گفتگو: ڈاکٹر محمد رشید ارشد
ٹرانسکرپشن: دانیال بن شفیق
الحاد کا جو زیادہ بڑا سبب ہے، وہ اخلاقی ہے، وہ عقلی اور علمی نہیں ہے، یعنی بالفرض پاکستان کے اگر سو ملحد ہیں تو چار، پانچ ہوں گے اُن میں سے جنھوں نے واقعتاً کسی عقلی، علمی بنیاد پر اللہ کو چھوڑا ہے، کہ نہیں بھئی واقعی ہمیں سمجھ میں نہیں آ رہا اور یہ ہمارے اشکالات ہیں۔ زیادہ تر لوگ تو شہوتوں کی وجہ سے چھوڑتے ہیں یعنی ہمارے علما جو بیان کرتے تھے نا کہ شیطان کے انسانوں پر دو بڑےوار ہیں: نمبرایک: شبہات پیدا کرتا ہے، نمبر دو: شہوات کی طرف لے کر جاتا ہے۔ شبہات والے ملحد آج بھی بہت تھوڑے ہیں، اصل میں شہوات ہیں،یہ لوگ ایک آزاد زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، جبلتوں کے تحت زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، خدا کا تصور، آخرت کا تصور haunt کرتا ہے، شرم پیدا کرتا ہے تو پھر بنے بنائے بن جاتے ہیں یعنی کہیں سے دلائل مل جاتے ہیں، ہر دور میں کچھ لوگ بہت مشہور ہوتے ہیں نا، پچھلی صدی میں برٹرنڈ رسل بہت مشہور تھا۔ New Atheism میں ۲۰۰۰ء کے بعد اور ۱۱/۹ کے بعد رچرڈ ڈاکنز بہت مشہور تھا، اب پچھلے تین، چار سال سے Yuval Noah Harari جو ایک اسرائیلی مفکر ہے، بہت مشہور ہے۔ وہ تو اصل میں ایک تاریخ دان ہے، وہ بہت شہرت رکھتا ہے۔ تو پھر بنے بنائے دلائل مل جاتے ہیں، اُس پہ پھر وہ بات کرتے ہیں۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ ان ملحدین کا علاج کیا ہے؟ توابھی بھی میری ناقص رائے میں، کسی بھی طرح کے جو ملحد ہیں، اُن کا علاج گفتگو یا مناظرہ نہیں ہے بلکہ دین کی جو وجودی manifestations ہمارے پاس ہیں یعنی کسی نیک، صالح آدمی کو دیکھ لینا، اُس کے پاس بیٹھ جانا، اُس کی صحبت اختیار کرنا، کسی اللہ والے کی مجلس میں آنا جانا، یہ شاید آج بھی سب سے زیادہ مفید ہے کیونکہ ذہن سے کیا ہوتا ہے؟ کچھ بھی نہیں ہوتا، ہمارے ہاں فلسفے میں یہ مشہور ہے کہ وہ جو Newton’s Law ہے نا، اُس کی پیروڈی بنائی گئی ہے کہ:
To every theory, there is an equal and opposite theory. ہر تھیوری کے مقابل میں ایک تھیوری ہوتی ہے، وہ دوسری کو کاٹتی رہتی ہے۔ تو اصل چیز تو وجودی اظہار ہے نا تو اِسی لیے دین داری کے نمونے اگر بڑھیں گے اور پھر دین داری پر مبنی کوئی سماج اگر ہم پیدا کر لیں اور دین داری یا دینی کوئی quality ہم بنا سکیں، اُس کا کوئی رول ماڈل سامنے ہو،تو ہم دیکھیں گے کہ یہ الحاد یا بے دینی بہت تیزی سے ختم ہو گی، اُس سے پہلے تو مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا آئیڈیا بہت بڑا ہے، ہم اُس کو actualize نہیں کر پاتے، مغرب اپنے ہر آئیڈیا کو actualized کر لیتا ہے تو ہماری باتیں بہت بڑی بڑی ہیں، ہمارے پاس تھیوری بہت بڑی ہے لیکن collectivity میں چونکہ اُن کو وہ کہیں