لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

مولانا امام رضا
فاضلِ فقہ اکیڈمی

ہوم اسکولنگ

راقم نے حال ہی میں اپنی بچی کی ہوم اسکولنگ شروع کی ہے اور اس سلسلے میں جب لوگوں سے میل جول ہوا تو راقم کو لوگوں سے مختلف باتیں سننے کو ملیں جیسے کچھ حضرات نے فرمایا کہ آپ تو جاب کرتے ہیں تو پھر کیسے بچوں کی ہوم اسکولنگ کریں گے؟ اتنا ٹائم کہاں سے نکالیں گے؟ کچھ لوگوں نے ہمدردی کے ساتھ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہت بڑی ذمے داری ہے جو آپ نے لے لی۔ لوگوں کے ان تبصروں سے راقم کو بہت حیرانی ہوئی اور یہ بھی پتا چلا کہ ہوم اسکولنگ سے متعلق لوگوں کی بہت سی غلط فہمیاں ہیں اور ان کی معلومات بہت ناقص ہیں۔ چنانچہ مناسب معلوم ہواکہ ان غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے لیے ایک مضمون لکھا جائے جو لوگوں کے ذہنوں سے ان غلط فہمیوں کو دور کرسکے۔

پہلی بڑی غلط فہمی: گھر کو اسکول بنالینا

ہوم اسکولنگ سے متعلق ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہوم اسکولنگ سے مراد اسکول کو گھر پر لے کر آجانا ہے، یعنی جس طرح اسکول میں بچہ پانچ چھے گھنٹے مسلسل گزارتا ہے، بالکل اسی طرح گھر پر بھی پانچ چھے گھنٹے کی تعلیم ہوگی، جس میں بالکل اسکول کی طرز پر مختلف پیریڈز ہوں گے اور والدین بچوں کو پڑھائیں گے۔ یہی وہ غلط فہمی ہے جس کی وجہ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت مشکل کام ہے اور اس کو جاب کے ساتھ کرنا ناممکن نہیں تو بہت زیادہ مشکل ضرور ہے۔ اس کا جواب ہوم اسکولنگ کے تصور کو سمجھنے میں ہے، جس کو ہم نیچے مضمون میں قدرے تفصیل سے بیان کریں گے۔

دوسری بڑی غلط فہمی: بچے کی اعلیٰ تعلیم اور جاب کا حصول نہیں ہوپائے گا

دوسری بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ اگر بچہ اسکول نہیں جائے گا تو اعلیٰ تعلیم اور جاب نہیں حاصل کر پائے گا۔ تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ ہوم اسکولنگ کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بچہ تمام تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کرے اور آگے اعلیٰ تعلیم کے لیے کالج یا یونی ورسٹی نہیں جائے۔ بلکہ ہوم اسکولنگ سے بچہ گھر پر اس قابل ہوسکتا ہے کہ براہِ راست کالج یا یونی ورسٹی میں جاسکے۔ بہت سےلوگ پاکستان میں اپنے بچوں کی ہوم اسکولنگ کے بعد ان کو O، لیول اور A، لیول کرواتے ہیں اور اس طرح وہ آگے یونی ورسٹی اور کالج میں داخلہ لے کر ہر قسم کی پروفیشنل تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور اسی طرح جاب کرسکتے ہیں۔ ایمازون پر برینی بنچ کے نام سے ہارڈنگ فیملی کی ایک کتاب ہے جس میں ہارڈنگ فیملی کے دس میں سے چھے بچوں کا بارہ سال کی عمر میں کالج میں جانے کا ذکر ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ انھوں نے ان سب بچوں کی ہوم اسکولنگ کی تھی اور یہ بچے کوئی بہت زیادہ ذہین نہیں بلکہ اوسط درجے کے تھے۔ مگر بہت کم عمر میں انھوں نے اسکول سے بھی زیادہ لرننگ کرلی اور بغیر اسکول گئے اپنے ہم عمر اسکول کے بچوں سے بھی کم وقت میں کالج یونی ورسٹی میں چلے گئے۔

