صوفی جمیل الرحمٰن عباسی
ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی، مدیرِ ماہ نامہ مفاہیم، کراچی
جمیعتِ اتحاد کے ۱۹۰۸ ء کے سیکیولر انقلاب کے مخالف انقلاب ۱۹۰۹ء میں برپا کر دیا گیا۔ جمیعتِ ترقی و اتحاد کے لوگوں کو استنبول سے نکال باہر کیا گیا لیکن یہ انقلاب برپا کرنے والے کوئی منظم قوت نہ تھے۔ بعض مورخین کی رائے تو یہ ہے کہ یہ سارا ہنگامہ جمیعت کی طرف سے ایک سازش کے تحت برپا کیا گیا تھا تاکہ اس کی آڑ میں سلطان کو معزول کیا جا سکے۔ (اسرار انقلاب عثمانی، مصطفی طوران) لیکن کم ازکم درجے میں یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ یہ انقلاب نہ ہی کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت عمل میں لایا گیا تھا اور نہ ہی سلطان ان لوگوں کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ بلکہ یہ منتشر لوگوں کی کاروائی تھی۔ان لوگوں نے وزیر اعظم کو معزول کر کے اپنی مرضی کا وزیر اعظم مقرر کیا۔ جمعیت کے جو لیڈر یہاں سے نکالے گئے تھے،ا نھوں نے اپنے مرکز سالونیک کا رخ کیا اور وہاں کی فوج سے مدد طلب کی۔ اب مقدونیہ سے بریگیڈ نمبر ۳، استنبول کی طرف روانہ ہوا، فوجیوں کے علاوہ غیر فوجی انقلابیوں کی ایک بڑی تعداد لشکر میں شامل تھی۔ یہ عثمانی دشمن عناصر تھے جن میں بلغارین، سربیائی، مقدونی، یونانی اور البانی گروہ شامل تھے۔ لشکر کی قیادت شوکت محمود پاشا کر رہا تھا۔ اس لشکر کو جیشِ حرکت کا نام دیا گیا تھا۔
سلطان کو جب اس لشکر کی روانگی کی اطلاع ملی تو انھوں نے استنبول میں موجود فوجوں کو یہ پیغام دیا: ’’یہ جو ہنگامہ کھڑا کیا گیا ہے یہ نہ میری طرف سے ہے اور نہ میں نے اس کا حکم دیا ہے۔بلکہ یہ دشمنوں کی ایک چال ہے۔ تیسرا بریگیڈ استنبول کی طرف چلا آتا ہے۔ وہ تمھارے بھائی اور ترک ہیں۔ دیکھو کوئی بھی ۱۳/ اپریل والے دن کی طرح اسلحہ نہ اٹھائے۔ میں تمام کمانڈروں کا اس کا حکم دیتا ہوں‘‘ ۔
جب انقلابی لشکر استنبول کے نزدیک پہنچا تو شہر میں موجود بریگیڈیر نمبر ایک کے سپاہیوں اور افسران نے اپنے سالار مختار محمود پاشا کی نافرمانی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ کسی صورت سلانیکی لشکر کو استنبول میں داخل نہ ہونے دیں گے اور ڈٹ کراس کا مقابلہ کریں گے۔جب سلطان کو پتا چلا تو انھوں نے فوجیوں کو اپنے سلام کے ساتھ اپنے کمانڈر کی اطاعت کا پیغام کہلا بھیجا۔سلطان نے اپنے حمایتیوں کو سختی سے جنگ کرنے سے منع کیا۔انھوں نے ناظم پاشا اور دیگرافسران سے قسم لی کہ وہ انقلابی لشکر کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔ بریگیڈ نمبر سات کے کمانڈر اسماعیل حقی پاشا فوجوں میں سلطان کا موقف عام کر رہے تھے اور سلطان کی طرف سے عدم تعرض کی قسم دلا رہے تھے۔انقلابی فوجوں اور بالخصوص اس میں شامل غیر قوموں کو دیکھ کر عثمانی فوجوں کے بعض دستے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور انھوں نے انقلابی لشکر پر فائر کھول دیا جس سے محدود سطح پر جھڑپیں ہوئیں جن میں زیادہ تر نقصان عثمانی فوجوں کا ہوا اور بہت سارے سپاہیوں نے جام شہادت نوش کیا۔
