صوفی جمیل الرحمٰن عباسی
ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی، مدیرِ ماہ نامہ مفاہیم، کراچی
شعبان المعظم رمضان المبارک کے انتظار اور اس کی تیاری کا مہینا ہے۔ یہ مہینا رمضان کی سیڑھی اور اس تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ جس کا شعبان اچھا ہوا تو امید ہے کہ اس کا رمضان بھی اچھا گزرے گا ۔نبی کریم ﷺ رجب اور شعبان کے مہینے ہی سے جو دعاپڑھا کرتے تھے وہ بھی رمضان کے انتظار اور اس کے لیے تیاری کا مظہر ہے:«اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ» (مرقاۃ المفاتیح) ’’اے اللہ ہمیں رجب اور شعبان میں برکت دے اور ہمیں رمضان تک پہنچا دے ‘‘ ۔شارحین نے یہاں برکت سے کثرت عبادت مراد لی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی عبادتوں سے پہلے شعبان ہی میں کچھ عبادت شروع کر دینی چاہیے کہ یہ ہمیں رمضان کی عبادت کے لیے تیار کر دے گی۔
شعبان کی عبادت میں سب سے اہم شے نفلی روزوں کا اہتمام ہے۔نبی کریم ﷺ سے جب افضل روزوں کی بابت سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:«شَعْبَانُ لِتَعْظِيمِ رَمَضَانَ» ’’ماہِ شعبان (کے روزے ) رمضان کی تعظیم کرتے ہوئے‘‘۔ تعظیم کی وضاحت کرتے ہوئے شارحین فرماتے ہیں:انسان رمضان میں کچھ روزے رکھے تاکہ اس کا نفس روزے کا عادی ہو جائے، اس طرح ہےامید کہ رمضان کے روزے اس پر گراں نہ گزریں گے اور اس کو ناپسند نہ ہوں گے‘‘۔(تحفۃ الاحوذی)اللہ تعالیٰ نے فرض نمازوں سے پہلے ہم کچھ نفل یا سنت مشروع کیے ہیں ۔شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان نمازوں کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جب انسان کاروبار دنیا میں مشغول رہتا ہے اور جب نماز کے لیے آتا ہے تو دنیا کے اثرات اس پر چھائے رہتے ہیں۔فرض سے پہلے والی نفل عبادت مصروفیت ِ دنیا کے اثرات میں کمی لاتی ہے ۔اس طرح فرض عبادات ،ان کے آداب کے ساتھ ادا کرنا ہمارے لیے آسان ہو جاتا ہے اور اس میں ہمیں خشوع و خضوع حاصل ہوتا ہے ‘‘۔ بالکل یہی حکمت شعبان کی عبادات کے لیے ہے جو ہمیں رمضان کے لیے تیار کرتی ہے۔ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا :’’یا رسول اللہ کیا وجہ ہے کہ آپ کسی مہینے میں اتنے روزے نہیں رکھتے جتنے کہ شعبان میں رکھتے ہیں تو فرمایا:«ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ»(سننِ نسائی)’’ رجب اور رمضان کے درمیان یہ ایک ایسا مہینا ہے جس سے اکثرلوگ غافل ہوتے ہیں اور یہ ایسا مہینا ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف بلند ہوتے ہیں پس میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل بلند ہو اور میں روزے سے ہوں‘‘۔
ماہِ شعبان کا ایک خاص عمل نصفِ شعبان کی رات یعنی چودھویں سے اگلی ، پندرھویں رات کو زندہ کرنا ہے ، اسے شبِ براءَت بھی کہا جاتا ہے۔ امام شافعی نے الرسالہ میں اس رات کی فضیلت نقل کی ہے۔درج ذیل صحیح روایت سے نصفِ شعبان کی رات میں اللہ تعالی کی مغفرت کا ظہور پذیر ہونا معلوم ہوتا ہے :«إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ» (سلسلة الأحاديث الصحيحة) ’’بے شک اللہ تعالی نصفِ شعبان کی رات اپنی مخلوق کی طرف نزول فرماتا ہے پھر تمام مخلوقات کومعاف فرمادیتا ہے سوائے مشرک اور باہمی بغض رکھنے والوں کے‘‘۔