actualized نظر نہیں آتی، individuality میں تو ہیں آج بھی، ہر طرف ہیں، مختلف pockets میں لوگ ہیں، collectivity میں نہیں ہیں، سماج میں بھی اُس طرح نہیں ہیں کہ پورا ایک سماج اِس پر قائم ہو اور مملکت میں تو بالکل بھی نہیں ہیں، کوئی ماڈل ہمارے پاس نہیں ہے تو اِس کی وجہ سے بھی ہمارے ہاں شاید لوگ جو کہتے ہیں نا کہ الحاد بڑھ رہا ہے تو اُس کا سبب شاید یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس اُس کی کوئی collective manifestations نہیں ہیں۔ یہ بس چند ایسی متفرق باتیں تھیں، میں نے توبہت گفتگو کی، آپ سب لوگ اصحابِ علم ہیں، بس اِس بارے میں اب آپ لوگ کچھ ارشاد فرمائیں۔
سوال وجواب
سوال: سر یہ جو آپ نے لا تعلقی کی بات کی جس کو ہم اگر دوسرا نام دیں تو individualism یا individualistic ہے جو انسان کے اوپر طاری ہو جاتا ہے اور اِس advanced زمانے سےپیچھے جیسے چھے، آٹھ سال پہلے ہم دیکھتے ہیں تو علما، صلحا اور بڑوں کے ساتھ بیٹھکیں بہت زیادہ ہوا کرتی تھیں، اب تقریباً کوشش یہ ہو گئی ہے کہ لوگ individualistic life کو گزاریں، چونکہ ہم ٹیچرز بھی ہیں تو اِس کو اسٹوڈنٹس کے درمیان کیسے encourage کیا جا سکتا ہے؟ کیسے ہم اِس کو بڑھا سکتے ہیں؟ اسی طرح جسےہم لا تعلقی کہہ رہے ہیں،اگر رشتوں میں بھی دیکھ لیں تو یہی لا تعلقی بہت زیادہ ہے۔کئی جگہوں پر urban societies میں تو سنگین معاملہ ہو جائے تب جا کر کچھ ملنا ملانا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر رشید ارشد صاحب: دیکھیں individualism تو ظاہری بات ہے جو American ethos ہے یا modernity کے لیے ethos ہے، وہ individualistic ہی ہے۔ انفردیت پسندی ظاہر ہے کہ اُس کا سبب ایک جدید طرزِ زندگی ہے اور مثال کے طور پہ جوائنٹ فیملی سسٹم جب ہوتا تھا نا تو آپ کے اوپر کئی بڑے ہوتے تھے یعنی لوگ یہ کہتے ہیں نا کہ دیکھیں آج لوگوں کا gulf جانا اور سال، سال بعد آنا، دو، دو سال بعد آنا، یہ وہ نہیں ہے جو کبھی تجارت یا دین کی تبلیغ کے لیے جانا ہوتا تھا۔ اُس وقت چار، چار، پانچ، پانچ بڑے رشتے دار ہوا کرتے تھے۔چچا،تایا ہیں یا دادا،دادی ہیں وغیرہ۔ پوری collectivity ہے نا، پورا ایک برادری کا نظام ہے، جس میں آپ رہتے ہیں تو اب مسئلہ یہ ہوتا ہے جس طرح، Sartre ایک بہت مشہور existentialist ہے، وہ کہا کرتا تھا کہ Hell is other۔ other جو ہے نا، وہ جہنم ہے کیونکہ میرا ہر other میری آزادی کو curtailکرتا ہے، تو آپ بالکل اکیلے ہوں تو آزاد ہیں، کسی عورت کے ساتھ آپ cohabitation میں رہ رہے ہیں شادی کے بغیر تب بھی آپ آزاد ہیں کیونکہ قانونی معاہدہ نہیں ہے پھر بچے پیدا کرنا آپ کو باندھ دیتا ہے تو بچے نہ ہوں، تو یہ اور آزادی ہےاور اب یہی معاملہ ہے۔ لیکن کیا اس پر بھی انھیں آزادی مل گئی؟نہیں۔ایک بہت بڑا مسئلہ کیا ہے؟ کہ یہ سب کرنے کے باوجود بھی وہاں پر اسٹیٹ بہت طاقتور ہے اور اسٹیٹ نے گویا خدا کی جگہ لے لی ہے اور خدائی اوصاف اُس نے اپنے اندر پیدا بھی کر لیے ہیں یعنی وہ omnipotent (قادرِ مطلق)بن گئی ہے، انتہائی طاقتور ہو گئی ہے، omniscient (عالمِ کُل) ہو گئی ہے، بہت زیادہ معلومات اُس کے پاس ہیں لیکن individualism کو پچھلے بیس ایک سال میں جو بہت زیادہ بڑھاوا دیا ہے، وہ دیا ہے میڈیا نے یا ٹیکنا لوجی نے۔سوشل میڈیا اِس پر بہت اثر انداز ہوا ہے۔ اب جو آپ بات کر رہے ہیں نا کہ بزرگوں کے پاس لوگ نہیں بیٹھتے، وجہ کیا ہے؟ کہ جی یوٹیوب ایک ایسا ایک جن ہے جو چیز آپ کو چاہیے، جو سودا آپ کو چاہیے، وہ اُس میں مل جائے گا اور یہ آپ نے یہ کہتے ہوئے سنا ہو گا نا نوجوانوں کو کہ یار میں تو اُس کو فالو کرتا ہوں، میں آج کل اُس کو بہت دیکھتا ہوں اور اُن کو پسند آ جاتے ہیں کوئی مولوی صاحب یا کوئی بھی اسکالر یہاں کے یا باہر کے۔آٹھ، آٹھ، دس، دس گھنٹے اُن کی وڈیوز دیکھتے رہتے ہیں لیکن اُس سے کوئی شخصیت میں فرق نہیں پڑتا کیونکہ آدمی تو آدمی سے بدلتا ہے نا، میرے خیال میں اِس کا جو damage ہے، وہ بہت ہی زیادہ ہے، ابھی تین، چار مہینے پہلے سیرت النبیﷺ پر ایک مجلس تھی، ورچوئل یونیورسٹی لاہور میں سینٹر تھا، وہاں ریکٹر صاحب بھی بیٹھے ہوئے ہیں اور اُنھوں نے مجھے بلایا گفتگو کرنے کے لیے تو میں نے اُن سے یہی کہا تھا کہ میرے نزدیک اِس وقت انسانیت کو جو سب سے بڑا خطرہ ہے، وہ ورچوالٹی سے ہے تو IA اور cybernetics اور bio-tech اور info-tech کی جو اب marriage ہو رہی ہے، اِس کے بعد تو اب انسان ہونے کا کیا مطلب ہے،یہ بھی نہیں پتا۔ تو اب اِس نے بہت زیادہ alienate کر دیا ہے، آپ کی فیس بک پہ جناب چار سو دوست ہیں اور گوشت پوست کا ایک زندہ دوست بھی نہیں ہے تو یہ خطرناک بات ہے۔ تو میرا خیال ہے کہ ہمیں تھوڑا سا لوگوں کو اِس طرف توجہ دلانی چاہیے کہ ماڈرن ٹیکنا لوجی اور gadgets جو ہیں مطلب میں اب ذاتی طور پر اِن کو ایک necessary evil سمجھتا ہوں کہ اِن کو اِس سطح پر رکھیں تو بچت ہے، اگر اِس سے کوئی توقعات وابستہ کر لیں نا جو ہمارے ہاں کچھ مذہبی لوگوں کو ہوتی ہیں کہ اب اسی سےاسلام پھیلے گا اور جناب اب اِس کے ذریعے کمال ہو جائے گا، کچھ بھی نہیں ہو گا، سب ختم ہو جائے گا اور ہو رہا ہے۔ کچھ چیزیں آپ کو پتا لگ جائیں گی اور بس۔اِسی لیے کہا جاتا ہے نا کہ جو بھی روایتی دین کو پھیلانے کے اور بتانے کے طریقے ہیں،وہ بہت اہم ہیں، اُن کو نہیں چھوڑنا چاہیے، اب یہ جو دوسال پچھلے گزرے ہیں، اِس میں جو آن لائن موڈ پر آپ کو لے آئے ہیں، ایک تجربہ کیا ہے اُنھوں نے، تو میری ناقص رائے میں یعنی بہت سے دینی مدارس بھی اور دینی ادارے بھی اِس موڈ پر آ گئے جو ایک خطرناک بات ہے۔