ابنِ عباس
معاون قلم کار
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضي الله عنه قَالَ: كَانَ النَّبِيُّﷺ، إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ: «اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ» (سنن ابی داؤد)
’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ کریمﷺ جب میت کی تدفین سے فارغ ہو جاتے تو قبر پر کھڑے رہتےاور فرماتے: اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو اور اس کے لیے (منکر و نکیر کے سوالات کے سامنے ) ثبات اور دلجمعی کی دعا کرو کیونکہ اس وقت اس سے پوچھا جا رہا ہے‘‘۔
اس روایت میں نبیٔ اکرمﷺ کا اپنا عمل بھی سامنے آ گیا کہ آپﷺ میت کے دفن کے بعد قبر پر کچھ دیر کھڑے رہتے اور آپﷺ کا قول مبارک بھی سامنے آ گیا کہ آپﷺ اس عمل کی ترغیب دوسروں کو بھی دیا کرتے تھے۔نبی کریمﷺ کا خود دعا کرنا البتہ اس روایت میں مذکور نہیں ہے لیکن سیاق و سباق سے آپ کا دعا کرنا معلوم ہو رہا ہے کہ جب آپ خود کھڑے رہتے اور دوسروں کو دعاکی تلقین کرتے تو آپﷺ کے کھڑے رہنے کی وجہ دعا کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتی اور آپ یقینی طور پر میت کے لیے دعا فرماتے تھے۔روایت کے سیاق و سباق سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دعا تدفین کے بعد کی ہے ۔محدثین کا کسی حدیث پر عنوان لگانا اس حدیث کے فہم کا ایک ذریعہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ امام ابوداؤد اس حدیث پر یہ عنوان لگاتے ہیں: بَابُ الِاسْتِغْفَارِ عِنْدَ الْقَبْرِ لِلْمَيِّتِ فِي وَقْتِ الِانْصِرَافِ’’میت کی قبر کے پاس دعاے مغفرت کرنا واپسی کے وقت‘‘۔ امام نووی رحمہ اللہ نے ریاض الصالحین میں اس روایت پر یہ عنوان لگایا ہے: باب الدعاء للميت بعد دفنه والقعود عند قبره ساعة للدعاء لَهُ والاستغفار والقراءة ’’دفن کے بعد میت کے لیے دعا کرنا اوراس کی قبر کے پاس کچھ دیر کے لیے بیٹھنا اور اس کے لیے دعا و استغفار اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا‘‘۔ امام شوکانی رحمہ اللہ اس روایت کے ذیل میں لکھتے ہیں: فِيهِ مَشْرُوعِيَّةُ الِاسْتِغْفَارِ لِلْمَيِّتِ عِنْدَ الْفَرَاغِ مِنْ دَفْنِهِ وَسُؤَالِ التَّثْبِيتِ لَهُ لِأَنَّهُ يُسْأَلُ فِي تِلْكَ الْحَالِ وَفِيهِ دَلِيلٌ عَلَى ثُبُوتِ حَيَاةِ الْقَبْرِ وَقَدْ وَرَدَتْ بِذَلِكَ أَحَادِيثُ كَثِيرَةٌ بَلَغَتْ حَدَّ التَّوَاتُرِ وَفِيهِ أَيْضًا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْمَيِّتَ يُسْأَلُ فِي قَبْرِهِ وَقَدْ وَرَدَتْ بِهِ أَيْضًا أَحَادِيثُ صَحِيحَةٌ فِي الصَّحِيحَيْنِ وَغَيْرِهِمَا(نيل الأوطار للشوكاني)’’اس روایت میں میت کے دفن سے فراغت پر اس کے لیے بخشش اور استقامت کی دعا کی مشروعیت پائی جاتی ہےاس لیے کہ اس وقت اس سے پوچھا جا رہا ہوتا ہے اور اس حدیث میں حیات ِ قبر کی دلیل ہے اور اس بابت کثیر روایات منقول ہیں جو تواتر کی حد تک پہنچی ہیں۔ اس میں دلیل ہے کہ قبر میں میت سے سوال کیے جاتے ہیں جیسا کہ مسلم و بخاری اور دوسرے ائمہ کے ہاں اس بابت صحیح احادیث پائی جاتی ہیں‘‘۔
حضرت عمروبن العاص کی وصیت
