﴿وَالَّذِینَ لَا یَشهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغوِ مَرُّوا کِرَامًا﴾
’’اور (رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے اور جب کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں‘‘۔
تفسیر وتوضیح
سورة الفرقان کی آخری آیات میں اللہ تعالیٰ کے مخصوص اور مقبول بندوں کے خاص اوصاف کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ ان اوصاف کے بیچ میں گناہوں میں مبتلا ہونے کے بعد توبہ کرلینے کے احکام کا ذکر آیا اور اب باقی اوصاف میں سےیہاں حسب بالا مذکورہ آیت کے مطالعےکے ضمن میں ایک اور وصف کا ذکر کیا جائے گا۔
﴿وَالَّذِینَ لَا یَشهَدُونَ الزُّورَ﴾’’اور (رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے‘‘۔ قرآنِ کریم میں اصل لفظ ” زُوْر “ استعمال ہوا ہے جسکا مادہ زا، واؤ، را، پر مشتمل ہے، اسکے معنی ہیں ٹیڑھا ہونا۔اسی سے ’’زُوْر‘‘ ہے، یعنی جھوٹ؛ اس لیے کہ جھوٹ میں حق سے روگردانی اور اس کے خلاف باطل کی طرف جھکاؤ ہوتا ہے۔(معجم مقاييس اللغة،ج: ۳، ص:۳۶) اسی طرح جھوٹی گواہی کے لیے شہادۃ الزور کے الفاظ آتے ہیں۔ یہاں مذکورہ آیتِ کریمہ میں ’’زُوْر‘‘ کے مصداق میں مختلف اقوال ہیں؛حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما، ابو العالیہ، طاؤس، محمد بن سیرین، ضحاک، ربیع بن انس رحمہم اللہ نے فرمایا کہ اس سے مراد مشرکین کی عیدیں ہیں۔ (قرطبی، ج:۱۳، ص:۷۹،ابنِ کثیر:ج:۶، ص:۱۳۰) مجاہد اور محمد بن حنفیہ رحمہما اللہ نے فرمایا کہ اس سے مراد گانے بجانے کی محفلیں ہیں۔ (قرطبی، ج:۱۳، ص:۸۰) عمرو بن قیس رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بے حیائی اور ناچ رنگ کی محفلیں مراد ہیں ۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ نے زہری رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ اس سے شراب پینے پلانے کی مجلسیںمراد ہیں۔ (ابنِ کثیر، ج:۶، ص:۱۳۰) حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے ایک تفسیر یہ بھی منقول ہےکہ یہاں زُوْر کی مجالس سے ایسی مجالس مراد ہیں، جن میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر جھوٹ باندھا جائے۔ (رازی، ج: ۲۴، ص:۴۸۷) مذکورہ بالا اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر باطل اور معاصی پر مشتمل محفل ”زُوْر“ میں داخل ہے۔مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے تفسیر ِمظہری کے حوالے سے نقل فرمایا ہے کہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ ان اقوال میں کوئی اختلاف نہیں، یہ ساری ہی مجلسیں مجلسِ زُوْر کی مصداق ہیں۔ اللہ کے نیک بندوں کو ایسی محفلوں ہی سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ لغو اور باطل کا بالقصد دیکھنا بھی اس کی شرکت کے حکم میں ہے‘‘۔ (معارف القرآن، ج:۶، ص:۵۰۷)بعض مفسرین نے﴿لَا یَشهَدُونَ الزُّورَ﴾میں شہادت کے الفاظ سے گواہی مراد لی ہے اور آیت کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ یہ لوگ یعنی اللہ تعالیٰ کے منتخب بندے جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ کیونکہ جھوٹی گواہی گناہ کبیرہ ہے اور قرآن وسنت میں اس کی شدید مذمت آئی ہے۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الكَبَائِرِ» قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ» وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ فَقَالَ: «أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ، أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ» فَمَا زَالَ يَقُولُهَا، حَتَّى قُلْتُ: لاَ يَسْكُتُ.