سفرنامہ: مفتی اویس پاشا قرنی
ضبط و ترتیب: مولانا محمد اقبال
شاعرِ مشرق اور افغانستان
شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال مرحوم نے اپنی شاعری میں افغانستان کا جس انداز میں تذکرہ کیا ہے،اس سے ان کی افغانستان کے ساتھ والہانہ محبت اور وہاں کی تاریخی شخصیات سے عقیدت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ علامہ مرحوم نے جا بہ جا اپنی شاعری میں افغانستان کے مسلم فاتحین اور سلاطین کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ آپ افغان قوم کے جذبۂ حریت سے بہت متاثر تھے اور ان کی سامراج دشمنی کے مداح رہے۔ محمود غزنوی، خوشحال خان خٹک، احمد شاہ ابدالی، حکیم سنائی اور سید جمال الدین افغانی جیسی شخصیات کی جدو جہد اور فکر سے آپ بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ ۱۹۳۳ء میں افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ نے علامہ اقبال،علامہ سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کو افغانستان آنے کی دعوت دی۔ یہ دعوت افغانستان کے نظامِ تعلیم اور خصوصی طور پر کابل یونیور سٹی کے تعلیمی پروگرام کے سلسلے میں مشاورت کی غرض سے تھی، جس کی روداد مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے ’’سیرِ افغانستان‘‘ میں بیان کی ہے۔ جبکہ علامہ اقبال نے اس سفر کی رُوداد مثنوی ’’مسافر‘‘ میں بیان کی ہے۔اسی طرح ’’زندہ رود‘‘ میں فرزندِ علامہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے مختلف مأخذات سے اس سفر کے اہم واقعات پر روشنی ڈالی ہے۔دورانِ سفر ان تینوں حضرات کی معاونت کے لیے بیرسٹر غلام رسول خان اور ڈاکٹر مہدی حسن ساتھ تھے۔ یہ وفد براستہ پشاور، کابل پہنچا اور قندھار سے ہوتا ہوا چمن، کوئٹہ کے راستے واپس ہوا۔
تذكرتاً ایک مناسبت عرض کرتا چلوں کہ جب ہم اپنے سفر افغانستان سے واپس لوٹے تو ’’زندہ رود‘‘ میں علامہ کی اس ترتیبِ سفر کو پڑھ کر خوشی ہوئی کہ لگ بھگ ایک صدی قبل افغانستان میں نادرشاہ کی قائم کرده نئی حکومت جو ملی جذبات سے سرشار تھی، کی نصرت کے لیے علامہ نے جس ملک کا سفر فرمایا، آج ہم فقیروں کو بھی ایک نئی اسلامی امارت کے قیام کے بعد بغرض نصرت انہی راہوں پر چلنا نصیب ہوا۔ اس فرق کے ساتھ کہ ہم نے سفر کا آغاز کوئٹہ براستہ چمن بارڈر، اسپین بولدک اور قندهار سے کیا اور غزنی سے ہوتے ہوئے کابل پہنچے۔ قیام کابل کے بعد جلال آباد سے گزرتے ہوئے براستہ طورخم پشاور پہنچے۔ یعنی دونوں اسفار کے مابين عکسی نسبت ہے۔
علامہ اقبال نے وہاں کی مختلف تعلیمی، سیاسی اور ادبی نشستوں میں شرکت کی اور اپنے احساسات وتاثرات کا اظہار کیا۔ علامہ مرحوم نے افغانستان کے اس سفر میں اپنے تأثرات کو منظوم انداز میں پیش فرمایا اور واپسی پر فارسی مثنوی ’’مسافر‘‘ میں افغانستان کے اس سفر کے تقریباً دو ہفتوں کے مشاہدات وتاثرات بیان کیے۔ مثنوی ’’مسافر‘‘ میں اقبال نے افغانیوں کو خود شناسی،بیداری، نظم و نسق،ترقی،باہمی اتحاد و اتفاق اور اپنے بادشاہ نادر شاہ کی قیادت پر اعتماد کا پیغام دیا۔ اس سفر میں علامہ مرحوم نے غزنی، قندھار کی سیر بھی کی اور سلطان محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی اور حکیم سنائی جیسی شخصیات کے مزارات پر حاضری بھی دی، اس کی روداد فارسی کلام میں موجود ہے۔ علامہ کے سفر سے واپسی پر ایک اندوہناک واقعہ یہ پیش آیا کہ اسی ہفتے افغانستان کے فرمان روا نادر شاہ کی شہادت کی خبر آئی، علامہ مرحوم نے اپنے تأثرات میں نادر شاہ شہید کا ذکر یوں فرمایا :