ہوم اسکولنگ اصل میں کیا ہے؟

آئیے اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ہوم اسکولنگ اصل میں کیا ہے؟ امریکی ایجوکیشنلسٹ (Sherri Linsenbach) شیری ’ہوم اسکولنگ‘ کی تعریف اس طرح کرتی ہیں کہ ہوم اسکولنگ زندگی گزارنے کا طریقہ ہے۔ ہوم اسکولنگ میں بچے کو پڑھایا نہیں جاتا بلکہ اس کو سیکھنے میں سہولت فراہم کی جاتی ہے، اور ایک سیکھنے والا ماحول فراہم کیا جاتا ہے، جس میں بچہ خود بخود دلچسپی لیتا ہے اور خود ہی سیکھتا چلا جاتا ہے۔ اور اس خود سیکھنے کے عمل میں بچے کوجہاں کوئی مشکل ہوتی ہے تووہاں بقدرِ ضرورت اس کی مدد کی جاتی ہے۔ ہوم اسکولنگ کوئی پیچیدہ عمل نہیں۔ اس کے لیے والدین کو کسی ڈگری یا ماہرانہ تعلیم کی ضرورت نہیں پڑتی، یہ بڑی فطری چیز ہے۔ البتہ یہ بات قابلِ غور ہے کہ ہوم اسکولنگ میں بچہ والدین کے ساتھ یا گھر پر نسبتاً زیادہ وقت گزارتا ہے، اس لیے کچھ چیزیں جو والدین کے لیے اپنے بچوں کی اچھی پرورش کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں، ہوم اسکولنگ کے لیے مزید اہمیت کی حامل بن جاتی ہیں۔ جیسے بچوں سے تعلق قائم کرنا، ان کے ساتھ وقت گزارنا، ان کی عزت نفس کا خیال رکھنا، ان کے ساتھ صبر اور تحمل کا معاملہ کرنا، ان کی نفسیات اور ضروریات کو سمجھنا، ان کے رویوں میں تبدیلی پر نگاہ رکھنا اور اس کی وجوہات پر غور کرنا ہوم اسکولنگ میں نا گزیر ہو جاتی ہیں۔ اگر ان معاملات میں حکمت سے کام نہ لیا جائے تو بچے پر گھر میں اسکول سے زیادہ دباؤ آجائے گا۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ یہ چیزیں جو تمام والدین ہی کے لیے ضروری ہیں، چاہے وہ اپنے بچوں کو روایتی اسکولوں میں ہی بھیجتے ہوں، زندگی کی نفسا نفسی میں ہماری ترجیحات میں شامل نہیں رہیں۔

بچہ خود کیسے سیکھ سکتا ہے؟

یقینا یہ بات ہمیں بہت زیادہ حیران کن لگتی ہے کہ بچہ پڑھائے بغیر خود کیسے سیکھ سکتا ہے؟ جبکہ ہمارے بچے تو اسکول میں بھی پڑھ کر نہیں دیتے تو خود کیسے پڑھیں گے؟ ہماری اس سوچ کی بنیاد یہ ہے کہ ہم نے جب سےآنکھ کھولی ہے جب سے اسکول کو ہی دیکھا ہے اس لیے ہماری نفسیات میں یہ چیز بیٹھ گئی ہے کہ جب تک بچے کو کوئی چیز سکھائی نہ جائے وہ سیکھ نہیں سکتا۔ مگر یہ غلط فہمی معمولی غور و فکر سے دور ہوسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ بچہ تین چار سال کی عمر میں ہماری مادری زبان خود بخود بولنا کیسےسیکھ لیتا ہے؟ کیا ہم نے اس کو کسی اسکول یا کسی استاذ سے اپنی مادری زبان کا کورس کروایا تھا؟ جس کی وجہ سے وہ فر فر بولنا سیکھ لیتا ہے۔ ہم نے اس کو صرف ماحول دیا جس میں اس نے مادری زبان بولتے لوگوں کو سنا اور پھر فرفر بولنا شروع کردیا۔ اللہ رب العزت نے بچے کو ایسے ہی تخلیق کیا ہے کہ اس میں سیکھنے کی صلاحیت رکھی ہے۔

