مولانا بدر الحسن القاسمی
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلفا اور حضرت امام العصر مولانا محمد انور شاہ کشمیری کے تلامذہ کو اللہ تعالیٰ نے خاص طرح کے شرف و امتیاز سے نوازا ہے، اسلامی علوم و فنون میں مہارت اور علمی تحقیقی کاموں کا ذوق ہو یا رشد و ہدایت کے مراکز اور اصلاحِ قلب اور تزکیۂ نفس کا میدان ہو، یہی لوگ سیاسی توڑ جوڑ اور منصب و اقتدار کے لیے مکر و فریب سے دور حضور اکرمﷺکی علمی وراثت اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تعبیر و تقسیم کے مطابق آپ کی باطنی خلافت کی ذمے داریوں کو پورے اخلاص کے ساتھ سنبھالے ہوئے ہیں۔حضرت علامہ کشمیری کے نامور شاگردوں میں علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا بدر عالم میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ، حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مفتی اعظم محمد شفیع دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمۃ اللہ علیہ یہ سب اپنے زمانہ کے ممتاز عالم ہی نہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک مستقل ایک متحرک کتب خانہ اور دائرۂ علم کی حیثیت رکھتا ہے۔
دوسری طرف حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے بلند پایہ خلفا پر نظر ڈالیے تو وہ سب بھی اپنی اپنی جگہ پر رشد و ہدایت کے مراکز اور اصلاح و تربیت کا نشان نظر آتے ہیں، وہ خود بھی فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے وابستگان میں عقلا ہی رکھے ہیں اور ان کی حکمت مآب شخصیت نے علماے کبار اور عقلاے روزگار کو ان کے گرد اکٹھا بھی کر لیا تھا۔حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ایک طرف فقہ و افتا میں حضرت کے معتمدخاص اور ساری دنیا کے لیے مرجع کی حیثیت رکھتے تھے، تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت علامہ کشمیری کے علوم کا بھی وارث بنایا تھا اور حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے سر چشمۂ رشد و ہدایت اور تربیت و تزکیۂ نفس کا نمائندہ بھی۔وہ بلا شبہہ اکابر علماے دیوبند کی خصوصیات کے وارث و امین تھے، ان کے اپنے ہاتھوں سے لکھے ہوئے ایک لاکھ سے زائد فتوے اور ان کی تالیف کردہ سیکڑوں اردو اور عربی کی کتابیں اور رسائل ان کی عظمت کی گواہ ہیں، ان کی اردو تفسیر ”معارف القرآن“ ہو یا عربی تفسیر ”احکام القرآن“ کے اجزا سبھی بے مثال ہیں۔اللہ رب العزت نے ان کو اولاد بھی ایسی عطا کی جو ایک سے بڑھ کر ایک باکمال اور علم و عمل سے آراستہ نظر آتی ہے، خاص طور پر ان کے دو صاحب زادے: حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور مولانا محمد تقی عثمانی کو اللہ رب العزت نے ایسا علمی مقام عطا فرمایا اور ایسا عملی امتیاز بخشا جس کی نظیر بر صغیر ہی نہیں عالم اسلام میں بھی مشکل سے مل سکتی ہے، آج جبکہ حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب اپنے جانْ آفریں، خالقِ حقیقی کی آغوشِ رحمت میں پہنچ گئے ہیں تو یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ ان کی پیدائش ۵۵۳۱ھ، مطابق: ۹۳۹۱ء کو دیوبند میں ہوئی تھی، باپ کا نام حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے رکھا تھا اور بیٹے کا نام حضرت حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہم اللہ نے۔
