سلیمؔ احمد (۱۹۲۷۔۱۹۸۳ء)
معروف نقاد اور شاعر
مارکس نے کہا تھا کہ فلسفہ اب تک دنیا کی تعبیر و تفسیر کرتا آیا ہے، اب اس کا کام دنیا کو بدلناہے۔ اقبال بھی دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریبِ تمام:
پھونک ڈالے یہ زمین وآسمانِ مستعار |
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے |
جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہوگا، یہی ہے اک حرفِ محرمانہ |
قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ |
اقبال دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں اور دنیا کی تغیرپذیری کا شدید احساس رکھتے ہیں۔ یعنی اس سلسلے میں ان کا رویہ بالکل جدید ہے۔ کیا یہ فکر کا تضاد ہے یا پریشان خیالی ہے یا کوئی جذباتی یا نفسیاتی کشمکش ہے؟ یہ سب بھی ہو سکتا ہے مگر اس سے کچھ سوا بھی ہے۔ میں نے کہا ہے کہ جدیدیت کے معنی اثبات کا دروازہ بندکرنے کے نہیں ہیں۔ جدیدیت ہر چیز کا اثبات کر سکتی ہے بشرطیکہ تجربہ اس کی تصدیق کرے۔ ارونگ بیسٹ کا کہنا ہے کہ جھگڑا جدیدیت کے تصور میں نہیں ہے کیونکہ گوئٹے، سینٹ بیو، ویناں آرنلڈ اور ان جیسے تمام لوگ اس کے ایک تصور پر متفق ہیں۔ جھگڑا تو ادھوری جدیدیت اور پوری جدیدیت میں ہے۔ ادھوری جدیدیت تجربے کی فوقیت کے نام پر عقیدے، سند، روایت اور خارجی دباؤ کا انکار کرتی ہے لیکن پھر اپنے انکار کی اسیر ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس کے مقابلے پر پوری جدیدیت انکار کی منزل سے گزرنے کے بعد اثبات کی طرف بڑھتی ہے اور جن چیزوں کو اس نے ’’تجربے‘‘ کا اصول منوانے کے لیے رد کر دیا تھا، انھیں تجربے ہی کی تصدیق سے مان لیتی ہے، یا کم از کم اس امکان کو تسلیم کرتی ہے کہ تجرباتی تصدیق کے بعد انھیں مان لیا جائےگا۔ بدقسمتی سے مغرب اور اس کے اثر سے مشرق میں جو جدیدیت سکہ رائج الوقت کی حیثیت رکھتی ہے وہ ادھوری جدیدیت ہے۔ یہ جدیدیت عقائد، اخلاق اور معیارات کو رد تو کرتی ہے لیکن ان کی جگہ کوئی اپنا نظامِ اقدار نہیں دے سکتی۔ ہمیں ماننا چاہیے کہ انسان اگر اس کرۂ ارض پر زندہ رہنا چاہتا ہے تو اسے ایک نظامِ اقدار ضرور پیدا کرنا پڑےگا اور یہ جاننا کوئی جبر نہیں ہے بلکہ انسانیت کا اپنا انفرادی اور اجتماعی تجربہ ہے۔ پرانا نظامِ اقدار اگر ہمارے مطلب کا نہیں ہے یا فرسودہ اور ازکارِ رفتہ ہو گیا ہے تو ہمیں اسے بےشک رد کر دینا چاہیے۔ لیکن پوری جدیدیت کا تقاضا اس وقت تک پورا نہیں ہوگا جب تک اس کی جگہ نیا نظامِ اقدار نہ پیدا کیا جائے۔ ادھوری جدیدیت رد کرنے کا کام تو انجام دیتی ہے مگر اپنی کوتاہ دستی کے باعث نئے نظامِ اقدار تک نہیں پہنچ سکتی۔ اقبال جدید ہیں تو ان معنوں میں کہ وہ تخریبِ تمام کے بعد تعمیر ضروری سمجھتے ہیں۔ اسلام کے بارے میں ان کا رویہ روایتی پسندیدگی کا نہیں ہے بلکہ انھوں نے بار بار اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ وہ پورے غوروفکر کے بعد اسلام کو جدید دنیا کے تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ ان کے اس خیال سے انکار کیا جا سکتا ہے مگر یہ طریقِ کار نہ صرف جدید ہے بلکہ پورا جدید ہے۔ مسئلے کی وضاحت کے لیے میں ایک بار پھر غالب کو سامنے رکھتا ہوں۔ غالب کو میں نے اردو کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا جدید شاعر کہا ہے۔ سب سے پہلا تو یوں کہ جدیدیت کے اصل اصول کی جو جنگ سب سے پہلے غالب نے اپنے شعور میں لڑی، وہ ابھی معاشرے میں مختلف سطحو ں پر لڑی جا رہی ہے اور اپنی تمام رنگارنگی میں غالب ہی کے مختلف عناصر کو جھلکا رہی ہے۔ گویا جدیدیت کے تمام رنگوں کو اگر ہم ایک واحد شعلے میں دیکھنا چاہیں تو وہ شعلہ غالب کا شعور ہے۔ اور سب سے بڑا شاعر یوں کہ غالب نفی سے اثبات کی طرف بڑھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نفی کی کاوش اس کے یہاں بہت زیادہ نمایاں ہے اور اثبات کا پہلو اتنا اجاگر نہیں ہوا مگر انانیت پسند، انفرادیت پسند، داخلیت پسند اور ہربت کو اپنی راہ کا سنگِ گراں سمجھنے والے غالب کایہ اظہار ایک معنی رکھتا ہے کہ،
چاک مت کر جیب بے ایام گُل |
کچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہیے |
غالب کے اس قسم کے اشعار پر ابھی پورا غور نہیں کیا گیا کیونکہ معاشرے میں ابھی نفی کا اصول اپنی تکمیل تک نہیں پہنچا۔ ایک مشکل اور بھی ہے کہ جدید مغربی تہذیب نے اپنی روح کو پانے میں جو سفر کئی صدیوں میں کیا ہے، اسے ہمارے یہاں چند دہائیوں میں طے کیا گیا ہے اور وہ بھی پورے معاشرے میں نہیں بلکہ چند مخصوص طبقوں میں۔ اور معاشرے کی حالت یہ ہے کہ قدیم و جدید آپس میں اس طرح دست وگریباں ہیں کہ فیصلہ کسی ایک کے حق میں نہیں ہو سکتا۔ اس لیے روایتی تصورات اور جدیدیت کے اثباتی تصورات میں فرق کرنا بہت دشوار ہو جاتا ہے، یعنی یہ تمیز دشوار ہو جاتی ہے کہ مثلاً اقبال کے اسلام اور مولانا احتشام الحق کے اسلام میں کیا فرق ہے؟ اصولوں کے اعتبار سے نہیں، اصولوں تک رسائی کے اعتبار سے۔ بہرحال غالب اور اقبال کے تقابل میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالب جہاں جدیدیت کے منفی عمل کا عظیم ترین مظہر ہے، وہاں اقبال جدیدیت کے مثبت عمل کا سب سے بڑا نمائندہ ہے۔ اس اعتبار سے جن لوگوں نے اقبال کو غالب کا نقشِ ثانی کہا ہے وہ بہت بڑی حد تک سچائی کے نزدیک ہیں۔ یہ ایک ہی شعور کی دو مختلف منزلوں کے نام ہیں۔ اچھا تو نفی کے عمل سے جو جدیدیت پیدا ہوتی ہے، غالب کے بعد اس کے ایک بڑے نمائندے یگانہ ہیں۔ اس سلسلے میں فانی، اصغر اور جگر وغیرہ کا نام لینا مناسب نہ ہوگا۔ کیونکہ جس مخصوص زاویۂ نظر سے ہم گفتگو کر رہے ہیں اس میں ان بزرگوں کے تذکرے کی گنجائش مشکل ہی سے نکلتی ہے۔ یگانہ کا منشور یوں تو ’’حق پرستی کیجیے یا خودپرستی کیجیے‘‘ ہے مگر حق پرستی کا ذکر برائے بیت ہے۔ اصل چیز اپنا تجربہ ہے۔
علم کیا علم کی حقیقت کیا |
جیسی جس کے گمان میں آئی |
اس تجربے کی بنا پر وہ معتقدات کو مسترد کرتے ہیں اور ان سارے رویوں پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں جو روایتی تہذیب سے پیدا ہوئے ہیں، خواہ یہ رویے حسن وعشق کے روابط کے ہوں یا عام انسانی تعلقات کے۔ غالب اور یگانہ میں فرق یہ ہے کہ یگانہ یکسر منفی رویے کے شاعر ہیں۔ اپنے شعور کی کسی منزل پر بھی وہ غالب کی طرح اثبات کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات تو گمان ہوتا ہے کہ منفی رویے کو اپنی آخری منزل سمجھتے ہیں۔ ’’برا ہو پاے سرکش کا تھک جانا نہیں آتا‘‘ تھک جانے کے معنی کسی منزل کو قبول کرنے کے ہیں جس کے لیے یگانہ تیار نہیں ہوتے۔ اس لیے ان کی شاعری اردو دنیا میں جدیدیت کے ایک پہلو کی شدید آگہی دینے کے باوجود کسی نئے نظامِ اقدار کی تشکیل سے عاری رہتی ہے۔ لیکن یگانہ کے برعکس فراق ایک نئے نظامِ اقدار کی طرف بڑھتے ہیں۔ فرا ق کی شاعری کا مرکز چوں کہ حسن وعشق کے روابط ہیں، اس لیے ان کی شاعری میں نظامِ اقدار تک پہنچنے کا وسیلہ عشق ہے۔ یہ عشق روایتی عشق سے بہت مختلف اور اپنی روح میں نہایت جدید ہے اور عشق کے واسطے سے حسن بھی ایک نئی نفسیات، ایک نئی کائنات کا حامل ہے،