(بخاری، ۵۹۷۶) ’’کیا میں تمھیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ضرور بتائیں، آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ نبی کریم ﷺ اس وقت ٹیک لگائے ہوئے تھے، اب آپ ﷺ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا: آگاہ ہوجاؤ جھوٹی بات بھی اور جھوٹی گواہی بھی! آگاہ ہوجاؤ جھوٹی بات بھی اور جھوٹی گواہی بھی! نبی کریم ﷺ اسے مسلسل دہراتے رہے اور میں نے سوچا کہ اب نبی کریم ﷺ خاموش نہیں ہوں گے (یعنی نبی کریم ﷺ کی بے چینی مجھ سے نہیں دیکھی جاتی تھی)‘‘۔ لہذا جھوٹی گواہی کی شناعت کو دیکھتے ہوئے بعض حضرات نے آیتِ مذکورہ میں﴿لَا یَشهَدُونَ الزُّورَ﴾سے مراد جھوٹی گواہی لی ہے۔ مگر یہاں سیاق وسباق کی رعایت سے پہلے معنیٰ زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں اور ا مام ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے بھی شہادۃ الزور کے بجائے پہلے والے معنیٰ کو ترجیح دی ہے، فرماتے ہیں:والأظهر من السياق أن المراد: لا يشهدون الزور، أي: لا يحضرونه.(ابنِ کثیر، ج:۶، ص:۱۳۰) ’’سیاق وسباق سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ’’زُوْر‘‘ سے مراد بے ہودہ کاموں میں حاضر ہونا ہے، یعنی وہ لوگ لغو محافل میں حاضر نہیں ہوتے‘‘۔
غیر مسلموں کے تہواروں اور دیگر معاصی کی محفلوں میں شرکت
یہاں مذکورہ بالا اقوال میں مشرکین کی عیدوں میں شرکت اور اسی طرح عمومی اعتبار سے فساق کی مجالس میں شرکت کو بھی ’’زُوْر‘‘ کا مصداق قرار دیا گیا ہے۔ موجودہ زمانے کے اعتبار سے یہ اہم رہنما نکتہ ہے، کیونکہ آج کل یہ فتنہ عام ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رواداری کی آڑ میں غیر مسلموں کی عیدوں اور تہواروں میں شریک ہوتی ہے۔ اسی طرح معاصی سے بھرپور محفلوں میں شرکت کی شناعت بھی دلوں سے محو ہوگئی ہے اور اسے معمول کی زندگی کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ امام رازی رحمہ اللہ تفسیر ِکبیر میں اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:ويحتمل حضور كل موضع يجري فيه ما لا ينبغي ويدخل فيه أعياد المشركين ومجامع الفساق، لأن من خالط أهل الشر ونظر إلى أفعالهم وحضر مجامعهم فقد شاركهم في تلك المعصية، لأن الحضور والنظر دليل الرضا به، بل هو سبب لوجوده والزيادة فيه، لأن الذي حملهم على فعله استحسان النظارة ورغبتهم في النظر إليه.(رازی، ج: ۲۴، ص: ۴۸۷) ’’یہاں ’’مجالسِ زور‘‘ میں ہر اس جگہ اور ہر اس مجلس میں شرکت کا احتمال موجود ہے جس میں حاضر ہونا جائز نہیں ہے۔ لہذا اس میں مشرکین کی عیدیں اور فساق کے اجتماعات بھی داخل ہیں، اس لیے کہ ہر وہ شخص جو اہل الشر کے ساتھ اختلاط رکھتا ہے اور ان کے افعال کو (بنظرِ استحسان) دیکھتا ہے اور ان کی محفلوں میں حاضر ہوتا ہے تو وہ لازمی طور پر اس گناہ میں ان کے ساتھ شریک ہوگا۔ اس لیے کہ ایسے مواقع پر حاضر ہونا اور انھیں دیکھنا اس پر رضامندی کی دلیل ہے، بلکہ اس کے وجود اور اس میں اضافے کا سبب ہے، کیونکہ درحقیقت ان محافل کو اچھا سمجھنا اور ان میں دلچسپی ظاہر کرنا ان کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے‘‘۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں میں اور اسی طرح ایسی محفلوں میں جہاں کھلے عام معاصی کا ارتکاب ہو رہا ہو، شریک ہونا کسی طرح جائز نہیں ہے، کیونکہ ایسی محافل میں شریک ہونے سے گناہوں میں پڑنے کے واضح امکانات موجود ہیں۔ اگر گناہ کے ارتکاب سے بچ بھی جائے تب بھی اس کے اثرات سے محفوظ ہونا ممکن نہیں ہے اور کم ازکم یہ طرزِ عمل ان کی حوصلہ افزائی کا باعث ضرور بنے گا، اس لیے اہل اسلام کو ایسی مجلسوں میں شرکت سے گریز کرنا چاہیے۔