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے بہ وقت انتقال اپنے صاحبزادوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي.(صحیح مسلم)’’پس جب تم مجھے دفن کر چکو تو مجھ پر کچھ مٹی ڈالنا پھر میری قبر کے پاس اتنی دیر کھڑے ہونا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جائے یہاں تک کہ میں تمھارے ذریعے سے انس حاصل کروں اور دیکھوں کہ میں اپنے رب کے بھیجے ہوئے فرشتوں کے سوالات کا کیسا جواب دیتا ہوں‘‘۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے جو تسکین اور انسیت کی بات کی تو اگرچہ علما نے لکھا ہے کہ قبر کے باہر انسانوں کی موجودگی بھی میت کے لیے باعثِ تسکین ہو تی ہے۔( دليل الفالحين لطرق رياض الصالحين ) لیکن ان الفاظ سے دعا کے جواز پر بھی استدلال کیا گیا ہے چنانچہ علامہ مبارکپوری مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں لکھتے ہیں: حتى أستأنس بكم أي بدعائكم واستغفاركم وسؤالكم التثبيت’’میں تمھارے ذریعے انس حاصل کروں یعنی تمھاری نیک دعاؤں، استغفار اور ثبات کے لیے مانگی گئی دعا کے ذریعے سکون محسوس کروں‘‘۔ بعض علما نے ان الفاظ سے بعد از دفن تلاوتِ قرآن کے جواز پر بھی استدلا ل کیا ہے۔فتح المنعم شرح صحيح مسلم میں ہے:وأخذ بعضهم منه القراءة على القبر لأنه إذا استأنس بهم فبالقرآن أولى’’بعض علما نے ان الفاظ سے قبر پر قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے کا جواز اخذ کیا ہے اس لیے کہ جب میت قبر کے باہر انسانوں کی موجودگی سے سکون پاتی ہے تو تلاوت قرآن سے تو اسے بدرجۂ اولیٰ تسکین حاصل ہو گی‘‘۔
حضرت عبد اللہ بن عباس کا طرز عمل
ابنِ ابی ملیکہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: رَأَيْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ لَمَّا فَرَغَ مِنْ قَبْرِ عَبْدِ اللهِ بْنِ السَّائِبِ فَقَامَ النَّاسُ عَنْهُ قَامَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَوَقَفَ عَلَيْهِ وَدَعَا لَهُ’’میں نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ جب آپ عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کی قبر سے فارغ ہوئے تو(قریب بیٹھے ہوئے) لوگ قبر کے پاس سے کھڑے ہو گئے، حضرت عبد اللہ بن عباس بھی اٹھے اور پھر قبر کے پاس کھڑے رہے اور میت کے لیے دعا کرتے رہے‘‘۔(السنن الكبرى للبيهقي باب ما يقال بعد الدفن)
حضرت انس بن مالک کا طرز عمل
كانَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ إِذَا سَوَّى عَلَى الْمَيِّتِ قَبْرَهُ قَامَ عَلَيْهِ فَقَالَ: اللَّهُمَّ عَبْدُكَ رُدَّ إِلَيْكَ فَارْأَفْ بِهِ وَارْحَمْهُ، اللَّهُمَّ جَافِ الْأَرْضَ عَنْ جَنْبَيْهِ، وَافْتَحْ أَبْوَابَ السَّمَاءِ لِرُوحِهِ، وَتَقَبَّلْهُ مِنْكَ بِقَبُولٍ حَسَنٍ، اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَضَاعِفْ لَهُ فِي إِحْسَانِهِ، أَوْ قَالَ: فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ(الدُّعَاءِ لِلْمَيِّتِ بَعْدَمَا يُدْفَنُ وَيُسَوَّى عَلَيْهِ الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار أبو بكر بن أبي شيبة)’’جب قبر برابر کر دی جاتی (یعنی مٹی ڈال دی جاتی ) تو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ قبر کے پاس کھڑے ہو جاتے اور یوں دعا کرتے:اے اللہ! یہ تیرا بندہ تیری طرف لوٹا دیا گیا تو اس پر شفقت و رحمت فرما ۔