لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

ابنِ عباس
معاون قلم کار

ہماری بدحالی کی وجوہات

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : «إِذَا ظَهَرَ الزِّنَا وَالرِّبَا فِي قَرْيَةٍ، فَقَدْ أَحَلُّوا بِأَنْفُسِهِمْ عَذَابَ اللَّهِ»(مستدركِ حاکم)

’’حضرت ابن ِ عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائیں تو وہ لوگ اللہ کے عذاب کے مستحق ہو جاتے ہیں‘‘۔

تشریح

عام طور پر ہم انسان دنیا کے اچھے برے حالات کو ظاہر کی آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں ۔یہ تمام ظواہر کچھ باطنی اور غیر مرئی اثرات سے ظہور پاتے ہیں ۔ ان اثرات میں ایک اثر برکت کہلاتا ہے کہ اللہ ہماری تھوڑی کوششوں کو بھی بڑے نتیجے کے ظہور کا سبب بنا دے۔ نتیجے کا یہ اچھا ظہور یا برکت اخلاقی اصول پر کھڑا ہے یعنی اگر انسان اپنا کردار ایسا بنا لے جو اللہ کا پسندیدہ ہو تو اللہ کی طرف سے اچھے نتائج ظاہر ہوں گے اور اگر انسان دنیا میں اللہ کا ناپسندیدہ کردار بن کر رہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت اس سے منھ موڑ لیتی ہے اور خراب حالات ظہور پاتے ہیں جسے ہم بے برکتی بھی کہہ سکتے ہیں اور عذابِ الہٰی بھی ۔ یہ عام اخلاقی اصول ہے خاص حالات میں آزمائش یا استدراج کا ظہور بھی ہوتا ہے یعنی نیک لوگوں پر حالات خراب آ جائیں تو یہ آزمائش ہے اور برے لوگوں پر اچھے حالات آتے رہیں تو یہ استدراج یعنی ڈھیل ہے ۔ لیکن عام اخلاقی اصول یہی ہے کہ برے کردار پر برے حالات آتے ہیں اور اچھے پر اچھے حالات آتے ہیں ۔ یہ اخلاقی اصول قرآن کریم میں کئی جگہ بیان ہوا: ﴿وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ﴾ (الاعراف: 96)’’اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین سے برکات نازل کرتے‘‘۔ایک جگہ فرمایا: ﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ﴾ (الطلاق: 2، 3) ’’جو اللہ کا تقوی اختیار کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کرے گا اور اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے وہ سوچ بھی نہیں سکتا‘‘۔ ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ وَما أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ﴾ (المائدہ :66) ’’اور اگر وہ تورات ، انجیل اور اللہ کے نازل کردہ (احکام ) کو قائم کرتے تو وہ کھاتے اپنے اوپر سے بھی اور اپنے پاؤں کے نیچے سے بھی‘‘ ۔برکت و انعام اور بے برکتی اور عذاب کا یہ اصول ویسے تو ہر عمل پر لاگو ہوتا ہے لیکن حدیثِ مذکورمیں دو گناہوں کا بطورِ خاص ذکر آیا اور وہ بدکاری اور سود خوری ہیں: ’’جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائےتو وہ لوگ اللہ کے عذاب کے مستحق ہو جاتے ہیں‘‘ ۔جہاں تک پہلے جرم ’’زنا‘‘ کی بات ہے تو قرآنِ پاک میں جا بجا اس کی مذمت کی گئی ہے ۔ سرِدست ایک آیت کا مطالعہ کرتے ہیں: ﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا﴾ (بنی اسرائیل:32) ’’اور زنا کے قریب نہ جاؤ، اس لیے کہ یہ بڑی برائی اور بہت برا راستہ ہے‘‘ ۔ اس آیت میں زنا کو ’’برا راستہ ‘‘ قرار دیا گیا اگرچہ اس کی وضاحت نہیں کی گئی لیکن یہ مطلب واضح ہے کہ یہ فعلِ بد اور برا راستہ انسان کو کسی بری منزل پہ پہنچا کر چھوڑتاہے تبھی تو اسے برا راستہ قرار دیا گیا۔ ’’برے راستے‘‘ زنا کی ایک بری منزل بیماریوں کا پھیلنا ہے ۔صحیح حدیث میں ہے: «لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ، حَتَّى يُعْلِنُوا بِهَا، إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الطَّاعُونُ، وَالْأَوْجَاعُ الَّتِي لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِي أَسْلَافِهِمُ الَّذِينَ مَضَوْا» (ابنِ ماجہ) ’’ کسی قوم میں بدکاری نہیں پھیلتی یہاں تک کہ کھلے بندوں ہونے لگے تو ان میں طاعون اور دوسری بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے باپ دادوں نے سنی تک نہ تھیں‘‘ ۔تو بدکاری سے صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور صحت کے یہ مسائل دوسرے مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں ۔بیمار لوگ ملکی پیداوار میں کیا حصہ لیں گے الٹا بوجھ بن جاتے ہیں ۔ پھر بدکاری سے لوگوں کی قوتِ کار اور قوتِ ارتکاز پر برا اثر پڑتا ہے جس کے نتیجے میں انسان اپنی صلاحیتوں کا صحیح استعمال نہیں کر سکتا ۔ انجامِ کار بدکاری ملکی و قومی نقصان کا ذریعہ بنتی ہے۔ بعض روایات میں بھی بدکاری کا تعلق معاشی بدحالی سے جوڑا گیا ہے: «وَإِذَا ظَهَرَ الزِّنَا ظَهَرَ الْفَقْرُ وَالْمَسْكَنَةُ» (مسند البزار ) ’’جب زنا عام ہو جائے توغریبی اور محتاجی عام ہو جاتی ہے‘‘۔ «الزِّنَا يُورِثُ الْفَقْرَ» ( شعب الایمان ) ’’زنا فقر پیدا کرتا ہے‘‘ ۔اگرچہ ان روایت میں ضعف پایا جاتا ہے لیکن ان میں بیان کردہ مفہوم کی تائید تفسیر ِقرآن سے ہوتی ہے جس کی طرف اشارہ علامہ صنعانی نے التنویر شرح الجامع الصغیر میں اشارہ کیا ہے ۔وہ یوں کہ زنا ، نکاح کا متضاد ہے اور قرآنِ کریم میں نکاح کو باعث برکت بتایا گیاہے: ﴿وَأَنْكِحُوا الْأَيامى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبادِكُمْ وَإِمائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ ﴾ (النور :32) ’’تم میں سے جن (مردوں یا عورتوں) کا اس وقت نکاح نہ ہو، ان کا بھی نکاح کراؤ، اور تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں، ان کا بھی۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انھیں بےنیاز کردے گا۔اور اللہ بہت وسعت والا ہے، سب کچھ جانتا ہے‘‘ ۔ رسول اللہ ﷺ نے جن لوگوں کے بارے میں خبر دی کہ اللہ ان کی بالضرور مدد کرتا ہے ان میں نکاح کرنے والا بھی ہے فرمایا: «اَلنَّاكِحُ يُرِيدُ الْعَفَافَ» (مسندِ احمد) ’’ وہ شخص جو اپنی عفت کی حفاظت کی خاطر نکاح کرے‘‘ ۔انھی دلائل کی رو سے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں: الْتَمِسُوا الْغِنَى فِي النِّكَاحِ ’’مالداری کو نکاح کے ذریعے تلاش کرو‘‘ ۔ تو جب ایک شخص نکاح کا راستہ چھوڑ کر بدکاری کا راستہ اختیار کرتا ہے تو گویا وہ اللہ کی مدد اور مالداری کا راستہ چھوڑ کر فقر اختیار کر رہا ہے۔

