مولانا حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر ماہنامہ مفاہیم، کراچی
قسط نمبر ۵
۸:با یزید دوم ۱۴۵۰۔۱۵۱۲ء
سلطان محمد فاتح جنھیں زہردے کر شہید کر دیا گیا تھا ، ان کی وفات کی خبر نے قسطنطنیہ میں افراتفری پھیلا دی اور ینی چری کے دستے شہر میں لوٹ مار کرنے لگے۔ سلطان محمد فاتح کے دوبیٹے تھے: شہزادہ بایزید اورشہزادہ جم، اور دونوں ہی مختلف علاقوں میں ذمے داریاں انجام دے رہے تھے۔ جو ں ہی بڑے بیٹے بایزیدکو سلطان کی وفات کی اطلاع ملی، اس نے دارالخلافہ پہنچ کر حاکمیت کا اعلان کر دیا۔ فوج کے اکثر افسران بایزید کے حامی تھے چنانچہ سب نے سلطان کی اطاعت قبول کرلی، لیکن بایزیدکے بھائی اور سلطان فاتح کے چھوٹے بیٹے شہزازدہ جم نے بایزید کو سلطان ماننے سے انکار کردیا اور تخت سے دست برداری کا مطالبہ کیا۔ بایزید تعلیم وتعلم سے زیادہ شغف رکھتاتھا اور جم فنِ حرب میں ماہر تھا، بایزیدنے جم کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔ اس پر شہزادہ جم نے دوسرا مطالبہ کیا کہ سلطنت کو دوحصوں میں تقسیم کردیاجائے اور دونوں کی حاکمیت الگ الگ خطوں پر تسلیم کی جائے۔ ظاہر ہے کہ بایزید کے لیے یہ مطالبہ ماننا نا ممکن تھا، اور سلطنت ٹکڑے کردینا گویا اپنے آبا واجداد کی صدیوں کی محنت پر پانی پھیر دینے کے مترادف تھا۔ جب یہ مطالبہ بھی رد ہوا تو شہزادہ جم نے کچھ لشکر جمع کیا اور بایزید سے جنگ کا اعلان کیا، لیکن جلد ہی شکست کھا کر فرار ہوا اور مصر میں پناہ لی۔ کچھ عرصے بعد دوبارہ عثمانی مقبوضات میں حملے کی غرض سے داخل ہوا لیکن دوبارہ شکست کھائی۔ اس مرتبہ وہ مدد کے لیے روڈس جا پہنچا تاکہ وہاں سے مدد لے کر سہ بارہ حملہ کرے اور یورپی خطے پر مشتمل عثمانی مقبوضات کو نقصان پہنچائے۔ روڈس کا حاکم ڈی آبوسن انتہائی مکار اور غدار آدمی تھا۔ اس نے ایک طرف تو جم کو مدد کی یقین دہانی کرائی اور دوسری طرف اپنی مکاری کو کام میں لاتے ہوئے بایزید سے معاہدہ کر لیا کہ وہ سالانہ بھاری رقم کے عوض شہزادہ جم کو نظر بند رکھے گا، بد نصیب شہزادہ جم طویل عرصہ اسی طرح قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتا رہا۔ کبھی روڈس کبھی فرانس اور کبھی روم میں محصور رہا اور مختلف بادشاہ اس کو اپنی تحویل میں رکھ کر سلطنتِ عثمانیہ سے خطیر رقم وصول کرتے رہے۔ ایک موقعے پر تو روڈس کے حاکم نے قاہر ہ میں مقیم شہزادہ جم کی والدہ سے بھی اس وعدے پر بھاری رقم وصول کی کہ وہ شہزادے کو بحفاظت قاہرہ پہنچادے گا لیکن یہ بھی دھوکا ثابت ہوا۔ بہر حال، طویل عرصے تک پوپ اور مختلف بادشاہ شہزادہ جم کو ذلت ورسوائی کے ساتھ ادھر ادھر دوڑاتے رہے (اور غیر وں سے اسی کی توقع تھی، ان مکاروں سے بھلائی کی امید سلطان فاتح کے بیٹے کو کیونکر ہوئی، تعجب ہے) لیکن جب پوپ اسکندر بورجیا نے شہزادے کو فرانسیسی سپہ سالار سے لے کر فرانس منتقل کیا تو بورجیا نے شہزاد ے کو قتل کروادیا۔ 1495ء میں عثمانی تخت کا یہ لاچار دعوے دار عین جوانی میں قیدِ حیات و قیدِ افرنگ دونوں سے رہا ہو گیا۔ شہزادے کے قتل سے سلطان بایزید کی حکومت کو قدرے استحکام نصیب ہوا۔
سلطان بایزید دوم حصولِ علم میں غیر معمولی دلچسپی لیتے تھے اور کبار علما کی مجلس میں شریک ہوتے تھے۔ زہد وتقوی اور کثرتِ عبادت کے سبب لوگوں نے آپ کو ’’ولی‘‘ اور ’’صوفی‘‘ کا لقب دیا۔ سلطان بایزید دوم بہت عمدہ شاعر تھے اور ’’عدؔلی‘‘ تخلص کرتے تھے۔ سات سال کی عمر میں اما سیا کے امیر مقرر ہوئے۔ سلطنت کا ابتدائی زمانہ شہزادہ جم سے مقابلے میں گزرا، بعد میں کئی جنگیں ہوئیں لیکن کوئی قابلِ ذکر معرکہ نہیں ہوا بلکہ اوٹرانٹو، جسے سلطان محمد فاتح نے فتح کیا تھا، عدم استحکام کے باعث بایزید کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ ہنگری سے بھی صلح کر لی گئی۔ البتہ وینس میں عثمانی لشکر کو کامیابی نصیب ہوئی۔ اگرچہ وینس، آسٹریا، اسپین اور پوپ کے متحدہ بحری بیڑے نے عثمانی بحری لشکر پرزبردست حملہ کیا لیکن عثمانی لشکر نے تعداد کی کمی کے باوجود انھیں شکست دی۔ اسپین میں اہلِ اسلام پر حالات تنگ کر دیے گئے تھےاور غرناطہ میں عیسائی مظالم سے بے حال مظلوم مسلمان عالمِ اسلام میں ہر طرف خطوط بھیج چکے تھے لیکن کہیں سے انھیں مدد نہیں مل سکی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت پورا عالمِ اسلام زوال سے دو چار تھا۔ عثمانی بحری بیڑے نے اس موقعے پر اسپین کے مختلف ساحلوں پر در اندازی کی اور متعدد حملے کیے لیکن خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔
مصری اور عثمانی افواج بھی طویل عرصے تک معرکہ آرائی میں مشغول رہیں اور اس لڑائی کا کوئی انجام نظر نہ آتا تھا کہ اچانک سلطان بایزید دوم نے صلح کا اعلان کیا اور بہت سے قلعے حاکمِ مصر کو دے دیے۔ یوں کچھ عرصے کے لیے یہ جنگ ملتوی ہو گئی۔ سلطان بایزید کی عمر بہت زیادہ ہوگئی تھی اور ضعف اور کثرتِ حِلم کے سبب سلطنت کے بہت سے امور تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔ لہذا سلطان نے ارادہ کیا کہ اپنے درمیانے بیٹے شہزادہ احمد کو تخت سونپ دے اور خود گوشہ نشین ہو جائے، لیکن چھوٹے بیٹے شہزادہ سلیم کو یہ بات گوارہ نہ تھی۔ چنانچہ اس نے لشکر کشی کرتے ہوئے قصر ِخلافت کا گھیراؤ کر لیا اور افواج نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ سلطان بایزیدنے سپاہیوں کو جنگ سے روک دیا اور یہ پیغام بھیجا کہ تم کیا چاہتے ہو؟