گفتگو: ڈاکٹر رشید ارشد
ٹرانسکرپشن: عبد اللہ جان
ٹیکنالوجی کے روایتی اور جدید تصور میں یہ فرق کیسے آیااور وہ وجہ کیا ہے کہ ٹیکنالوجی کے اندر دو ڈھائی سو سال میں یہ غیر معمولی تبدیلیا ں آئیں، یہ اس سے پہلے کیوں نہیں آ ئیں؟ ماڈرن ٹیکنالوجی کی تاریخ اتنی لمبی نہیں ہے، آج سے تین ہزار سال پہلے کے آدمی اور آ ج سے تین سو سال پہلے کے آدمی میں کوئی اتنا زیادہ فرق نہیں تھا۔ ڈارون کی تھیوری کہ بندر سے بتدریج انسان بن گیا، پھر اس تھیوری کی بنیاد پر یہ کہنا کہ شروع میں انسان بالکل وحشی تھا، غاروں میں رہتا تھا اور پتے کھاتا تھا، اس کو میں نہیں مانتا۔ اس لیے کہ میں اس تھیوری کو قرآنِ مجید کی تعلیمات کی روشنی میں تصورِ انسان کی بنیاد پر مان ہی نہیں سکتا۔ قرآنِ مجید کی تعلیمات کے مطابق پہلا انسان پوری طرح مہذب تھا اور یہ صرف انسان نہیں تھا بلکہ انسانِ کامل تھا، قرآن کی تعلیمات کے مطابق ہر پیغمبر انسانِ کامل ہوتا ہے اور سب سے پہلے انسان حضرتِ آدم پیغمبر تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کہنا کہ وہ بالکل جنگلیوں کی طرح زندگی بسر کر رہے تھے درست نہیں ہے۔ ہم فلسفہ پڑھاتے ہوئے کبھی سوچتے ہی نہیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ میں فلسفے کا ایک طالب علم ہوں اور فلسفہ پڑھاتا بھی ہوں،یہ بتایا جاتا ہے کہ فلسفے کا آغاز Thales سے ہوااور Ionian سے ہوا، لوگ جنگلی تھے، پھر انھوں نے سوچنا شروع کیا وغیرہ وغیرہ۔ مذہب میں تو اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔فلسفے کے بنیادی سوالات ’’میں کہاں سے آیا ہوں، کون ہوں، مجھے کدھر جانا ہے، میری حقیقت کیا ہے، کائنات کیا ہے، اس کا مبدا کیا ہے، اس کا معاد کیا ہے، علم کسے کہتے ہیں، خیر اور شر کسے کہتے ہیں؟‘‘ یہ سارے وجودی سوال ہیں، جس طرح یہ سارے سوالات فلسفے کے ہیں اسی طرح یہ سارے سوالات مذہب کے بھی ہیں۔ اور مذہب ان سارے سوالات کا جواب دے چکا ہے، مذہب کی رو سے پہلا آدمی پوری طرح ’’ارتقا شدہ‘‘ تھا اور وہ حضرت آدم تھے جو پیغمبر تھے اور وہ لوگوں کو اللہ کی رہنمائی کی ہدایت دیتے تھے۔ تو یہاں ڈارون کی تھیوری کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ آپ تو جانتے ہیں نا کہ مذہبی تاریخ کا جو انسانی تصور ہے، اس میں انسانیت کی کل عمر کوئی چھے ہزار برس ہے۔ جدید سائنس ہمیں کائنات کے بارے میں اربوں کھربوں سال کی بات بتاتی ہے، لیکن انسانوں کے بارے میں جس کو وہ Homo sapien کہتی ہے، اس کے بارے میں بھی یہ کہتی ہے کہ اس کو لاکھوں سال ہوگئے۔ تو یہ سوال کیوں نہیں اٹھتا کہ لاکھوں سال لوگوں نے ایک خاص ڈھنگ سے گزارے، تو کیا وجہ ہے کہ دو سو ڈھائی سوسال پہلے ایسی تبدیلیاں آئیں کہ جس میں ٹیکنالوجی نے ایک غیر معمولی ترقی کی؟ بہر حال، اصل بات یہ ہےکہ بنیادی تبدیلی تصورِ حقیقت، تصورِ انسان اور تصورِ کائنات میں آئی۔ اور یہی انسان کے تین بڑے سوالات تھے، کہ حقیقت / خدا کیا ہے؟، انسان کیا ہے؟، کائنات کیا ہے؟ اسی سے اس کا ورلڈ ویو متعین ہوتا ہے۔ تو پہلے ان سوالات کے بارے میں جو تصورات تھے وہ روایتی تھے: مثلاً خدا کیا ہے؟ خدا اس کائنات کا خالق ہے۔ حقیقت کیا ہے؟ حقیقت اصل میں روحانی ہوتی ہے۔ آپ غور کریں کہ فلسفے کی بنیادی تعریف شروع سے یہ چلتی آرہی ہے: love of wisdom ، اور وِزڈم کا ایک مطلب تھاصورت سے گزر کر حقیقت تک پہنچ جانا، اور دوسرا مطلب یہ تھا کہ کثرت سے گزر کر وحدت تک پہنچ جانا۔ حکمت اصل میں اسے کہتے تھے کہ انسان دنیا میں رہتا ہے، دنیا عالمِ کثرت ہے، یعنی عالمِ صورت ہے، لیکن اس سے ماورا ایک اور عالم ہے جو عالمِ حقیقت ہے۔ اس لیے آپ کبھی غور کیجیے کہ جو مذہب اور فلسفے کے بڑے بڑے سوالات تھے یہ اصل میں انسان کے بڑے سوالات تھے، انسانوں نے ہمیشہ سے تین چیزوں کو کھوجا ہے اور انھیں حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلی چیز: اس نے کوشش کی ہے وحدت تک پہنچنے کی اور یہ انسان کا ایک پُرانا آدرش ہے، دوسرا، انسان نے کوشش کی ہے ابدیت کے حصول کی۔ اور تیسرا، انسان نے کوشش کی ہے ماورائیت کی یعنی انسان اپنے اس وجود سے اوپر اُٹھ سکے،ٹرانسینڈ کر سکے۔ آپ غور کریں آج سے تین چار سو سال پہلے تک ان تینوں چیزوں کو لوگوں نے جس Locale میں locate کیا ہے وہ یہ دنیا نہیں ہے اس دنیا سے ماورا ایک عالم ہے۔ فلسفے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی پیدائش یونان اور ایشیاے کوچک میں ہوئی ہے، اس سے پہلے خرافات اور افسانوں کے تصورات کے تحت لوگ زندگی گزارتے تھے۔ اس دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کا کُھرا دیوتاؤں کے عالم میں ڈھونڈتے تھے کہ اس عالم میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے مؤثرات ہم پر ہوتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ اس دنیا کی جو واحد حقیقت ہے وہ اس دنیا سے باہر پائی جاتی ہے۔ جب فلسفہ وجود میں آیا تو سب سے پہلے فلسفی نے کہا کہ کائنات سے باہر نہیں، ہمیں اس دنیا کہ اندر ہی اس کا مادّہ اور وحدت تلاش کرنی ہے۔ جو پہلا فلسفی کہلاتا ہے Thales، اس نے کہا کہ وہ مادّہ پانی ہے۔ جبکہ Heraclitus نے کہا کہ وہ آگ ہے، Pythagoras نے کہا کہ وہ نمبر ہے۔ اس کے علاوہ کسی نے کہا کہ ہواہے، کسی نے کہا وہ Ether ہے، کسی نے کہا کہ وہ ایک ایسا میٹریل ہے جو نا قابل تقسیم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وحدت وہ بھی تلاش کر رہے تھے، اب جدید آدمی بھی اسے اس دنیا میں تلاش کر رہا ہے۔ جس طرح پہلے وہ فلسفے کے ذریعے سِنگولیرٹی کی تلاش میں تھے، اب وہ چاہ رہے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے ذریعے وہ اس تک پہنچ جائیں۔ دوسری انسان کی بہت بڑی آرزو ہے خلود حاصل کرنا اور قرآنِ مجید میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے کہ حضر ت آدم علیہ السلام جب جنت میں تھے تو انھیں بھی ابلیس نے اس راستے سے بہکایا، ابلیس نے ان سے کہا: ﴿قَالَ يَـا أدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَىٰ شَجَرَةِ لخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلَىٰ﴾ ’’ کہنے لگا: اے آدم! کیا میں تمھیں ایک ایسا درخت بتاؤں جس سے جاودانی زندگی اور وہ بادشاہی حاصل ہوجاتی ہے جو کبھی پرانی نہیں پڑتی ؟‘‘ ۔ اس کا مطلب ہے کہ خلود، ابدیت انسان چاہتا ہے، لیکن پہلے انسان یہ خیال کرتا تھا یہ خلود اس دنیا میں حاصل نہیں ہو سکتی ، یہ اس دنیا سے ماورا ایک اور عالم میں ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب میں جنت اور جہنم کا جو تصور ہے، اس میں بھی خلود ہے، کیونکہ یہ انسان کی بڑی آرزو ہے۔
اور انسان کی تیسری آرزو اور خواہش ماورائیت یعنی اپنے وجود سے اوپر اٹھ جانا ہے، انسان کی خواہش رہی ہے کہ اپنے اس مادی وجود کو ٹرانسینڈ کر جائے۔ اس کے لیے بھی ہمیشہ مذہب کی طرف دیکھا گیا، یہاں بھی ایک ٹرانسنڈنس تو وہ ہے جو دنیا کے بعد جنت میں حاصل ہوگی کہ انسان اپنی جبلتوں اور بہت سی چیزوں کو ٹرانسینڈ کر جائےگا۔ اور ایک ٹرانسنڈنس دنیا میں لوگوں حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، اس کے لیے انسان نے جس ڈسپلن کی طرف دیکھا اس کو آ پ روحانیات یا تصوف کہہ سکتے ہیں، اس کے ذریعے بھی انسان اپنے آپ کو زمان ومکاں سے ماورا کر دیتا ہے:
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زنّاری |
نہ ہے زماں، نہ مکاں لا الہ الا اللہ |
اور ایک شاعر نے کہا:
عقل گوید شش جہت حد است و بیروں راہ نیست |
عشق گوید ہست راہ و رفتہ ام من بارہا |
’’عقل نے کہا کہ شش جہت حد ہے اور اس سے باہر کوئی راستہ نہیں ہے، جبکہ عشق نے کہا کہ راستہ ہے اور میں کئی بار اس راستے سے گزرا ہوں‘‘ ۔ یعنی عقل نے کہا کہ یہ جو شش جہات ہیں (آگے پیچھے، اوپر نیچے، دائیں بائیں) بس یہ انسان کی حدود ہیں اس سے باہر جانے کی کوئی راہ نہیں ہے۔ جبکہ عشق نے کہا کہ راہ ہے اور میں کئی مرتبہ اس راستے سے جا بھی چکا ہوں، یعنی ان جہات سے باہر تک میری رسائی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ وہ ایک روحانی سفر ہوتا ہے، آپ کو معلوم ہے نا کہ ہمارے صوفیا کے ہاں سیر ِافلاک بھی ہے، اسی طرح سیر الی اللہ اور اس کے مراحل ہیں۔ لیکن انھوں نے کبھی بھی اس ٹرانسنڈنس کے لیے مادے یا دنیا کی طرف نہیں دیکھا۔ لیکن اب جدید دور میں وحدت کو بھی اور خلود کو بھی اور ماورائیت کو بھی کہاں کھوجا اور دیکھا جا رہا ہے، انھیں ٹیکنالوجی میں دیکھا جا رہا ہے۔ ایک صاحب بہت مشہور ہیں ٹیکنالوجسٹ بھی ہیں اور گوگل وغیرہ میں بہت اعلیٰ عہدوں پر رہے ہیں، ان کا نام ہے Raymond Kurzweil ، ان کی کچھ کتابوں کے نام آپ کے سامنے لینا چاہتا ہوں یہ بتانے کے لیے کہ یہ جو ماڈرن ٹیکنالوجی ہے اس کے آدرش کیا ہیں۔ ان صاحب کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے: The Age of Intelligent Machines، یعنی جو انسان کی انٹیلی جنس کا تصور تھا، ان کا کہنا ہے کہ وہ ہم مشین کے اندر پیدا کر دیں گے۔ ایک اورکتاب ہے: The Age of spiritual Machines ، وہ جو ایک خیال تھا کہ انسان کا ایک بڑا امتیاز ہے کہ اس کے اندر ایک روح ہے ایک ڈیوائن اسپارک ہے، یہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ مشین کے اندر بھی ہم یہ وصف پیدا کر دیں گے۔ پھر ایک کتا ب کا نام ہے: Fantastic Voyage: Live Long Enough to Live Forever، ۲۰۰۴ ء میں یہ کتاب آئی، اس میں انھوں نے ایک تھیوری پیش کی تھی کہ اگر آپ ۲۰۴۵ء تک اپنے آپ کو زندہ رکھ سکے تو اس کے بعد آپ امَر ہو جائیں گے، آپ کو موت نہیں آئے گی۔ اور دو طرح کے ٹیکنالوجیز پر کام ہو رہا ہے: ایک Bio Tech ہے اور ایک InfoTech ہے۔ Bio Tech کے ذریعے آپ کی جو باڈی ہے اس کو ہم Stem Cell کے ذریعے کلون کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ اور پھر جو سب سے بڑ ا اور پرانا مسئلہ ہے، جو فلسفے کا بھی سب سے بڑا اور پرانا مسئلہ ہے، جسے Problem of Consciousness کہا جاتا ہے یعنی انسان کی identity کیا ہے، تو کہا کہ آپ کا جو بھی شعور ہے وہ ہم InfoTech کے ذریعے ایک مشین میں اپلوڈ کر دیں گے۔ اور جب آپ کا کلون تیار ہوجائے گا تو وہ ڈیٹا پھر وہاں سے ڈاؤنلوڈ کر دیں گےا ور آپ کو ایک وجود دیا جائے گا جو ہمیشہ رہے گا کبھی ختم نہیں ہوگا۔ پھر ایک کتاب کا نام ہے: Transcend: Nine Steps to Living Well Forever، ٹرانسنڈ کرنا، جسم سے اوپر اٹھ جانا یا دنیا سے اوپر اٹھ جانا۔ پھر اس کی ایک اور کتاب ہے جس کا نام ہے: The Singularity is Nearاب آپ دیکھ لیجیے جو تین باتیں میں نے بتائی تھیں ایک ہی آدمی کی کتابوں کے ٹائٹلز میں وہ تصورات موجود ہیں۔ جدید آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے اپنے آپ کو Maximize کرتے چلے جانا۔ اور آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہر طرح کی رکاوٹوں کو دور کرنا ، Freedomکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ Modern Freedom؛ content lessچیز ہےیعنی ایسا نہیں ہے کہ آپ کو کیا چاہنا چاہیے، بس یہ ہے کہ جو کچھ بھی میں چاہنا چاہوں اس چاہت کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، ان کے لیے یہ اہم نہیں ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں، بلکہ اہم یہ ہے کہ جو بھی آپ چاہنا چاہتے ہیں آپ وہ چاہ سکیں۔ اب اس کے راستے میں رکاوٹیں کیا ہیں، تو جو سب سے بڑی رکاوٹ ہمیشہ سے رہی ہے وہ فزیکل رہی ہے، مٹیریل رہی ہے۔ اس طبعی اور مادی رکاوٹ کو ختم کرنے کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کا ڈول ڈالا گیا۔ رکاوٹ سے کیا مراد ہے، مثلا انسان ایک خاص فاصلے سے آگے نہیں دیکھ سکتا، ایک خاص دوری سے زیادہ سن نہیں سکتا، انسان زمین پر اچھلتا ہے تو اس کو نیچے آنا ہوتا ہے اوپر ہی اوپر نہیں جا سکتا۔ ان حدود کو ٹیکنالوجی کے ذریعے ختم کرنا ہے۔ لیکن یہ جو انسان کے اوپر سب سے بڑی فزیکل رکاوٹ لگی ہوئی ہے، وہ موت ہے۔ اب اصل میں یہی پروجیکٹ ہے، جس پر کام ہو رہاہے، یعنی ایک تو longevity ہے کہ زندگی کو بڑھاتے چلے جائے، کیونکہ اصل میں اور کوئی عالم تو ان کے نزدیک ہے ہی نہیں، تو اس کا نتیجہ زندگی کو بڑھاتے چلے جانا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ جیا جائے۔ لیکن یہ بھی ایک ناکافی کوشش ہے، اس لیے اصل مسئلہ ان کا خلود حاصل کرنا ہے۔
اور جس طرح میں نے شروع میں کہا تھا کہ انسان کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ خدائی کا دعویٰ کرسکتا ہے اور تاریخ میں ایسے لوگ رہے ہیں جنھو ں نے اس طرح کا اعلان کیا ہے، لیکن جدید آدمی گویا اجتماعی طور پر یہ اعلان کرنے جا رہا ہے۔ Yuval Noah Harari ایک بہت مشہور اسرائیلی تاریخ دان اور رائیٹر ہے،اس کی کتابیں آج کل فیشن میں ہیں، ہر دور میں ہمارے یہاں کے ملحدین؛ کوئی ایک آدھ نام ہوتا ہے جس کی مالا وہ جپتے رہتے ہیں تو آج کل ہراری ان کی زبانوں پر ہے جیسے پچھلی صدی کا آدھا نصف برٹرنڈ رسل کے نام پہ گزر گیا ، اس سے قبل کارل مارکس تھا۔ ۲۰۰۰ء کے بعد یہ جگہ رچرڈ ڈاکنز کو مل گئی۔ اور کوئی پانچ چھے سال ہوئے ہیں کہ یہ ہراری آگیا ہے اور ہر جگہ اسی کی شہرت ہے۔اس نے ارتقا کے ڈسکورس پر مبنی، پوری انسانیت کی تاریخ لکھ دی ہے ۔ اس نے ڈارون کے نظریۂ ارتقا پر sapiens کے نام سے ایک تاریخ لکھ دی۔ اسی طرح ایک کتاب Human of the future کے نام سے بھی لکھی۔اسی طرح اس نے ایک کتاب لکھی، اس کتاب کاٹائٹل تھا Homo Deus یعنی Man god۔اور خدا تو چانکہ کوئی ہے نہیں، اورنطشےنے بھی اعلان کردیا تھا معاذاللہ کہ God is dead، خدا مر گیا ہے۔ اب یہ کہا جانے لگا کہ خدا تو چونکہ ہے ہی نہیں تو ہم سب کواپنی ذات میں چھوٹاموٹاخدا بننا ہے۔ اسی لیے ماڈرن ٹیکنالوجی کا ایک سافٹ ٹارگٹ ہے اور ایک ہارڈ ٹارگٹ ہے، سافٹ ٹارگٹ ہے لذّت کو بڑھاتے چلے جانا، انسانی آزادی کو بڑھاتے چلے جانا اور اس کا ہاڑڈ ٹارگٹ ہے وہ ہےخدا بننے کا عمل، خدا سے بغاوت بلکہ خدا بننے کی ایک چاہت۔
تو اب تک آپ حضرات کے سامنے جو معروضات پیش کی گئیں وہ یہ کہ ہم کیا ہیں؟ دوسرا میں نے یہ کہا تھا کہ روایتی طور پر ٹیکنالوجی کے کیا مقاصد بیان کیے جاتے تھے؟ تو یہاں سب سے اوپر ہے معرفتِ حقیقت، اس کے بعد ایک اخلاقی وجود بننا، اس کے بعد ہے کہ انسان طاقت حاصل کرے۔ افلاطون کے ہاں بھی یہ تینوں چیزیں ہمیں ملتی ہیں، اس نے انسان کے بارے میں کہا کہ تین طرح کی چیزیں انسان میں ہیں؛ ایک reason، ایک will اور ایک appetite ہے۔ تو reason کا تعلق حقیقت سے ہے اور will کا تعلق کچھ کرنے اور بننے سے جبکہ appetite جس کو ہم شہوتیں کہتے ہیں، اس کا تعلق ہے پاور سے،کہ وہ پاور انسان نے حاصل کرنی ہے۔
