صوفی جمیل الرحمن عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم و ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف،فقہ اکیڈمی
جنگِ قرم (کریمین) میں اگرچہ سلطنتِ عثمانیہ کو فتح نصیب ہوئی لیکن اس موقعے پر سلطنت مقروض ہو گئیتھی۔ سلطان عبد الحمید ثانی کی تخت نشینی سے ایک سال قبل یعنی ۱۸۷۵ ء میں سلطنتِ عثمانیہ دیوالیہ ہو چکی تھی اور اسے ’’یورپ کا مردِ بیمار‘‘ کا لقب دیا جا چکا تھا۔ اب یورپی طاقتیں اس بندۂ بیمار کی آخری رسومات ادا کرنے کی جلدی میں تھیں۔ چناں چہ اپنے دور حکومت کے شروع ہی میں سلطان کو روس کی جارحانہ جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ میں ترکی کو شکست ہوئی یہاں تک کہ ادرنہ شہر پر روسی فوجوں نے قبضہ کر لیا، جس پر سلطنت نے صلح کی درخواست کی جس کے نتیجے میں ۱۸۷۸ء میں سان اسفتانوس معاہدہ ہوا جس میں سلطنت عثمانیہ کو نہ صرف بہت سے مقبوضات سے پیچھے ہٹنا پڑا بلکہ کثیر مالی تاوان ادا کرنا پڑا۔ ان حالات نے یہودیوں اور عثمانی دشمن قوتوں کے حوصلے بڑھا دیے اور وہ اپنے منصوبوں پر عمل کرنے میں زیادہ مستعد ہو گئے۔
سیاسی و سفارتی کوششیں
اسی عرصے میں یہود کی آباد کاری کے لیے سیاسی و سفارتی کوششوں میں تیزی لائی گئی۔برطانوی مصنف اور دانشور لارنس اولیفانٹنے ۱۸۷۸ ء میں فلسطین میں اراضی خرید کر یہاں یہودی زرعی گاؤں بسانا چاہا۔ اس نے برطانوی وزیر اعظم بنجمن ڈسرائیلی،دفترِخارجہ اور فلسطین میں برطانوی سفیر کے تعاون سے ایک خطۂ زمین پسند کیا۔ پھر ۱۸۷۹ ء میں اس منصوبے کےساتھ استنبول روانہ ہو گیا جہاں استنبول میں برطانوی سفیر ہنری لائرڈ کے تعاون سے کئی سرکردہ روشن خیال لوگوں سے ملاقات کی اور اپنے منصوبے کی تفصیلات اور سلطنت کو حاصل ہونے والے فوائد بتا کر ان کی رائے اس منصوبے کے حق میں بنانے کی کوشش کی۔اس نے کابینہ سے ملاقات کے علاوہ سلطان سے بھی ملاقات کی۔ اس نے سلطنت کے فرانسیسی جنگی مشیر کرنل دریسی (سے بھی سفارش کرائی لیکن خلیفہ نے نہ صرف انکار کیا بلکہ اسے استنبول سے چلے جانے کا حکم دیا اور آئندہ داخلے پر پابندی لگا دی۔ ۱۸۸۱ ء میں شاہ روس الیگزینڈر ثانی کے دورِ حکومت میں روس کے بعض علاقوں میں یہودیوں نے سرکشی کی تو ان کی خوب گوش مالی کی گئی۔اس موقعے پر یہودیوں نے سلطان عبد الحمید سے فلسطین کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت طلب کی لیکن سلطان نے سختی سے منع کر دیا۔البتہ انھیں پیشکش کی کہ وہ سلطنت کے کسی دوسرے حصے میں آبا د ہونا چاہیں تو انھیں اجازت دی جا سکتی ہے لیکن یہودی فلسطین میں آباد کاری پر مصر تھے۔چناں چہ سلطان نے صاف انکار کردیا۔۱۸۸۲ءمیں روسی یہودیوں کا ایک وفد اوڈیسیا کے عثمانی سفارتخانے میں پہنچا اور فلسطین میں قیام کی اجازت طلب کی۔ سلطان کی طرف سے ایک فرمان سفارت خانے کو بھیجا گیا جس میں اپنے سابقہ موقف کا اعادہ کیا گیا،اس کے ساتھ ہی قدس کی جانب ایک حکم نامہ جاری کیا گیا جس میں بیرونی یہودیوں کو یہاں قیام کی ممانعت کی گئی۔جون ۱۸۸۲ء میں چودہ روسی یہودیوں کا ایک گروہ استنبول کی سیر کو آیا اور یہاں سے اس نے فلسطین کا رخ کیا، اس ارادے سے کہ وہیں قیام پذیر ہو جائے گا۔ سلطنتِ عثمانیہ کے اداروں کو پتا چلا تو سلطان نے قدس کے امیر کو برقی تار بھیجا کہ جس دن وہ گروہِ یہودی یہاں پہنچے اسے یہاں اترنے نہ دیا جائے بلکہ اپنی حدود سے نکال دیا جائے۔۱۸۹۱ ء میں میں یورپی طاقتوں کا ایک وفد استنبول پہنچا اور اس نے امورِ خارجہ کے وزیر محمد سعید پاشا صغیر کے ذریعے سلطان عبد الحمید سے رابطہ کیا۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہم یہودیوں کو قدس میں آباد نہیں کر سکتے۔ اگر ان کی آباد کاری اتنی ہی ضروری ہے تو انھیں امریکا میں بسایا جائے۔ اور اگر کوئی گروہ یہود ہماری اجازت کے بغیر یہاں داخل ہوا تو ہم اسے فوری طور پر بے دخل کریں گے۔
تھیوڈور ہرزل کی کوششیں
تھیوڈور ہرزل آسٹریا ہنگری کا ایک یہودی قانون دان، مصنف و دانشور اور عالمی صیہونی تنظیم کا صدر تھا۔ اسے ریاستِ اسرائیل کا روحانی باپ قرار دیا جاتا ہے۔اس نے جرمن بینکار، بارن موریس دی ہیرش سے مل کر عارضی طور پر یہود کو ارجنٹینا میں آباد کرنے کی سکیم بنائی۔ اگرچہ کچھ لوگ یہاں ہجرت کر گئے لیکن یہود میں یہ منصوبہ عام پذیرائی نہ حاصل کر سکا۔۱۸۹۶ ء میں تھیوڈور ہرزل نے اپنی کتاب شایع کی جس میں اس نے تمام یہودی مسائل کا حل فلسطین میں قومی ریاست کے قیام سے مشروط کیا۔اس نے یہ کتاب سرکردہ یہودیوں اور بطور خاص روتھ شیلڈ خاندان کو بھیج کر قومی ریاست کے قیام کے مقصد کے لیے کام کرنے پر آمادہ کیا۔
ترکی مغربی طاقتوں کا مقروض تھا۔ عالمی صیہونی تنظیم کے سربراہ تھیوڈور ہرزل نے انہی قرضوں کے ذریعے ترکی کو دباؤ میں لانے کا فیصلہ کیا۔ ہرزل نے اپنے ایک دوست نیولنسکی سے رابطہ کیا جو آسٹریا کی طرف سے استنبول میں سفیر رہ چکا تھا۔ یہاں سلطان کے ساتھ اس کے اچھے تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ بعد میں نیولنسکی نے پیرس اور ویانا سے ایک اخبار نکالنا شروع کیا تھا۔ ہرزل نے اس سے کہا کہ اگر عثمانی سلطنت فلسطین ہمارے حوالے کر دیتی ہے تو ہم نہ صرف اس کے قرضے ادا کر دیں گے بلکہ فلسطین کی زمین کی قیمت کے بدلے اور بھی بہت کچھ ادا کریں گے اور ہمارے درمیان واسطہ بننے والے کو بھی کثیر مال عطا کریں گے۔چناں چہ ۱۸۹۶ء میں بلغراد کے عثمانی سفیر توفیق پاشا کے ذریعے نیولنسکی نے سلطان سے رابطہ کر کے قسطنطنیہ کا دورہ کیا۔ اس سفر میں ہرزل بھی شامل تھا لیکن اسے سلطان کی طرف سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ نیولنسکی نے ہی ہرزل کا پیغام سلطان تک پہنچایا۔ اس نے سلطان کو پیشکش کی کہ اگر یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دی جائے تو ان کی طرف سے سلطنت کا تمام قرضہ ادا کر دیا جائے گا نیز فلسطین کے بدلے مزید دولت بھی پیش کی جائے گی۔ سلطان نے اس ساری اسکیم کو ناپسند کیا اور نیولنسکی سے سوال کیا کہ کیا یہود کو اپنے وطن کے لیے فلسطین کے علاوہ کوئی جگہ نہیں ملتی۔ نيولنسكی نے جواب دیا: فلسطین یہودیوں کا اولین وطن ہے اس لیے وہ وہیں جانا پسند کرتے ہیں۔ سلطان نے اس کی بات کو ردکرتے ہوئے کہا: ’’فلسطین صرف یہودیوں کا وطن نہیں ہے بلکہ یہ تمام ادیان کا مقدس علاقہ ہے۔سلطان نے نیولنسکی سے کہا دیکھو جس طرح تم میرے دوست ہو اگر اسی طرح ہرزل تمہارا دوست ہے تو تم اسے یہ نصیحت کر دو کہ اس معاملے میں جو قدم اٹھا چکا؛ اٹھا چکا، اب دوسرا قدم نہ اٹھائے۔میں اس ارضِ مقدس کا ایک چپّا بھی نہیں بیچ سکتا۔یہ میرے لیے ممکن ہی نہیں ہے یہ میری ملکیت ہی نہیں بلکہ یہ تو میری امت کی ملکیت ہے۔میرے اسلاف نے اس زمین کو جنگ کر کے حاصل کیا ہے اور خون دے کر دشمنوں سے اس کی حفاظت کی، ہم نے اس زمین کواپنا خون پلا یا ہے اور ہم اس زمین کی حفاظت کے لیے اب بھی خون دے سکتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں جنگ بلفینا میں ہمارے فوجیوں نے عزت سے شہید ہوجانا پسند کیا، انھوں نے موت کو خوش آمدید کہا لیکن جیتے جی اپنا شہر، روسیوں کے حوالے نہیں کیا۔ یہود کو یاد رکھنا چاہیے جب تک میری حکومت قائم ہے وہ فلسطین حاصل نہیں کر سکتے۔ جب تک ہمارا ملک قائم ہے، ہمارے جسموں میں جان باقی ہے اور میں قید حیات میں ہوں وہ فلسطین کسی قیمت پر حاصل نہیں کر سکتے‘‘۔
۱۸۹۷ ء میں ترک یونان جنگ کے موقعے پر جب کہ سلطنتِ عثمانیہ شدید مالی بحران کا شکار تھی ہرزل نے ویانا کے سفیر کے ہاتھ بہت ساری رقم سلطان کی خدمت میں ارسال کی لیکن سلطان نے اسے ٹھکرا دیا۔اسی سال بازل سویزر لینڈ میں ایک صیہونی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ہرزل نے کہا کہ فلسطین میں یہودی سلطنت کے قیام کی دو صورتیں ہیں یا تو عثمانی سلطان ہماری پیش کش قبول کر لے یا پھر سلطنتِ عثمانیہ کو توڑ دیا جائے اور اب یہی کرنا پڑے گا۔
ہرزل کو معلو م ہوا کہ شاہِ جرمنی ولیم ثانی جو یورپ میں سلطنتِ عثمانیہ کا اتحادی تھا اور ولیم کے ساتھ سلطان عبد الحمید کے ذاتی تعلقات بھی تھے۔ استنبول کے دورے پر روانہ ہو رہا ہے۔اس نے ولیم سے درخواست کی کہ وہ اسے ساتھ لے چلے۔چناں چہ وہ۱۸۹۹ء میں شاہِ جرمنی کے ساتھ استنبول آگیا لیکن یہ مہم بھی ناکام ثابت ہوئی۔ سلطان کی طرف سے ہرزل کو ملاقات کا شرف نہیں بخشا گیا۔البتہ اس کے بعد ایک موقعے پر سلطان نے اسے ملاقات کی اجازت دی۔ دو گھنٹے کی اس ملاقات میں زیادہ تر ہرزل ہی بولتا رہا۔ سلطان نے تحمل سے ہرزل کی ہرزہ سرائی سنی لیکن اپنے سابقہ موقف پر قائم رہے۔ ۱۳ مئی ۱۹۰۱ء کو بھی ہرزل کی سلطان کے ساتھ ایک بے نتیجہ ملاقات ہوئی۔۱۸ مئی ۱۹۰۱ء کو عثمانی شہری اور یہودی ربی موشے لیوی کے توسط سے ایک ملاقات ہوئی۔