شہرِ کابل خطۂ جنت نظیر |
آبِ حیواں از رگِ تاکش بگیر |
چشمِ صائب از سوادش سرمہ چیں |
روشن و پاینده باد آں سر زمین |
در ظلامِ شب سمن زارش نگر |
بر بساطِ سبزه می غلطد سحر |
آں دیارِ خوش سواد، آں پاک بوم |
بادِ او خوشتر ز بادِ شام و روم |
آبِ او براق و خاکش تابناک |
زنده از موجِ نسیمش، مرده خاک |
ناید اندر حرف و صوت اسرارِ او |
آفتاباں خفتہ در کہسارِ او |
ساکنانش سیرِ چشم و خوش گہر |
مثلِ تیغ از جوہرِ خود بے خبر |
قصرِ سلطانی کہ نامش دلکُشاست |
زائراں را گردِ راہش کیمیاست |
شاه را دیدم در آں کاخِ بلند |
پیشِ سلطانے فقیرے دردمند |
خُلقِ او اقلیمِ دل ہا را کشود |
رسم و آئینِ ملوک آنجا نبود |
من حضورِ آں شہِ والا گہر |
بے نوا مردے بہ دربارِ عمر |
جانم از سوزِ کلامش در گداز |
دستِ او بوسیدم از راهِ نیاز |
پادشاہے خوشِ کلام و ساده پوش |
سخت کوش و نرم خوے و گرم جوش |
صِدق و اخلاص از نگاہش آشکار |
دین و دولت از وجودش استوار |
خاکی و از نوریاں پاکیزه تر |
از مقامِ فقر و شاہی باخبر |
در نگاہش روزگارِ شرق و غرب |
حکمتِ او راز دارِ شرق و غرب |
ترجمہ: کابل شہر جنت کی مانند ہے، اس کی انگور کی بیل سے آبِ حیات حاصل کر۔ مشہور شاعر صائبؔ تبریزی کی آنکھیں کابل کی سیاہی سے سرمہ حاصل کرنے والی ہیں، اللہ تعالیٰ اس سرزمین کو پائندہ و تابندہ رکھے۔ رات کی تاریکی میں اس کے چنبیلی کے باغ دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ سبزے کے قالین پر صبح نمودار ہو رہی ہے۔ وہ ایک خوش منظر، اچھا علاقہ اور صاف ستھری سرزمین ہے، اس کی ہوا شام اور روم سے کہیں بہتر ہے۔ اس کا پانی شفاف اور مٹی تابناک ہے، اس کی بادِ نسیم سے مردہ خاک زندہ ہو جاتی ہے۔ اس کے اسرار؛ الفاظ اور آواز کی گرفت میں نہیں آسکتے، اس کے کوہساروں میں کئی سورج سوئے ہوئے ہیں۔ اس کے باشندے سیر چشم اور شریف النفس ہیں، لیکن تلوار کی طرح اپنے جوہر سے بے خبر ہیں۔ شاہی محل جس کا نام دلکُشا ہے، اس کے راستے کی گرد دیکھنے والوں کے لیے کیمیا ہے۔ میں نے اس عالی شان محل میں بادشاہ سے ملاقات کی، یہ ملاقات سلطان سے ایک دردمند فقیر کی تھی۔ سلطان کے اخلاق دلوں کی سلطنت کو فتح کرنے والے تھے، وہاں بادشاہوں کے سے رسوم و آداب اور تکلفات نہیں تھے۔ میں اس بلند کردار کے حامل بادشاہ کے سامنے ایسا ہی تھا جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دربار میں کوئی بے نوا شخص ہو۔ میری روح اس کی باتوں کی گرمی سے پگھل گئی اور میں نے نیازمندی کے طور پر اس کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔ وہ ایک شیریں کلام، سادہ لباس پہننے والا، جفاکش، نرم مزاج اور محبت سے ملنے والا بادشاہ تھا۔ اس کی نگاہ سے سچائی اور اخلاص جھلکتے تھے، اس کا وجود دین اور سلطنت کے استحکام کا باعث تھا۔ تھا تو وہ خاک کا پتلا مگر فرشتوں سے بھی زیادہ پاکیزہ فطرت کا مالک تھا، وہ فقر اور سلطنت کے مقام و مرتبے سے باخبر تھا۔ اس کی نگاہوں میں مشرق اور مغرب کا زمانہ تھا۔ اس کی دانائی مشرق اور مغرب دونوں کی سیاست کے راز جانتی تھی۔
