مولانا حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر ماہنامہ مفاہیم، کراچی
۱۱: سلیم خان ثانی( ۱۵۲۴- ۱۵۷۴ء)
سلطان سلیمان القانونی کی وفات کے بعد ۱۵۶۶ء میں سلطان سلیمان کے بیٹے سلیم خان عثمانی تخت کے وارث ہوئے۔ انھیں سلیم ثانی کا لقب دیا گیا۔ سلیم خان ثانی کی تعلیم وتربیت بھی سابقہ سلاطین کی طرح علماے کرام کی نگرانی میں ہوئی۔ اپنے والد کے ساتھ کئی جنگوں میں حصہ لیا۔ ادب سے بہت لگاؤ تھا، خود بھی شعر کہتے تھے اورسلیؔمی تخلص کرتے تھے۔ لیکن تخت نشین ہونے کے بعد تمام عرصۂ حکومت میں کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ اس کے ممکنہ طور پر دو اسباب نظر آتے ہیں: ایک تو یہ کہ اس دوران اکثر جنگیں بحری محاذوں پر لڑی گئیں، جن میں عموماً سلطان کی شرکت ممکن نہیں ہوتی تھی۔ دوم یہ کہ اس میں بہت کچھ دخل سلیم ثانی کی نا اہلی اور کوتا ہی کو بھی ہے۔ گزشتہ قسط میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ سلیمان القا نونی کے بعض فیصلے سلطنت کے لیے نہایت مضر ثابت ہوئے، لیکن سلیمان کے عہد میں ان کا اظہار نہیں ہو سکا۔ سلطنت کےزوال کی علامات سلیم ثانی کے عہد میں ظاہر ہونا شروع ہوئیں، لیکن اس دوران بھی بہت سے عہدے دار سلیمان القانونی کےدور کے تھےاس لیے ان کی تد بیر نے سليم ثانی کی نا اہلی پر پردہ ڈالے رکھا۔ انھی میں ایک نام وزیرِ اعظم صوقو للّى پاشا کا ہے جن کے حسنِ انتظام سے سلطنت قائم ودائم اور مستحکم رہی۔ تمام فیصلے وزیرِ اعظم ہی کیا کرتے تھے، سلیم ثانی کی تخت نشینی کے محض دو سال بعد ہی صوقو للّی پاشا نے روس پر حملےکے لیے ایک لشکر روانہ کیا۔ اس زمانےمیں روس ایک ابھرتی ہوئی طاقت ور ریاست تھی اور عثمانیوں کے بالمقابل آنے کی اہلیت رکھتی تھی۔ اس حملے میں کامیابی تو نہ ہو سکی، لیکن روس کو دباؤ میں رکھنے میں یہ تدبیر کار گر ثابت ہوئی۔ اس جنگ کے ایک سال بعد تیونس اور اس سے اگلے سال قبرص بھی عثمانی لشکرنے فتح کر لیا۔ قبرص کی فتح پر یورپ کی عیسائی سلطنتوں میں تشویش پھیل گئی، اور انھیں عثمانیوں کے توسیع پسندانہ عزائم سے خوف آنے لگا۔ چنانچہ انھوں نے عثمانیوں کی بحری طاقت کو توڑنے کے لیے ایک زبردست اتحادی لشکر تیار کیا۔ یہ لشکر کئی سو بحری جہازوں پر مشتمل ایک بیڑے کی صورت میں عثمانی بحری بیڑے کے بالمقابل آیا۔ عثمانی بحریہ میں موجود تجربہ کار مشیروں نے اس اتحادی لشکر سے جنگ نہ کرنے اور مزید تیاری کرنے کا مشوره دیا۔ لیکن نو عمر اور ناتجربہ کار امیر نے جنگ شروع کر دی۔ جنگ کے نتیجے میں ترکوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ امیر البحر کو قتل کر دیا گیا۔ عثمانی جہاز عیسائیوں کے قبضے میں چلے گئے اور ۲۶۶ میں سے بہ مشکل چالیس جہاز واپس پہنچ سکے۔ عیسائی اتحادی اس پر بہت خوش ہوئے اور جشن کی تیاریاں ہونے لگیں۔ یہ شکست عثمانیوں کے لیے واقعی تباه کن تھی لیکن سلطان سلیم خان ثانی نے اس نقصان کی تلافی کے لیے ذاتی رقم جاری کی اور محل کا باغیچہ نئے جہازوں کی تیاری کے لیے وقف کر دیا۔ اس اقدام سے بہت جلد عثمانی بحریے میں مزید ۱۶۸ جہاز شامل ہو گئے۔ بلا شبہہ یہ سليم ثانی کا بڑا کارنامہ تھا۔ اس نئے بیڑے کے ساتھ عثمانی لشکر دوبارہ عیسا ئیوں سے مقابلے کے لیے روانہ ہوا، لیکن عیسائی اتحادی اس غیر متوقع تیاری سے مرعوب ہو گئے اور جنگ کے لیے نہ آ سکے۔ اس واقعے کے بعد وينس کا سفیر حالات کا جائزہ لینے قسطنطنیہ آیا اور عثمانی بیڑے کی شکست پر اتراتے ہوئے اسے قبر ص کا انتقام قرار دیا۔ اس پر وزیر اعظم نے تار یخی جواب دیا: ’’تم سےقبرص چھین کر ہم نے تمہارا بازو کاٹ ڈالا جبکہ ہمارے بیڑے کو شکست دے کر تم نے گویا ہماری داڑھی مونڈھ دی، اور تم جانتے ہو کہ داڑھی بہت جلد اُگ آتی ہے اور پہلے سے زیادہ گھنی ہوتی ہے‘‘۔ اس کے کچھ عرصے بعد ہی سلطان سلیم خان ثانی کا انتقال ہو گیا۔سلطان سلیم ثانی بھی تعمیرات کا شوقین اور علم کا قدر دان تھا۔ مختصر سے عہدِ حکومت میں سلیم ثانی نے ادرنہ میں سلیمیہ مسجد تعمیر کروائی۔ آیا صوفیہ کی دیواروں کی مرمت کروائی اور وہاں ایک مدرسہ اور دو اذان خانے بنوائے۔ مکہ مکرمہ میں میں پانی کی متعدد نالیاں جاری کروائیں اور مسجدِ حرام کی آرائش کا حکم دیا۔آخر میں ایک اہم بات جس کا ذکر بہت ضروری ہے وہ یہ کہ بہت سے انگریز مؤرخین نے سلیم ثانی کو شراب کا عادی اور ہمہ وقت شراب نوشی ولغویات میں محو رہنے والا سلطان لکھا ہے۔ اور افسوس کے ساتھ ہمارے وہ اردو مؤرخین جو عربی، فارسی اور ترکی زبان سے ناواقف تھے یا عرب وترک مؤرخین کو بھی انگریزی ترجمے کے ذریعے پڑھتے تھے، انھوں نے بھی اس جھوٹ کو اپنی کتابوں میں درج کر دیا۔ اس بے بنیاد الزام کو (جس پر کوئی دلیل انگریز مؤرخ پیش نہیں کرتے) ہم صرف اتنا کہہ کر رد کر سکتے ہیں کہ اس باب میں انگریزوں کی خبر ایک مخبرِ فاسق کی خبر ہے جسے بغیر تحقیق کے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ عرب اور ترک مؤرخین نے ایسی کوئی بات ذکر نہیں کی بلکہ اس کی تردید کی ہے۔ ہاں اتنی بات ضرور لکھی ہے کہ اگرچہ سلطان اس حرام کام میں مبتلا نہیں تھا لیکن سليم ثانی کے عہد میں شراب نوشی ہونے لگی تھی۔ سرکاری عہدے دار اور امرا شراب نوشی میں مبتلا ہو گئے تھے اور یہ معاملہ اتنا بڑھ چکا تھا کہ انھیں روکنا مشکل ہو گیا تھا۔ اس لعنت کو سلیم ثانی کے بیٹے مراد نے ختم کرنے کی کوشش کی۔ سلطان سلیم خان ثانی کو آیا صوفیہ کے احاطے میں دفن کیا گیا۔
۱۲: مراد خان ثالث ( ۱۵۴۶ – ۱۵۹۵ء)