ایک روایت میں آتا ہے:«إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لِأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ»(سننِ ترمذی) ’’بے شک اللہ تعالیٰ نصفِ شعبان کی رات ، سماے دنیا پر نزول فرماتے ہیں پھر بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کی بخشش فرما دیتے ہیں‘‘۔کوشش کرنی چاہیے کہ شب براءت کو نہ صرف عبادت کا اہتمام کیا جائے بلکہ اسے رمضانی عبادات کے لیے ایک بریک تھرو سمجھا جائے۔
اعمالِ رمضانی کی نیت
ماہِ شعبان میں کرنے کا ایک اہم کام اعمالِ رمضان کی نیت ہے ۔ ایک روایت میں آتا ہے : «نِيَّةُ الْمُؤْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ»(المعجم الکبیر) ’’ مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے‘‘۔یعنی مومن ہمیشہ اچھے سے اچھے اور زیادہ سے زیادہ عمل کی نیت و ارادہ رکھتا ہے یہ الگ بات کہ عمل کرتے وقت کسی کمی کوتاہی کا شکار ہو جائے لیکن نیت اس کی ہمیشہ اچھی ہوتی ہے اور اسی کے مطابق وہ اجر بھی پاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :«مَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً» (صحیح مسلم)’’جو کوئی نیکی کا ارادہ کرے لیکن نیکی کر نہ سکے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھی جائے گی‘‘۔نبی کریم ﷺ نے رمضان کے بارے میں فرمایا: «إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَكْتُبُ أَجْرَهُ وَنَوَافِلَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُدْخِلَهُ» (مسندِ احمد)’’اللہ تعالیٰ مومن کا اجر اور اس کے نوافل رمضان کے داخل ہونے سے پہلے ہی لکھ دیتا ہے‘‘۔تو رمضان سے پہلے ہی اعمال رمضان کی نیت بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ان امور کی منصوبہ بندی کر لینی چاہیے ۔یاد دہانی کی غرض سے ہم کچھ اعمال کا مختصر ذکر کرتے ہیں۔
روزہ
ماہِ رمضان کا سب سے بڑا فرض اس کےروزے رکھنا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ﴾ (البقرة :183)’’اے لوگو! تم پر رمضان کے روزے فرض قرار دیے گئے ‘‘۔رسول اللہ ﷺ نے اس کی فرضیت کا حکم سناتے ہوئے فرمایا: «قَدْ جَاءَكُمْ رَمَضَانُ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، افْتَرَضَ اللهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ» (مسندِ احمد )’’اے لوگو! رمضان کا مہینا آ گیا۔ یہ ماہِ مبارک ہے۔ اللہ نے تم پر اس مہینے کے روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے‘‘۔ روزہ بخشش و مغفرت کا ذریعہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ» (متفق علیہ)’’ جس نے رَمَضان کے روزے ایمان و اخلاص سے رکھے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں‘‘۔ ایک روایت میں آتا ہے: «مَا مِنْ عَبْدٍ يَصُومُ يَوْمًا في سَبِيلِ اللهِ إِلاَّ بَاعَدَ اللهُ بِذَلِكَ اليَوْمِ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا» (متفق علیہ) ’’ جو بندہ مسلمان اللہ کی رضا کے لیے ایک دن کا روزہ رکھے اس کی برکت سے اللہ اسے دوزخ سے ستر سال کے فاصلے جتنا دور کر دے گا‘‘۔
روزے کے آداب و حدود کا خیال رکھنا