دار العلوم میں زیرِ تعلیم ہی تھے کہ اپنے والد ماجد اور اہلِ خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ تقسیمِ ہند کے بعد کراچی پہنچ گئے، اساتذۂ کرام میں خود مفتی محمد شفیع صاحب، مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب، مولانا سبحان محمود صاحب اور مولانا سلیم اللہ خان صاحب جیسے باکمال رہے، علمی استفادہ علامہ ظفر احمد عثمانی اور علامہ محمد یوسف بنوری سے بھی کیا اور دیگر اہل علم سے بھی اور اپنے والد بزرگوار کی ہدایت پر اصلاحی تعلق حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفی رحمۃ اللہ علیہم سے قائم کیا اور اس طرح شیخ کی ہدایت کی پابندی کی کہ تقریروں سے روکا گیا تو دس سال تک تقریر سے باز رہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطا فرمایا کہ جس پر ساری دنیا آج رشک کرتی نظر آتی ہے۔حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کی شخصیت بڑی خوبیوں کی حامل تھی، آپ ایک بلند پایہ اور بالغ نظر فقیہ اور مفتی تھے، ہزاروں فتوے آپ کی یادگار ہیں، آپ کو حدیث اور دیگر علوم سے بھی بھرپور مناسبت تھی، آپ نے ”عصر ِرسالت میں کتابتِ حدیث“ پر گراں قدر رسالہ تحریر فرمایا ہے۔صحیح مسلم شریف کے درس کا خلاصہ یا اس کی مختصر اردو شرح بڑے شگفتہ انداز پر تحریر فرمائی ہے؛ جس کی ۲/ جلدیں انھوں نے مکہ مکرمہ کی ملاقات کے دوران عطا کی تھیں، علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی شہرۂ آفاق کتاب ”فتح الملہم“ پر عربی زبان میں تعلیقات بھی تحریر فرمائی ہیں، فقہی کتابوں کے ضمن میں آپ نے علامہ ابنِ عابدین کی ”شرح عقود رسم المفتی“ پر بھی عربی زبان میں تعلیقات اور حواشی قلم بند کیے ہیں۔ ”المقالات الفقہیہ“ کے نام سے عربی زبان میں ان کے تحقیقی مقالات دو جلدوں میں شایع شدہ ہیں، ان کے چند عربی زبان کے مختصر رسائل کانفرنس کے لیے لکھے گئے تھے جن میں سے ”الأخذ بالرخص، بیع الوفاء، ضابط المفطرات، الصوم في المذاهب الأربعة“ بین الاقوامی فقہ اکیڈمی جدہ کی طرف سے شائع کیے گئے ہیں۔اردو کتابوں میں کتابت حدیث کے علاوہ ”تین معاشی نظام“، ”نوادر الفقہ“، ”احکامِ زکوٰۃ“، ”جناب مفتیٔ اعظم اور میرے مرشد حضرت عارفی رحمۃ اللہ علیہ “ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ صحیح امام مسلم اور بعض دوسری حدیث کی کتابیں وہ ہمیشہ پڑھاتے رہے ہیں اور روایتی تعلیم کے علاوہ ان کو اپنے والد ماجد، مولانا ظفر احمد عثمانی، شیخ حسن المشاط مکی، مولانا محمد زکریا کاندھلوی اور حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب سے روایت حدیث کی خصوصی اجازت بھی حاصل تھی۔
حضرت مفتی صاحب سے میری پہلی ملاقات تو دار العلوم کراچی میں اس وقت ہوئی تھی جبکہ میں لیبیا کے سفر سے ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب کے ساتھ کراچی آیا تھا، دار العلوم کراچی میں ہی حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفی صاحب سے ملاقات ہوئی پھر مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کی معیت میں ان کی بعض مجلسوں میں حاضری کی بھی سعادت حاصل ہوئی اور عارفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی روحانی شخصیت کا گہرا نقش دل پر قائم ہوا۔
آج حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کے انتقال کے حادثے پر اسی طرح کا احساس ہو رہا ہے، جس کا اظہار حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب نے ان کے والدِ ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کے انتقال پر دار العلوم دیوبند کے ”نو درے“میں اساتذہ اور طلبہ کے سامنے اپنے تعزیتی بیان میں کیا تھا۔