علامہ اقبال جانتے تھے کہ افغانیوں کی دینی غیرت اور جذبۂ جہاد ’’ مُلّا‘‘ کی مرہونِ منت ہے۔ ان کے خیال میں یہ دینِ حق کی محبت اور اس پر اعتماد تھا جس نے افغان ملت کو باطل کے سامنے ڈٹ جانے پر مجبور کیا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ایشیا کی کوئی قوم سامراج کا مقابلہ نہیں کر سکی، جبکہ افغانستان کے بے سرو سامان باشندوں نے یہاں سامراج کو شکست سے دو چار کیا اور غلامی سے محفوظ رہے۔ علامہ اقبال کو کیا معلوم تھا کہ یہ افغان ملت جس نے ابھی صرف ٹیڈی برطانوی نوآبادیاتی سپر پاور کو شکست دی ہے، اس کے بعد یہ گرم پانیوں کی تلاش میں آئے سرخ ریچھ اور نوسرمایہ دارانہ سامراج امریکہ کانے کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرے گی۔
بہر حال! یہاں افغان ملت کی مدح اور عقیدت کے متعلق کلام اقبال کے چند نمونے پیش خدمت ہیں:اقبالؔ نے ’’ضربِ کلیم‘‘ میں ایک نظم ’’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘‘ درج کی ہے :
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا |
رُوحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو |
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج |
ملّا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو |
ایک نظم میں اقبالؔ نے محراب گل افغان کی زبان سے افغان قوم کو انتہائی دلنشین انداز میں پیغام دیا ہے کہ روم، شام اور ہندوستان کے باشندے بیداری کی راہ پرچل پڑے ہیں،لہذا اے افغان! تم بھی اپنی خودی پہچان لو اور بیداری کی راہ پر گامزن ہو جاؤ جیسے تمھارے آبا واجداد نے کار ہاےنمایاں انجام دیے۔افغان قوم کو احساس دلاتے ہوئے اقبالؔ کہتے ہیں کہ تمھیں قدرت نے کیا کیا صلاحتیں عنایت کر رکھی ہیں، لہذا ان صلاحیتوں کو پہچانو اور ان کو بروئے کار لاتے ہوئے تم بھی غریبی وناداری کی زندگی سے نکل کر دنیا کی دوسری قوموں کی طرح جاگ جاؤ۔ ترقی کے میدان میں اس شرط پر آگے بڑھیں کہ اہلِ مغرب کی پیروی میں اپنا قومی وقار اور تہذیبی شناخت ضائع نہ ہو۔
رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندوستان |
تو بھی اے فرزندِ کہستاں اپنی خودی پہچان |
اپنی خودی پہچان،او غافل افغان |
موسم اچھا پانی وافر مٹی بھی زرخیز |
جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان |
اپنی خودی پہچان،او غافل افغان |
اونچی جس کی لہر نہیں ہے وہ کیسا دریا |
جس کی ہوائیں تند نہیں ہیں وہ کیسا طوفان |
اپنی خودی پہچان،او غافل افغان |
ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ |
اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان |
اپنی خودی پہچان،او غافل افغان |
تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج |
عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان |
اپنی خودی پہچان،او غافل افغان |
شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے نزدیک افغانستان کی جو اہمیت تھی اس کا اندازہ ان کے حسبِ ذیل اشعار سے لگا یا جا سکتا ہے:
آسیا یک پیکرِ آب و گل است |
ملتِ افغاں در آں پیکر دل است |
از فسادِ او فسادِ آسیا |
در کشادِ او کشادِ آسیا |
تا دل آزاد است آزاد است تن |
ورنہ کاہی در ره باد است تن |
ترجمہ: برِاعظم ایشیا ایک پیکرِ آب و گل کی مانند ہے جبکہ ملِت افغان اس جسم میں دل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا فساد برِ اعظم ایشیا کے فساد کا باعث ہے اور اس کی کشاد یعنی جب اس کی گرہ کھل جاتی ہے تو ایشیا کی گرہ کھل سکتی ہے۔ جب تک دل آزاد رہتا ہے جسم آزاد رہتا ہے ورنہ جسم ہوا کے راستے میں ایک تنکا ثابت ہوتا ہے۔
اسی سفر میں اقبالؔ نے کابل میں سلطنت مغلیہ کے بانی ظہیرالدین بابر بادشاہ کے مزار پر حاضری دی اور اس موقعے کی مناسبت سے ایک نظم لکھی۔ اس میں انھوں نے فرمایا کہ بابر ایک آزاد ملک میں دفن ہیں اور یہ ان کی خوش نصیبی ہے :
خوشا نصیب کہ خاکِ تو آرمید ایں جا |
کہ ایں زمیں ز طلسمِ فرنگ آزاد است |
ہزار مرتبہ کابل نکوتر از دلی است |
کہ آں عجوزه عروس ہزار داماد است |
ترجمہ: تو کیسا خوش نصیب ہے کہ تیرا جسدِ خاکی اس سرزمین میں آرام کر رہا ہے اور یہ سرزمینِ کابل انگریز کے طلسم سے محفوظ ہے۔ کابل دلی سے ہزار مرتبہ بہتر ہے کیونکہ یہ بڑھیا ہزاروں شوہروں کی دلہن بنی ہے۔
اقبالؔ نے غزنی میں حکیم سنائی کے مزار کی زیارت کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا ہے:
آه غزنی آں حریمِ علم و فن |
مرغزارِ شیرِ مردانِ کہن |
دولتِ محمود را زیبا عروس |
از حنا بندانِ او داناے طوس |
خفتہ در خاکش حکیمِ غزنوی |
از نواے او دلِ مرداں قوی |
آں حکیمِ غیب، آں صاحب مقام |
ترک جوش رومی از ذکرش تمام |
ترجمہ : افسوس وہ غزنی جو کبھی علم و فن کا گہوارہ اور پرانے شیر مردوں کا مرغزار تھا۔ جو محمود غزنوی کی سلطنت کے لیے حسین دلہن تھی۔ جس دلہن کے ہاتھوں پر مہندی لگانے والوں میں سے ایک دانا ’طوس‘ سے بھی تھا۔ اس کی خاک میں حکیم غزنوی جیسا شخص سویا ہوا ہے، وہ ایسی شخصیت ہے کہ جس کے ترانے سے بہادروں کے دل اور بھی قوی ہوتے ہیں۔ وہ حکیمِ غیب،بلند مقام کا حامل جس کے ذکر سے مولاے روم کا جوش و خروش کمال کو پہنچا۔
علامہ اقبال نے کئی مواقع پر اپنے فارسی اور اردو کلام میں افغانستان کا تذکرہ کیا ہے، ہم نے یہاں چند اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کیےہیں، جبکہ بعض آگے سفر نامے میں مختلف مواقع کی مناسبت سے ان شاء اللہ ذکر ہوتے رہیں گے۔
کتابیات
الکامل في التاریخ (لابن الأثير)
افغانستان د تاریخ په رڼا کی (استاد احمد علی کھزاد)
افغانستان د معاصر تاریخ په رڼا کی (شھسوار سنگر وال)
له احمد شاه بابا سره تر حامد کرزی
د افغانستان تاريخ له اصحابانو ترطالبانو(حانواک مفتی زادہ)
د افغانستان پر معاصر تاریخ یوه لنډه کتنہ (ڈاکٹر ابراہیم عطائی)
سیرِ افغانستان (مولا نا سید سلیمان ندوی)
تاریخِ افغانستان (مولانا اسماعیل ریحان)