گفتگو: ڈاکٹر محمدرشید ارشد
ٹرانسکرپشن: دانیال بن شفیق
شعبۂ اسلامی علوم،جامعہ بحریہ، کراچی، کے اساتذہ سے گفتگو، جسے ضبط و ترتیب کے بعد قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے
سوال: چلیں یہ تو اچھی بات ہے کہ مدارس جدید علوم کی طرف بھی متوجہ ہوئے ہیں لیکن کیا آپ سمجھتےہیں کہ اِس وقت جدید علوم کے نام پر مدارس میں جو تبدیلیاں آ رہی ہیں، وہ اِس حوالے سے صحیح رخ پرہیں یا نہیں ؟
ڈاکٹر رشید ارشد صاحب: زیادہ تر ہمارے ہاں ہِر پِھر کے بات کیا ہوتی ہے کہ طلبہ کو انگریزی یا کمپیوٹر وغیرہ سکھایا جائے، اس سے وہ مطلوب تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ سب تو ریاست چاہتی ہے اور اس سے تو آپ بالکل ہی اُن کے ٹریپ میں آ جائیں گے۔ بھئی اُن کی فکری بنیادوں کو سمجھیں! جدید ادارے کیا ہوتے ہیں؟ ریاست کیا ہوتی ہے؟ مثال کے طور پر جو لوگ جدید ریاست کو جانتے ہیں، وہ اِس پر ہنستے ہیں، جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ ریاستِ مدینہ، اُن کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ابھی پچھلے دنوں بہت مشہور شاعر ہیں، اُن کی ایک وڈیو بہت وائرل ہوئی، اُنھوں نے کہا کہ ریاستِ مدینہ کون سی ریاست تھی؟ ایک primitive ریاست تھی ریاستِ مدینہ،اُس میں کوئی اسکول تھا؟ کوئی اَسپتال تھے؟ ریاست بالکل ایک نئی چیز ہے اور وہ جو ایک Wael Hallaq ایک بہت مشہورعرب امریکی مفکر ہے، اُس کی کتاب کا نام ہی یہ تھا The Impossible State، اسلامی ریاست میری ناقص رائے میں ایک oxymoronہے، ایک متناقض اصطلاح ہے، میری ناقص رائے میں تواسلامک اکنامکس بھی ایک oxymoron ہے یعنی لفظ ’’اکنامکس‘‘ ایک ایسی علمیت سے پھوٹا ہے جو بالکل ایک الگ چیز ہے، اب ہمارے ہاں لوگ کیا کرتے ہیں؟ تاریخی حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ دہلوی ایکsociologist تھے یا وہ جناب economist تھے یا ابنِ خلدون یہ تھے اور وہ تھے۔یہ خلطِ مبحث ہے۔ ’’سوشیالوجی‘‘ یا ’’اکنامکس‘‘ ایک اصطلاح ہے، اس کے اپنے لوازمات ہیں، اس کا ترجمہ علمِ معاشرت یا علمِ معیشت سے کردینا ٹھیک نہیں۔ یہ جدید علوم پیدا ہی ۱۵۰ سال پہلے ہوئے ہیں۔ یہ capitalism سے پیدا ہوئے ہیں تو یہ جو چیزیں ہیں، میرا خیال ہے، اِن کا شعور بڑھنا چاہیے، کہ ریاست کسے کہتے ہیں؟ جدید ریاست کیا ہوتی ہے؟ میڈیا کیا ہوتا ہے؟ human rights کیا ہوتے ہیں؟ ہمارے ہاں تو چونکہ احساسِ کمتری ہے نا، ہر چیز کو اسلامیانے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے، ہم لوگوں نے ایک تصور بنا لیا، جو چیز وہاں ایجاد ہوئی، ہم قرآن حدیث کھول کے اُس کو اپنا بنالیتے ہیں، اِس میں یہ تھا، اِس میں پہلے سے تھا، پہلی دفعہ فلاں نے ایجاد کیا تھا وغیرہ۔ یعنی کہ خطبۂ حجۃ الوداع کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ human rights کا پہلا charter تھا، یہ تو اِس قدر لا علمی اور سادگی ہے کہ بس کیا کہیے؟ نہ آپ کو یہ پتا ہے کہ یہاں human کا کیا مطلب ہے؟ نہ آپ right کے مفہوم سے آشنا ہیں۔ Michel Foucault کہتا ہے کہ یہ جو human ہے، یہ تو ۲۰۰ سال پہلے پیدا ہوا، حقوق کا پورا تصور ابھی ۱۰۰ سال پرانا ہے۔
ہمارے ہاں ایک عام گفتگو کیا ہوتی ہے؟ اسلام میں عورتوں کے حقوق، یہ گفتگو ہمیں کیوں کرنی پڑ رہی ہے؟ مطلب ہمارے ہاں تو ذمے داریاں ہوتی ہیں پھر مردوں کے حقوق کیوں نہیں ہیں؟ اور ہمارے ہاں عورت اور مرد کوئی ایک identity تو نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو ساری گفتگو ہو گی ماں، بہن، بیوی، بیٹی کی نسبت سے، رشتوں کے تعلق سے ہو گی، عورت کوئی abstraction تو نہیں ہے نا ۔لیکن ہم اُس ٹریپ میں آ جاتے ہیں، ہم بھی وہی گفتگو کرنے لگتے ہیں اور ایک apologetic انداز نظر آنے لگتا ہے۔ تو اِس کی ضرورت ہے کہ ہم اچھی طرح یہ سمجھیں کہ اہلِ مغرب کے ہاں human rights کا کیا مطلب ہے؟ civil society کسے کہتے ہیں؟ اِس کی بنیادیں کیا ہیں؟ اور پھر democracy کا کیا مطلب ہے؟ تو اِس پر گفتگو کراچی میں تو خیر بہت سے لوگ ہیں، جنھوں نے کی ہے ، مدارس میں بھی کی گئی ہے اور بہر حال اُس کا influence بھی ہے آہستہ آہستہ نظر آئے گا لیکن بات آپ کی ٹھیک ہے کہ اُس میں ہم ابھی کافی پیچھے ہیں۔
سوال: سر ایک معاملہ یہ بھی ہے نا کہ مدارس نے نصاب بھی بہت کم کردیا ،جیسے مدارس کے اندر مفتیانِ کرام پوری کتاب پڑھاتے تھے، اب وہ دو، تین ابواب بھی بروقت بہت مشکل سےپڑھاتےہیں، فارسی بھی نکال دی، اور بہت کچھ کر دیا ہے۔اسی طرح ایک اور مسئلہ جو ہمیں نظر آ رہا ہے وہ ہے مایوسی، ہراسٹیج، ہر طبقے کے اندر بہت زیادہ مایوسی نظر آ رہی ہے، شاید پچھلےسترسال سے ہمارے جو حالات ہیں، وہ اِس طرح کے رہے ہیں۔ تو جہاں جہاں پر بھی طلبہ کے اندر یا لوگوں سے جو میل جول ہے، تو بذاتِ خود میں بھی یہ محسوس کرتا ہوں، مایوسی بہت زیادہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی چیز شاید rightly نہیں ہو رہی، جس کی وجہ سے ہم پر اُس کے اثرات بہت زیادہ ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر رشید ارشد صاحب: ہاں دیکھیں مایوسی تو ظاہر بات ہے، اورسب سے بڑی disappointment جو ہے ، وہ پالیٹکس میں ہے نا، وہ تو ملکی حالات کے حوالے سے یہ صورت حال ہو گئی۔ اس مایوسی اور ناکامی یا زوال کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ تصور ذہن نشین کرناچاہیے کہ یہ ایک آزمائش ہے اور میں تو اپنے آپ کو جیسے کچھ کوشش کرتا ہوں مطمئن کرنے کی، مجھے ایسے لگتا ہے کہ یہ غربتِ اسلام کا زمانہ ہے، آزمائشوں کا دور ہے۔ ایک غلط تصور ہمیں دے دیا گیا اور یہ کہہ کر کہ الإسلام صالح لکل زمان و مکان،یعنی اسلام ہر دور اور ہر جگہ کے لیے سازگار ہے۔ اِس کا بالکل غلط مطلب بتایا جاتا ہے کہ اسلام گویا ہر دور کے تقاضوں کے ساتھ compatible بنایا جا سکتا ہے، یہ بات غلط ہے، یہ بالکل واضح اور دوٹوک بات ہے کہ موجودہ دور کے ساتھ، موجودہ علمیت کے ساتھ، موجودہ تہذیب کے ساتھ اسلام compatible نہیں ہے، آپ اسلام کو آج کی اس مادی علمیت اور مادی تہذیب کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا غم چھوڑ دیں، بات ختم۔یہ جو تصور ہے ہمارا کہ ہم نے کسی نہ کسی طریقے سے زور زبردستی کر کے اسلام کو فِٹ کرنا ہے اِس سارے سسٹم میں۔ بھائی مسئلہ تو جدید دنیا نے پیدا کیا ہے نا، اب آپ مولوی صاحب کو کہتے ہیں اِس کا حل کریں اسلام میں، یہ تو نہیں ہو گا، یہ کیسا انصاف ہے۔ ہم تو یہ کہیں گے کہ یہ مسئلہ غلط ہے، یہ نظریہ غلط ہے،یہ جگہ غلط ہے، یہاں سے اِس کو پکڑو، اِس کو یہاں سے دیکھو،اسلام کیوں اس کا حل پیش کرے۔ اگر ہم یہ سمجھ لیں نا کہ چونکہ ہماری ایک eschatology بھی ہے، ایک علمِ آخر الزمان ہے۔ ہماراایک ماضی ہے اور بہت درخشندہ ہے، ایک ہمارا مستقبل کا تصور ہے جو بہت ظاہری بات ہے کہ چمک دمک والا ہے۔ ایک messianic concept ہے ہمارا، مہدی کا بھی اور غلبے کا بھی، اِس وجہ سے بھی ہم شاید زیادہ depressed ہیں ورنہ ہم سوچ لیں کہ بھئی مکے میں تو لوگ دنیا سے چلے گئے تھے نا،انھوں نے تو عروج نہیں دیکھا۔سیدنا مسیح کے سارے پیروکار کیا فتح دیکھ سکے؟ سیدنا مسیح خود کیسے رہےدنیا میں؟ آپ دیکھیں نا، انبیا کی اکثریت کی بات لوگوں نے نہیں مانی، سورۂ یٰس میں ہے نا:﴿يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ(٣٠)﴾ مجھے لگتا ہے کہ صبر کا مطلب استقامت ہے، ہم اپنے آئیڈیلز پر کھڑے رہیں، compromise نہ کریں تو بس کامیاب ہیں، باقی کوئی چیز منوا لینا اور کروا لینا، یہ ہمارے بس میں بھی نہیں اور ہمارے لیے ضروری بھی نہیں ہے۔ ہم پر شاید غلبے کی نفسیات بہت زیادہ آ گئی ہے کہ جی ہم غالب تھے، اب ہمیں دوبارہ کسی نہ کسی طریقے سے غالب ہونا ہے، ہو سکتا ہے مزید چار سوسال ابھی آپ مار ہی کھاتے رہیں، اُس کے بعد کوئی تبدیلی آئے۔ تو جو آپ بات کر رہے ہیں نا مایوسی کی،موجودہ حالات کو دیکھ کر میں کبھی تسلیم نہ کرتاکہ اسلام آئندہ کبھی غالب ہو کر رہے گا، اوراِس حالت سے نکل کر ہم عروج تک جا سکتے ہیں، اگر احادیثِ مبارکہ میں اس کی پیش گوئی نہ کی گئی ہوتی۔