۲۵ /اپریل ۱۹۰۹ ءکو سلانیکی لشکر شہر میں داخل ہو نے میں کامیاب ہوا۔ رومی اور بلغارین دستے پہلے پہل شہر میں داخل ہوئے۔ ان کی قیادت انور پاشا اور مقدونی انقلابی لیڈر ساندانیسکی کر رہے تھے۔کمانڈر اسماعیل حقی جو فوجوں کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے،ان کے ساتھ انور پاشا نے بدتمیزی کی، ان کی داڑھی نوچی اور انھیں قید کر دیا گیا۔ متحارب عثمانی فوجیوں میں سے جو بچے کھچے تھے انھوں نے ہتھیار پھینک دیے لیکن ساندانیسکی کے حکم پر اسلحہ پھینکنے والوں کو بھی قتل کر دیا گیا۔
جب قصرِ سلطان کا محاصرہ کیا گیا اور شاہی محل کی محافظ فوجوں نے مقابلے کی اجازت مانگی تو سلطان نے تاریخی جواب دیا: ’’میں جانتا ہوں کہ ان کا ہدف صرف میں ہوں، یا تو وہ مجھے معزول کریں گے یا مجھے قتل کریں گے۔ مجھے ان دونوں میں جو صورت بھی ہو قبول ہے لیکن میں نہیں چاہتا کہ تم لڑائی کرو اور دو طرفہ مسلمانوں کی جانیں ضائع جائیں۔ اس لیے کہ آنے والی مصیبتوں میں ا مت کو تمہاری ضرورت پڑے گی‘‘ ۔اس طرزِ عمل سے سلطان کی دانش مندی کا اظہار ہوتا ہے۔وہ سمجھتے تھے کہ ان کی معزولی تو اصل میں یہ عالمی یہودی ایجنڈا ہے۔ موجودہ حادثات سے کافی پہلے اور ۱۹۰۸ء کے انقلاب کے تقریباً فوری بعد ہی سے صیہونی تنظیمیں، جلسے جلوس اور سیمینار منعقد کرنے لگی تھیں جن میں برملا سلطان عبد الحمید کی معزولی کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ یہود نواز اخبارات بھی بڑھ چڑھ کر سلطان کے خلاف لکھ رہے تھے۔ اس لیے سلطان موجودہ ہلے گلے کے اصل محرک سے واقف تھے۔ بہرحال انور پاشا اور ساندانیسکی بلغارین دستوں کے ساتھ قصرِ یلدز پر حملہ آور ہوئے۔ سلطان کے حمایتیوں کی طرف سے عدمِ مخاصمت کے باوجود انقلابی لشکر نے محل میں لوٹ مار مچائی۔ سونا چاندی، ہیرے جواہرات اور دیگر قیمتی چیزیں لوٹ لی گئیں۔ شاہی خزانے کے نگران نادر آغا اور جوہر آغا کو قتل کر کے خزانہ لوٹ لیا گیا۔ سلطان عبد الحمید رحمہ اللہ کو قید کر دیا گیا اور شہر میں اعلان کر دیا گیا کہ مغرب کے بعد کوئی آدمی اپنے گھر سے نہ نکلے۔
۲۷/ اپریل ۱۹۰۹ء: مجلسِ مبعوثان اور انقلابی اراکین پر مشتمل ’’مجلسِ ملی‘‘ کا خصوصی اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس میں یہ نکتہ زیر بحث لایا گیا کہ آیا سلطان سے استعفی طلب کیا جائے یا انھیں معزول کیا جائے۔ ہر طرف سے معزول معزول کی آوازیں بلند ہوئیں چنانچہ اسی پر اتفاق کیا گیا۔ اب سلطان کی معزولی کے لیے شیخ الاسلام کے فتوی کی ضرورت تھی۔ اگرچہ جمیعت اتحاد و ترقی ذاتی یا اجتماعی سطح پر دین کی عمل داری کا انکار کرتے تھے لیکن سلطان کو معزول کرنے کی مہم میں انھوں نے اسلام ہی کا سہارا لیا۔انھوں نے سلطان پر اسلامی احکامات کی خلاف ورزی، مصاحف کے جلانے، قومی مال کے ضیاع اور ظلم وجور کے بے بنیاد الزام لگائے اور فرضی نام سے درج ذیل استفتا مرتب کرایا گیا : ’’اگر زید مسلمانوں کا امام بنے اور پھر کتبِ شرعیہ میں منقول شرعی احکامات کی نہ صرف خلاف ورزی کرے بلکہ مذکورہ کتابوں کو جمع کر کے انھیں آگ لگا دے۔ اور بیت المال کے معاملے میں اسراف وتبذیر کا رویہ اختیار کرے اور خلافِ شریعت کاموں میں خرچ کرے اور بلاسببِ شرعی کے لوگوں کو قتل و قید اور جلاوطنی میں مبتلا کرے اور اس کے علاوہ بہت سارے مظالم کا ارتکاب کرے پھر وہ قسمیہ طور پر ان کاموں سے توبہ کرے لیکن پھر اپنی قسم توڑتے ہوئے پہلی روش پر گامزن ہو اور فتنہ پھیلائے تاکہ مسلمانوں کی طے کردہ انتظامیہ سے جان چھڑائے۔ ہر خطے کے مسلمانوں کا یہ اصرار ہے کہ زید نامی کو معزول کیا جائے۔ زید کی بقا میں ضرر اور اس کے ہٹانے میں نفع یقینی ہے تو کیا ایسی صورتِ حال میں اہل ِحل و عقد اور اولیاے امر پر واجب ہے کہ زید کو معزول کریں‘‘ ۔اس تفصیلی سوال کا مختصر جواب یوں لکھا گیا تھا: نَعَمْ یَجِبْ ۔ جی ہاں زید مذکور کو معزول کرنا واجب ہے۔ مورخین کی رائے یہ ہے کہ یہ بے سروپا الزام تھے، حتی کہ اتحادی لیڈر طلعت بک تک نے ان الزامات کا انکار کیا۔ پہلے دو الزامات کا جھوٹا ہونا تو پہلی ہی نظر میں معلوم ہو جاتا ہے۔ جہاں تک اسراف کا الزام ہے تو سلطان، شہزادگی ہی کے دور سے بہت مالدار تھے اس کے باوجود دوسرے شاہزادوں اور سلطانوں سے معتدل خرچ کرنے والے تھے بلکہ ذاتی جیب سےبھی امورِ سلطنت میں خرچ کرنےو الے تھے۔ جہاں تک ظلم و جور کے الزام کا تعلق ہے تو یہ سختی ان لوگوں پر کی گئی جو خفیہ تنظیمیں چلاتے تھے اور اس کا الزام بھی انھی کی طرف سے لگایا گیا۔ بہرحال ان الزامات کی روشنی میں دار الافتاء سے سلطان کی معزولی کے جواز کا فتوی مرتب کرایا گیا۔شیخ الاسلام محمد جمال الدین آفندی رحمہ اللہ نے اس فتوی کی تصدیق و تائید کرنے سے انکار کر دیا چنانچہ انھیں اسی دن منصب سے ہٹا کر محمد ضیاء الدین آفندی کو شیخ الاسلام کے منصب پر لا بٹھایا گیا جس نے اس فتوی کی تصدیق و تائید کی۔
اس کار روائی کے بعد مجلسِ ملی میں یہ تحریر پڑھی گئی اور ایک کمیٹی بنا کر اس کے ذمے لگایا کہ وہ سلطان کو مجلس کے متفقہ اعلامیے اور فتوے کی روشنی میں ان کی معزولی کی اطلاع دے۔ اس کمیٹی میں ایمانویل قراصو، جو ہسپانوی الاصل یہودی تھا اور سالانیک اور استنبول کے درمیان اطلاعات کا ذمے دار تھا۔ آرام الارمنی کے علاوہ عارف حکمت، غالبپاشا اور اسعد پاشا شامل تھے۔ جب سلطان کو یہ فیصلہ سنایا گیا تو انھوں نے کہا: ’’مجھے حکومت کے چلے جانے کا دکھ نہیں ہے، دکھ تو مجھے ان لوگوں کی حرکات کا ہے‘‘ ۔پھر آپ نے ایمانویل کی طرف اشارہ کر کے اسعد پاشا سے پوچھا: ’’قصر ِخلافت میں اس یہودی کا کیا کام؟ خلافت کے اس کام میں تم ایک یہودی کو کس طرح میرے سامنے لاتے ہو؟‘‘ ۔ یہود اور فری میسنری نے اس دن کو عید کی طرح منایا اور سلانیک میں اس انقلاب کے حق میں مظاہرے کیے گئے۔ سلطان کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہودی اخبارات نے یہودی قومی سلطنت کے قیام کی بشارتیں شایع کیں۔جمیعتِ اتحاد و ترقی کے ارکان کا دفاع کیا گیا اور انھیں محبِ وطن ثابت کیا گیا تاکہ ان کی حکومت کے لیے ذہن سازی کی جا سکے اور سلطان کی کردار کُشی کی جانے لگی۔