سلطان مراد خان ثالث کم سنی سے ہی تعلیم وتعلم اور تصوف سے شغف رکھتے تھے اور کبار علما سے تحصیلِ علم میں مشغول رہتے تھے۔ علمِ تصوف سے خاص دلچسپی تھی اور انھوں نے تصوف پر ایک رسالہ بھی مرتب کیا۔ عربی اور فارسی سے بخوبی واقف تھے۔ عربی، فارسی اور ترکی تینوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ مراد ؔ تخلص کرتے تھے۔ ان کی شاعری کے چار دیوان ان کے عمدہ ذوق کی عکاسی کرتے ہیں، جن میں سے دو ترکی اور دو عربی فارسی کی شاعری پر مشتمل ہیں۔ انتہائی نیک اور متقی انسان تھے۔ والد سلیم خان ثانی کی وفات پر ۱۵۷۴ء میں تخت نشين ہوئے۔ اس سے قبل مختلف خِطّوں پر والی کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے چکے تھے۔ تخت نشینی کے بعد پہلا اہم کام آپ نے یہ کیا کہ شراب نوشی پر پابندی عائد کر دی جس کا رواج سابقہ حکومت میں بہت بڑھ گیاتھا، خاص طور پر ینی چری میں شراب نوشی بکثرت ہونے لگی تھی۔ اس فیصلے پر ینی چری نے سلطان کے خلاف خوب محاذ آرائی کی (ينی چری کو عربی کتب میں انكشاریہ یا انکشار یین لکھا جاتا ہے)۔ سلطان مراد خان ثالث کو جو ریاست ملی وہ رشوت خوری اور بد عنوانی کے سبب غير مستحکم ہو چکی تھی اور تیزی سے زوال کی جانب گامزن تھی۔ سلطنت کا انتظام یا تو حرم کی خواتین چلاتی تھیں اور بھاری رشوتوں کے عوض ذاتی پسند ناپسند پر تقرری کی جاتی تھی یا پھر ینی چری کے فوجی دستے دھونس دھمکی سے اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے تھے۔ وہ جسے چاہتے اسے ذمے داری ملتی اور جسے چاہتے اسے قتل کروا دیتے۔ ان کا مطالبہ نہ ماننے کی صورت میں محل کا محاصرہ کر لیا جاتا اور وہ دھمکی دیتے کہ یا تو محل پر حملہ کر دیا جائے گا یاہماری مرضی کا فیصلہ نافذ ہوگا۔ اور یہ صرف دار الحکومت میں ہی نہیں دوسرے صوبوں میں بھی اپنی مرضی کا حاکم مقرر کرواتے اور اس کے عوض بھاری رقم لیتے۔ یہ نا اہل حکمران رشوت کی رقم عوام پر ظلم وستم کے ذریعے واپس وصول کرتے۔ ابتدائی کچھ عرصے میں جب تک صوقو للّی پاشا وزیرِ اعظم رہے نظام کچھ نہ کچھ بہتر رہا، لیکن پھر انھیں بھی ایک سازش کے ذریعے قتل کرا دیا گیا اور سلطنتِ عثمانیہ تیزی سے زوال پذیر ہونے لگی۔ جا بجا بغاوتیں ہونے لگیں اور مخالفین اس موقعے سے فائدہ اٹھانے لگے۔ مراد ثالث کے عہد کے آغاز میں ہی ایران سے جنگ چھڑ گئی جو تقریباً تیره سال جاری رہی جس میں کبھی ترک اور کبھی ایرانی فتح یاب ہوتے رہے۔ بالآخر ۱۵۹۰ء میں دونوں کے درمیان صلح ہو گئی۔ اس صلح نامے میں ایک قابلِ ذکر دفعہ یہ بھی تھی کہ اہلِ ايران خلفا ے ثلاثہ پر تبرا سے باز رہیں گے۔ اس عہد میں یورپی حکومتوں سے عموماً اچھے سفارتی وتجارتی تعلقات رہے۔ مرادِ ثالث کے عہد کے آخر میں ہنگری اور آسٹریا جنگ شروع ہو گئی جس میں عثمانیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایران میں بھی حالات دگر گوں ہونے لگے۔ اسی دوران سلطان مراد خان ثالث انتقال کر گئے۔ انھیں آیا صوفیہ کے احا طے میں دفن کیا گیا۔