جواب ملا کہ سلطان ضعیف العمر اور کمزور ہے، ہم سلطان کی برطرفی چاہتے ہیں۔ بایزید نے یہ مطالبہ منظور کیا اور سلیم کی حاکمیت کا اعلان کیا۔ اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی ۱۵۱۲ء میں بایزید ثانی کا انتقال ہوگیا۔ بایزید نے بھی اپنے آبا کی پیروی میں مساجد، مدارس، مہمان خانے اور شفاخانے تعمیر کیے، بایزید کو اپنی بنائی ہوئی مسجد بایزید کے احاطے میں دفن کیا گیا۔
۹:یاووزسلیم۱۴۷۰۔۱۵۲۰ء
سلطان یاووز سلیم خان جنھیں سلیم اول بھی کہا جاتا ہے عثمانی سلاطین میں نمایاں مقام رکھتے ہیں، کم سنی میں اپنے دادا سلطان محمد فاتح کی تربیت میں رہے اور گھر میں تفسیر، حدیث اور دیگر علوم وفنون کی تحصیل کی۔ بہت جلد عربی وفارسی روانی سے بولنے لگے۔ دادا کی وفات پر بایزید دوم سلطان بنے تو سلیم خان کو طرابزون کا والی مقرر کیا گیا، سلیم خان کو جب محسوس ہوا کہ والد بایزید دوم کی گرفت سلطنت پر کمزور ہو رہی ہے اور کوئی نااہل اس موقعے سے فائد ہ اٹھا سکتا ہے تو لشکر کے ساتھ قسطنطنیہ پہنچے اور زبردستی اقتدار حاصل کیا۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً بیالیس سال تھی۔ ۱۵۱۲ء میں سلیم خان کی تخت نشینی کا اعلان کیا گیا۔
سلطان سلیم خان اپنی عادات میں دیگر سلاطین سے بہت منفرد تھے۔ دن کا اکثر حصہ مطالعے میں گزارتے یا علما کی صحبت میں۔ مورخین نے لکھا ہے کہ سلطان سلیم اپنے دادا کی تربیت کے سبب؛ مشہور فاتحین مثلاً سکندرِ اعظم اور سیزر وغیرہ کے حالات دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ بہت کم وقت اپنے حرم میں گزارتے۔ رات کے وقت بھی تاریخ اور فارسی شاعری پڑھتے۔ فارسی میں کچھ نظمیں بھی لکھیں، لیکن اس علم دوستی کے باوجود جنگی امور میں نہایت چست اور محنت کش تھے اور طبیعت میں غصہ بہت زیادہ تھا۔ سلطان سلیم کی سخت مزاجی سے ہر شخص ڈرتا تھا اور اسی سختی اور محنت کشی کے سبب انھیں ’’یاووز‘‘ کا لقب ملا جس کا مطلب ہے ’’پر عزم اور شدت مزاج‘‘۔ نہیں معلوم یہ سختی انھیں فطرت میں ملی تھی یا والد بایزید کی انتہائی نرمی اور بردباری سے عمائدین سلطنت نے جو ناجائز فائدے اٹھائے اس کا رد عمل تھا۔ یاووز سلیم نے محض آٹھ سال حکومت کی لیکن ان آٹھ سالوں میں تقریباً سات وزیر اعظم اور متعدد سپہ سالار وعہدے دار سلیم کے غضب کا شکار ہوکر قتل ہوئے۔ لیکن یہی سلیم جو سلطنت کے عہدے داروں کے لیے انتہائی سخت تھا، عوام میں بے انتہا مقبول تھا، کیونکہ وزیر اور دیگر عہدے دار ہمیشہ سلیم اول کے خوف سے عدل وانصاف پر قائم رہتے تھے۔ سلیم نے محض آٹھ سال میں وہ کارہاے نمایاں انجام دیے جو بہت سے سلاطین کے دہائیوں کے عہد پر بھاری ہیں۔
