لاگ ان

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

لاگ ان

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

مدیر
ماہنامہ مفاہیم، کراچی

جھونکا …… مگر کس کا؟

آوازِ پا پہ لگے کان کبھی باہر جھانک کر دیکھیں اور در پہ ’’ جھونکے ‘‘ کو دستک دیتا پائیں تو دل ڈر اور خوشی سے بیک وقت لبریز ہو جاتا ہے۔ واقعی ہوا کا جھونکا ہی تھا یا پیچھے کوئی ’’ بُوٹ ‘‘ چلا آتا تھا ؟ جب سمجھ سے بالا صورتِ حال سے پالا پڑے تو ایسا ہی ہوتا ہے اور اس کیفیت کا ہم پہ غلبہ ابھی تک ہے کہ وہ   کھٹکھٹانے والی کیا ہے؟ وہ بوٹ کی چاپ ہے یا بہار کی باد !! اور یہ کیفیت صرف یہیں نہیں بلکہ عالمِ اسلام پر شرق سے غرب چھائی ہوئی ہے۔ مملکتِ خداداد کی بات کریں تو ایک طوفانِ بدتمیزی جو تھمنے میں نہیں آ رہا تھا تھم گیا ۔ اسے کچھ لگام دی گئی اور دی بھی انھوں نے ہی جنھوں نے اسے بے لگام کیا تھا ۔اب سمجھ میں نہیں آتی کہ انھوں نے پہلے ٹھیک کیا تھا یا اب غلط کر رہے ہیں اور آنے والے وقتوں میں وہ کیا کریں گے ۔ کس کو ایڑ لگا کر بے لگام چھوڑیں گے اور کس کی لگام کھینچیں گے :

کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح

۹ مئی کو جو ہنگام ہوااور جو دھول اڑائی گئی ، اس کا حساب شروع ہوا ۔ بہت خوشی ہوئی کہ تعمیرِ وطن کے نام پر جو تخریب کاری کی گئی تھی اس کی سزا تو کسی کو ملے گی لیکن یہ حساب بے حساب نکلا ۔ سانحے کے بہت سارے عملی اور دماغی مجرموں کو گرفتار کیا گیا لیکن سیاست سے یا کسی مخصوص گروہ سے اعلانِ لاتعلقی کو کافی سمجھا گیا ۔ اکسانے کے الزام کو محض افسانہ بنا دیا گیا۔ توبہ توبہ کر کے کانوں کو ہاتھ جس نے لگا دیے اس کے ہاتھوں میں پھول تھما کر رخصت کر دیا گیا تو خوش ہوتے دلوں پر دکھ کی ایک لہر طاری ہو گئی کہ ’’ وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں‘‘:

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

معاشی حوالے سے دیکھیں تو روایتی در آمدی منڈیوں کی جگہ نئی منڈیوں کی طرف آزادانہ رخ کیا گیا جس کے کچھ ثمرات ظاہر ہونا شروع ہوئے ۔روپے کی قیمت میں کچھ ٹھہراؤ آیا ، آٹے اور ڈیزل پٹرول کی قیمتوں میں کچھ کمی آئی ۔ لیکن دل میں وہ ڈر باقی ہے ۔ اس لیے کہ اپنی تو کچھ کمائی ہے نہیں، صرف یہ کہ ایک ساہوکار کو چھوڑ کر دوسرے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں، جانے وہ سہولت کار کب ساہوکاری شروع کر دے ۔ ٹھیک ہے جب تک وہ ٹھیک چلے گا ہم بھی ٹھیک چلیں گے۔ لیکن اس ٹھیک رویے کو ٹھیک طرح سے برتنے کے لیے ہمیں خود بھی ٹھیک ہونے کی ضرورت ہے کہ جس کا ہمیں احساس نہیں ہے۔

عالَم اسلام کے دوسرے حصوں سے بھی ہوا کے جھونکے آ رہے ہیں۔ یہ ٹھنڈے کب تک رہتے ہیں وقت ہی کچھ بتائے گا ۔ ترکی کے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات ہوئے ۔ مخالفین کی انتخابی اور پروپیگنڈہ مہم اتنی جاندار تھی کہ اس نے اسلام پسندوں کو ڈرا دیا تھا (بلکہ ان کا تراہ نکال دیا تھا) لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اردگان اور ان کے حامیوں کو فتح سے نوازا۔ الیکشن سے قبل ایران اور سعودیہ کے تعلقات میں کچھ بہتری آئی تو الیکشن کے بعد سعودیوں نے ترکی اور ترکی نے سعودیہ میں اچھی خاصی سرمایہ کاری کر لی ۔ کئی اچھی خبروں پر یہ نور علی نور ثابت ہوئی ۔ یہ کچھ چھوٹی چھوٹی تبدیلیا ں ہیں جو آنے والے اچھے دنوں کی نوید سنا رہی ہیں ۔ حالات خوش ہونے کے ہیں ، دل خوش ہوتابھی ہے لیکن خوش ہونا نہیں چاہتا بلکہ وہ اپنی خوشی پر قدرے ناخوش بھی ہے۔