ابھی تو مجبوری تھی نا، پھر یہ ہو سکتا ہے کچھ عرصے بعد یہ آن لائن نظام ہی مستقل کر دیں اور اب آپ دیکھتے ہیں نا کہ لوگوں کے اندر یہ convincing بڑھ رہی ہے، پیٹرول اِتنا مہنگا ہو گیا، commute کرنا اِتنا مشکل ہو گیا ہے۔ تو اب آپ اِسےآن لائن کر ہی دیں، چاہے کوئی وائرس کا آپ کو ڈر ہو یا نہ ہو تو ہمیں اندازہ ہے، ہم نے پڑھایا ہے دو سال آن لائن، یونیورسٹی کے بچوں کو،تو وہ کچھ بھی نہیں ہے، فراڈ ہے وہ، ہم اپنے آپ کو بھی دھوکا دے رہے تھے، بچے بھی ہم سے کھیل رہے تھے تو یہ جو صورتِ حال ہے، یہ میرا خیال ہے بہت خطرناک ہے اور اِس وقت تو مغربی افکار وغیرہ ایک طرف رہ گئے ہیں، سب سے خطرناک چیز وہ ہے جو ہم اپنی جیبوں میں لے کر گھوم رہے ہیں اور وہ اسمارٹ فونز ہے، اسمارٹ فون جہاں آگیا نا، وہاں اب لبرل وائرس سے یا بے دینی سے بچنا بہت ہی مشکل ہو گیا ہے۔
سوال: اِس کو کیسے پروموٹ کیا جائے جیسے صلحا سے، علما سے یا بڑوں سے سیکھنا، اب تو بچے اپنے بڑوں سے بھی مشاورت نہیں کرتے، دیکھتے بھی نہیں، مشاورت تو دور کی بات ہے۔
ڈاکٹر رشید ارشد صاحب: ہاں دیکھیں سمجھا ہی سکتے ہیں نا اور دوسری بات یہ کہ بھئی کیا ہم اُن کے لیے کوئی رول ماڈل ہیں؟ یعنی کیا ہم وہ زندگی بسر کر رہے ہیں، جو ہم چاہتے ہیں کہ وہ کریں؟ اگر اُن کو نظر آئے گا تو وہ بھی ہماری نقل کریں گے۔ پہلے تو،بچپن سے ہی لوگ لے جایا کرتے تھے محفلوں میں بزرگوں کے پاس، یہ عمل تو ہونا چاہیےنا، بچپن سے۔
سوال: سرجو تقسیم سے پہلے ایک فضا تھی، ہم ایک آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے یعنی ایک struggle تھی جس میں مدارس جس ایجنڈے کے تحت کھولے گئے وہ یہ تھا کہ دین کی بنیادی چیزوں کو بچایا جائے، ایک تعلیم کا، تبلیغی جماعت کا سلسلہ جاری کیا جائے، گویا ایک دفاعی صورتِ حال تھی، اب حالات یکسر مختلف ہیں اور وہ چیز ختم ہو گئی ہے، اب نئے محاذ ہیں اور نسبتاً اقدامی صورتِ حال ہے۔تواِن چیزوں سے بچاؤ کے لیے ہمارے پاس کیا نظام ہے؟ یا ہمارے بڑوں نے، اِن مدارس کے بزرگوں نے تعلیمی نظام میں کون سی ایسی تبدیلیاں پیدا کی ہیں جس سے کہا جا سکے کہ کچھ نہ کچھ اُس رخ پہ ہم چلے جائیں یا وہی پارٹیشن سے پہلے کا جو نظام ہے، وہی چل رہا ہے؟ اور سر !الحاد کا جو ایک طوفان آ رہا ہےبلکہ آ چکا ہے اور ایک سیلاب ہے، جس میں سارے بہہ رہے ہیں،تو اِس تناظر میں ہمارےمذہبی ادرے اورمدارس کے بڑے مفکرین کیا سوچتے ہیں؟
ڈاکٹر رشید ارشد صاحب: ہاں یہ اچھا سوال ہے آپ کا، یہ بات ٹھیک ہے کہ اُس وقت تو survival کا مسئلہ تھا اور دفاع کا مسئلہ تھا اور اُس میں تو یہ تھا کہ بھئی اگر ہم نے بھی اُن علوم کو شامل کیا، انگریزی وغیرہ کو یا سائنس کو تو سب لوگ اُس طرف بھاگ رہے ہیں کیونکہ معاش اُس سے وابستہ ہو گیا ہے تو اگر ہم میں سے کچھ لوگ جو ہیں، وہ نَکُّو بننا قبول نہیں کریں گے اور اپنا پِتا مار کے، وہ جو ہمارے پاس ایک علمی تُراث ہے، اُس کو ہم محفوظ نہیں کریں گے تو یہ سب ختم ہو جائے گا، لیکن اُس میں بھی میرا خیال ہے کہ پارٹیشن یعنی انگریز کے یہاں آنے سے پہلے بھی کچھ مسئلے تھے۔ کیونکہ دیکھیں، ہمارے ہاں کوئی دوئی تو نہیں تھی نا، علم ایک ہی تھا لیکن ہم سے کچھ کوتاہی ہوئی ہے کہ ہم نے اُس کواپڈیٹ نہیں کیا اور چلو اُس وقت نہیں کیا، ابھی تک بھی نہیں کیا یعنی ابھی تک بھی Aristotelian logic آپ پڑھا رہے ہیں، logic بالکل بدل گئی، اب symbolic logic ہے، ابھی تک آپ Ptolemaic model پڑھا رہے ہیں یعنی بطلیموسی ماڈل،مطلب وہ Galileo آ گیا، دنیا زیر زبر ہو گئی ساری، ایک coperNican revolution آگیا۔ پھر آپ دیکھیں نا اُس طرح کی میمز بنتی ہیں کہ وہ ابھی تک ضد کر رہے ہیں کہ زمین static ہے اور زمین مرکزِ کائنات ہے، وغیرہ وغیرہ کہ ہمارے بزرگوں نے فلاں رسالہ لکھا تھا، یہ لکھا تھا، وہ لکھا تھا۔ مطلب میری ناقص رائے میں colonizability میں بھی یہ بات شامل تھی کہ ہمارے اُس وقت کے بھی لوگوں کو شاید اس کاشعور نہیں تھا، مطلب مرہٹوں کا شعور اُن کو تھا لیکن انگریز یا یورپ کاشعور شاید اتنانہیں تھا اور مطلب ہمارے اندر جیسے ایک inward lookingness تھی نا، وہ جیسے ایک بڑا آدمی ہوتا ہے، طاقت میں ہوتا ہے، وہ سمجھتا ہے بھئی ہم طاقت میں ہی رہیں گے، ہم تو نواب ہیں اور ہمیں کیا ضر ورت ہے کہ جدید چیزیں سیکھنے کی؟ وہ تو جب colonize ہو گئے تو اندازہ ہوا۔پھر چلیں ہم پر ایک جبر آیا اور لوگ کہتے تھےنا کہ علما کو جدید دنیا کا نہیں پتا، جدید علوم کا نہیں پتا لیکن اب تو کئی جگہوں پر ایسے لگتا ہے کہ اپنی تراث کا بھی شاید پورا علم نہیں ہے۔ تو میرا خیال ہے کہ اب اِس کی طرف کوئی تھوڑی سی توجہ ہو رہی ہے،پہلے تو وہی بات ہے نا کہ ابنِ خلدون یا شاہ ولی اللہ دہلوی یا غزالی کوئی محض عالمِ دین تو نہیں تھے، وہ عالمِ دین و دنیا تھے۔اس وقت کا جوعالمِ دین ہوتا تھا نا وہ اُس زمانے کا ہی polymath ہوتا تھا،، امام غزالی علیہ الرحمۃ سے اُن کے زمانے کا کوئی بڑے سے بڑا عالم بھی آ کے گفتگو کر سکتا تھا، کسی بھی علم کا، ابنِ خلدون کے ساتھ بھی ایسا تھا اور شاہ ولی اللہ صاحب تک بھی ایسا ہی تھا۔اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے۔اب ہمارے ہاں علمیت جیسے بہت خاص ہو گئی اور segmentation ہو گئی بہرحال اُس کے اندر بھی ہمیں چاہیے یہ تھا کہ ہم اِن جدید چیزوں کو شامل کرتے۔ اب کیونکہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ مطلب جو جدید فکر ہے، جدید فلسفہ ہے اُس کو بھی دیکھا جائے اگرچہ ہیئت اب بھی پرانی بعض اوقات چل رہی ہوتی ہے، logic بھی پرانی چل رہی ہوتی ہے لیکن اب اِس کی ضرورت کا احساس بھی ہو رہا ہے اور لوگ کچھ کر بھی رہے ہیں لیکن شاید دیر کافی ہو گئی ہے، ڈینٹ بہت گہرا پڑ گیا ہے۔