سلیم خان نے تخت سنبھالا تو اسے اپنے بھائیوں سے بغاوت کا خطرہ ہوا۔ سلیم نے انھیں صلح پر آمادہ کیا اور جان بخشی کی لیکن وہ جنگ کے لیے تیار ہو گئے اور یکے بعد دیگرے دونوں بھائی قتل ہوئے۔ سلیم خان انتہائی متشدد سنی تھا اور اہلِ تشیع سے شدید نفرت کرتا تھا۔ چنانچہ پہلا ہدف سلطان نے ایران کو بنا یا۔ ایران پر اس وقت شاہ اسماعیل صفوی حاکم تھا جو انتہائی غالی رافضی تھا۔ اس کے مبلغین اناطولیہ میں شیعیت کی تبلیغ کرتے پھرتے تھے۔ سلیم اول نے اپنے خاص جاسوسوں کے ذریعے ان رافضیوں کو شمار کروایا اور ایک منظم منصوبے کے تحت اسلام دشمن اور ریاست مخالف ہزاروں رافضیوں کو ایک ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا۔ در اصل ان رافضیوں کا ایک طبقہ شاہ اسماعیل کی عقیدت میں بے انتہا آگے بڑھ گیا تھا اور اسلام کی تعلیمات کی صریح توہین کرتا تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف زہر اگلنا ان کا مشغلہ تھا۔ بلا شبہہ یہ یا ووز سلیم کا ایک بڑا کارنامہ تھا، اس واقعے نے شاہ اسماعیل صفوی کے تن بدن میں آگ لگادی کیونکہ اس کی برسوں کی محنت لمحوں میں ختم ہوگئی تھی۔ اس نے سازشوں میں تیزی دکھانی شروع کر دی۔ عثمانیوں کے خلاف ایک لشکر تیار کیا اور والیٔ مصر (جو کہ مملوک خاندان سے تھا) کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔ والیٔ مصر کی ایک جنگ سلیم اول کے والد بایزید دوم سے ہوچکی تھی اور عثمانیوں سے اس کی مخاصمت پر انی تھی، چنانچہ وہ اِس پر آمادہ ہوا کہ عثمانی لشکر کو کمک سے محروم رکھے گا۔ شاہ اسماعیل صفوی نے ایک کام اور یہ کیا کہ یاووز سلیم کے بھتیجے یعنی شہزادہ احمد کے بیتے مراد کو اپنے پاس پناہ دی اور اسے تخت کے دعوے دار کے طور پر تیارکرنے لگا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اسباب نے ایران کے ساتھ جنگ کو ناگزیر بنا دیا۔ یاووز سلیم اپنے لشکر جرار اور توپ خانے کو لے کر دشوار گزار پہاڑی راستہ عبور کرتے ہوئے محض ایک سو چھبیس دنوں میں ہزار میل دور ایران میں داخل ہوگیا، وادیٔ چالدیران میں دونوں افواج کا مقابلہ ہو ا۔ اگرچہ ایرانی فوج ترکوں کے مقابلے میں بالکل تازہ دم تھی لیکن عثمانی توپ خانے کے آگے ان کی پیش نہ گئی اور عبرت ناک شکست سے دو چار ہوئی۔ شاہ اسماعیل زخمی ہوکر بھاگ نکلا اور سلطان یاووز سلیم ۴ ستمبر ۱۵۱۴ء کو فاتحانہ شیراز میں داخل ہوئے۔ شاہی خزانے کے علاوہ بے شمار صناع اور ماہر ین کو قسطنطنیہ منتقل کیا، لیکن ایر ان کو سلطنتِ عثمانیہ میں ضم نہیں کیا۔ مغربی مورخین اس کی وجہ شیعیت سے شدید نفرت اور بغض قرار دیتے ہیں۔ بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ یاووز سلیم نے بارہا اہلِ تشیع سے اپنی نفرت کا اظہار کیا، حتی کہ ایران سے تجارت پر مکمل پابندی لگادی اور چند تاجروں نے ایرانی مصنوعات کی خرید وفروخت کی تو انھیں سزاے موت سنادی۔ مفتیٔ اعظم نے بمشکل یہ سزا منسوخ کروائی۔ اسی سفر میں یاووز سلیم نے دیار بکر اور ماردین جیسے اہم خطے فتح کیے اور کردستان کو سلطنت میں شامل کیا۔
