک شخص پورا کا پورا گوشت ذخیرہ کرلے۔لیکن مستحب یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے بنا لیے جائیں،ایک اپنے استعمال کے لیے،ایک رشتے دارواں کے لیے اور ایک فقرا و مساکین کے لیے۔البتہ اس کے برخلاف بھی تقسیم جائز ہے۔

کھال کے احکام

جاننا چاہیے کہ جانور کے تمام اعضاو اجزاکے مصارف طے ہیں۔یہاں تک کے وہ شے جس کو نمائش و آرائش کی خاطر جانور پر باندھا گیا ہو اسے بھی فروخت کر کے اس کی قیمت استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔فقہا نے تو یہاں تک صراحت فرمائی کہ جانور کی رسی بھی فروخت کرنا یا اجرت پر دینا جائز نہیں ہے۔بعینہٖ یہ حکم کھال کا بھی ہے۔اسے خود استعمال میں لانا یا صدقے میں دے دینا یا کسی کوتحفتاً دے دینا تو جائز ہے لیکن اسے فروخت کر کے اس کی قیمت استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔اسی طرح قصائی کو اجرت پر کھال دے دینا بھی ناجائز ہے۔اگر ایسی غلطی کردی تو کھال کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہوگی۔ایک بات یہ بھی واضح رہنی چاہیے کہ کھال کو مسجد مدرسے وغیرہ کی تعمیر میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔کھال کی قیمت کو بھی زکوۃ کی مانند فقرا کی ملکیت میں دینا شرط ہے۔ہاں کسی مدرسے کے طلبہ اگر مستحق زکوۃ ہوں تو ان کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ میں کھال کی قیمت کو استعمال کرنا درست ہے۔اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ کھال ایسی جگہ دی جائے جہاں مستند علماے کرام کی نگرانی میں کام ہوتا ہوتاکہ اس عظیم عبادت میں کوئی نقص نہ آنے پائے۔

لرننگ پورٹل