مفتی صاحب اور حضرت حکیم الاسلام کی تعلیم کا زمانہ تقریباً ایک ہی تھا اور دونوں ہی اکابر کے علوم کے امین اور علم و فضل کی دنیا کے بے تاج بادشاہ رہے اور ایک عالم ان کی صداقت و امانت اور نفاست کا گرویدہ رہا ہے، ایک ”فتویٰ“ کی شان اور وقار تھے تو دوسرے کو خطابت اور حکمت بیانی کی بے مثال قدرت حاصل تھی اور دونوں میں سے کسی کی نظیر ان کے ہم عصروں میں سے پیش نہیں کی جاسکتی، یہ رخصت ہو گئے۔ان کے بعد اسی طرح آج حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کا جانا بھی عجیب المناک حادثہ محسوس ہوتا ہے۔حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب اپنے علم و فضل کے ساتھ ساتھ غیر معمولی اخلاقی عظمت اور قائدانہ اوصاف و خصوصیات کے حامل انسان تھے، بہت جلد گھل مل جانے والے، تواضع کے پیکر اور دنیا کے احوال پر گہری نظر اور زیر بحث مسائل پر واضح اور دو ٹوک رائے رکھتے تھے۔مکہ مکرمہ میں ”فتویٰ“ سے متعلق عالمی کانفرنس رابطہ عالمی اسلامی نے منعقد کی تو حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی اور مولانا تقی عثمانی دونوں ہی موجود تھے اور افتتاحی اجلاس میں شرکاے کانفرنس کی طرف سے نمائندگی مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے ہی کی، اس اجلاس میں مکہ کے گورنر شاہزادہ خالد الفیصل بھی موجود تھے۔
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کی وفات کا سانحہ میرے نزدیک اس لحاظ سے بھی نہایت المناک ہے وہ اکابر دیوبند حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ شبیر احمد عثمانی اور علامہ انور شاہ کشمیری کے ذہن و مزاج سے قریب اور شرعی نصوص کی ان کی بیان کردہ تشریح سے اپنے نامور برادرِ خورد کے ساتھ پورے طور پر آگاہ تھے، ان کا مزاج اپنے والد بزرگوار کی تربیت، حضرت تھانوی کے افادات پر عبور اور مولانا محمد یوسف بنوری اور مولانا ظفر احمد عثمانی کی کتابوں سے شغف اور حضرت عارفی رحمۃ اللہ علیہ کی کیمیا اثر نظر اور عملی تربیت نے ایسا بنا دیا تھا کہ اس میں فکری ناہمواری کے در آنے کی کہیں سے گنجائش ہی باقی نہیں رہ گئی تھی؛ چنانچہ دونوں ہی ایک اکائی کی طرح اکابر کے علم، کتاب و سنت کی روح اور علماے دیوبند کے ذوق و مزاج اور صحیح مسلک کے محافظ اور امین بن گئے تھے، اب حضرت مولانا محمد تقی عثمانی کی ذات تنہا رہ گئی ہے۔
چند سال پہلے جب مولانا تقی عثمانی صاحب ہندوستان آئے اور دار العلوم دیوبند میں ان کے لیے استقبالیہ جلسہ کا اہتمام کیا گیا تو دار العلوم کے مدرس مولانا ریاست علی بجنوری صاحب نے ان کا تعارف کراتے ہوئے جو بات کہی تھی، اس کا ایک جملہ یہ بھی تھا کہ پہلے زمانے میں دار العلوم کا مسلک جاننے کے لیے لوگ یہاں آتے تھے اور اکابر دار العلوم سے رجوع کرتے تھے؛ لیکن آج صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ دار العلوم دیوبند کا صحیح مسلک جاننے کے لیے ہمیں مولانا محمد تقی عثمانی صاحب سے رجوع ہونے کی ضرورت ہے، جملہ اسی مفہوم کا تھا جو مجلہ ”البلاغ“ بھی میں شائع ہوا تھا۔حقیقت یہی ہے کہ قریبی عہد کے بعض اساتذہ نے دار العلوم کے مسلک کو مشتبہ کرکے رکھ دیا ہے اور اپنی مزاجی بے اعتدالی اور ذہنی تہور اور کم علمی کی وجہ سے ایسے ایسے دعوے صحیح بخاری اور سنن ترمذی کے اسباق میں کر ڈالے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔
ابھی چند سال پہلے بعض خلیجی ملکوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور پٹرو ڈالر کو اپنی جماعت تک محدود رکھنے کے لیے بر صغیر میں چھوٹا سا ایک ایسا گروہ سر گرم ہو گیا جس کی خاصیت ہی بدگمانی اور بدزبانی ہے، فقہاے کرام کو نشانہ بنانے کے بعد اکابر علماے دیوبند سے عرب نوجوانوں کو ان کی ناواقفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بدظن کرنے کی مہم شرع کردی اور اسلم پاکستانی کے رسالے میں جس فتنے کی بنیاد ڈالی گئی تھی، اب کبھی ” القول البلیغ في جماعة التبلیغ“ اور کبھی ”الدیوبندیة“ کے نام سے اس کو ہوا دینے کی کوشش زور و قوت سے شروع ہو گئی۔