بچے کا خود سیکھنے کا عمل کسی کے سکھانے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے

امریکی ایجوکیشنلسٹ جان ہالٹ نے اس موضوع پر بہت کام کیا ہے اور اس نے اپنے تیس چالیس سال کے تجربات سے ثابت کیا ہے کہ بچے کے اندر خود سے سیکھنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کسی کے سکھانے سے زیادہ خود سے بہت جلدی سیکھتا ہے۔ مثلاً اسکول میں بچوں کوحروفِ تہجی پہلے پڑھائےجاتے ہیں اور اس کے بعد الفاظ بنانے کی طرف لایا جاتا ہے اور پھر کہیں جاکر ریڈنگ کی طرف لایا جاتا ہے۔ اس طرح اسکول بچوں کو مطالعے کے قابل بنانے میں کافی وقت ضائع کردیتا ہے۔ امریکی ایجوکیشنلٹ جان ہالٹ کہتا ہے کہ بچے بغیر حروفِ تہجی کے براہِ راست الفاظ سے مطالعہ کرنا سیکھ سکتے ہیں، اور یہ سیکھنے کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ صرف تیس گھنٹے ہے۔ اس طرح اسکول میں بچوں کا ضائع ہونے والا ایک بڑا قیمتی وقت بچ جاتا ہے۔ جان ہالٹ اس سلسلے میں اپنی کتاب ’’لرننگ آل دا ٹائم‘‘ میں کوپن ہیگن کے قریب ایک اسکول کا ذکر کرتا ہے، جس میں دیگر اسکولوں کے برعکس کوئی روایتی یا رسمی تعلیم نہیں دی جاتی، وہاں تدریسی جماعتیں نہیں ہیں، ہدایات نہیں دی جاتیں اور نہ ہی ٹیسٹ لیے جاتے ہیں۔ وہاں بچے بالکل بڑوں کی طرح اپنی مرضی سے مطالعہ کرسکتے ہیں اور جو چاہیں، جب چاہیں، جس کے ساتھ چاہیں اور جتنا چاہیں مطالعہ کرسکتے ہیں۔ اگروہ ضرورت محسوس کریں تو کسی بھی وقت راسمس ہینسن (Rasmus Hansen) کے پاس جاسکتے ہیں، جو اس اسکول میں مطالعہ سکھانے کے استاذ ہیں۔ جان ہالٹ کہتے ہیں کہ میں نے راسمس سے پوچھا کہ بچوں کو خود سے مطالعہ کرنے کے قابل بنانے کے لیے کتنی مدت درکار ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ اپنے ریڈنگ سیشن کے سابقہ ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ وقت جو کسی بچے نے ان کے ساتھ مطالعہ کرنے میں گزارا، اس کا دورانیہ تیس گھنٹے ہے۔ یعنی صرف تیس گھنٹوں کے اندر بغیر حروفِ تہجی کے بچے پڑھنا سیکھ جاتے ہیں۔ اس سے جان ہالٹ ثابت کرتا ہے کہ کس طرح اسکول بچوں کا وقت ضائع کرتے ہیں کہ ان کو مطالعے کے قابل بنانے کے لیے سالوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔

اسکولوں کی تباہ کاریاں

اسکول کی تباہ کاریوں پر مغرب کے مفکرین نے بہت کچھ لکھا ہے۔ انھوں نے ثابت کیا ہے کہ اسکول ہمارے بچوں کا نہ صرف وقت ضائع کرتےہیں بلکہ ہمارے بچوں کی صلاحیتوں کوبھی ختم کردیتے ہیں۔ بقولِ اقبال:

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اِسے پھیر
تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر

اس سلسلے میں جان ہالٹ اورجان ٹیلر کافی نمایاں ہیں۔ ہم قارئین کو صرف جان ٹیلر گیٹو(John Taylor Gatto) کی درج ذیل دو کتب کا مشورہ دیں گے جن کا مطالعہ بہت مفید ہے:

ویپن آف ماس انسٹرکشن (Weapons of Mass Instruction)