روزے کے کچھ آداب و حدود ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَعَرَفَ حُدُودَهُ وَتَحَفَّظَ مِمَّا كَانَ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَتَحَفَّظَ فِيهِ كَفَّرَ مَا قَبْلَهُ» (مسندِ احمد)’’ جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کی حدود کو پہچانا اور ان آداب کی محافظت کی کہ جو لائقِ محافظت تھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ نے فرمایا کہ جب تو روزہ رکھے تو اپنے سمع وبصر اور زبان کو محارم سے روزہ رکھوا ، پڑوسی کو تکلیف دینے سے اجتناب کر اور شور شرابے سے الگ ہو کر سکینت اور وقار کا راستہ اختیار کر‘‘۔ نافرمانی کے ارتکاب سے روزہ ناقص ہو جاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے:«رُبَّ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الْجُوعُ» (سنن ابنِ ماجہ) ’’ کتنے ہی روزے داروں کو بھوک کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ‘‘ ۔امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ یا تو وہ ہیں جو حرام روزی سے روزہ افطار کرتے ہیں یا پھر غیبت وغیرہ کا ارتکاب کرتے ہیں یا پھر وہ لوگ ہیں جو اپنے اعضا و جوارح کو حرام کاری سے نہیں بچاتے‘‘۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:«مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ»)صحیح بخاری)’’جو جھوٹی بات اور غلط کام کرنا نہ چھوڑے، اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ بھوکا پیاسا رہے‘‘۔بعض لوگ روزہ رکھ کر ، دن بھر غضب ناک رہتے ہیں ۔ گھر والوں اور ماتحتوں کو ڈانٹتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں ’’ مجھے روزہ لگا ہوا ہے یا مجھے روزہ چڑھ گیا ہے‘‘۔ یہ روزے کی برکات کو ضائع کرنے والا امر ہے اس لیے کہ روزہ تو ہی صبر کرنے کا نام، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: «الصَّوْمُ جُنَّةٌ مَا لَمْ يَخْرِقْهَا»(سننِ دارمی) ’’ روزہ ڈھال ہے جب تک تم اسے توڑ نہ دو‘‘۔ توڑنے سے مراد یہی ہے کہ روزے کے منافی کوئی قول و فعل کیا جائے۔ایک اور موقعے پر آپ ﷺ نے فرمایا: «الصِّيَامُ جُنَّةٌ وَإِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ يَوْمًا صَائِمًا فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَجْهَلْ وَإِنِ امْرُؤٌ قَاتَلَهُ أَوْ شَاتَمَهُ فَلْيَقُلْ:إِنِّي صَائِمٌ إِنِّي صَائِمٌ» (صحیح بخاری)’’روزہ ڈھال ہے جس دن تم میں سے کسی کو روزہ ہو تو وہ نہ تو بے ہودہ گوئی کرے اور نہ ہی اشتعال میں آئے اور اگر کوئی دوسرا تم سے لڑے یا گالم گلوچ کرے تو اس سے کہے میں تو روزے سے ہوں میرا تو روزہ ہے‘‘۔
نمازِ باجماعت کا اہتمام
کوشش کریں کہ پانچوں نمازیں مسجد میں باجماعت ادا کریں۔ با جماعت نماز کا اجر و ثواب اکیلے کی نماز سے ستائیس گنا زیادہ دیا جاتا ہے اور پھر رمضان میں اس کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
نوافل و سنن کا اہتمام
رمضان میں نیکی کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے ۔لہذا کوشش کرنی چاہیے کہ نمازوں کے ساتھ متصل سننِ موکدہ اور غیر موکدہ اور نمازوں سے متصل نوافل نہ چھوٹنے پائیں۔ تحیۃ الوضو اورتحیۃ المسجد، اوابین، اشراق، چاشت، صلاۃ الحاجت ، صلاۃالتوبہ اور صلاۃالتسبیح کا خاص اہتمام کیا جائے ۔
نمازِ تراویح