۱۳: محمد خان ثالث (۱۵۶۶۔۱۶۰۳ء)
سلطان محمد خان ثالث ابتدائی تعلیم وتربیت کے بعد سترہ سال کی عمر میں مانیسیا کے والی مقرر ہوئے اور امورِ سلطنت میں تجربہ حاصل کیا۔ ۱۵۹۵ء میں عثمانی تخت کے وارث ہوئے۔ انھیں بھی شاعری سے شغف تھا۔ اپنی شاعری میں عدلیؔ تخلص استعمال کرتے تھے۔ سلطان محمد خان ثالث نے تھوڑے عرصے تک حکومت کی۔ ان کا دورِ حکومت انتشار کا شکار رہا، کبھی باغیو ں کی شورش اور کبھی ینی چری کا فتنہ سلطنت کے استحکام میں آڑے آتا رہا۔ محمد ثالث کی والدہ صفیہ سلطانہ نے امورِ سلطنت میں بہت زیادہ مداخلت کی ، جبکہ عثمانی افواج ہر محاذ پر شکست کھا رہی تھیں، والدۂ سلطان؛ محمد خان کو میدانِ جنگ سے باز رکھنے میں مصروف تھیں۔ جب افواج کی شکست اور عیسائیوں کی یلغار بہت زیادہ ہوگئی تو سلطان بمشکل میدانِ جنگ میں جانے اور لشکر کی قیادت کرنے پر راضی ہوئے۔ اس عرصے میں ترک فوج ہنگری اور ولاچیا کے ہاتھوں ہزیمت اٹھا چکی تھی اور ایران سے جنگ جاری تھی۔ سلطان کی قیادت میں عثمانی افواج نے ایک خون ریز مقابلے کے بعد عیسائی لشکر کو عبرت ناک شکست سے دو چار کیا اور فتحِ مبین کے ساتھ قسطنطنیہ واپس پہنچا۔ یہ واقعہ ۱۵۹۶ء کا ہے۔ اس کے بعد سلطان کا باقی عہد بغاوتیں کچلنے میں گزر گیا۔ ان میں ایک نمایاں باغی ایشیاے کوچک کا ایک سردار عبدالحمید تھا جس نے ۱۵۹۹ء میں خود مختار حکومت کا اعلان کر دیا۔ اس نے عثمانیوں کو کئی جنگوں میں شکست دی حتیٰ کہ صوقو للّی پاشا کے بیٹے حسن پاشا نے اسے شکست دی اور عبد الحمید قتل ہوا، لیکن اس کے بھائی ولی حسن نے بغاوت جاری رکھی اور اس حد تک قوت جمع کر لی کہ سلطان کو اس کے ساتھ صلح کرنی پڑی۔ ۱۶۰۳ء میں سلطان کی وفات ہوئی اور آیا صوفیہ کے احاطے میں دفن ہوئے۔ محمد خان ثالث وہ آخری عثمانی سلطان ہیں جنھیں تخت نشینی سے قبل کسی صوبے کی ولایت سونپی گئی۔ ان کے بعد عثمانی شہزادوں کے لیے یہ ضابطہ طے ہو گیا کہ وہ محل میں محصور رہیں گے اور وقت آنے پر ولی عہد کو سلطان بنایا جائے گا، باقی شہزادوں کی قسمت کا فیصلہ نئے سلطان کے ہاتھ ہوگا۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ کوئی شہزادہ بغاوت نہ کر سکے یا پھر کوئی باغی کسی شہزادے کو سلطنت کے دعوے دار کے طور پر استعمال نہ کر سکے۔
کتابیات
السلاطین العثمانیون، راشد کوندوغدو،الناشر:دار الرموز للنشر،إسطنبول،۲۰۱۸ء
آلبوم پادشاہانِ عثمانی،مترجم:میلاد سلمانی،ناشر:انتشاراتِ قَقْ نُوس،استنبول،۲۰۱۵ء
تاریخِ سلطنتِ عثمانیہ، ڈاکٹر محمد عزیر، ناشر: کتاب میلہ، ۲۰۱۸ء
سلطنتِ عثمانیہ، ڈاکٹر علی محمد الصلابی،مترجم: علامہ محمد ظفر اقبال، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور، جون ۲۰۲۰ء