مفتی نذیر احمد ہاشمی مدظلہ
ضبط و ترتیب: مولانا عابد علی
تشریح
کسی ایک ہی کام کے سلسلے میں دو باتیں اس طرح ٹکرا جائیں کہ ایک بات اس کام سے روکتی ہو اور دوسری بات اس کا تقاضا کرتی ہو تو روکنے والی بات کو اہمیت دی جائے گی، اگر کسی اور دلیل سے کام کرنے والی بات کی تائید ہو جائے تو پھر اس کی اہمیت بڑھ جائے گی۔
قاعدے کی بنیاد: اس قاعدے کی بنیاد اس حدیثِ نبویﷺ پر ہے، جس میں آپﷺ نے فرمایا: «ما نَهَيْتُكُم عَنْه فَاجْتَنِبُوا وما أَمَرْتُكُم بِه فَاتُوا منه مَا اسْتَطَعْتُمْ» ’’جس کام سے میں تمھیں منع کروں تو اس سے رک جاؤ اور جس کام کا تمھیں حکم دوں تو استطاعت بھر اس کو بجا لاؤ‘‘ ۔ حدیثِ مذکورہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شارع کی نظر میں کام کرنے والے حکم کے مقابلے میں کسی کام سے روکنے کی اہمیت زیادہ ہے۔ اس کی وجہ دو باتیں ہیں کہ کام سے منع کرنے والی بات کا ذکر پہلے کیا گیا اور کام کرنے والی کا بعد میں، دوسری بات یہ کہ کرنے والے کاموں کے ساتھ استطاعت بھر کی شرط لگا دی یعنی استطاعت سے باہر ہو تو کرنے والے کاموں کی بھی پابندی نہیں رہتی۔
مثالیں
۱۔ آج کل کے زمانے میں خواتین کو جماعت کی نماز میں شرکت کے لیے مساجد جانے سے منع کردینا اسی قاعدے کے پیشِ نظر ہے۔ اس لیے کہ فسادِ زمانہ منع کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ نیز حدیث : «لا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللهِ مَسَاجِدَ اللهِ» ’’اللہ کی بندیوں کو مسجد میں جانے سے مت روکو‘‘۔ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خواتین مساجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کریں۔ لیکن روکنے والی بات کو ترجیح دے کر خواتین کو باجماعت نماز مسجد میں پڑھنے سے روکا جائے گا۔
۲۔ اگر ذبح شدہ جانور اور مردار کی کھالیں آپس میں مل جائیں اور جدائی کی کوئی علامت نہ ہو اور غلبہ مردار کا ہو، یا دونوں برابر ہوں، تو ان میں سے کسی کااستعمال کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ ذبح شدہ جانور کی کھال استعمال کرنا جائز ہے اور مردار کی کھال استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ اس مسئلے میں قاعدے کی رعایت کرتے ہوئے حرام کو حلال پر ترجیح حاصل ہو گی اور کسی کھال کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
۳۔ ہر مالک کو اپنی ملکیت میں موجود چیز کو استعمال کرنے میں آزادی ہے، مگر جب اس چیز میں کسی اور کا حق بھی آجائے تو پھر مالک کو اس چیز پر ہر طرح سے تصرف کرنے سے روک دیا جائے گا۔ مثلاً ایک شخص کسی گھر کی نیچے والی منزل کا مالک اور دوسرا اوپر والی منزل کا مالک ہے دونوں کو اپنی ملکیت میں گھر کا ایسا استعمال کرنے سے روکا جائے گا جس سے دوسرے کا حق متاثر ہو رہا ہو۔ مگر ملکیت میں چیز ہونے کی وجہ سے اس کو اپنی چیز کا ہر طرح سے استعمال کرنا جائز ہونا چاہیے، مگر مذکورہ قاعدے کے تحت اس کو اپنی چیز کے ہر طرح استعمال کرنے سے روکا جائے گا۔
۴۔ عدالت میں کوئی شخص گواہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس گواہ کو بعض لوگوں نے اچھا آدمی قرار دیا اور بعض لوگوں نے اس کی گواہی نہ قبول کرنے کا کہا۔ اس قاعدے کی بنیاد پر جب گواہی قبول کرنے اور گواہی قبول نہ کرنے والے دونوں پہلو پائے گئے تو گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔
۵۔ اگر کوئی قرض وقت پر ادا نہ کرے تو شریعت کی رو سے اسے قید کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بیٹا اپنے باپ کو قرض دے اور وہ وقت پر ادا نہ کر سکے تو اس کو قید نہیں کیا جائے گا، کیونکہ قرض ادا نہ کرنے کی وجہ، باپ کو قید کرنے کا تقاضا کرتی ہے، مگر باپ ہونے کا تقاضا یہ ہےکہ اس کے ساتھ احسان اور صلہ رحمی کی جائے اور اسے قید نہ کیا جائے۔