رَمَضان کا خصوصی وظیفہ نمازِ تراویح ہے ۔ جس میں رب کے حضور کھڑے ہو کر اس کا کلام سنا جاتا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو نبی کریم ﷺ ہر سال جبریل امین علیہ السلام کے ساتھ مل کر کیا کرتے تھے اور عمر مبارک کے آخری سال دو بار یہ مبارک عمل کیا گیا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:«مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ» (صحیح بخاری )’’جس نے ایمان و اخلاص کے ساتھ رمضان کا قیام کیا اس کے سابقہ گناہوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے‘‘۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«إِنَّ رَمَضَانَ شَهْرٌ افْتَرَضَ اللَّهُ صِيَامَهُ وَإِنِّي سَنَنْتُ لِلْمُسْلِمِينَ قِيَامَهُ فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنَ الذُّنُوبِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ» (صحيح ابنِ خُزَيمہ)’’بے شک اللہ نےرمضان کے مہینے کے روزے فرض قرار دیے اور میں نے مسلمانوں کے لیے اس کا قیام سنت قرار دیا پس جو اس کے روزے رکھے اور اس کا قیام کرے ایمان و احتساب کے ساتھ تو گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہو جائے گا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا‘‘۔
نمازِ تہجد
نمازِ تراویح کے ساتھ نماز تہجد کا اہتمام بھی کرنا چاہیے چاہے اتنی دیر جتنی دیر میں دو رکعت نماز پڑھی جا سکے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:«لَا تَدَعُنَّ صَلَاةَ اللَّيْلِ، وَلَوْ حَلْبَ شَاةٍ» (المعجم الأوسط) ’’رات کی نماز نہ چھوڑنا چاہے بکری کا دودھ نکالنے کی دیر ہی کیوں نہ پڑھو‘‘۔ احادیث میں ساتھ گھر والوں کو بھی تہجد کی ترغیب دینے کی فضیلت بیان ہوئی ہے ،اس لیے اہل و عیال کو بھی اس عمل میں شریف کرنا چاہیے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«إِذَا أَيْقَظَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّيَا أَوْ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ جَمِيعًا كُتِبَا فِي الذَّاكِرِينَ وَالذَّاكِرَاتِ» (سنن ابی داؤد) ’’ جب مرد اپنی بیوی کو جگائے اور وہ دونوں دو ہی رکعت نماز پڑھیں پھر بھی وہ ذاکرین و ذاکرات میں لکھے جائیں گے‘‘۔
دعا و مناجات کا اہتمام
رمضان کا مہینا چونکہ بخشش و مغفرت کا مہینا ہے اس لیے رمضان میں خاص اہتمام سے دعائیں مانگنی چاہییں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:«إِنَّا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فِي كُلِّ يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ عُتَقَاءَ مِنَ النَّارِ، وَلِكُلِّ مُسْلِمٍ وَمُسْلِمَةٍ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ» (فضائلِ رمضان لابن شاہین)’’بے شک اللہ کی طرف سے رمضان کے ہر دن رات میں بہت سے لوگوں کو دوزخ سے نجات دے دی جاتی ہے اور ہر مسلمان مرد و عورت کے دعا قبول کی جاتی ہے‘‘۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «الصَّائِمُ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُ» (مسندِ احمد ) ’’روزے دار کی دعا رد نہیں کی جاتی‘‘۔پس دورانِ روزہ، نمازوں کے بعد اور سحر و افطار کے وقت خاص اہتمام سے دعائیں مانگنی چاہییں۔ بالخصوص افطار کے وقت ، گھر والوں کو جمع کر کے دعا میں شریک کرنا چاہیے۔ایک روایت میں وارد ہوا ہے :«كَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرٍو إِذَا أَفْطَرَ دَعَا أَهْلَهُ وَوَلَدَهُ وَدَعَا» (شعب الایمان )’’جب افطار کا وقت آجاتا تو سیدنا عبد اللہ بن عمر بن العاص اپنے اہل و اولاد کو بلاتے اور پھر دعا کرتے‘‘۔