ڈمبنگ اَس ڈاؤن(Dumbing us down)

ہوم اسکولنگ کے بچے اسکول کے بچوں سے آگے ہوتے ہیں

امریکی ادارے این ایچ ای آر آئی کی ریسرچ کے مطابق ہوم اسکولنگ کے بچے اسکول کے بچوں سے کافی آگے ہوتے ہیں۔ وجہ ظاہر ہے کہ ہوم اسکولنگ کے بچوں میں خود سیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے جبکہ اسکول کے بچوں میں اسپون فیڈنگ کی عادت ہوتی ہے یعنی وہ خود مطالعہ کرنے اور سیکھنے کے بجائے اسکول پر انحصار کرتے ہیں۔ جیساکہ ہم اوپرایمازون پر برینی بنچ کے نام سے ہارڈنگ فیملی کی ایک کتاب کا ذکر کرچکے ہیں، جس میں ہارڈنگ فیملی کے دس میں سے چھے بچوں کا بارہ سال کی عمر میں کالج میں جانے کا ذکر ہے۔ اس سے ہوم اسکولنگ کے بچوں کا اسکول کے بچوں سے آگے ہونا قرینِ قیاس ہے۔

ہوم اسکولنگ سے متعلق اعداد و شمار

آیئے اب ہم امریکہ میں ہوم اسکولنگ سے متعلق امریکی ادارے یو ایس ڈی ای اور این ایچ ای آر آئی کے۲۰۲۲ ء کےاعداد و شمار دیکھتے ہیں:

اس وقت امریکہ میں سوا تین ملین کے قریب بچے ہوم اسکولنگ کررہے ہیں اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ہوم اسکولنگ کو امریکہ میں سب سے زیادہ تیزی سے اضافہ ہونےوالی تعلیمی شکل قرار دیا گیا ہے۔ ہوم اسکول والے بچے اسکول میں پڑھنے والے بچوں سے آگے ہوتے ہیں۔ ہوم اسکولنگ نے سالانہ ۵۶بلین ڈالر کی ٹیکس کی رقم کی بچت کی ہے۔ امریکی والدین کی ہوم اسکولنگ کرنے کی پہلی بڑی وجہ اسکولوں کا غیر تسلی بخش ماحول ہے جیسے: ڈرگز کا استعمال، سیفٹی اور نگیوٹیو پیر پریشروغیرہ۔ جبکہ دوسری بڑی وجہ اسکول کی غیر تسلی بخش تعلیمی انسٹرکشنز ہیں۔ یہ تو تھا امریکی اسکولوں کا حال، باقی پاکستان میں اسکولوں کا کیا حال ہے؟ ہم سب جانتے ہیں۔ لہٰذا اسکولوں میں بھاری فیسیں دےکر اپنے بچے کی صلاحیتوں کو ختم کرانے سے بہت بہتر ہے کہ ہم ہوم اسکولنگ کریں اور اسکول کے بھاری بھرکم اخراجات اپنے بچوں کی فلاح و بہبود کےلیے خرچ کریں۔