اور پھر غلبۂ اسلام کی روایات پڑھیں تو لگتا ہے کہ وہdivine intervention ہےاور اس میں بہت کچھ معجزات اور قدرتی عوامل کو دخل ہے۔ یہ بات آپ کی ٹھیک ہے کہ ہم بہت زیادہ مایوس ہوجاتے ہیں لیکن یہ ہمیں سمجھنا چاہیے کے حالات کو بدل دینا ہماری ذمے داری نہیں۔ ہم اس فکر کو چھوڑ دیں کہ ہم نے اسلام کی کشتی پار لگانی ہے، خود کو اور ارد گرد کے لوگوں کو ان جدید فتنوں سے بچالیں تو بہت ہے۔
سوال: سر یہ ایک مسئلہ ہمیں درپیش ہوتا ہے کہ ہم جب مقالہ لکھتے ہیں تو ہمیں بہت سی چیزوں کو اسلام کا حصہ بنانا پڑتا ہے اور اسلام کے ساتھ ان کی مطابقت ثابت کرنی پڑتی ہے ورنہ تھیسس ایکسیپٹ نہیں ہوتا، اسی طرح بچوں کی تحریروں میں بھی یہ کام کرنا پڑتا ہے، تو اس کا کیا حل ہے کہ ہم دورِ حاضر کی چیزوں کو اسلام سے مطابقت میں دکھائیں اور بات غلط بھی نہ ہو؟
ڈاکٹر رشید ارشد صاحب: دیکھیں مسئلہ تو یہ ہے نا کہ ہمارے پاس اپنا کوئی معیار ہے ہی نہیں۔ ۲۰۰۱ء میں مشرف صاحب کے آنے کے بعدایچ ای سی بنی تھی اور میرا خیال ہے اِس ملک میں تعلیم کا جو کچھ شعور تھا، اُس کا جو سب سے بڑا قاتل ہے، اُس کا نام ہے ڈاکٹر عطاء الرحمان۔ یعنی جو ایک دوڑ لگائی ہے ڈگریوں کی اور جعلی قسم کے ریسرچ پیپرز کی، کچھ بھی نہیں ہےوہ، سب دجل اور ڈھکوسلا ہےہم سب کو پتا ہے کہ ہم کچرا لکھ رہے ہیں، کچرا چھاپ رہے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کہتے تھے کہ جو ہم آرٹیکلز لکھتے ہیں جرنلز میں، وہ شاید پہلی اور آخری مرتبہ researcher ہی پڑھتا ہے۔ اچھا اور ہم وہ جو ٹریل بناتے ہیں، consortium بنے ہوئے ہیں پانچ، پانچ، چھے، چھے بندوں کے، اُن کو تو پتا بھی نہیں ہوتا کہ اِس کا عنوان کیا ہے؟ کوئی ایک غریب بے چارہ’’کھوتا‘‘ بنا ہوا ہوتا ہے، باقی پانچ لوگوں کے نام تبرکاً اُس میں آ جاتے ہیں۔ایسا کام ہو رہا ہے کہ آدمی کو اپنے اوپر گھن آنے لگتی ہے، ہم کیا گھٹیا کام کر رہے ہیں۔ اور چار پیسے کے لیے کرتے ہیں نا، بھئی پہلے کے علما نےیا کسی محقق نے کچھ لکھنا ہوتا تھا تو کیوں لکھنا ہوتا تھا یہ سوال اہم ہے۔ میرے اندر کوئی اپج ہے، کوئی مجھے خیال آیا ہے تو میں لکھوں گا نا۔۔۔ مطلب اسلامک اسٹدیز میں تحقیق کا مطلب کیا ہے؟ ہمارے علما جنھوں نے واقعی کوئی علمی کام کیا ہے مطلب امام ابو حنیفہ سے لے کر مفتی شفیع صاحب تک، اُنھوں نے کیا کوئی کتاب لکھنے کے لیے کتاب لکھی تھی؟ وہ ایک ضرورت تھی، اس لیے اُنھوں نے کیا اور وہ بھی ایسے ہی جبراً کیا اور اُس کو بھی پھیلانے کی طرف اُن کا کوئی رجحان نہیں تھا، امام شافعی تو کہتے ہیں: میں چاہتا ہوں کہ میری باتوں سے لوگ فائدہ اٹھا لیں اور میرا نام سامنے نہ آئے۔ اب تو کچھ اور ہی کھیل ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ تو ہمیں جبر میں ڈال دیا گیا ہے اور اِس تحقیق کو، جس کو ڈاکٹر رفیع الدین صاحب کہتے تھے کہ یہ’’مکینکل ریسرچ‘‘ہے، اُس کا خاص طرح کا پروٹوکول ہے۔ اور اُس کی خاص طرح کی چیزیں پوری کرنی ہوتی ہیں تو اب فلسفے میں تحقیق کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ فلسفے میں تو کسی آدمی کے پاس کوئی تھیوری ہے یا کوئی بات کرنی ہےاُس نے۔ ورنہ ہماری ریسرچ جو بھی ہو گی، وہ ریسرچ دراصل literature review type کوئی چیز ہو گی، کوئی تحقیقی فن پارہ نہیں ہوگا۔ ہم جامعہ کراچی میں پی ایچ ڈی کے لیے آئے تو ہم سے بھی بالکل وہی جو physical sciences کا منہج تھا، وہ social sciences پر آپ نے ٹھونس دیا۔ یہاں بھی سوال ہوتا ہے کہ آپ کا hypothesis کیا ہے؟ کس قدر احمقانہ بات ہے فلسفے میں یہ پوچھنا ۔اور یہ سوال کہ آپ اُس کو کیسے test کریں گے؟ کیسے verify کریں گے ؟تو جدید تعلیم تو ایک imperial project ہے، عام زندگی میں جتنے زیادہ جو واقعی پڑھے لکھے لوگ ہم نے اگر دیکھیں ہوں گے، اُن میں سے اکثر وہ ہوتے ہیں کہ جو اُس academic line کے نہیں ہوتے۔
سوال: اِس میں بہتری آپ کے تجربات کے مطابق کیسے لائی جا سکتی ہے؟ اس جبر میں کیا ہو سکتا ہے؟
ڈاکٹر رشید ارشد صاحب: بہتری تو مجھے پتا نہیں کیسے لائی جا سکتی ہے۔ بس یہی ہے کہ اُس کے اندر کچھ محنت کروا لی جائے طلبہ سے، کچھ چیزیں زیادہ اُن سے پڑھوا لی جائیں زور زبردستی کر کے لیکن میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ سسٹم کا جبر ہے، کوئی واقعی اچھوتا خیال، کوئی بڑی نادر بات کرنا بہت مشکل ہے۔میری ملازمت ہوئی تو ہمارے ڈیپارٹمنٹ کا ایک جرنل تھا، میں ایک مقالہ لکھ کر لے گیا۔ چھے، سات صفحے کا تھا۔ اس میں کوئی بات حوالے والی نہیں تھی۔اُنھوں نے کہا کہ اِس میں حوالے کدھر ہیں؟ پھر زور زبردستی کر کے quotations ڈال کے آٹھ، دس حوالے بنائے تاکہ وہ چھپنے کے قابل ہو سکے۔ تو اب کھیل ہی سارا یہ ہے کہ آپ نے اُس کے end notes کیسے کرنے ہیں؟ وہ شکاگو کا فارمیٹ ہے یا فلاں فارمیٹ۔ تو بس یہ کیا جا سکتا ہے کہ طلبہ کو کوئی ایسی چیز دی جائے کہ کچھ کتابیں وہ پڑھ لیں زور زبر دستی، ورنہ شاید اِس کے بغیر تو وہ کچھ نہ پڑھیں۔جس طرح آپ کو پتا ہے کہ یونیورسٹی کے بچے بھی ٹیکسٹ بُک کے علاوہ کچھ نہیں پڑھتے، بد قسمتی سے دینی مدارس کے طلبہ کی اکثریت بھی نصاب کے سوا کچھ نہیں پڑھتی، تو شوق ہی نہیں رہا پڑھنے کا۔ آپ اگر بچوں سے مطالعہ کروالیں اور مطالعے کا ذوق پیدا کردیں تو یہ بھی کامیابی ہے۔