تلاوتِ قرآن
لوحِ محفوظ سے سمائے دنیا تک قرآن حکیم کا یکبارگی نزول بھی رمضان المبارک میں ہوا اور نبی کریم ﷺ پر اس کی تنزیل کی ابتدا بھی رمضان میں ہوئی۔ نبی کریم ﷺ ؛ جبریل امین علیہ السلام کے ساتھ مل کر سالانہ دور بھی رمضان ہی میں کیا کرتے تھے۔ اور امت کے لیے سالانہ دَورِ قرآنی کے لیے رمضان ہی کہ مہینا اختیار کیا گیا کہ اس میں حالت نماز میں قرآن کریم سنا یا سنایا جائے۔
رمضان میں دیگر اعمال کی طرح تلاوت کا اجر و ثواب بھی زیادہ کر دیا جاتا ہے تو رمضان میں بکثرت تلاوت کرنی چاہیے۔عام حالات میں قرآنِ پاک کے ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں دی جاتی ہیں لیکن رمضان میں اس کا اجر اور بھی زیادہ ملتا ہے لہذا رمضان میں زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنی چاہیے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلفِ صالحین رمضان میں قرآنِ کریم کے کئی دور مکمل کیا کرتے تھے ۔ امام مالک اور حضرت سفیان ثوری رحمہما اللہ تمام کام چھوڑ کر تلاوت قرآن کی طرف متوجہ رہتے ۔ امام شافعی اور امام ابو حنیفہ رحمہا اللہ رمضان میں ساٹھ دور مکمل کیا کرتے تھے۔ امام بخاری رمضان میں ہر دن ایک قرآن ختم کرتے تھے۔تعلق بالقرآن کے ضمن دوسری بات ترجمہ و تفسیر ِقرآن ، دروسِ حدیث اور تعلیمِ فقہ کے حلقہ جات میں شرکت کرنا ہے ۔سلفِ صالحین رمضان میں درس و تدریس کے حلقے لگایا کرتے تھے ۔حضرت قتادہ رمضان میں قرآنِ کریم کی درس و تدریس کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جب بصرہ کے امیر تھے تو وہ لوگوں کو جمع کرتے اور انھیں فقہ کی تعلیم دیا کرتے ۔رمضان میں تعلق بالقرآن کا خاص اہتمام کرنا چاہیے اور اس ضمن یہ فرمان نبوی یاد رہنا چاہیے: »الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُولُ الصِّيَامُ: أَيْ رَبِّ، مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِفَشَفِّعْنِي فِيهِ، وَيَقُولُ الْقُرْآنُ مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ قَالَ فَيُشَفَّعَانِ« (مسندِ احمد) ’’روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہےگا: اے میرے پروردگار! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پوری کرنے سے روکے رکھا تھا آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما۔ اور قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات کے سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا خدا وندا آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔چنانچہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش اس بندے کے حق میں قبول کی جائے گی (اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ کر دیا جائے گا)‘‘۔
زکاۃ و صدقات