﴿وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغوِ مَرُّوا کِرَامًا﴾’’اور جب کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں‘‘۔ یہاں ’’لغو‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، جن کے معنی میں امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:الأصح أن اللغو كل ما يجب أن يلغى ويترك، ومنهم من فسر اللغو بكل ما ليس بطاعة، وهو ضعيف لأن المباحات لا تعد لغوا.(رازی،ج:۲۴، ص:۴۸۶) ’’لغو کی درست تفسیر یہ ہے؛ہر وہ کام لغوہے جسے چھوڑنا واجب ہو، جبکہ بعض حضرات نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ لغو ہر اس کام کو کہا جاتا ہے جو ثواب کا کام نہ ہو، یہ تفسیر کمزور ہے، اس لیے کہ مباحات لغو میں شامل نہیں ہیں‘‘۔ اس تفسیر کے مطابق ’’لغو‘‘ کا مفہوم ہے معصیت پر مشتمل کام، جس کی شناعت قرآن وسنت سے واضح ہے۔ اسی طرح یہاں ’’کراماً‘‘ کا مفہوم بھی واضح ہے، یعنیوہ لوگ جو لغو کام سے اعراض کرتے ہیں اور اس پر راضی نہیں ہیں، اس طرح کی مجالس کی طرف مائل ہوتے ہیں اور نہ ہی اس میں مشغول ہونے والوں کے ساتھ نشست وبرخواست رکھتے ہیں‘‘۔ (قرطبی، ج:۱۳، ص:۸۰) اس کی وضاحت قرآنِ کریم میں ایک اور جگہ اس طرح آئی ہے:﴿وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقالُوا لَنا أَعْمالُنا وَلَكُمْ أَعْمالُكُمْ سَلامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجاهِلِينَ﴾(سورۃ القصص: 55) ’’اور جب وہ کوئی بےہودہ بات سنتے ہیں تو اسے ٹال جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں، اور تمہارے لیے تمہارے اعمال۔ ہم تمھیں سلام کرتے ہیں، ہم نادان لوگوں سے الجھنا نہیں چاہتے‘‘۔بہر حال، یہاں عباد الرحمٰن کا یہ وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ بے ہودہ مجالس سے اعراض کر کے اور ان کے انعقاد میں کسی قسم کے تعاون سے بچتے ہوئے دور رہتے ہیں۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ کہیں سے گزر رہے تھے کہ راستے میں گانے کی آواز آئی تو انھوں نے چلنے کی رفتار تیز کردی اور وہاں سے جلدی نکل گئے۔ جب حضور ﷺ کو یہ خبر ملی تو آپ ﷺ نے فرمایا:«لقد أصبح ابن أم عبد كريما»’’بے شک ام عبد کا بیٹا (ابن مسعود) کریم یعنی باوقار طرز عمل کے مالک ہیں‘‘ اور پھر مذکورہ آیت تلاوت فرمائی۔ (المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز،ج:۴، ص:۲۲۲) اسی طرحاللہ تعالیٰ کے نیک بندے جہاں کسی ناجائز، لغو اور بےہودہ کام میں شامل نہیں ہوتے، وہاں ان لوگوں کی تحقیر بھی نہیں کرتے، جو ان کاموں میں مبتلا ہیں، بلکہ ان کا طرز عمل تو یہ ہوتا ہے کہ برے کام کو برا جانتے ہوئے وقار ومتانت کے ساتھ وہاں سے گذر جاتے ہیں۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اوران میں یہ بات ہے کہ وہ بے ہودہ باتوں میں (جیسے لہو ولعب خلافِ شرع ) شامل نہیں ہوتے اور اگر (اتفاقاً بلا قصد) بے ہودہ مشغلوں کے پاس ہو کر گزریں تو سنجیدگی (وشرافت) کے ساتھ گزر جاتے ہیں (یعنی نہ اس کی طرف مشغول ہوتے ہیں اور نہ ان کے آثار سے عاصیوں کی تحقیر اور اپنا ترفع اور تکبر ظاہر ہوتا ہے)‘‘۔ (بیان القرآن، ج:۳، ص:۳۳)