حضرت شیخ الہند پر قرآنی آیت میں تحریف کا الزام، علامہ انور شاہ کشمیری کو نئے مدرس قرار دے کر ان پر تعصب کا الزام اور حضرت شاہ اسماعیل شہید کی ”عبقات“ جو خالص کشفی علوم، وحدۃ الوجو اور وحدۃ الشہود کے موضوع پر ہے اس کو ’’مجددانہ کار نامہ‘‘ کتاب پڑھے اور سمجھے بغیر ہی قرار دے ڈالا۔اس زمانے میں غلط فہمیوں کے ازالےاور غلط بیانیوں کے تدارک کے لیے میں نے ایک چھوٹا سا عربی رسالہ ”وجہ جدید“ کے نام سے لکھا تھا، تو بڑا سوال یہی سامنے تھا کہ ”دیوبندیت“ کیا ہے؟ اور مسلک دیوبند کی حدودِ اربعہ کی تعیین کس طرح کی جائے؟ اور اس میں مرجعیت کس کو حاصل ہے؟ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ بے حد قیمتی ہے؛ لیکن وہ مناظرانہ انداز کا ہے۔حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب کی کتاب مسلک کے معتدل ہونے کے بیان میں بے مثال ہے؛ لیکن فکری اور اعتقادی الرجی میں مبتلا گروہ کی شفایابی اس کے ذریعے شاید ممکن نہ ہو، بالآخر مجھے یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اکابرِ دیوبند کے فتاویٰ کے جو مجموعے شایع شدہ ہیں، ان میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے لے کر حضرت الاستاذ مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ تک کے فتاوے ہی سند کی حیثیت رکھتے ہیں، ورنہ خوابوں کے مجموعے اور کرامات کی بھول بھلیوں میں ارشد القادری کے ”زلزلہ“کا سارا مواد موجود ہے۔
مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مرحوم اور مولانا محمد تقی عثمانی کی شخصیت ایک اکائی طرح تھی، ان دونوں نے اپنے والد گرامی حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کی علمی و ذہنی تربیت اور حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفی صاحب کی روحانی تاثیر کے ساتھ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے علوم و معارف کو جس طرح ہضم کیا ہے کہ ان کا مزاج ایک خاص سانچہ میں ڈھلا ہو، معلوم ہوتا ہے؛ جس میں فکری بے اعتدالی کی گنجائش ہے اور نہ مسلکی رجحان میں کتاب و سنت کی تعلیمات اور حضور اکرمﷺ کی سیرت کے جلووں سے دوری کا امکان، جس نے ان کو صحیح مسلک کا چلتا پھرتا ترجمان بنا دیا تھا، نہ تو اس وقت صحیح مسلک کی باریکیوں کا ادراک کرنے والا اور نہ بالغ نظری سے ان کی تشریح کرنے والا کوئی اور ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ور ائمۂ دین، فقہاے مسلمین رحمہم اللہ کا یا جمہور اہلِ سنت کا جو مسلک ہے، علماے دیوبند اسی پر قائم اور اسی کے محافظ ہیں اور اسلام، ایمان اور احسان کے تقاضوں پر مضبوطی سے قائم ہیں اور ہر طرح کی بدعت اور فکری انحراف کے شدت سے مخالف۔حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب اور مولانا محمد تقی عثمانی دونوں بھائیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی شخصیت کی تعمیر کی طرف حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کی خاص توجہ رہی۔دینی علوم کا سرمایہ تو خود اپنے گھر میں موجود تھا، پھر بھی اچھے اساتذہ سے تعلق، تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی خاص نظر، پھر خود اپنی تربیت میں رکھنے کے بجائے حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفی سے اصلاحی تعلق قائم کرانا بھی حضرت مفتی صاحب کی حکیمانہ تدبیر تھی کہ باپ کی شفقت شاید اس درجہ کی نگرانی میں رکاوٹ ہو، اس لیے دوسرے ولیِ کامل کی مدد لی جائے اور انھوں نے بھی ان کو مانجھنے اور سنوارنے کا روحانی فریضہ پوری توجہ سے انجام دیا۔