مولانا محمد اقبال
رکن شعبۂٔ تحقیق و تصنیف
سورہ الزمر آیت: 9
﴿أَمَّن هوَ قَانِتٌ اٰنَاءَ الَّیلِ سَاجِدًا وَّ قَائِمًا یَّحذَرُ الاٰخِرَةَ وَ یَرجُوا رَحمَةَ رَبِّه، قُل هَل یَستَوِی الَّذِینَ یَعلَمُونَ وَ الَّذِینَ لَا یَعلَمُونَ، إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُولُوا الأَلبَابِ﴾
’’بھلا (کیا ایسا شخص اس کے برابر ہوسکتا ہے) جو رات کی گھڑیوں میں عبادت کرتا ہے، کبھی سجدے میں، کبھی قیام میں، آخرت سے ڈرتا ہے، اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہے ؟ کہو کہ: کیا وہ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے سب برابر ہیں ؟ (مگر) نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں‘‘ ۔
تفسیرو توضیح
علم کی فضیلت وعظمت محتاج ِبیان نہیں ہے،اس کی ترغیب و تاکید قرآن کریم میں جس دل آویز انداز میں آئی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ قرآن کریم کی پہلی وحی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر نازل فرمائی وہ علم ہی سے متعلق ہے۔ پہلی وحی کا آغاز جس کلمے سے ہوا ہے وہ ہے: ﴿اِقْرَأ﴾ یعنی ’’پڑھ‘‘ ۔ اسی پہلی وحی میں علم اور قلم کا رشتہ بھی واضح فرمایا ہے: ﴿اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ، الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ،عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ﴾ (سورۃ العلق) ’’پڑھو، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کرم والا ہے، جس نے قلم سے تعلیم دی۔ انسان کو اس بات کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘ ۔ لہذا ان آیاتِ مبارکہ سے جہاں علم اور آلات علم کی اہمیت اور عظمت ظاہر ہوتی ہے، وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم وتربیت اس دینِ مبین کا بنیادی مقصد ہے۔کیونکہ انسان اور دیگر مخلوقات میں فرق علم اور اس کے مقتضیات پرعمل ہی سے ممکن ہے ۔چنانچہ زیرِ مطالعہ آیتِ مبارکہ میں علم اور اس کے مقتضیات پر عمل کرنا دونوں لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ﴿أَمَّن هوَ قَانِتٌ اٰنَاءَ الَّیلِ سَاجِدًا وَّ قَائِمًا یَّحذَرُ الاٰخِرَةَ وَ یَرجُوا رَحمَةَ رَبِّه﴾ ’’بھلا (کیا ایسا شخص اس کے برابر ہوسکتا ہے) جو رات کی گھڑیوں میں عبادت کرتا ہے، کبھی سجدے میں، کبھی قیام میں، آخرت سے ڈرتا ہے، اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہے ؟‘‘ آیتِ مبارکہ کے اس حصے میں جس شخص کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ جو اپنے پروردگار کی رحمت کی امید پر رات کی گھڑیوں میں عبادت میں مصروف رہتا ہے، اس کے مصداق میں مختلف اقوال ہیں ؛ مشہور مفسرِ قرآن حضرت مقاتل رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: اس آیت میں رات میں عبادت کرنے والے سے مراد ؛ عمار، صہیب، ابن مسعود اور ابوذر رضی اللہ عنہم ہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اس سے مراد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں، جبکہ ضحّاک کی روایت سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اس سے مراد حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہما ہیں۔ یحیٰ بن سلام کہتے ہیں: اس سے مراد رسول اللہ ﷺ ہی ہیں۔ (البحر المحيط في التفسير، ج:۹، ص: ۱۸۹) اسی طرح واضح ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص عبادت میں اس لیے مصروف رہتا ہے کہ اس کے پاس علم ہے اور علم کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس کے مقتضیات پر عمل کیا جائے ۔ چنانچہ اسی قانت اور عابد کو بطورِ مثال پیش کیا کہ ایسے اہلِ علم اور جہلا انجامِ کار کے اعتبار سےبرابر کیسے ہو سکتے ہیں؟ امام ابو سعود رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ﴿قُلْ﴾ بياناً للحقِّ وتنبيهاً على شرفِ العلمِ والعمل ﴿هَلْ يَسْتَوِى الذين يَعْلَمُونَ﴾ حقائقَ الأحوالِ فيعملون بموجبِ علمهم كالقانتِ المذكورِ ﴿والذين لاَ يَعْلَمُونَ﴾ (تفسير أبي السعود، ج: ۷، ص: ۲۴۵) ’’حقیقت کی وضاحت اور علم و عمل کے شرف کی غرض سے فرما دیجیے ! کہ: کیا وہ لوگ جو علم والے ہیں یعنی احوال کی حقیقتوں سے باخبر ہیں اور اپنے علم کے مقتضیٰ پر عمل کرنے والے ہیں جیسے کہ آیتِ مبارکہ میں مذکورہ عبادت گزار کی مثال دی گئی ہے، وہ اور جو جاہل ہیں سب برابر ہیں ؟ یعنی جو اپنی جہالت اور گمراہی کے مقتضیٰ پر عمل کرنے والے ہیں، سب برابر ہیں؟ ‘‘ یعنی اگر آخرت کا حساب و کتاب نہ ہو اور اچھے اور برے کاموں کی جزا و سزا کا نظام نہ ہو پھر عالم جاہل،مومن کافر سب برابر ہوجائیں گے، جو ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور انصاف سے بعید ہے۔
﴿قُل هَل یَستَوِی الَّذِینَ یَعلَمُونَ وَ الَّذِینَ لَا یَعلَمُونَ، إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُولُوا الأَلبَابِ﴾ ’’کہو کہ: کیا وہ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے سب برابر ہیں ؟ (مگر) نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں‘‘ ۔ آیتِ مبارکہ کے اس حصے میں عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہو سکتے، کیونکہ انسان کو دیگر مخلوقات پر فوقیت اسی لیے دی گئی ہے کہ اس کے اندر علم حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی صلاحیت رکھی گئی ہےجبکہ باقی مخلوقات میں یہ اہلیت نہیں ہوتی۔ اب اگر انسان علم حاصل نہیں کرتا تو اس کےاور دیگر مخلوقات کے درمیان اس لحاظ سے مشابہت پیدا ہوتی ہے جو اس کی امتیازی شان کے خلاف ہے۔ چنانچہ علم ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو خیر اور شر میں فرق سکھاتاہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کی نظر میں صاحب علم کا مخصوص مقام متعین ہے ۔لہذا آیتِ مبارکہ کے اس حصے میں بتلایا گیا ہے کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے۔ قرآن حکیم کے ساتھ بے شمار احادیث مبارکہ میں مسلمانوں کو حصول علم کے لیے ترغیب دی گئی ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا ہے: «إِنَّ الْعُلَمَاء َ هُمْ وَرَثَةُ الْأنْبِيَاءِ، وَرَّثُوا الْعِلْمَ، مَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ» (بخاری شریف) ’’بیشک اہلِ علم؛ انبیاے کرام علیہم السلام کے وارث ہیں، انھوں نے میراثِ علم چھوڑی ہے۔ پس جس نے اس میراث کو حاصل کیا، اس نے بہت بڑا حصہ پا لیا‘‘ ۔اس حدیثِ مبارکہ میں علم کو انبیاے کرام کی میراث قرار دیا گیا ہے اور ظاہر ہے اس میراث میں حصہ پانے اور محروم ہونے والے برابر نہیں ہو سکتے۔
