اداریہ
مدیر ماہنامہ مفاہیم، کراچی
کہتے ہیں کہ وطن کی محبت انسانوں میں جوڑ اور وحدت پیدا کرتی ہے ۔ بقول اقبال : ’’دھرتی کے باسیوں کی مُکتی پریت میں ہے‘‘ ۔لیکن شومئی قسمت کہ اس اتفاقی چیز نے بھی ہمیں نہیں بڑھایا مگر تفرقے میں ۔ایک طرف دین و مذہب کے کچھ نام لیوا ، وطن کی محبت پر شرک کا انطباق کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف وطن والے ، مذہبیوں پر ملک دشمنی اور بعض دفعہ غداری تک کا الزام لگاتے نظر آتے ہیں ۔ ان حرکتوں کے بعض مرتکبین تو الزام لگاتے ہی باطن کی خرابی کی وجہ سے ہیں سو اُن کا کوئی علاج نہیں، مگر خود انھی کے پاس۔ البتہ بعض مخلص لوگ بھی اس طرح کی باتوں میں ملوث نظر آتے ہیں تو اس کی وجہ تصور محبت وطن کا واضح نہ ہونا ہے۔
وطن کی محبت کے بارے میں دو انتہائی نظریات کی مثال ہمیں کلامِ اقبال ہی میں مل جاتی ہے ۔ ان کا اصولی اور آخری موقف تو ’’وطنیت‘‘ میں بیان ہوا لیکن قدیم نظم ’’نیا شوالہ‘‘ میں وہ دوسری انتہا پر نظر آتے ہیں ۔باوجود یہ کہ ان کی نظم ’’وطنیت‘‘ میں بہت کھول کر اربابِ سیاست کے تصورِ وطن اور ارشادِ نبوت کے تصورِ وطن کے فرق کو بیان کیا گیا لیکن بعض مخلصین اس نظم کے اسی شعر تک محدود رہتے ہیں:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے |
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے |
چناں چہ مخلص اہلِ مذہب کی طرف سے بعض دفعہ بغیر تخصیص اور استثنا کے؛ یہ شعر وطن کی محبت کی نفی میں استعمال ہوتا ہے۔ تو ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ وطن کی محبت کی جائز اور ناجائز صورتوں کو واضح کرنے کے لیے کچھ کلام کیا جائے۔
ایک بات تو یہ ہے کہ وطن کی محبت ایک فطری جذبہ ہے جو انسان کے خمیر میں ہے۔ الجامع الصحيح للسنن والمسانيد کے مولف نے وطن کی محبت کے بیان میں یہ باب باندھا ہے: صُعُوبَةُ فُقْدَانِ الْوَطَنِ وَحَنِينُ الْمُهَاجِرِينَ لِمَكَّةَ ’’وطن چھن جانے کی مصیبت اور مہاجرین کا مکہ کے لیے رونا‘‘ اس کے بعد یہ روایت لائی گئی کہ نبی کریمﷺ جب مکہ سے نکلے تو حَزوَرَہ کے مقام پر کھڑے ہو کر آپ ﷺ نے ارضِ وطنِ مکہ کو مخاطب کر کے فرمایا: «وَاللهِ إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللهِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللهِ إِلَى اللهِ وَلَوْلَا أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ» ’’اللہ کی قسم تو اللہ کی بہترین زمین ہے اور اللہ کے نزدیک محبوب ترین زمین ہے اور اگر مجھے تجھ سے نہ نکالا جاتا تو میں یہاں سے نہ نکلتا‘‘ ۔ ایک روایت میں آتا ہے: «وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِي أَخْرَجُونِي مِنْكِ مَا سَكَنْتُ غَيْرَكِ» ’’اگر میریقوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا اور کہیں سکونت اختیار نہ کرتا‘‘ ۔مدینہ آمد کے بعد بھی رسول اللہ ﷺ مکہ کی یاد سے غافل نہیں ہوئے ۔