اے اللہ! زمین اس کے دونوں پہلوؤں سے کشادہ کر دے اور اس کی روح کے لیے آسمان کے دروازے کھول دے اور اس کی نیکیوں کو اچھی طرح قبول فرما۔ اے اللہ! اگر یہ نیک ہے تو اس کی نیکی کے اجرو ثواب کو دگنا کر دے اور اگر یہ گناہ گار ہے تو اس کے گناہ معاف فرما دے‘‘۔عَنْ قَتَادَةَ أَنَّ أَنَسًا دَفَنَ ابْنًا لَهُ فَقَالَ: اللَّهُمَّ جَافِ الْأَرْضَ عَنْ جَنْبَيْهِ، وَافْتَحْ أَبْوَابَ السَّمَاءِ لِرُوحِهِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ (مجمع الزوائد و قال الهيثمي رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ)’’حضرت قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک بیٹے کو دفن کیا اور اس کے بعد یوں دعا کی اے اللہ! اس پر قبرکو وسیع کر دے اور اس کی روح کے لیے آسمان کے دروازے کھول دے اور اس کو یہاں کے گھر سے بہتر گھر عطا کر دے‘‘۔
احنف بن قیس کا طرز عمل
عَنْ خَالِدِ بْنِ سُمَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ الْأَحْنَفِ فِي جِنَازَةٍ فَجَلَسَ الْأَحْنَفُ، وَجَلَسْتُ مَعَهُ فَلَمَّا فُرِغَ مِنْ دَفْنِهَا، وَهُوَ ضِرَارُ بْنُ الْقَعْقَاعِ التَّمِيمِيُّ رَأَيْتُ الْأَحْنَفَ انْتَهَى إِلَى قَبْرِهِ، فَقَامَ عَلَيْهِ فَبَدَأَ بِالثَّنَاءِ عَلَيْهِ قَبْلَ الدُّعَاءِ فَقَالَ:كُنْتَ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ كَذَا ثُمَّ دَعَا لَهُ(مصنف ابن ابی شيبة)’’حضرت خالد بن سمیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت احنف بن قیس رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھا۔ احنف ایک جگہ بیٹھ گئے تو میں بھی بیٹھ گیا۔ جب لوگ میت کی تدفین سے فارغ ہو چکے اور وہ میت حضرت ضرار بن القعقاع کی تھی، تب میں نے احنف کو دیکھا کہ وہ کھڑے ہوئے اور قبر کے پاس پہنچے تو دعا کرنے سے پہلے انھوں نے حضرت ضرار کی تعریف شروع کی اور کہا کہ آپ ایسے تھے اور اتنے اچھے تھے وغیرہ پھر اس کے بعد ان کے لیے دعا کی‘‘۔
حضرت حکم بن حارث السلمی کا طرز عمل
عَنْ عَطِيَّةَ الرَّعَّاءِ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ الْحَارِثِ السُّلَمِيِّ أَنَّهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺثَلَاثَ غَزَوَاتٍ، قَالَ: قَالَ لَنَا: إِذَا دَفَنْتُمُونِي ورَشَشْتُمْ عَلَى قَبْرِي الْمَاءَ، فَقُومُوا عَلَى قَبْرِي وَاسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ وَادْعُوا لِي(المعجم الکبیر)’’حضرت عطیہ الرَّعَّاء رحمہ اللہ ، حضرت حکم بن حارث السلمی رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ تین غزوؤں میں حصہ لیا تھا۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے ہم سے کہا جب تم مجھے دفن کر چکو اور میری قبر کی مٹی پر پانی کا چھڑکاؤ کر چکو تو میری قبر پر کھڑے رہو اور (بہتر ہے) کہ تم قبلہ رخ ہو جاؤ اور پھر میرے لیے دعا کرنا‘‘۔
حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت
عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: حَضَرْتُ ابْنَ عُمَرَ فِي جِنَازَةٍ، فَلَمَّا وَضَعَهَا فِي اللَّحْدِ، قَالَ:بِسْمِ اللَّهِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ، فَلَمَّا أُخِذَ فِي تَسْوِيَةِ اللَّبِنِ عَلَى اللَّحْدِ قَالَ:اللَّهُمَّ أَجِرْهَا مِنَ الشَّيْطَانِ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، اللَّهُمَّ جَافِ الْأَرْضَ عَنْ جَنْبَيْهَا، وَصَعِّدْ رُوحَهَا، وَلَقِّهَا مِنْكَ رِضْوَانًا، قُلْتُ: يَا ابْنَ عُمَرَ! أَشَيْءٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ، أَمْ قُلْتَهُ بِرَأْيِكَ؟ قَالَ:إِنِّي إِذًا لَقَادِرٌ عَلَى الْقَوْلِ، بَلْ شَيْءٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسولِ اللَّهِﷺ( سنن ابنِ ماجہ )’’حضرت سعید ابن المسیب رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک جنازےمیں شریک ہوا جب میت لحد میں اتاری گئی تو انھوں نے بِسْمِ اللَّهِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ. پڑھا پھر جب لحد کو بند کر کے برابر کر دیا گیا تو انھوں نے یوں دعا کی ’’اے اللہ! اسے شیطان سے بچا اور اسے عذابِ قبر سے بچا اور اس کے پہلووں کی طرف سے زمین کو وسیع کر دے اور اس کی روح کو بلند کر دے اور اس سے راضی ہو جا‘‘ سعید ابن المسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے عبد اللہ بن عمر سے پوچھا کیا آپ نے اس بابت کچھ رسول االلہﷺ سے سنا یا آپ یہ اپنے رائے سے کہہ رہے ہیں اس پر انھوں نے کہا اگر میں اپنی رائے سے ایسا کہوں تو پھر تو میں اختراع کرنے والا ہوں۔ نہیں بلکہ میں نے اس بارے میں کچھ رسول اللہﷺ سے سنا ہوا ہے‘‘۔
فقہاے کرام کا موقف
فقہاے کرامنے مندرجہ بالا روایات و آثار کے پیشِ نظر دفن کے بعد قبر پر رکنا اور میت کے لیے دعا اور قرآنِ کریم کی تلاوت کا استحباب نقل کیا ہے۔فقہ حنفی کی مشہور کتاب میں ہے:وَيُسْتَحَبُّ حَثْيُهُ مِنْ قِبَلِ رَأْسِهِ ثَلَاثًا وَجُلُوسُ سَاعَةٍ بَعْدَ دَفْنِهِ لِدُعَاءٍ وَقِرَاءَةٍ بِقَدْرِ مَا يُنْحَرُ الْجَزُورُ وَيُفَرَّقُ لَحْمُهُ( الدر المختار شرح تنوير الأبصار) ’’قبر پر سر کی طرف سے تین لپ مٹی ڈالنا مستحب ہے اور اسی طرح دفن کے بعد کچھ اتنی دیر میت کی قبر پر رکنا اور اس کے لیے دعا اور تلاوت کرنا کہ جس میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جائے بھی مستحب ہے‘‘۔ جدید فقہی مصدر الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:صَرَّحَ جُمْهُورُ الْفُقَهَاءِ بِأَنَّهُ يُسْتَحَبُّ أَنْ يَجْلِسَ الْمُشَيِّعُونَ لِلْمَيِّتِ بَعْدَ دَفْنِهِ لِدُعَاءٍ وَقِرَاءَةٍ بِقَدْرِ مَا يُنْحَرُ الْجَزُورُ، وَيُفَرَّقُ لَحْمُهُ’’جمہور فقہا نے صراحت سے لکھا ہے کہ جنازے کے ساتھ چلنے والے لوگوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کرنے کی دیر اس کی قبر کے پاس بیٹھیں اور اس کے لیے دعا اور قرات قرآن کا اہتمام کریں‘‘۔
مندرجہ بالا بحث کا حاصل یہ ہے کہ تدفین کے بعد کچھ دیر قبر پر کھڑےرہنا اور میت کے لیے منکر نکیر کے سوالات کے جوابات میں ثبات و تثبیت اور دعاے بخشش کرنا ایک مستحب عمل ہے جو سنت رسولﷺ اور سنت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پایۂ ثبوت کو پہنچتا ہے اور بعض لوگوں کی طرف سے اسے بدعت قرار دینا درست طرزِ عمل نہیں ہے۔