والیٔ مصر وشام نے ایران کی حمایت میں عثمانیوں کا کافی نقصان کیا تھا، چنانچہ یاووز سلیم نے اگلا ہدف مصر وشام کو مقرر کیا۔ حجازِ مقدس اور فلسطین بھی والیٔ مصر وشام مملوک سلطان قانصوہ غوری کے زیر نگیں تھے چنانچہ مصر پر حملے سے قبل یاووز سلیم نے علما اور وزرا کی مجلس منعقد کی اور ان سے مشورہ طلب کیا۔ مجلسِ مشاوت نے بالاتفاق مصر پر لشکر کشی کی اجازت دی اور مفتیٔ اعظم نے حرمین شریفین کی خدمت کا حق دار عثمانی سلطان کو قرار دیا۔ چنانچہ سلطان نے قسطنطنیہ سے فوج کو روانہ کیا اور شام میں داخل ہوکر مملوک فوج سے مقابلہ کیا۔ جلد ہی مملوک فوج کو شکست ہوئی، قانصوہ غوری مارا گیا۔ اس کے بعد سلطان آگے بڑھے تو حلب کے باشندے اپنے علما کی سر پر ستی میں یاووز سلیم کے استقبال کے لیے آئے۔ حلب میں سلطان کے نام کا خطبہ پڑھا گیا اور پہلی مرتبہ سلطان کے نام کے ساتھ خادم الحرمین الشریفین کا لقب استعمال کیا گیا۔ الغرض دمشق، حلب، حمص اور فلسطین ہر جگہ سلطان کا شاندار اسقبال ہوا۔ سلطان یاووز سلیم نے بھی ہر جگہ انعام واکرام کی روش اپنائی اور بے پناہ سخاوت کا مظاہرہ کیا۔ فقرا کے لیے لنگر خانے تعمیرکیے۔ اس کے بعد سلطان کا لشکر قاہرہ کی طرف بڑھا۔ پہلا معرکہ غزہ میں ہوا جس میں مملوکوں نے شکست کھائی، اور دوسرا بڑا معرکہ قاہرہ میں ہوا۔ مملوک سردار بندوقوں اور توپوں سے لڑنے کو بزدلی اور خلافِ جرات سمجھتے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ یہ نبوی طریقِ جنگ سے موافقت نہیں رکھتا۔ نیز ان کے پاس جو توپ خانہ تھا وہ بہت بھاری تھا اور اسے منتقل کرنا آسان نہ تھا۔ عثمانیوں نے اپنے توپ خانے کا بھرپور استعمال کیا اور مملوکوں کو شہر تک محدود کر دیا، لیکن مملوک سپاہی بھی شجاعت کی مثال بن گئے۔ انھوں نے ہر موڑ کو مورچا اور ہر گلی کو قلعہ بنا دیا۔ عثمانی سپاہی جو کہ فتح کے نہایت قریب تھے اور مخالفین کو شہر میں محصور کر چکے تھے، یوں لگتا تھا کہ انھیں اچانک کسی ناقابلِ تسخیر فصیل کا سامنا تھا اور وہ فصیل مملوک سپاہیوں کے سینوں سے کھینچی گئی تھی۔ بہت پس و پیش کے بعد بھی صرف ایک دستہ شہر میں داخل ہو سکا جسے مملوک سپاہیوں نے قتل کردیا۔ اس موقعے پر سلطان یاووز سلیم نے اعلان کیا کہ اگر ہتھیار ڈال دیے جائیں تو سب کو امان ہوگی۔ اس اعلان کو مملوک سرداروں نے غنیمت جانا اور سلطان کے وعدے کے بھروسے پر اپنے آٹھ سو ممتاز سپاہی یاووز سلیم کے پاس بھیج دیے، لیکن یاووز سلیم نے وعدے کا پاس نہیں کیا اور انھیں قتل کر دیا۔ پھر قاہرہ میں داخل ہوکر قتلِ ِعام کا حکم دیا اور تقریبا پچاس ہزار افراد قتل کیے گئے۔ مسلمانوں کا یہ قتلِ عام سلیم اول کے زریں عہد پر ایک بدنما داغ ہے جو مٹائے نہیں مٹتا۔ ایک مشہور مملوک سردار قرط بے اس قتلِ عام کے دوران قاہرہ میں روپوش ہو گیا تھا، سلطان نے اسے امان دینے کا اعلان کیا جس پر وہ باہر نکل آیا لیکن اسے بھی سلطان نے قتل کر دیا۔ اپریل ۱۵۱۷ء میں مملوک سردار طومان بے بھی قتل ہوگیا جس کے بعد مملوکوں کی حکومت کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔
مصر کی فتح کے بعد سلطان نے مصر وشام کا نظام از سرِ نو ترتیب دیا۔ مکہ کے گورنر کو نذرانہ ارسال کیا اور ایک خط لکھا جس میں ان سے عقیدت کا اظہار کیا۔ انھیں بھاری رقم ہدیہ کی اور اہلِ مکہ ومدینہ کے لیے تحائف بھیجے۔ شریفِ مکہ نے بھی جواباً ایسا ہی خط ارسال کیا اور حجاز میں سلطان یاووز سلیم کی بیعت لی اور اہلِ حجاز سے عثمانی سلطان کی اطاعت کا اقرار لیا۔ عباسی خلیفہ نے بھی یاووز سلیم کو خلیفۃ المسلمین تسلیم کیا اور بہت سے تحائف ارسال کیے جن میں نبیٔ کریمﷺ کی تلوار مبارک بھی شامل تھی۔ ستمبر ۱۵۲۰ء میں سلطان یاووز سلیم اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے لیکن آٹھ سال کے عرصے میں سلطنت میں توسیع کے ساتھ ساتھ ایسی اصلاحات کر گئے جو آئندہ سالوں میں سلطنت کے استحکام کا باعث بنیں۔ سلطان کو استنبول میں سلیمیہ مسجد کے احاطے میں دفن کیا گیا۔ یہ مسجد سلطان سلیم ہی کے حکم سے بنائی گئی تھی۔ ایک اہم بات جو عموماً مورخین نے سلطان سلیم کے حالات میں ذکر نہیں کی وہ معمار سنان کی خدمات ہیں۔ معمارسنان متوفی ۱۵۸۸ءعثمانی سلاطین کا سرکاری معمار اور عثمانی طرزِ تعمیر کا ماہر تھا۔ معمار سنان نے بہت طویل عمر پائی۔ کہا جاتا ہے کہ اولاً معمار سنان مذہباً عیسائی تھا اور اناطولیہ کے ایک عیسائی خاندان کا فرد تھا۔عثمانی افواج میں ملازمت کی اور اسلام قبول کیا۔سلطان سلیم کے لشکر میں نمایاں کارکردگی پر پیادہ دستے کی قیادت حاصل کی اور فتحِ قاہرہ میں حصہ لیا۔ توپ خانے کا انتظام سنبھالا اور ایران کے خلاف جنگ میں اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا۔متعدد مساجد تعمیر کیں۔ عظیم معمارسنان نے پہلی مسجد ’’شہزادہ مسجد‘‘ تعمیر کی۔ معمار سنان کی تعمیر کردہ دیگر مساجد میں سلیمیہ مسجد، سلیمانیہ مسجد، مہرماہ مسجد اسکودار اور مہرماہ مسجد ادرنہ کاپے شامل ہیں۔عثمانی عہد کی بہت سی تعمیراتی یادگاریں معمار سنان کا شاہ کار ہیں یا معمار سنان کے خاص طرزِ تعمیر کا عکس ہیں۔