مدیر
مدیر ماہنامہ مفاہیم، کراچی
ایک بار نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی:«اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَاوَفِي يَمَنِنَا» ’’اے اللہ ہمارے شام اور ہمارے یمن میں ہمیں برکت عطا فرما‘‘۔ لوگوں نے عرض کی: ’’یا رسول اللہ! ہمارے نَجد کے لیے بھی دعا فرمایئے‘‘۔ آپ ﷺ نے انکار تو نہ فرمایا لیکن پہلے والی دعا ہی کو دہرایا:«اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا وَفِي يَمَنِنَا» ’’اے اللہ ہمارے شام اور ہمارے یمن میں ہمیں برکت عطا فرما‘‘۔ لوگوں نے بارگاہِ رسالت میں دوبارہ نجد کے لیے دعا کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: «هُنَاكَ الزَّلاَزِلُ وَالفِتَنُ وَبِهَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ»’’یہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور یہیں سے شیطان کا سینگ ظاہر ہو گا‘‘۔(صحیح بخاری)
غور کیجیے شام اور یمن کی برکت کے مقابلے میں آپ ﷺ نے زلزلوں اور فتنوں کا ذکر فرمایا، بادی النظر میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی علاقے کے بابرکت ہونے کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ زلزلوں اور فتنوں سے محفوظ ہو اور کسی علاقے کی برکت سے محرومی کثرت فتن و زلازل کو مستلزم ہے، لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔اس لیے کہ باجود اپنی برکت کے، تاریخی طور پر کئی بار ارضِ شام کو نہ صرف قدرتی آفات ومصائب مثلًا زلزلے وغیرہ سے دوچار ہونا پڑا بلکہ کئی بار اس ارضِ مقدس کو انسانی مصائب یعنی تاخت و تاراج کا سامنا بھی کرنا پڑا۔تو بابرکت ہونا ایک الگ بات ہے اور آزمائش سے دوچار ہونا ایک الگ بات ہے۔حدیثِ مندرجہ بالا میں برکت ِ شام کے مقابلے میں نجد کے زلزلے کو جو پیش کیا گیا تو اس کی آسان توجیہہ یہ ہے کہ زلزلے مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔ کبھی تو باعثِ فتنہ ہوتے ہیں اور کبھی باعثِ فتنہ نہیں ہوتے۔ کبھی یہ فتنے کا نتیجہ ہوتے ہیں اور کبھی فتنے کا نتیجہ نہیں بھی ہوتے۔ کبھی یہ گناہوں کی سزا کے طور پر آتے ہیں اور کبھی یہ رحمتوں میں اضافے کے ذریعے کے طور پر نازل کیے جاتے ہیں۔ پس زلزلہ بابرکت علاقے یا مسلمان شخص پر بھی آئے گا اور زلزلہ کسی کافر یا ظالم شریر خطے پر بھی آئے گا، لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ ایک کے لیے رحمت ہو اور ایک کے لیے زحمت۔ اور رحمت و زحمت ہونے کا انحصار زلزلے کی نوعیت و شدت پر نہیں بلکہ اس قوم و ملک کی حالتِ نفسی پر ہو گا، اور اس حالت کے جانچنے کا کوئی پیمانہ ہمارے پاس نہیں بلکہ خالقِ حقیقی کے پاس ہے اور وہی دلوں کے بھید سے واقف ہے۔ ہم تو ظاہر کے مطابق حکم لگائیں گے اور حکم بھی فرامینِ رسول ﷺ کی روشنی میں لگائیں گے۔اب ظاہری صورتِ حال یہ ہے کہ اہلِ ترک و شام، ہماری طرح مسلمان ہیں۔ ان پر آنے والا زلزلہ کافروں پر آنے والے زلزلے کی مانند نہیں بلکہ ’’مسلمان زلزلے‘‘ کی طرح ہے کہ جو بعضوں کی بخشش اور بعضوں کے درجات کی بلندی کے لیے لایا جاتا ہے۔اس ضمن میں چند باتیں یاد رکھنے کی ہیں:پہلی بات یہ ہے کہ دنیا آزمائش و امتحان کی جگہ ہے۔اور امتحان و آزمائش اچھے حالات میں بھی ہوتی ہے اور برے حالات میں بھی۔قرآن مجید میں فرمایا گیا:﴿وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ﴾(الانبیاء:35)’’اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کریں گے، آخرکار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے‘‘۔تو اصل جزا و سزا تو اللہ کی طرف لوٹائے جانے کے بعد ہے، اس سے پہلے جو کچھ بھی ہے وہ آزمائش ہی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا بَلَاءٌ وَفِتْنَةٌ» (سنن ابنِ ماجہ) ’’دنیا میں کچھ بھی باقی نہیں بچا مگر ابتلا کے اور آزمائش کے‘‘۔اس حدیث کا مطلب ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے آزمائشیں اور فتنے لامحالہ واقع ہو کر رہیں گے۔