اب تھوڑی سی بات ا س پر کرتے ہیں کہ جو سائنس اور ٹیکنالوجی کا ایک فرق لوگ بیان کرتے تھےکہ پہلے انسان کا تعارف یہ تھا کہ یہ Homo-Depicter ہے، یعنی دنیا کو بیان کرتا ہے کہ دنیا کیا ہے۔ یہ پروجیکٹ گویا سائنس کے پاس تھا اور انسان کا ایک اور تعارف تھا کہ وہ Homo-Faber ہے، Tool maker ہے کہ وہ چیزوں کو بناتا ہے، جس کو ہم نے کہا کہ وہ ’ٹیکنے‘ کے ذریعے بناتا ہے، یہ دو چیزیں گویا ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔ لیکن ایک چیز اس سے بھی اوپرتھی، وہ تھی Homo-Sapien یعنی man the wise اوپر ہے۔ اس کے بعد دنیا کو جاننا یہ Depicter ہے، اور اس کو اپنے مصرف میں لانا، اپنے کام میں لانا Homo-Faber ہے۔ لیکن ماڈرن ٹیکنالوجی میں ایسا لگتا ہے کہ Homo-Depicter اور Homo-Faber آپس میں مل گئے ہیں، اس لیے اب Pure science اس طریقے سے نہیں پائی جا تی۔ پہلے لوگوں کا خیا ل یہ تھا کہ یہ جو Pure science ہے، سائنس دان کا عمل بالکل ایسا ہی ہوتا ہے meditative قسم کا، اور جس طریقے سے ایک صوفی اپنی خانقاہ میں ہوتا ہے ویسا ہی عمل ایک سائنس دان کا اپنی لیبارٹری میں ہو تا ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں رہا، اب آہستہ آہستہ Pure Science ختم ہوتی چلی جارہی ہے، جیسا فلسفے میں بھی Pure Philosophy بھی، جو Meta Physicsتھی وہ آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے اور فلسفہ اب مغرب میں Applied Form میں زیادہ ہے۔ linguistic philosophy یا Biomedical ethics یا Business ethics یا Media ethicsہے، Pure philosophy ختم ہوتی جا رہی ہے۔ تو سائنس کے شعبے میں ہمارے بہت دوست سے باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں اور مختلف شعبوں میں جیسے ریاضی میں یا فزکس میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے مشکل ہوتی ہے، ان کو فنڈنگ نہیں ملتی، ان کو کوئی endowments نہیں ملتیں،ایسے کوئی پروگرامز نہیں ہیں جن کے ذریعے وہ پی ایچ ڈی کر سکیں۔ اس کا سبب کیا ہے کہ جو ٹیکنو سائنس ہے وہ دریافت کا کوئی سادہ عمل نہیں ہے بلکہ کیپٹل ازم کا ایک بہت بڑا آلہ ہے۔ کیپٹل ازم ایک پوری ایمپائر ہے اور ٹیکنو سائنس اس کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔ ہمارے ملک میں لوگ کہتے ہیں کیا وجہ ہے کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے نہیں جا رہے، حالانکہ فلاں بچے نے فلاں چیز ایجاد کرلی؟تو، ایجاد کرنا کوئی مسئلہ نہیں، مسئلہ تو Actualize کر کے Mass scale پہ بنانا ہے، اس کے لیےجو لیبز چاہییں، جو انفرا سٹرکچر چاہیے، اس پراربوں ڈالر خرچ آتا ہے، وہ آپ کے پاس نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اب یہ سائنس کا عمل کوئی خالص ذہنی عمل نہیں ہے، اس کے ساتھ سرمائے کا ایک غیر معمولی بیک اپ ہوگا تو یہ بات پھر آگے بڑھے گی ورنہ نہیں بڑھے گی۔