حضرت اَصیل الغِفاری رضی اللہ عنہ پردے کے احکامات کے نزول سے پہلے مدینہ تشریف لائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان سےپوچھتی ہیں: ’’اصیل تم مکہ کو کیسا چھوڑ آئے؟‘‘ ،وہ مکہ کا کچھ حال بیان کرتے ہیں تو آپ ان سے فرماتی ہیں: ’’یہاں رکو جب تک رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئیں‘‘ ۔ جب آپ ﷺ تشریف لاتے ہیں تو اصیل سے سوال فرماتے ہیں: ’’اصیل! تم مکہ کو کس حال میں چھوڑ کر آئے‘‘ ۔ وہ کہتے ہیں: ’’خدا کیقسم میں اس حال میں مکہ سے جدا ہوا کہ اس کے (محلوں کے آس پاس ) کی پگڈنڈیاں سرسبز ہو چکی تھیں ۔ اس کی وادیاں بارشوں کے پانی سے سفید اور تر بہ تر ہیں۔ اس کی اذخر گھاس خوب گھنی ہو گئی ہے اور ثُمام گھاس بھی بہت زوروں پر ہے اور درختوں گھنے اور خوب سرسبز ہو چکے ہیں‘‘ ۔اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «حَسْبُكَ يَا أَصِيلُ لَا تُحْزِنَّا» ’’اے اصیل بس بھی کرو، ہمیں مزید دکھی نہ کرو‘‘ ۔(اخبار مکہ للارزقی)
ان روایات میں مذکور مکی محبت میں مکہ کی دینی عظمت ایک بات ہے لیکن رسول اللہ ﷺ کی اس شہر سے محبت میں وطن کی محبت کا عنصر بھی یقینی طور پر موجود تھا ۔اس کا اشارہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ملتا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ میں وارد ہوئے تو کئی صحابہ کرام بیمار پڑ گئے۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عیادت کی گئی تو وہ کہنے لگے: ’’موت جوتے کے تسمے سے بھی نزدیک ہے‘‘ ۔ حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’میں نے موت کا ذائقہ چکھنے سے پہلے ہی اس سے ملاقات کر لی‘‘ ۔حضرت بلال عتبہ و شیبہ وغیرہ پر لعنت بھیج رہے تھے کہ انھوں نے ہمیں دیس نکالا دیا ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ تفصیل رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کی تو آپ نے یوں دعا فرمائی : «اَللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَفِي مُدِّنَا، وَصَحِّحْهَا لَنَا، وَانْقُلْ حُمَّاهَا إِلَى الْجُحْفَةِ » (صحیح بخاری) ’’اے اللہ! ہمیں مدینہ اتنا ہی محبوب بنا دے جتنا ہم مکہ سے محبت کرتے ہیں یا اس سے بھی زیادہ۔ اے اللہ! ہمارے (پیمانوں )صاع اور مُد میں برکت دے، اور اس شہر کو ہمارے لیے سازگار بنا دے اور یہاں کے بخار کو جُحفہ کی طرف منتقل کر دے‘‘ ۔ اس نبوی دعا میں مدینہ کی وبا کا ازالہ اور مدینہ میں برکت کی دعا کے ساتھ مدینہ کی محبت کا سوال بھی ہے اور وہ بھی مکہ کے برابر یا اس سے زیادہ ، اگر مکہ کی محبت صرف دینی فضیلت کی وجہ سے ہوتی تو وہ اب بھی برقرار تھی لیکن اس کے ساتھ وطنی محبت کا عنصر بھی شامل تھا اور اسی اعتبار سے مدینہ کو محبوب بنانے کی دعا فرمائی گئی۔