اسی طرح محض معلومات جمع کرنا علم نہیں ہے بلکہ اس علم کے مقتضیات پر عمل کرنا بھی اس کا حصہ ہے، چنانچہ صاحبِ تفسیر ِقاسمی آیتِ مذکورہ کی تفسیر میں علامہ قاشانی رحمہ اللہ کا قول نقل فرماتے ہیں کہ: ’’عالم فقط وہی ہے جو فرماں بردار ہو، اس لیے کہ علم وہی ہے جو دل میں ایسا گھر کر لے اور روح میں اس طور رچ بس جائے کہ اس کی مخالفت ممکن ہی نہ رہے، بلکہ اس کے گوشت اور خون کا حصہ بن جائے ۔ اسی طرح علم کا اثر اس کے اعضا وجوارح میں ایسا ظاہر ہو جائے کہ اس کے مقتضیٰ سے اسے الگ کرنا ممکن نہ رہے۔ اور اگر علم کی صفت یہ نہ ہو تو یہ محض نقوش ہیں جو خیالی چیز ہیں، اس لیے کہ ان کا ذہول اپنے مقتضیات سے ممکن ہے جو حقیقت میں علم نہیں ہے بلکہ یہ تو امر ِتصوری اور عارضی خیال ہے جو جلد زائل ہونے والا ہے۔ یہ امرِ تصوری اور عارضی خیال قلب کے لیے غذا کا کام نہیں دے سکتا اور نہ ہی بھوک مٹانے میں مددگار ہے ۔ ’’علم‘‘ سے اصحابِ عقل ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں، یعنی وہ لوگ جن کی عقول تخیل اور وہم کے چھلکے سے صاف ہیں، اس لیے کہ علم راسخ کی نشانی یہ ہے کہ یہ ظاہری اعضا پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ (تفسیرالقاسمی، ج:۸ ص: ۲۸۲)
اسی طرح امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علم اور عمل دونوں مقصود ہیں اور ان دونوں میں عمل کو پہلا درجہ حاصل ہے: واعلم أن هذه الآية دالة على أسرار عجيبة، فأولها: أنه بدأ فيها بذكر العمل وختم فيها بذكر العلم، أما العمل فكونه قانتا ساجدا قائما، وأما العلم فقوله: هل يستوي الذين يعلمون والذين لا يعلمون وهذا يدل على أن كمال الإنسان محصور في هذين المقصودين، فالعمل هو البداية والعلم والمكاشفة هو النهاية. (التفسير الكبير، ج: ۲۶، ص:۴۲۸) ’’جان لیجیے کہ یہ آیت کئی عجیب و غریب اسرار و حِکَم پر مشتمل ہے؛ پہلا یہ ہے کہ یہاں عمل کے ذکر سے آغاز کر دیا ہے جبکہ اختتام علم کے تذکرے پر کیا ہے۔ عمل یعنی رات کی گھڑیوں میں عبادت کرنا، نماز پڑھنا وغیرہ، اور علم یعنی اللہ تعالیٰ کا قول ؛ کیا وہ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے سب برابر ہیں ؟ کا ذکر کرنا، یہ دلالت کرتا ہے کہ انسان کا کمال ان دو مقصود میں محصور ہے، پس پہلا مقصودعمل ہے اور آخر ی علم و مکاشفہ ہے‘‘ ۔
زیرِ نظر آیتِ مبارکہ کا حاصل یہ ہے کہ ایک انسان کے لیے ایمان لانے کے بعد سب سے زیادہ انفع چیز علم ہے، اس کے ذریعے وہ نہ صرف اپنے آپ کو جہنم کی ہولناکیوں سے بچاتا ہے، بلکہ دوسرے لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ اسی طرح دین کی اشاعت و حفاظت کا مدار بھی علم ہے۔لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جس طرح اہلِ علم کا مقام و مرتبہ اعلیٰ و بلند ہے اسی طرح ان کی ذمے داریاں بھی بہت نازک ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ ضروری اور اہم یہ ہے کہ اپنے علم کے مقتضیات پر خود بھی عمل کریں اور حسبِ استطاعت اس علم کی نشر واشاعت میں بھی حصہ لیں۔ اسی طرح اپنے مقامِ بلند اور اپنے فضائل کی رعایت کرتے ہوئے اپنی مفوَّضہ ذمے داریوں سےتغافل نہ برتیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں علم حاصل کرنےکی سچی لگن، اس کے مقتضیات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور اس کی خدمت کے لیے ہمیں قبول فرمائیں۔ آمین