ایک قرآنی اصول ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کو بندے سے نہیں پھیرتا جب تک وہ اپنے جیوں کی حالت کو نہ بدلیں ‘‘ بالعکس اس کا یہ ہے کہ عام طور پر جب تک انسان اپنی نفسی اور اخلاقی حالت کو نہ بدلے تو اللہ کی طرف سے اس کے خارجی حالات نہیں بدلتے ۔ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ مختارِ مطلق ہے، وہ اصولوں کا پابند نہیں بلکہ اصول اس کے فیصلوں کے پابند ہیں، وہ کوئی خصوصی حالات پیدا کر سکتا ہے اور خاص انعامات سے نواز سکتا ہے۔ اس خاص صورتِ حال کو ہمارے اعتبار سے معجزہ کہا جا سکتا ہے ۔ پس جب ہم اللہ کی رحمت پر نظر کرتے ہوئے حالات کی مثبت تبدیلی کو دیکھتے ہیں تو امید بندھ جاتی ہے لیکن جب اپنے حالات کو دیکھتے ہیں تو دل ڈر سا جاتا ہے:

اگلی محبتوں نے وہ نا مرادياں ديں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا

اب ایسا کچھ کیا جائے کہ خوش کن حالات میں خوش ہونا ہمیں خوش آ جائے۔ وہ جو دھڑکا لگا ہے وہ جاتا رہے اور دل کو اطمینان حاصل ہوجائے ۔ یعنی خارج کی مثبت تبدیلی کو دیکھتے ہوئے ہم اپنے اندر بھی مثبت تبدیلیاں کریں۔ مثبت تبدیلی میں سب سے اہم بلکہ اصل کام توبہ ہے کہ ہم اپنے دینی واخلاقی ، ذاتی و اجتماعی چھوٹے اور بڑے گناہوں سے توبہ کریں ۔ یہ درست کہ ’’ آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں ‘‘ لیکن گناہوں کو ہم نے بہت ہلکا لیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ گناہوں کو چھوٹا سمجھنا ’’ گناہوں سے بڑا گناہ ‘‘ ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :إِنَّ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ مَتَى يُؤْخَذْ بِهَا صَاحِبُهَا تُهْلِكْهُ»(مسند احمد)’’بے شک حقیر سمجھے جانے والے گناہوں کا کچھ پتا نہیں چلتا کہ کب بندے کو ہلاک کر دیں‘‘ ۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ فرماں بردار اور نافرمان میں فرق گناہ کا نہیں بلکہ حساسیت کا ہے ۔ فرماں بردار سے بھی کبھی گناہ ہو جاتا ہے لیکن وہ گناہ کو حقیر اور چھوٹا نہیں سمجھتا جب کہ اس کے برعکس نافرمان وہ ہے جو گناہ تو کرے لیکن پھر اسے چھوٹا اور حقیر سمجھے ۔ چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :«إِنَّ الْمُؤْمِنَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَأَنَّهُ فِي أَصْلِ جَبَلٍ يَخَافُ أَنْ يَقَعَ عَلَيْهِ، وَإِنَّ الْفَاجِرَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَذُبَابٍ وَقَعَ عَلَى أَنْفِهِ»(مسند احمد) ’’بے شک مومن اپنے گناہوں کو یوں دیکھتا ہے کہ اس پر پہاڑ معلق ہے کہ گویا اس پر گرنے ہی و الا ہے اور فاجر اپنے گناہوں کو یوں دیکھتا ہے کہ اس کے ناک پر مکھی تھی جو اس نے اڑا دی‘‘۔تو چاہیے یہ کہ اپنے گناہوں اور کمی کوتاہیوں سے صرفِ نظر کرنے کے بجائے ان پر توبہ واستغفار کیا جائے اور اپنی دینی و ملی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے ۔ بدلتے حالات میں خود کو بھی بدلیں اور اپنے نفسوں کی حالت کو بھی بدلنے کی کوشش کرتے رہیں تاکہ رب کی رحمت ہماری طرف متوجہ ہو جائے۔

لرننگ پورٹل