ایک روایت میں نبی کریم ﷺ کی دعا کے یہ الفاظ ملتے ہیں: «اللهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِينَةِ ضِعْفَيْ مَا بِمَكَّةَ مِنَ الْبَرَكَةِ» (صحیح مسلم ) ’’اے اللہ! مدینہ کو مکہ کی برکت کی نسبت سے دگنی برکت عطا فرما‘‘ ۔ غور کیجیے یہاں بھی برکت سے مراد دینی برکت یا فضیلت نہیں ہے، اس لیے کہ احادیثِ رسول ﷺ کے مطابق امت کا اجماع ہے کہ حرمِ مکی کی نماز حرمِ مدنی کی نماز سے زیادہ افضل ہے۔ بلکہ یہاں برکت سے وہ مادی برکات مراد ہیں جن کی وجہ سے انسان کسی جگہ پر سکون محسوس کرتا ہے اور وہ زمین اس کا وطنِ مالوف بن جاتی ہے۔ ایک دعا میں یہ الفاظ ملتے ہیں : «اللهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ وَخَلِيلُكَ وَنَبِيُّكَ وَإِنِّي عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ وَإِنَّهُ دَعَاكَ لِمَكَّةَ وَإِنِّي أَدْعُوكَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاكَ لِمَكَّةَ وَمِثْلِهِ مَعَهُ» (صحیح مسلم ) ’’اے اللہ! بے شک ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے ، خلیل و نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور نبی ہوں بے شک ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے لیے دعا کی تھی جبکہ میں مدینہ کے لیے وہی دعا کرتا ہوں جو انھوں مکہ کے لیے کی تھی بلکہ میں مدینے کے لیے اتنا مزید کی دعا کرتا ہوں‘‘ ۔
بہرحال کچھ یہاں رہنے کے سبب اور کچھ ان دعاؤں کی برکت سے مدینہ پاک نبی کریم ﷺ اور اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کو محبوب ہو گیا۔ امام بخاری نےالجامع الصحیح میں یہ باب باندھا ہے: بَابُ مَنْ أَسْرَعَ نَاقَتَهُ إِذَا بَلَغَ المَدِينَةَ ’’مدینہ کے نزدیک پہنچ کر اپنی سواری کو تیز کرنے کا بیان‘‘ اس کی ذیل میں آپ وہ روایت لے کر آئے ہیں جس میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ جب سفر سے واپس آتے اور آپ ﷺکو مدینہ کے آثار نظر آتے تو آپ اپنی سواری کی رفتا کو بڑھا دیتے ۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ «حَرَّكَهَا مِنْ حُبِّهَا» ’’مدینے کی محبت کی وجہ سے آپ اپنی سواری کو تیز حرکت میں لاتے‘‘ اس طرزِ عمل میں خاص طور پر تو مدینہ کی محبت کا ثبوت ہوتا ہے لیکن عمومی طور پر اس طرز عمل سے اپنے وطن کی محبت بھی ثابت ہوتی ہے ۔چناں چہ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: وَفِي الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلَى فَضْلِ الْمَدِينَةِ وَعَلَى مَشْرُوعِيَّةِ حُبِّ الْوَطَنِ والحَنينِ إِلَيْهِ (فتح الباری) ’’یہ حدیث مدینہ کی فضیلت اور وطن کی محبت اور تڑپ کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے‘‘ ۔اس تفصیل سے یہ واضح ہوا کہ وطن کی محبت ایک جائز اور فطری امر ہے۔ اور یہ بھی ہم واضح کہنا چاہتے ہیں کہ بعض انقلاب پسند مذہبی عناصر جو ہر قسم کی حب الوطنی کو شرک پر محمول کرتے ہیں وہ ایک پرخلوص غلو کے سوا کچھ نہیں۔ پس وطن کی محبت کی مشروعیت کے بعد اس کی ترقی کی کوشش کرنا اور یہاں کے عوام کی فلاح و بہبود اور دیگر خدمت کے کام نہ صرف مشروع بلکہ مستحسن ہیں ۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ وطن کی بنیادی اور فطری محبت پر اضافی طور پر بعض ملکوں کو دینی فضیلت بھی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور بیت المقدس ہیں ۔ ان سے کم تر فضیلت ان مسلمان ملکوں کو حاصل ہو گی جہاں اسلامی قانون نافذ اور حدود قائم و دائم ہیں ۔ اس کے بعد عام مسلمان ملکوں کو درجہ بدرجہ فضیلت حاصل ہے ۔ خاص طور پر وہ وطن جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا کہ ہم یہاں اسلام نافذ کر کے یہاں کے باشندوں کو امن و سکون عطا کریں گے اور دنیا کو اسلام کا صحیح چہرہ دکھائیں گے اس کی حرمت کچھ اور بڑھ جاتی ہے ۔
اب ہم وطن کی محبت کے بارے میں دوسری انتہا کی طرف آتے ہیں بطور مثال اقبال کا قدیم شعر ، اقبال پرستوں سے معذرت کے ساتھ عرض کرتے ہیں:
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خداہے |
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے |
ملکِ پاکستان کے اکثر سیکیولر قائدین اور سیاست دان وطن کی محبت کے اسی تصور کے مطابق دعویدار ہیں جو اس شعر میں استعمال ہوا ہے اور ان میں سے اکثر اگر واقعی کسی خدا کو مانتے ہوتے تو وہ وطن ہی ہوتا ۔ اب یہ لوگ وطن کی محبت میں جس پہلی برائی کا شکار ہیں تو وہ غلو ہے۔ یہاں تک یہ لوگ متشدد ہیں کہ اگر کسی جماعت نے یا کسی دینی شخصیت نے پاکستان بننے سے پہلے کسی اصولی نظریے کی بنیاد پر اس کی مخالفت کی تھی اور یہ کہا تھا کہ نئے ملک کا بننا مسلمانوں اور اسلام کے لیے فائدہ مند نہ ہو گا تو ان کے اس جرم کو آج تک معاف نہیں گیا اور ان لیڈران کی طرف سے ہر اہم موقعے پر عوام کوان شخصیات کا یہ ’’جرم‘‘ یاد کرایا جاتا ہے۔ حالاں کہ دین و شریعت کی رو سے وطن کی محبت اپنے جواز کے باوجود مطلق نہیں ہے بلکہ بعض اصولوں میں مقید ہے۔ یعنی وطن اور اس کی محبت کو ہر حال میں ترجیح نہیں دی جائے گی بلکہ بعض صورتوں میں دینی وجوہات کی بنا پر وطن کی محبت کو پس پشت بھی ڈالنا ہوگا جن کا ذکر ہم آگے چل کر کریں گے ۔ مزید ستم یہ کہ اگر کسی سیاسی لیڈر نے بعض مقتدر طبقات کی طرف سے اپنے حقوق کی پامالی پر اعتراض کیا تو اسے ملک دشمن اور غدار قرار دے دیا گیا ۔ خاکِ وطن کے ہر ذرے کو دیوتا ماننے والے ان سیکیولر عناصر کی دوسری برائی جو اصل برائی ہے وہ یہ کہ وہ اس دعوے میں بالکل جھوٹے ہیں ۔ ہاں اگر اقبال نے یہ مصرع یوں کہا ہوتا: ’’بنکِ وطن کا مجھ کو ہر روپیہ دیوتا ہے‘‘ تو ان کا دعوی سچا ہوتا۔ تو غدارِوطن وہ نہیں ہیں جو کسی مذہبی اصول پر ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے مخالف تھے۔ غدار وہ بھی نہیں ہیں جو پاکستان بننے سے پہلے اس کی بناوٹ پر تنقید کرتے تھے کہ یہ تو مسلمانوں کی طاقت کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔ غدار وہ بھی نہیں تھے جو کہتے تھے کہ تم پاکستان کے نام پر آدھا ملک لے ہی نہیں رہے بلکہ بقیہ آدھا ملک چھوڑ بھی رہے ہو اور غدار وہ بھی نہیں تھے جو کہتے تھے کہ اسلام کا جو قلعہ تم بنانے چلے ہو، تمھارے پاس نہ مستری ہیں نہ مسالا، تو کہاں سے بناؤ گے ۔