حدیثِ زیر مطالعہ میں دوسرا جرم سود خوری ہے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ﴾ (البقرہ :276) ’’اللہ سود کو تباہ کرتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گناہ گار کو پسند نہیں کرتا‘‘۔تباہ کر نے کے تین مطلب بیان کیے گئے: ایک تو یہ کہ سود کا مال خرچ کرنے پر کوئی نیکی نہیں ملے گی،دوسرا یہ کہ اس سے مال بالکلیہ تباہ ہو جائے اور تیسرا یہ کہ اس کی برکت ختم ہو جائے فائدہ مند نہ ہو سکے۔ اب اگر ہم اپنی موجودہ معاشی ابتری کی طرف دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ بیرونی اور اندرونی سود کی وجہ سے ہماری معیشت برکت سے محروم اور روبہ زوال ہے۔ آیتِ مندرجہ بالا میں سود کے مقابل صدقات کو لایا گیا تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی معیشت کی بنیاد سود کے بجائے زکاۃ و صدقات ہے۔ایک دوسری آیت میں بھی سود اور زکاۃ کا تقابل کیا گیا: ﴿وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ﴾ (الروم: 39) ’’اور جو روپیہ تم سود پر دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مال میں جا کر بڑھتا رہے وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا اور جو تم اللہ کی رضا کے لیے زکاۃ ادا کرتے ہو تو وہی ہیں جو بڑھانے والے ہیں‘‘ ۔نبی کریم ﷺ نے سود کے بارے میں فرمایا: «الرِّبَا وَإِنْ كَثُرَ فَإِنَّ عَاقِبَتَهُ تَصِيرُ إِلَى قَلٍّ» (مستدرک حاکم ) ’’سود جتنا بھی بڑھ جائے، پر بے شک اس کا انجام قلت ہی ہے‘‘ ۔ایک روایت جو ہمارے زیادہ متعلق ہے کہ ہمارے وزیرِ خزانہ نے سودختم کرنے کے اعلان کے بعد شرحِ سود بڑھا دی ہے، فرمایا: «مَا أَحَدٌ أَكْثَرَ مِنَ الرِّبَا، إِلَّا كَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهِ إِلَى قِلَّةٍ» (ابنِ ماجہ) ’’کوئی شخص سود کو جتنا بھی زیادہ کر لے، انجام اس کا قلت ہی ہے‘‘ ۔ حاصل یہ کہ ہماری معاشی بدحالی کی دیگر وجوہات کے ساتھ ہماری بد اعمالی بھی ایک بڑی وجہ ہے تو حکومت و عوام دونوں کو توبہ و اصلاح کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی بارگاہ میں سچی توبہ کی توفیق نصیب فرمائیں، آمین۔

لرننگ پورٹل