جن لوگوں پر زکاۃ فرض ہے وہ رمضان میں اس کی ادائی کا اہتمام کریں۔ اگرچہ رمضان میں زکاۃ کی ادائی ضروری تو نہیں لیکن اگر رمضان میں زکاۃ ادا کر دی جائے تو اس کا اجر وثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ صدقۂ فطر ، ایک واجب مالی عبادت ہےجو ہرکھاتے پیتے گھرانے پر واجب ہے۔ یہاں تک کہ شیر خوار اور نابالغ بچوں کی طرف سے بھی فطرانہ ادا کیا جائے گا۔ نمازِ عید سے پہلے پہلے اس کی ادائی لازم ہے لیکن بہتر ہے کہ اس سے بھی پہلے کر دی جائے تاکہ مساکین عید کی تیاری کر سکیں ۔ (تفصیلی احکام کے لیے کسی عالم مفتی سے رجوع کریں )رمضان میں صدقہ و خیرات کثرت سے کرنا چاہیے۔روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی اور فیاض تھے اور رمضان میں آپ ﷺ کی سخاوت عروج پر ہوتی اور آپ ﷺ لوگوں کو خیر پہنچانے میں چلتی ہوا سے زیادہ تیز ہو جایا کرتے تھے‘‘۔ (صحیح بخاری)نبی اکرم ﷺ نے رمضان المبارک کو «شَهرُ الْمُوَاسَاة» یعنی ہمدردی کا مہینا بھی قرار دیا ہے۔علامہ طیبی کے بقول یہ نام رکھنے سے مقصود،سخاوت و احسان کی طرف متوجہ کرناہے کہ بندہ تمام لوگوں اور بالخصوص غریبوں اور پڑوسیوں پر خرچ کرے (المرقاۃ المفاتیح) ۔رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ ’’افضل صدقہ کون سا ہے؟‘‘۔فرمایا:« صَدَقَةٌ فِي رَمَضَانَ »(سننِ ترمذی)’’رمضان میں صدقہ کرنا‘‘۔
رمضان میں سخاوت کی ایک صورت افطار کی ضیافت ہے۔سلمان فارسی سے مروی ایک حدیث یوں ہے: «مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا فِي رَمَضَانَ مِنْ كَسْبٍ حَلَالٍ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ» (المعجم الکبیر)’’جس کسی نے روزے دار کو حلال کمائی سے افطار کرایا اس کے لیے فرشتے دعائیں کرتے ہیں‘‘۔البتہ افطار کی دعوتوں میں دکھاوے اور کھانے کی مقدار و معیار میں اسراف اور بے جا تکلف سے بچنا چاہیے۔اسلاف کی خدمت ِ روزے دار کے انداز مختلف تھے۔ بعض اوقات لوگوں کو دعوت افطار پر بلاتے، بعض افطار کا سامان بھجوا دیتے ، بعض حضرات مسجد میں افطار کا سامان رکھوا دیتے ۔بعض افطار کے ساتھ کپڑے کا جوڑا بھی پیش کرتے۔صدقہ و خیرات اور افطار میں جہاں پڑوسی اور رشتے داروں کا خیال رکھنا ضروری ہے وہاں آفت زدہ اور مظلوم مسلمانوں کے ساتھ بھی اس اس ضمن میں تعاون کرنا چاہیے۔
ذکرِ کثیر
للہ کا ذکر کرنے کی بہت فضیلت ہے ۔ کوشش کرنی چاہیے کہ نمازِ فجر کے بعد نمازِ اشراق تک بیٹھ کر یا چلتے پھرتے اللہ کا ذکر کیا جائے جس میں کوئی بھی مسنون کلمات پڑھ لیے جائیں۔ اسی طرح نمازِ عصر کے بعد نمازِ مغرب تک کا وقت یا اس کا کوئی ایک حصہ ذکر کے لیے مخصوص کیا جائے۔رسول اللہ ﷺ نے نمازِ فجر کے بعد طلوعِ شمس تک ذکر اور دو رکعت نماز ادا کرنے کا اجر عمرے اور حج کے برابر قرار دیا۔ (سننِ ترمذی) اور نمازِ عصر سے مغرب تک ذکر کرنے کو بنی اسماعیل کے چار غلام آزاد کرانے سے بہتر قرار دیا۔(سننِ ابی داود)اس کے علاوہ چلتے پھرتے جہاں تک ہو سکے ذکر میں مشغول رہا جائے ۔ذکر کی برکت سے روزے کا اجر بھی بڑھا دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : أَيُّ الصَّائِمِينَ أَعْظَمُ أَجْرًا ؟’’روزےداروں میں زیادہ اجر پانے والا کون ہے؟‘‘ فرمایا: »أَكْثَرُهُمْ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ذِكْرًا« (مسندِ احمد)’’ان میں سے اللہ کا زیادہ ذکر کرنے والا‘‘۔