حسن سر تا پا تمنا، عشق سر تا پا غرور |
اس کا اندازہ نیاز و ناز سے ہوتا نہیں |
نہ رہا حیات کی منزلوں میں وہ فرقِ نازونیاز بھی |
کہ جہاں ہے عشق برہنہ پا وہیں حسن خاک بسر بھی ہے |
فراق کے یہاں نفی کے عمل کی صورت گری نہیں ملتی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ منزلیں انھوں نے اپنے تصور میں تو طے کی ہیں لیکن ان کا اظہار نہیں کیا۔ لیکن جدیدیت کے مثبت عمل کی آئینہ داری ان کے کلام میں بڑے حسن، رکھ رکھاؤ اور عظمت کے ساتھ ہوئی ہے۔ جوش کا ذکر رہا جاتا ہے لیکن ان کا تفصیلی مطالعہ میں کسی اور جگہ کر رہا ہوں۔ اب میں مختصراً ۱۹۳۶ء کے نئے ادیبوں کی تحریک سے متعلق چند باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ یہاں میں ہیئت کے تجربوں، نظمِ آزاد اور نظمِ معری کے استعمال، نئی علامات اور نئی موسیقی کی تلاش کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا۔ یہ بات جدید سے زیادہ نئی کہلانے کی مستحق ہیں۔ لیکن یہ کہہ کر میں ان کوششو ں کی اہمیت گھٹا نہیں رہا ہوں، صرف اپنے متعین موضوع کی حدود میں رہنا چاہتا ہوں۔ نئے ادیبوں کی تحریک کے دو حصے ہیں۔ ایک وہ حصہ جو آگے چل کر ترقی پسند کہلایا اور دوسرا حصہ وہ ہے جسے آزاد ادیبوں کا گروہ کہنا چاہیے۔ ابتدا میں یہ دونوں حصے ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہیں تھے اور ان کی جدیدیت کا مرکز ی نقطہ روایت سے ان کا شعوری انحراف تھا، روایتی معاشرے سے بھی اور روایتی فن سے بھی۔ روایتی معاشرے سے انحراف کا پہلو مذہب کی مخالفت، عقیدوں کی بیخ کنی اور اخلاقیات کی نفی میں ظاہر ہو رہا تھا اور روایتی فن سے انحراف فن کے نئے نئے نظریات اور شاعری کے نئے نئے تجربات میں۔ لیکن ابتدا میں نفی ہی کوسب کچھ سمجھ لیا گیا تھا۔ اس لیے یہ تحریک ادھوری جدیدیت کی تحریک تھی۔ بعد میں کچھ مثبت اقدار کی ضرورت محسوس ہوئی تو صرف نفی کا کام چھوڑکر اشتراکی اقدار کو اختیار کر لیا گیا۔ یہاں سے ترقی پسند نئے ادیبوں سے الگ ہو گئے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ ترقی پسند ہمیشہ میراجی، ن م راشد اوران کے دوسرے رفقا پر نراجی، مریض، منفیت کا شکار ہونے کا الزام لگاتے ہیں لیکن اشتراکی اقدار کو جلدبازی میں یا سیاسی مصلحتوں کے تحت فوری طور پر قبول کرنے کا نتیجہ ادب کے حق میں اچھا برآمد نہیں ہوا۔ اس سے ایک تو معاشرے میں نفی کے عمل کی تکمیل نہیں ہو سکی۔ دوسری طرف جو اشتراکی اقدار قبول کی گئیں ان کی تجرباتی بنیاد واضح نہیں تھی۔ اشتراکیت پر کوئی تنقید میرا مقصود نہیں۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ ہمارے یہاں اشتراکی اقدار کی قبولیت، جدیدیت کے تجرباتی اثبات کے حق میں اچھی ثابت نہیں ہوئی اور ترقی پسند تحریک ہمارے انفرادی اور اجتماعی شعور اور ہمارے تجربے کے درمیان ایک آڑ بن کر کھڑی ہو گئی۔ ترقی پسندوں نے تجربے کی کمی نظریے سے پوری کرنی چاہی، لیکن نظریے کی بندگی نمرود کی خدائی سے زیادہ بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ تجربے کی جگہ اگر نظریہ لے سکتا تو روایتی معاشرے کے عقائد ہی کیا برے تھے۔ چند ہی برسوں کی ہنگامہ آرائی کے بعد وقت آ گیا کہ جدیدیت کی نئی رو اس نظریاتی جھانپلیت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی تھی۔ ترقی پسندوں کو اس کا احساس اس وقت تک نہیں ہوا جب تک بالکل جدید نسل نے ان کی کھوکھلی، مصنوعی اور خلوص کی کمی کے باعث خطیبانہ شاعری کے خلاف علمِ بغاوت بلند نہیں کر دیا سوائے فیض اور اخترالایمان کی شاعری کے کہ اشتراکی اقدار کے تجرباتی اثبات کی دلکش مثالیں ہیں یا ایک ہمارے احمد ندیم قاسمی ہیں جن کی شاعری میں پچھلے چند برسوں میں ایک نئی جان آئی ہے۔ اس سے برخلاف آزاد ادیبوں کا گروہ ان معنوں میں جدیدیت سے وفادار رہا کہ اس نے اپنے تجربے میں آئے بغیر کسی قسم کے جھوٹے اثبات کو قبول نہیں کیا۔ میراجی کے بعد راشد نے اس کام کو جاری رکھا ہے اور ان کے بعد کی نسل میں ضیا جالندھری ابھی تک اس راستے پر گامزن ہیں۔ گوکہ مختار صدیقی اور یوسف ظفر میں روایت کی ایک نئی تجرباتی قبولیت کا رجحان بڑھ رہا ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں سے کسی ایک میں بھی کسی نئے نظامِ اقدار کی تخلیق کی تھوڑی سی سکت بھی ہے یانہیں۔ ۱۹۴۷ء کے بعد جدید شاعری کے دو گروہ ابھرے۔ ایک وہ جس کا کام پاکستان کے فوراً بعدمنصۂ شہود پر آیا اور جنھوں نے ۵۸۔ ۱۹۵۷ء تک بہت بڑی حد تک پڑھنے والوں کے شعور میں جگہ پیدا کر لی۔ دوسرا گروہ ۵۸۔ ۵۷ء کے قریب ابھرا ہے اور ادبی تاریخ میں اپنی جگہ حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ ان میں سے کچھ میراجی کی روایت میں لکھ رہے ہیں اور کچھ ترقی پسند تحریک کے جھوٹے اثبات کے ردِعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ اول الذکر پاکستان میں اور موخرالذکر ہندوستان میں۔ جدید شعرا کی اس نسل میں نفی کا رجحان بہت شدید ہے۔ ایک معنوں میں قدیم سے جدیدیت کی وہ لڑائی جس کا آغاز غالب سے ہوا تھا، اب شاعری میں اپنی تکمیل کو پہنچ رہی ہے۔ فرد سارے رشتوں کو توڑ کر اپنا پیمانۂ اقدار آپ بن چکا ہے۔ مذہب، عقیدہ، اخلاق، قانون، معاشرتی اصول، فن وزبان کے ضابطے اور قاعدے، سب اس کے نزدیک بے معنی ہو چکے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو نہ کسی تہذیب کا نمائندہ تصور کرتا ہے نہ کسی قوم کا فرد۔ اس کی نہ کوئی جماعت ہے نہ کوئی تنظیم۔ وہ معاشرے میں بے آسرا، ہجوم میں تنہا اور شہر میں جنگل کا باسی۔ ان رجحانات کے نمائندہ شعرا کی تخلیقات شاعری کے اعتبار سے اپنی حدودمیں اچھی بری، پست وبلند ہرطرح کی ہیں جن کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ سب کی سب اس بات کا مکمل اظہار کرتی ہیں کہ جدیدیت کا منفی پہلو جس شدت سے اب نمایاں ہوا ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ ذاتی طور پر میں اس شاعر ی کے بیشتر حصے کا قائل نہ ہونے کے باوجود نوجوانوں کویہ حق دینے کے حق میں ہوں کہ وہ اپنے تجربے کو بنیاد بناکر جس چیز کو رد کرنا چاہیں رد کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی ہمیں نہ بھولنا چاہیے کہ یہ جدیدیت کا صرف ایک پہلو ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ ادھوری جدیت کبھی پوری جدیدیت بنتی ہے یا نہیں۔ لیکن یہ سوال شاید قبل ازوقت ہے کیونکہ ان کے یہاں نفی کا عمل ابھی اس سنجیدہ سطح پر نہیں پہنچا جہاں ادب کا کوئی سنجیدہ طالب علم زیادہ دیر تک ٹھہر سکے۔
مأخذ:مضامینِ سلیم احمد