سلطان کو ان کے خاندان کے اڑتیس آدمیوں کے ساتھ ٹرین میں بٹھا کر سلانیک روانہ کر دیا گیا۔سلطان کی تمام زمین و جائداد اور قیمتی چیزیں ضبط کر لی گئیں۔ عام ضرورت کی بھی کوئی چیز سلطان کو ساتھ لے جانے نہیں دی گئی۔ انھیں ایک بڑی عمارت میں نظر بند رکھا گیا، جہاں جاوید بک کو ان کا نگران بنایا گیا۔ یہاں کسی کو آپ سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔آپ کی نگرانی پر مامور ایک افسر دیبریلی نے اپنی یاداشتوں میں بیان کیا کہ سلطان نے کہا: ’’یہودیوں نے مجھے براہِ راست پیشکش کی کہ آپ فلسطین ہمیں دے دیں اور اس کے بدلے جتنا چاہیں سونا ہم سے لے لیں۔ میرا خون کھول اٹھا اور میں نے کہا کہ ’وطن بیچے نہیں جاتے‘۔ میں نے کارندوں کو حکم دیا کہ انھیں قصر ِخلافت سے باہر نکال دیا جائے اور اب جو مجھے سلانیک میں قید رکھا گیا ہے تو یہ اسی کی سزا ہے‘‘ ۔ سلطان نے کسی موقعے پر کہا تھا کہ ’’یہود فلسطین میں صرف زراعتی رقبے قائم کرنے نہیں آ رہے بلکہ وہ یہاں اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے ارادوں سے واقف نہیں ہیں؟ نہیں، بلکہ وہ ہماری نظر میں ہیں۔ہم اپنے تمام شہریوں سے کہتے ہیں کہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام سے چوکنا رہیں‘‘ ۔جمیعتِ اتحاد و ترقی کے بعض لوگ جو جمہوری سوچ تو رکھتے تھے لیکن انتہائی لبرل نہیں تھے، انھیں بعد میں اپنی غلطی کا ادراک ہوا۔چنانچہ ایک بار انور پاشا نے جمال پاشا سے کہا کہ ’’کیا تم جانتے ہو ہمارا گناہ کیا ہے؟ ہم نے سلطان عبد الحمید کو نہیں پہچانا۔ ہم صیہونیت اور فری میسنری کے آلۂ کار بن گئے اور ہم نے یہودیت کی خدمت کی، یہی ہمارا اصلی گناہ ہے‘‘ ۔ایوب صبری جو انقلابیوں کے ایک لیڈر تھے انھوں نے افسوس کرتے ہوئے کہا: ’’ہم اس وقت یہود کے ہاتھوں چند لیروں کے عوض بک رہے تھے جب سلطان لاکھوں کی مالی امداد کو ٹھکرا رہے تھے‘‘ ۔
معزولی کے بعد سلطان عبد الحمید رحمہ اللہ نےاپنے شیخ حضرت ابو شامات محمود الشاذلی رحمہ اللہ کو ایک خط تحریر کیا جس میں انھوں نے یہود کی کوششوں اور اپنے جواب کا ذکر کرتے ہوئے لکھا : ’’جمیعتِ اتحاد وترقی کے کارپردازان نے مجھے آمادہ کرنا چاہا کہ میں یہودیوں کے قومی وطن کی تشکیل میں ان کی مدد کروں۔ ان کے پرزور اصرار کے باوجود میں نے اس کام کی ہامی نہیں بھری۔اس پر انھوں نے مجھے لالچ دینا چاہا کہ اگر میں یہودیوں کو فلسطین میں قیام کی اجازت دوں تو سلطنت کے ذمے واجب الادا ایک سو پچاس ملین پاؤنڈ قرض ادا کر دیا جائے گا۔ میں نے یہ بھی نہ مانا اور صاف جواب دیا: ’’اگر تم دنیا بھر کا سونا مجھے دے دو تب بھی میں ہر گز ہرگز اس مکروہ دھندے میں شامل نہ ہوں گا۔ میں نے تیس سال سے زیادہ امت کی خدمت کی ہے، اب میں مسلمانوں کے صحیفے سیاہ نہ کروں گا‘‘ ۔ میرے اس جواب پر ان لوگوں نے مجھے معزول کرنے پر اتفاق کر لیا اور مجھے آگاہ کر دیا گیا کہ مجھے سالونیک کی طرف جلاوطن کر دیا جائے گا۔ میں نے یہودیوں کے مقاصد پورا کرنے کے بجائے جلاوطنی اور معزولی کو پسند کیا۔ میں ربِّ کریم کا شکر ادا کرتا ہوں اور اسی کی حمد کرتا ہوں کہ جس کی توفیق نے مجھے (حکومت یا روپے کے) لالچ میں آکر عالمِ اسلامی کی ملامت اور یہودیوں کی چاکری کے عار اور عالم ِاسلام کی پھٹکار سے محفوظ رکھا‘‘ ۔
کتابیات
تاریخ دولة عثمانیة،یلماز اوزتونا، مترجم:عدنان محمود سلمان
السلطان عبد الحمید و هرتزل، دکتور بها الأمیر
الدولة العُثمانية – عَوَاملُ النهُوض وأسباب السُّقوط، عَلي محمد محمد الصَّلاَّبي
القدس و المسجد الأقصی عبر التاریخ، دکتور محمد علي البار
المفصل في تاريخ القدس، عارف العارف
أسرار انقلاب عثماني، مصطفی طوران