دنیاوی آزمائشوں کو عذاب بھی کہا گیا ہے لیکن دنیا کا یہ عذاب آخرت کے اعتبار سے رحمت ہی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«أُمَّتِي هَذِهِ أُمَّةٌ مَرْحُومَةٌ لَيْسَ عَلَيْهَا عَذَابٌ فِي الْآخِرَةِ عَذَابُهَا فِي الدُّنْيَا الْفِتَنُ وَالزَّلَازِلُ وَالْقَتْلُ»(سنن ابی داؤد) ’’میری امت پر رحم کیا گیا ہے کہ اس پر آخرت کا عذاب نہیں ہے بلکہ اس کا عذاب دنیا ہی میں ہے اور وہ فتنے، زلزلے اور قتل وغیرہ ہے‘‘۔ یہ بہت اہم روایت ہے کہ ایک طرف تو دنیاوی مصائب کو عذاب قرار دیا گیا لیکن دوسری طرف دنیا کے اس عذاب کو رحمت بھی قرار دے دیا گیا بایں معنی کہ اس سزا کے ملنے کے بعد آخرت کے عذاب سے امت کو رستگاری ملے گی اور یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مظہر ہے۔ایک حدیثِ پاک میں دنیاوی سزا کو بہتر قرار دیا گیا اس لیے کہ دنیا کی سزا آخرت کی شدید سزا سے انسان کو بچاتی ہے: «إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدِهِ الْخَيْرَ عَجَّلَ لَهُ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدِهِ الشَّرَّ أَمْسَكَ عَنْهُ بِذَنْبِهِ حَتَّى يُوَافِيَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» (سننِ ترمذی)’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو دنیا ہی میں سزا دے دیتا ہے اور جب اللہ کسی بندے سے برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے گناہ کی سزا کو آخرت تک موخر کر دیتا ہے پھر آخرت میں اسے بھرپور سزا دے گا‘‘۔
دنیا کے عذاب یا سزائیں گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہیں۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«لَا يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ مِنْ مُصِيبَةٍ حَتَّى الشَّوْكَةِ إلا قُصَّ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ أَوْ كُفِّرَ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ»(صحیح مسلم)’’بندۂ مومن کو کوئی مصیبت نہیں پہنچتی یہاں تک کہ اسے ایک کانٹا بھی چبھتا ہے مگر اس کی وجہ سے اس کے گناہ جھاڑ دیے جاتے ہیں‘‘۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«إِذَا كَثُرَتْ ذُنُوبُ الْعَبْدِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ مَا يُكَفِّرُهَا ابْتَلَاهُ اللَّهُ بِالْحُزْنِ لِيُكَفِّرَهَا عَنْهُ»(مسندِ احمد)’’جب بندے کے گناہ زیادہ ہو جائیں اور کفارے کا کوئی راستہ نہ ہو تو اللہ اسے دکھوں سے آزماتا ہے تاکہ اس کے گناہ معاف کر دے‘‘۔ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیاوی آزمائشوں سے مسلمان کے درجات بھی بلند ہوتے ہیں فرمایا:«مَا يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ مِنْ شَوْكَةٍ فَمَا فَوْقَهَا إِلا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً، أَوْ حَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً»(صحیح مسلم) ’’بندۂ مومن کو ایک کانٹا بھی چبھتا ہے یا اس سے بڑھ کو کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے مگر اس کی وجہ سے یا تو اللہ اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے یا اس کا ایک گناہ معاف فرماتا ہے‘‘۔ دنیاوی آزمائشیں درجات کی بلندی کے لیے بھی ہوتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَهُ مِنْ اللهِ مَنْزِلَةٌ لَمْ يَبْلُغْهَا بِعَمَلِهِ ابْتَلَاهُ اللهُ فِي جَسَدِهِ أَوْ فِي مَالِهِ أَوْ فِي وَلَدِهِ ثُمَّ صَبَّرَهُ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى يُبَلِّغَهُ الْمَنْزِلَةَ الَّتِي سَبَقَتْ لَهُ» (مسندِ احمد)’’جب اللہ تعالی کسی بندے کےلیے کسی درجے کا فیصلہ فرما دیتا ہے اور وہ بندے اس مقام کا حامل نہ ہو تو اس کے جسم، اس کی اولاد اور اس کے مال میں اسے آزما کر اسے صبر کی توفیق دیتا ہے یہاں تک (کہ اس صبر کی بدولت) وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے‘‘۔
دنیا میں دکھ درد اور ابتلا حسبِ دین آتاہے۔رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا سب سے بڑی مشکلات کس کی ہوتی ہیں؟ فرمایا: «الأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ فَيُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ فَإِنْ كَانَ دِينُهُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلاَؤُهُ وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ اُبْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ فَمَا يَبْرَحُ الْبَلاَءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الأَرْضِ مَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ»(سننِ ترمذی) ’’سب سے بڑی مشکلات انبیا کی ہوتی ہیں، پھر ان کے کم رتبے والوں کی، پھر ان سے کم رتبے والوں کی او ر پھر ان سے بعد والوں کی۔ اور اللہ تعالی بندے کو اس کے دین کی مضبوطی کے حساب سے ہی آزماتا ہے۔ اگر اس کادین مضبوط ہو تو آزمائش سخت کرتا ہے اور اگر دینداری ہلکی ہو تو آزمائش بھی ہلکی کرتا ہے۔ اور بندے پر مشکلات آتی رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس کے جسم پر کوئی گناہ باقی نہیں بچتا‘‘۔
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جتنی بڑی مصیبت آئے گی اتنا ہی اجر بھی بڑا عطا کیا جائے گا اور یہ آزمائشیں اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ لوگوں پر بھیجتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«إِنَّ عِظَمَ الجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ البَلاَءِ، وَإِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلاَهُمْ، فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا، وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السَّخَطُ»(سننِ ترمذی)’’بے شک اجرِ عظیم بڑی آزمائش ہی کے ساتھ ہے اور جب اللہ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اس کو آزماتا ہے، پس جو آزمائش پر راضی رہا تو اس کے لیے اللہ کی رضا ہے اور جو آزمائش پر ناراض ہوا تو اس کے لیے اللہ کی ناراضی ہے‘‘۔ایک روایت میں آتا ہے:«إِنَّ اللهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ، فَمَنْ صَبَرَ فَلَهُ الصَّبْرُ، وَمَنْ جَزِعَ فَلَهُ الْجَزَعُ»(مسندِ احمد)’’جب اللہ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انھیں آزماتا ہے، پس جو صبر کرے گا اسے صبر کی توفیق دی جائے گی اور جو جزع فزع کرے گا اس کے لیے جزع فزع ہی ہے۔ آزمائشوں کی بہت سارے فائدے ہیں لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرنا چاہیے کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ آزمائش میں صبر نہ کر سکے۔