فتاویٰ یسئلونک
دارالافتاء، فقہ اکیڈمی
سوال: آج کل راشن وغیرہ کے لیے مہم چلائی جاتی ہے، لوگ اس میں زکوٰۃ کے پیسے بھی دیتے ہیں۔ جہاں تک میں نے سنا تھا کہ زکوٰۃ کے پیسے جس کو دیے جائیں اس کو اس کا مالک بنایا جائے، تو کیا زکوۃ کی رقم اس طرح کی مہم وغیرہ میں دیے جاسکتے ہیں؟ اسی طرح ہسپتالوں میں این جی اوز زکوٰۃ کی رقم سے دوائیاں فراہم کرتی ہیں، اس کے بارے میں بھی رہنمائی فرمادیں۔ جزاک اللہ خیراً
جواب: مختلف تنظیموں اور رفاہی اداروں میں اگر فقرا رجسٹر ڈہوں یعنی ان کی کفالت ادارے نے اپنے ذمے لی ہوئی ہو اور فقرا نے ان کو زکوۃ کی وصولیابی کا وکیل بھی بنایا ہو تو ایسی صورت میں یہ ادارے فقرا کے وکیل ہوں گے اور ان کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا ہو جائے گی البتہ اس میں ضروری یہ ہے کہ ادارے کو جو چیز زکوۃ کی مد میں دی جائے، ادارہ اس کو بغیر تبدیلی کے فقیر تک پہنچائے؛ رقم ہو تو رقم اور راشن ہو تو راشن ۔ لیکن اگر فقرا نے ادارے کو اس طرح وکیل بنایاکہ ادارہ ان کی طرف سے زکوۃ وصول کر کے کسی بھی جگہ خرچ کرے تو اس صورت میں اس رقم کو ہر جائز مصرف میں خرچ کرنا جائز ہے ۔
اگر فقرا کسی ادارے میں رجسٹر ڈنہ ہوں بلکہ ا دارہ مستحقین کے لیے زکوۃ جمع کر کے ان پر خرچ کرتا ہو تو ایسی صورت میں یہ ادارہ زکوۃ دینے والوں کا وکیل ہو گا اور جب تک یہ ادارہ اس زکوۃ کی رقم کو کسی مستحق کے قبضے میں نہ دے اس وقت تک زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔ اس میں ادارے پر یہ لازم ہو گا کہ اس رقم کو ایسی جگہ خرچ کرے جہاں زکوۃ کی رقم کا استعمال جائز ہو، البتہ اس میں ادارے کو یہ اختیار بھی ہو گا کہ وہ اس رقم کو ضرورت مند شخص کی کسی ضرورت میں تبدیل کر کے مستحقین کے حوالے کر دے ۔ لہذا جس تنظیم یا رفاہی ادارے پر اعتماد ہو کہ وہ آپ کی زکوۃ صحیح مصرف میں ہی خرچ کرے گا تو اس کو زکوۃ کی رقم دی جا سکتی ہے۔
أن الوكيل بالقبض إنما يملك القبض على وجه لا يكون للموكل أن يمتنع منه إذا عرضه عليه المطلوب فليس للوكيل بالقبض ذلك كالشراء بالدين والاستبدال. (المبسوط للسرخسي، 19/ 69)