لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

مولانا حافظ حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر، ماہنامہ مفاہیم، کراچی

جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے

قسط نمبر ۳

مراد خان ثانی(۱۴۰۴۔۱۴۵۱)

مراد خان بحر اسود سے متصل شہر اما سیا میں پیدا ہوئے۔ ادرنہ، بورصا، اور اماسیا کے شیوخ سے علم حاصل کیا۔ انھیں خداداد قابلیت کی بدولت ۱۴۱۵ء میں پہلی دفعہ سرکاری ذمے داری دی گئی ۔ کم سنی سے ہی شعر وشاعری کا عمدہ ذوق تھا۔ ۱۴۲۱ء میں اپنے والد محمد خان چلپی کی وفات پر بورصا واپس آکر تخت سنبھالا۔ اس وقت  مراد خان  کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ سلطان مراد خان کے تخت نشین ہوتے ہی بازنطینیوں نے سازشیں شروع کردیں، مصطفیٰ نامی شخص جو خلافت کا دعوے دار تھا اور اس سے قبل سلطان محمد خان چلبی سے بھی شکست کھا چکا تھا۔ شہنشاہ قسطنطنیہ کی تحریک پر دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے ایک لشکر ترتیب دیا اور رومیلی پر قابض ہوگیا۔ پہلے مقابلے میں عثمانی افواج مصطفیٰ سے شکست کھا گئیں ۔ اس فتح سے حوصلہ پاکر مصطفیٰ نے بورصا پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی اور لشکر لےکر روانہ ہوا، لیکن شکست کھائی اور قتل کردیا گیا۔

سلطان مراد خان ثانی شہنشاہ قسطنطنیہ کی اس بدعہدی سے بہت غضبناک ہوا اور قسطنطنیہ کا محاصرہ کرلیا۔ عثمانیوں نے دوران محاصرہ ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن بازنطینی قوت کے آگے ان کی پیش نہ گئی۔ قسطنطنیہ بازنطینیوں کے لیے بہت مقدس قلعہ تھا جس کی تقدیس کے خاطر وہ کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ عیسائی سپاہیوں نے اس موقعے پر جس جانبازی اور استقامت کا مظاہرہ کیا اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ جب محاصرہ طول پکڑ گیا تو شہنشاہ نے ایک سازش ترتیب دی اور امیر کرمانیہ کی مدد سے سلطان مراد خان ثانی کے چھوٹے بھائی کو خلافت کے دعوے دار کے طور پر کھڑا کردیا۔ مراد خان ثانی اس افتاد سے نمٹنے کے لیے محاصرہ اٹھا کر بورصا پہنچا اور بغاوت کو فروکیا، اب کی بار سلطان نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر نے کے بجائے صلح پر اکتفا کیا۔ اس کے بعد سلطان نے سالونیکا اور سرویا کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔ ۱۴۳۰ء میں سلانیک فتح ہوا تو مراد ثانی کی حکومت کو دس سال ہونے والے تھے۔ اس پورے عرصے میں ایک دشمن خاموشی کے ساتھ جنگ کی تیاریوں میں مشغول رہا جو عثمانیوں پر کاری ضرب لگانے کا منتظر تھا، یہ دشمن ملک ہنگری تھا۔ سرویا کی فتح کے بعد ہنگری کے ساتھ معمولی چھڑپیں ہوئیں لیکن جنگ کی نوبت نہیں آئی، ہنگری کے ساتھ بوسنیا ، البانیا اور ولاچیا بھی عثمانیوں کو یورپ سے بے دخل کرنے اور خود مختاری حاصل کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ لیکن عیسائی ریاستوں کے آپس میں متحد نہ ہونے کی وجہ سے یہ ساری کوششیں رائیگاں چلی جاتی تھیں۔ ۱۴۴۰ء میں پولینڈ کا بادشاہ لاڈسلاس ہنگری کے تخت پر بیٹھا اور جنگ کا منصوبہ ترتیب دینے لگا، اسی زمانے میں ایک مشہور عیسائی جنرل ہونیاڈے جس کی جنگی مہارت کے چرچے ہر طرف ہو رہے تھے، ہنگری آ پہنچا، جنرل ہونیاڈے نے تمام مخالف قوتوں کو اکٹھا کیا۔ ہنگری کے تیور دیکھ کر مراد خان ثانی ہنگری پر لشکر کشی کے لیےروانہ ہوا، ہنگری پر حملے کے لیے بلغرادکو فتح کرنا ضروری تھا ۔ اس لیے سلطان نے پہلے بلغرادپر حملہ کیا لیکن ناکام ہوا۔ اس عرصے میں ہونیاڈے نے ایک بڑے ترک لشکر پر حملہ کردیا جو ایک قلعے کی محاصرے پر مامور تھا۔ ترک لشکر ہونیاڈے کا مقابلہ نہیں کرسکا اور بدترین شکست سے دوچار ہوا،ہونیاڈے اور اس کی لشکر نے ترک سپاہیوں کی بھاری اکثریت کو قتل کردیا۔ یہ فتح ہونیاڈے کی ترکوں کے خلاف پہلی کامیابی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ہونیاڈے انتہائی سفاک اور ظالم سپہ سالار تھا جسے ہر کچھ دیر بعد قیدیوں کا لہو بہانے میں لذت ملتی تھی، بالخصوص کھانا کھانے سے قبل وہ اپنے سامنے کچھ قیدیوں کو ضرور قتل کرواتاتھا، ترکوں کی اس شکست نے مخالفین کے حوصلے بلند کر دئے۔ ہونیاڈے نے عیسائی دنیا میں ایک نئی روح پھونک دی اور ہنگری ،بوسنیا ، پولینڈ، ولاچیا، سرویا، فرانس ،جرمنی سمیت دیگر پورپی ممالک کے فوجی دستے ایک جھنڈے جمع ہونے لگے۔ اس زبردست صلیبی اتحاد کے لیے بھاری مقدار میں مالی امداد فراہم کردی گئی۔ جمہوریہ وینس اور دیگر ممالک نے جنگی بیڑے فراہم کیے۔ مراد ثانی کے افواج اس وقت کرمانیہ کی بغاوت کچلنے میں مشغول تھیں، اگر چہ متحد صلیبی افواج کی سربراہی شاہِ پولینڈ و ہنگری لاڈسلاس کے پاس تھی لیکن عملاً ان کی قیادت جنرل ہونیاڈے کر رہا تھا۔اسی جنرل کے ہاتھوں عثمانیوں کی پے درپے شکستوں کا آغاز ہوا۔ یہ لشکرِ جرار متعدد علاقوں کو تاراج کرتا ہوا دریاے ڈینوب عبورکر گیااور نیش کے مقام پر صف بستہ ہوا۔ یہاں ایک خونریز مقابلے کےبعدعثمانیوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔اس کے بعد ہونیاڈے نے صوفیا قبضہ کیا، اورپھر کوہِ بلقان میں ہونیاڈے نے ترک لشکر کو جا لیا۔ عثمانی سپاہیوں نے جم کر مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن اتحادی افواج نے انھیں گھیر لیا۔ کوہِ بلقان کے مشکل راستوں میں لڑتے اور بھاگتے بڑی تعداد میں عثمانی تہِ تیغ ہوئے۔