اس میں ہرزل نے سلطان کو مالی خدمت کے ساتھ انجمن اتحاد و ترقی کے اخباری حملوں کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی اور یہودیوں کی آباد کاری کے متعلق اپنی درخواست از سرِنو پیش کی۔سلطان نے جواب دیا: ’’میرا تو خیال ہے کہ تم لوگ دنیا بھر میں امن و امان سے رہتے ہو اور ہماری سلطنت میں تو تم زیادہ خوش حال ہو، کیا یہاں تمھارے ساتھ کوئی ظلم و زیادتی ہوئی کہ تم قومی ریاست بنانے کے درپے ہو‘‘ ۔سلطان غصے میں تھے۔ موشے لیوی یہ دیکھ کر استغفار پڑھتے ہوئے سلطان سے معافیاں مانگنے لگا۔ سلطان نے فرمایا: ’’ہم نے تم لوگوں کا عام لوگوں سے بڑھ کر خیال رکھا، تم دوسروں سے زیادہ خوشحال اور آرام دہ ہو اور اتنا زیادہ کہ دنیا کے دوسرے علاقوں میں پہنچنے والے عذاب کو بھول بیٹھے ہو۔ فلسطین ہمارے اجداد نے خون دے کر حاصل کیا اور خون دے کر اس کی حفاظت کی۔تمھیں یہاں وطن بنانے کی قطعی اجازت نہیں ہے‘‘۔
فروری ۱۹۰۲ میں ہرزل نے استنبول کا ایک مزید سفر کیا جس میں سلطان سے ملاقات تو نہ ہوئی لیکن چند وزیروں سے ملاقات ہوئی جس میں کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا۔ چنانچہ ہرزل نے مایوس ہو کر اپنے کسی اجلاس میں یہ بیان دیا: ’’میری تمام امیدیں دم توڑ چکی ہیں جب تک سلطان عبدالحمید تخت سنبھالے ہوئے ہے ہم فلسطین میں داخل نہیں ہو سکتے‘‘ ۔ اس کے بعد ہرزل نے برطانوی وزیر چیمبرلین، یہودی سرمایہ دار لارڈ روتھ شیلڈ سے ملاقاتیں کی اور حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ چیمر لین نے یہودیوں کو یوگنڈا میں آباد کرنے کی تجویز دی جو اس نے رد کی۔پھر اس نےویٹی کن سٹی کا دورہ کیا اور پوپ کی حمایت حاصل کی۔ اس نے اطالیہ کے حکمرانوں وغیرہ سے ملاقاتیں کیں اور یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کے لیے ان کی مدد حاصل کی۔ یہودیوں نے امریکی وزیرِ مملکت آسکر سولومن ستراوس کے ذریعے سے بھی سلطان کو یہودی آباد کاری پہ رضامند کرنے کی ناکام کوشش کی۔
فلسطین کے متعلق قانون سازی
سلطان عبد الحمید خان ثانی نے فلسطین میں یہودی آباد کا ری کو روکنے کے لیے مختلف اوقات میں قانون جاری کیے۔ ۱۹۸۱ء میں ایک قانون جاری کیاگیا جس میں یہودیوں کو عثمانی شہری بن کر اور ملکی قوانین کے تحت پوری سلطنت میں کہیں بھی قیام پذیر ہونے کی اجازت دی گئی البتہ قدس میں قیام کو ممنوع قرار دیا گیا۔۱۸۸۲ء میں سلطان عبد الحمید نے ایک قانون جاری کیا جس کی رو سے یہود کو زمین بیچنے کی ممانعت کی گئی۔ اس قانون میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ دوسرے اجنبیوں کو زمین بیچنے کے لیے سلطنت کی منظوری ضروری ہے۔۱۸۸۴ء میں انھوں نے یہودی زائرین کے قیام کی مدت کی تحدید کرتے ہوئے انھیں تین مہینے رہنے کی اجازت دی جو پہلے چھے مہینے تھی۔ البتہ یہودی تاجروں کو فلسطین میں داخلے کی ممانعت کر دی گئی۔۱۸۹۲ ء میں یہودی زائرین کے قیامِ قدس کی مدت تین ماہ سے کم کر کے ایک مہینا کر دی گئی۔۱۸۹۸ء میں سلطان نے ایک قانون جاری کیا جس میں کسی یہودی کو فلسطین کی شہریت دینے کی ممانعت کی گئی نیز یہودی زائرین کے قیامِ قدس کے لیے تین دن کی میعاد مقرر کی گئی۔ان کے لیے ایک مالی ضمانت بھی مقرر کی گئی کہ واپسی تک اتنی رقم بطور ضمانت رکھوائیں گے جو بعد میں ختم کر دی گئی۔اس قانون سازی سے یہودی آباد کاری پر خاصی حد تک رکاوٹ رہی۔البتہ رشوت و سفارش اور مکر و حیلے سے محدود پیمانے پر یہودی آباد کاری کا سلسلہ جاری رہا۔یورپی سفارت خانوں خاص کر برطانوی سفیر نے کئی یہودیوں کو عیسائیوں کے نام اور جعلی کاغذات سے زمین خرید کر یہاں آباد کروایا۔
آباد کاری کی چند کوششیں
موسی حائم مونٹی فوری یہودی سرمایہ دار،بینکار اور سیاست دان تھا جسے برطانیہ نے سر کا خطاب دیا تھا۔ اس نے کئی بار قدس کی زیارت کی۔ ۱۸۳۶ء کے زلزلے کے بعد اس نے قدس کے بعض علاقوں یافا وغیرہ میں ریلیف کا کام کیا۔اس نے ۱۸۵۵ء میں یافا کے باہر ایک باغ قائم کیا اور یہود کو زراعت کی تربیت دینے لگا۔ اس نے ۱۸۶۰ء میں بیت المقدس شہر کی فصیل کے باہر ایک رہائشی رقبہ قائم کیا جس میں غریب یہودیوں کو آباد کرنا شروع کیا۔۱۸۹۱ء میں جرمن صیہونی لیڈر پال فریڈمان نے شاہِ مصر خدیو عباس حلمی کو شیشے میں اتار لیا اور ایک لاکھ ستر ہزار جرمن مارک اور پچیس ہزار پونڈ سٹرلنگ کے عوض صحراے سینا میں طورِ سینا کی طرف ایک خطۂ اراضی حاصل کر لیا۔سلطان عبد الحمید نے ایک فوج بھیج کر ان صیہونیوں کو یہاں سے بے دخل کیااور یہ علاقہ مصر سے واپس لے لیا۔۱۸۹۸ ء میں جرمنی نے جبلِ صیہون پر کچھ زمین اتحادی ہونے کی آڑ میں ہتھیا لی اور یہاں ’’کنواری مریم‘‘ کے نام سے گرجا قائم کیا گیا۔ اگرچہ یہ عیسائی ادارے تھے لیکن درپردہ یہاں یہودیوں کو ٹھکانا فراہم کیا جاتا تھا۔ ۱۹۰۳ء میں کچھ یہود نے فلسطین میں بسنے کی کوشش کی اور یہودی زرعی فارم ہاؤس دغانیا کے نام سے بنایا گیا۔ اس کے لیے سرمایہ فراہم کرنے والا موشے دیان تھا۔اس کے بعد بھی فارم ہاؤس بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔ زرعی فارم اقتصادی کے علاوہ یہودیوں کا سیاسی اور ملی مرکز ہوتا تھا۔ پہلے اسرائلی وزیر اعظم بن گوریان اور شمعون پیرز کے علاوہ بہت سارے اسرائیلی وزرا اپنے اپنے وقت میں ان فارم ہاؤسز کا حصہ رہے ہیں۔ان سب کوششوں کے باوجود، ایک منظم حکومت کی موجودگی میں فلسطین پر قبضہ یا بڑی تعداد میں وہاں ہجرت کر جانا، یہودیوں کے لیے ممکن نہ تھا۔
کتابیات
السلطان عبد الحمید و هرتزل، دکتور بها الأمیر
الدولة العُثمانية – عَوَامل النهُوض وأسباب السُّقوط، عَلي محمد الصَّلاَّبي
القدس و المسجد الأقصی عبر التاریخ، دکتور محمد علی البار
المفصل في تاريخ القدس، عارف العارف
أسرار انقلاب عثماني، مصطفي طوران