پاکستان میں ہوم اسکولنگ

اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں بھی لوگ ہوم اسکولنگ کررہے ہیں؟ اور اگر کررہے ہیں تو کیا ان کے بھی وہی نتائج ہیں جو امریکہ کے ہوم اسکولنگ کے اعداد و شمار سے ہمیں پتاچلتےہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے پاس امریکہ کی طرح کوئی ایسا ادارہ نہیں، جو یہ اعداد وشمار جمع کرے۔ مگر کچھ ادارے جیسے سلمان آصف صاحب کا ادارہ ای آر ڈی سی ہے، اس کی نگرانی میں بہت سے لوگ اپنے بچوں کی ہوم اسکولنگ کررہے ہیں اور ان سے جو نتائج ہمیں مل رہے ہیں، وہ بہت حوصلہ افزا ہیں۔ مثلاً سلمان آصف صاحب ہی کے تین بچوں کی ہوم اسکولنگ کی وڈیو یوٹیوب پر موجود ہے، جس میں ان بچوں نے خود بتایا ہے کہ کس طرح وہ اسکول کے بچوں سے آگے ہیں۔ اسی طرح کچھ فیملیز سے میری ملاقات ہوئی ہے، جو اپنے بچوں کی ہوم اسکولنگ کافی عرصے سے کررہی ہیں اور وہ بھی بہت خوش ہیں۔ وہ والدین کہتے ہیں کہ اسکول کی بھاری بھر کم فیس اور اس سے بھی زیادہ والدین کی دوڑیں لگوا کر ان کی توانائی، جواسکول ضائع کرواتا ہے، وہ سب بچ جاتی ہے اور زندگی میں سکون آجاتا ہے۔ پھر یہ توانائی اور پیسے اپنے بچوں پر خرچ کیے جاتے ہیں، جن سے بہت اچھے نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ ایک صاحب نے بتایا کہ وہ اسکول کی فیس کے پیسے ایک جگہ جمع کرتے رہتے ہیں اور ان پیسوں سے بچوں کو مختلف معلوماتی سفر کرواتےہیں، جس سے بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں، جو اسکول میں رہ کرکبھی نہیں سیکھ سکتے۔

ہوم اسکولنگ سے متعلق سوالات و جوابات

پہلا سوال یہ کہ ہوم اسکولنگ کے بچے اسکول میں پڑھنے والے بچوں سے پیچھے تو نہیں رہ جائیں گے؟ اس کا جواب ہم پہلے ہی اوپر اعداد و شمار کے ذریعے دے چکے ہیں۔ بچے اعلیٰ تعلیم اور جاب کیسے حاصل کریں گے؟ اس کا جواب بھی اوپر گزر چکا ہے۔ بچوں کی سوشل ضروریات کا کیا ہوگا؟ اس کے لیے مختلف چیزیں ہوم اسکولنگ میں کی جاسکتی ہیں؛ جیسے سفرکرنا، چاہے وہ رشتے داروں سے ملنے جانا ہو یا کسی تاریخی مقام یا میوزیم وغیرہ جانا ہو۔ بچے کیسے سیکھیں گے؟ اس کے لیے ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں کہ بچوں کو سیکھنے کا ماحول دینا ہوگا۔ سیکھنے سے مراد صرف کتابی نہیں بلکہ پریکٹیکل سیکھنا بھی ہے جیسے فارمنگ کرنا وغیرہ جس میں بچے کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ ہوم اسکولنگ ایک طویل موضوع ہے جس پر دنیا بھر میں بہت کتابیں لکھی جاچکی ہیں مگر راقم نے اس مختصر سے مضمون میں کوشش کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس سے متعلق جو غلط فہمی پائی جاتی ہے اس کا ازالہ کیا جاسکے اور ساتھ ساتھ اسکول ہمارے بچوں کے ساتھ جو کھلواڑ کررہا ہے اس کوکسی حدتک بے نقاب کیا جائے۔

حوالہ جات
برینی بنچ ہارڈنگ فیملی کی کتاب (https://www.amazon.com/Brainy-Bunch-Harding-Familys-College/dp/1476759340)
سلمان آصف صاحب کے تین بچوں کی ہوم اسکولنگ پر ڈاکومینٹری ویڈیو (https://www.youtube.com/watch?v=q2hP_oNysjE)
جان ہالٹ کی کتاب ’’لرننگ آل دا ٹائم‘‘ (https://www.amazon.com/Learning-All-Time-John-Holt/dp/0201550911)
جان ٹیلر گیٹو کی کتاب ’’ویپن آف ماس انسٹرکشن‘‘
(https://www.amazon.com/Weapons-of-Mass-Instruction-audiobook/dp/B00BLR1S4S/)
جان ٹیلر گیٹو کی کتاب ’’ڈمبنگ اس ڈاون‘‘
(https://www.amazon.com/Dumbing-Down-Curriculum-Compulsory-Anniversary/dp/0865714487)
این ایچ ای آر آئی کے اعداد وشمار
(https://www.nheri.org/how-many-homeschool-students-are-there-in-the-united-states-during-the-2021-2022-school-year/)

لرننگ پورٹل