اب ایک طرف مسلسل ناکامیوں نےعثمانی لشکر کی کمر توڑ دی تھی تو دوسری طرف بغاوت کچلنے میں مشغول افواج کو کہیں اور منتقل کرنا محال تھا۔ اتحادی افواج کی خواہش تھی کہ فتوحات کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے اور لشکر آگے بڑھتا رہے لیکن ہونیاڈے کے غرور نے اس کی عقل پر پردہ ڈال دیا۔ اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر عثمانیوں کوصفحۂ ہستی سے مٹا دینے کا خواب پورا کیا جا سکتا تھا، لیکن ہونیاڈے اپنی فتوحات کا جشن منانا چاہتا تھا اس لیے اتحادی لشکر کو لےکر واپس روانہ ہوگیا۔

 مراد خان نے اس صورتِ حال کو دیکھ کر اتحادی افواج سے صلح کی درخواست کی، چنانچہ دونوں فوجوں میں ایک معاہدہ ہوا۔ یہ  معاہدہ؛ زیجڈین کے مقام پر ہوا اس لیے اس کو ’’صلح نامہ ٔزیجڈین‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق دونوں فریقوں میں دس سال جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا، وہ سرویا جسے نہایت تگ ودو کے بعد عثمانیوں نے حاصل کیا تھا، سلطنت سے آزاد کر دیا گیا، ولاچیا ہنگری کو دے دیا گیا، نیز بھاری مقدار میں رقم بھی ادا کی گئی۔ اس سانحے کے بعد مراد خان ثانی نے دل برداشتہ ہوکر تخت چھوڑ دیا۔ صلح ۱۴۴۴ءمیں ہوئی اور اسی سال مراد ثانی نے اپنے 14 سالہ بیٹے محمد خان کو تخت پر بٹھا دیا۔ کم سن سلطان کی تخت نشینی اور مراد خان کی کنارہ کشی نے شاہِ ہنگری کو شیطنت پر آمادہ کیا اور وہ اتحادیوں کو صلح نامے کی خلاف ورزی پر اکسانے لگا۔ جب اتحادی غداری اور دھوکہ دہی پر آمادہ نہ ہوئے تو پاپائے اعظم کے فتوے کا سہارا لیا گیا۔ شاہِ سرویا، شاہِ ہنگری اور جنرل ہونیاڈے نے دوبارہ لشکر ترتیب دیا۔ شاہِ ہنگری فوری طور پر حملہ کرنا چاہتا تھا لیکن ہونیاڈے نے اسے روک دیا۔ صلح نامے کے مطابق عثمانی لشکروں کو بہت سے قلعے بھی اتحادی لشکروں کے حوالے کرنے تھے اور عثمانی فوج کا انخلا جاری تھا۔جنرل کا موقف تھا کہ ان کو دیانتداری سے قلعے خالی کرنے دیے جائیں، اس کے بعد حملہ کیا جائے۔ معاہدے کے صرف دو ماہ بعد ہی ستمبر 1۴44 ءمیں بیس ہزار سپاہیوں پر مشتمل صلیبی لشکر صلح نامے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے عثمانی حدود میں داخل ہوگیا۔ ترک پہلے ہی دل گرفتہ تھے اور پھر اس غیر متوقع حملے کے لیے تو بالکل تیار نہیں تھے اس لیے شکست پر شکست کھاتے گئے۔ متعدد قلعےصلیبیوں کے قبضے میں آ گئے۔عثمانی سپاہیوں کو یا تو قتل کر دیا گیا یا چٹانوں سے نیچے پھینک دیا گیا۔ ان فتوحات کے بعد یہ لشکر بحرِ اسود کے ساحل پر پہنچا اور جنوب کا رخ کیا۔ اب تک عثمانی افواج اس غدر سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہو سکی تھیں۔ اتحادی لشکر نےاس خطے کے سب سے اہم شہر کو ہدف بنایا اور مختلف شہروں پر یلغار کرتے ہوئے وارنا کا محاصرہ کر لیا۔ ترک فوج زیادہ دیر تک دفاع نہ کرسکی اور ہتھیار ڈال دئے،یوں یہ اہم ترین شہر وارنا بھی عثمانیوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ ان ناکامیوں کے پیش نظر بہت سے سردار مراد خان کے پاس پہنچے اور اسے قیادت کے لیے آمادہ کیا۔ کم عمر سلطان محمد خان نے بھی اپنے والد کو کو پیغام بھیجا کہ وہ آئیں اور رہنمائی کریں، اس زوال سے عثمانی سلطنت کو نکالنے میں مدد کریں، لیکن مرادخان نے انکار کر دیا اور کہا کہ سلطان تم ہو، اس لیے تم ہی قیادت کرو۔ اس موقعے پر سلطان محمد خان نے ایک خط مراد خان کو ارسال کیا،اس  خط میں لکھا تھا:’’اگر آپ خلیفہ ہیں تو آئیے اوراپنی ریاست سنبھالیے، اور لشکر کی قیادت کیجیے اور اگر میں خلیفہ ہوں تو میں حکم دیتا ہوں کہ آپ لشکرکی قیادت کریں‘‘۔ اس پیغام نے خلیفہ مراد خان ثانی کو نیا جوش وجذبہ عطا کیا۔