ذرا سے خدشے کی بنیاد پر شہرت و مقبولیت کے باوجود تقریر کرنے پر مکمل پابندی لگادی جو دس سال تک جاری رہی اور دونوں بھائیوں نے اسے نہ صرف گوارہ کیا؛ بلکہ مکمل پابندی کی مثال قائم کردی۔ایسی شخصیت جس کی فقہی بصیرت اور علمی قابلیت کا لوہا عالمِ اسلام کے علمی مراکز اور فقہی اکیڈمیاں مان رہی ہوں وہ اپنے شیخ کی ہر ہدایت کو بے چوں چرا تسلیم کرنے میں کوئی حرج محسوس نہ کرے، اسے خود ہی ولایت کا اعلیٰ مقام قرار دیا جا سکتا ہے۔مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کے شاگرد اور فیض یافتگان دنیا کے ہر ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، انھوں نے بھی دنیا کے بہت سے ممالک دیکھے ہیں۔
انھوں نے دار العلوم کے انتظام و انصرام کا کام بھی بڑے اعلیٰ پیمانہ پر انجام دیا ہے، دار العلوم کی عمارت جس سلیقے سے تعمیر کی گئی ہے، درس گاہوں اور خاص طور پر دار الحدیث کا جو نظام رکھا گیا ہے، دیوبند کا دار العلوم تو ”پدرم سلطان بود“ کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہے؛ لیکن دار العلوم کراچی کے یہ ذمے داران بنفسِ نفیس موجودہ زمانے کے پیچیدہ مسائل کا حل پیش کرنے میں عرب علما سے آگے ہیں۔”تکملہ فتح الملہم“، ”فقہ البیوع“، ”المدونۃ الجامعۃ“ یہ سارے علمی کارنامے مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کے ہیں۔ مالی معاملات کے لیے شرعی معیار کی تدوین کا ادارہ دسیوں سال سے مولانا کی صدارت میں کام کر رہا ہے، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کے وجود سے مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کو بھی بڑی حد تک یکسوئی تھی۔
موجودہ زمانے میں کس طرح کے عالم دین کی ضرورت ہے، اس سوال کا اب تک ایک ہی جواب ہے کہ موجودہ زمانہ کے عالم دین میں مولانا محمد رفیع عثمانی اور مولانا محمد تقی عثمانی کی علمی اور عملی خصوصیات ہونی چاہییں، اب تک اس کی کوئی دوسری مثال خال خال ہی پیش کی جا سکتی ہے۔حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب اور مولانا محمد تقی عثمانی اپنے علمی کمالات اور بعض مزاجی خصوصیات میں فرق کے باوجود ساری زندگی دو قالب ایک جان کی طرح رہے، باہم عظمت اور شفقت نے ایسا توازن پیدا کردیا تھا کہ وفات کے حادثے پر مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کی زبان سے اپنے ایک بازو کے علاحدہ ہو جانے کا اظہار اس طرح ہوا کہ ”طالبِ علمی کے زمانے سے ہم ساتھ رہے، آج پچھتر سال کا ساتھ یکدم چھوٹ گیا“۔
اللہ تعالیٰ مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب کوفردوس میں جگہ دے اور مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کے دست و بازو کو مضبوط کرے اور انھیں اپنے حفظ و امان میں رکھے، ان سبھوں کا علمی فیض ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔مولانا کو بلا شبہہ یہ کہنے کا حق ہے کہ:
وکنا کندمانَيْ جذیمة حقبة |
من الدهر حتی قیل لن یتصدعا |
فلما تفرقنا کأني و مالکا |
لطول اجتماع لم نبت لیلة معا |
(یعنی ہم دونوں جذیمہ کے دونوں ہمنشینوں کی طرح ایک مدتِ دراز تک زمانے سے جدا نہیں ہوئے، یہاں تک کہ یہ کہا جانے لگا کہ یہ دونوں تو کبھی جدا نہیں ہوں گے، لیکن جب ہم دونوں یعنی میں اور مالک ایک دوسرے سے جدا ہوئے، تو طویل زمانے تک ساتھ رہنے کے باوجودگویا ایک رات کے لیے بھی یکجا نہ ہوئے ہوں)
نوٹ: یہ تحریر فیس بک وال سے کاپی کر کےشایع کی گئی۔