اُدھر اتحادی لشکر وارنا میں فتح کا جشن منا رہا تھا اورکم سن سلطان کی ناتجربہ کاری پر بغلیں بجا رہا تھا، اور اِدھر مرادخان چالیس ہزار کے لشکر کے ساتھ صلیبیوں سے جنگ کے لیے روانہ ہو چکا تھا۔ سمندر میں عیسائی بیڑےموجود تھے، لہذا اتحادی لشکر مطمئن تھا کہ وارنا تک کوئی نہیں پہنچ سکے گا۔ لیکن مرادخان نے ایک تدبیر کے ذریعے بھاری رقم ادا کر کے سپاہیوں کو سمندر  کے راستے پر یورپ منتقل کردیا۔ اتحادیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عثمانیوں کا لشکر اس قدر قریب آ چکا ہے۔مرادخان نے جب وارنا سے محض چار میل کے فاصلے پر خیمے نصب کیے تب اتحادی افواج کو ہوش آیا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔بعض اتحادیوں نے حفاظتی اقدامات کا مطالبہ کیا لیکن جنرل ہونیاڈے سابقہ فتوحات کے نشے میں مست تھا۔ اس نے نہ صرف حفاظتی اقدامات سے انکار کیا کیا بلکہ لشکر لے کر مرادخان پر حملہ کر دیا۔ اتحادی لشکر کے دائیں بائیں ولاچیا اور ہنگری کے زبردست جنگجو تھے جبکہ قلب میں شاہِ ہنگری کا ذاتی دستہ موجود تھا۔ حملہ اتنا شدید تھا کہ ابتدا میں ہی عثمانیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور بعض مورخین کے مطابق مراد خان نے فرار ہونے کی ٹھان لی لیکن اناطولیہ کے ایک سردار کی ہمت افزائی پر مرادخان واپس پلٹا اور’’یَنی چری‘‘ کے سپاہیوں کے ساتھ مخالفین پر ٹوٹ پڑا۔ ’ینی‘ کا مطلب نئی اور ’چری‘ کا مطلب فوج۔ ینی چری دستے کو مراد خان نے بنایا تھا، اس میں نو مسلم لڑکے شامل کیے جاتے تھے اور انھیں بہترین تربیت دی جاتی تھی۔ ان کا تعلق براہِ راست سلطان کے ساتھ ہوتا تھا۔ ینی چری نے جوابی حملے میں اتحادی لشکر کو زیر کر دیا۔شاہِ ہنگری زخمی ہوا تو ایک سپاہی نے اس کا سر کاٹ کر نیزےپر بلند کردیا۔ یہ منظر دیکھ کرامراےہنگری بھاگ کھڑے ہوئے۔ جنرل ہونیاڈےبھی بمشکل جان بچا کر بھاگا۔ عثمانی سپاہی اتحادیوں کی عہد شکنی سے اتنے غصے میں تھے کہ میدانِ جنگ میں انھوں نے لاشوں کے انبار لگا دیے۔ دو تہائی لشکر قتل ہوا اور ایک تہائی لشکر بھاگنے میں کامیاب ہو سکا۔ اس جنگ کے فوراً بعد سرویا اور بوسنیا کو فتح کرلیا گیا۔

جنگ سے واپسی پر ینی چری نے بغاوت کر دی اور محمد خان کے خلاف محاذ بنا لیا۔ بہت سے عمائدین کی درخواست پر مراد خان نے ۱۴۴۵ءمیں دوبارہ تخت اپنے اختیار میں لیا تو ینی چری نے فی الفوربغاوت ختم کر دی۔ اس طرح مراد خان ثانی دوبارہ خلیفہ بن گئے۔ اگرچہ محمد خان کی عمر کم تھی لیکن کہا جاتا ہے کہ سلطان مراد کو ایک بزرگ نے بتایا تھا کہ تمہارے بیٹے کے ہاتھوں قسطنطنیہ فتح ہوگا اسی وجہ سے مراد خان نے محمد کو تخت پر بٹھایا تھا۔ بہرحال، مرادخان مزید چھے سال تک تخت پر جلوہ افروز رہے اور مسلسل جنگوں میں مشغول رہے۔یوں تو سلطان مراد خان نے آخری چھے سالوں میں بھی بہت سے اہم شہر فتح کیے لیکن  ان میں سے   ایک  اہم معرکے کا ذکر ضروری ہے۔  وہ یہ کہ جنرل ہونیاڈےشکستِ وارنا کا داغ لیے ہوئے ہر طرف صلیبی افواج کی ذلت کا نشان بناپھر رہا تھا اور انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔ وارنا کی شکست کے بعد محض چار سال کے اندر اس نے اسّی ہزار کا لشکر ترتیب دیا اور سرویا اور بوسنا کی فوج کو ساتھ ملا کر کوسووَہ کے میدان میں خیمہ زن ہوا۔ یہ وہی میدان ہے جس میں ۱۳۸۹ء میں مراد خان اول نے صلیبیوں کو عبرت ناک شکست دی تھی۔ ساٹھ سال بعد دوبارہ جنرل ہویاڈے کی شکست نے اسے اس میدان میں لا کھڑا کیا۔ معرکہ شروع ہوا تو دونوں لشکر جاں فشانی سے لڑے۔ تین دن تک یہ ہولناک جنگ جاری رہی۔ ہونیاڈے کےلشکر کو بدترین شکست ہوئی اور مراد خان ثانی نے صلیبیوں کو کچل کر رکھ دیا۔ ۱۴۵۱ء میں مراد خان کے انتقال پر محمد خان تحت کے وارث ہوئے۔ مراد خان کو بورصا میں دفن کیا گیا۔

 

لرننگ پورٹل