غدارِ وطن تو وہ ہیں جو وطن کی محبت کے نام پر اسے لوٹ کھسوٹ رہے ہیں ۔ ایک وہ جو احتساب کے نام پر خلافتِ راشدہ قائم کرنے آیا، اپنے ساتھ چوروں کا ایک ٹولہ لے کر آیا ،یا بقول شخصے جسے چور لائے تھے۔ اس حکومت کو دیکھ کر تو ہمیں بچوں کی پرچی والا کھیل ’’چور سپاہی وزیر‘‘ یاد آجاتا ہے کہ پرچی بدلنے سے کبھی چور سپاہی بنتا ہے اور کبھی وزیر ! ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کا تخت سنبھالنے سے پہلے جنھیں ڈاکو قرار دیا گیا انھی کو بعد میں وزیر بنوانے کی تگ و دو شروع ہوئی۔ سائیکل پر دفترآنے کی مثالیں دے کر ، ہوائی سفر کو ترجیح دی گئی ۔ اربوں روپے کے چور پکڑے تو ان سے چند لاکھ میں مک مکا کر لیا۔ اب دوسری طرف کے حالات بھی ایسے ہی ہیں ۔ انھی پالیسیوں کوجاری رکھا ہوا ہے جو پچھلی حکومت میں جاری و ساری تھیں ۔ اب کہنا یہ ہے کہ وطن کی محبت کیا جھوٹ فراڈ ، ہارس ٹریڈنگ کا نام ہے یا یہ چیزیں ملک کے لیے نقصان دہ ہیں ۔ کیا ملک عزیز میں اسلامی قوانین کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنا ، منظور شدہ قوانین کے نفاذ کو مشکل بنانے کے لیے انتظامی تخریب کاری کرنا اور اسلامی اقدار کو پامال کرنا ، کیا ملک کی محبت اسی کو کہتے ہیں ۔ بیرونی قرضے تم نے لیے ،اندرونی قرضے اپنے منظور نظر لوگوں کو تم نے معاف کیے۔ تنخواہ اور بھاری بھر کم مراعات کے نام پر ’’قرض کی شراب‘‘ تم پیتے ہو۔ ریٹائرڈ سورماؤں کو کرپشن کے راستے تم دیتے ہو۔ کرپٹ سیاست دانوں کو اپنی پارٹی میں لا کر ٹکٹ سے تم نوازتے ہو ۔ ملک کو گروی تم رکھتے ہو تو معصوم سا سوال ہے کہ غداری آخر کس کو کہتے ہیں؟ تم ہی ننگِ دین و ننگِ وطن ہو جو وطن کی محبت کے نام پر ہم وطنوں کو بے وقوف بناتے ہو!یاد رہنا چاہیے کہ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک سے غداری اسلام سے غداری کے برابر ہے۔
اب ہم وطن کی محبت کے بارے میں وہ دینی اصول بیان کریں گے جن میں وطن کی محبت کو محدود کیا گیا ہے اور دینی ضرورت کو اس پر ترجیح دی گئی ہے۔حدیث میں وہ واقعہ بیان ہوا ہے کہ جب ایک شخص نے سو قتل کر دیے تو اسے توبہ سکھانے والے عالم نے اس سے فرمایا: انْطَلِقْ إِلى أرضِ كَذَا وكَذَا فإِنَّ بِهَا أُناسًا يَعْبُدُونَ الله تَعَالَى فاعْبُدِ الله مَعَهُمْ ولاَ تَرْجِعْ إِلى أَرْضِكَ فَإِنَّهَا أرضُ سُوءٍ (مُتَّفَقٌ عليه) ’’فلاں بستی کی طرف چلے جاؤ کہ وہاں کچھ ایسے لوگ آباد ہیں جو اللہ کی عبادت کرتے ہیں تم ان کے ساتھ مل کر اللہ کی عبادت کرو اور اپنی بستی کی طرف نہ لوٹنا اس لیے کہ یہ ایک بری زمین ہے‘‘ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دین و عبادت کی وجہ سے وطن کی محبت کو قربان کرنا چاہیے۔
قرآن کریم میں آتا ہے کہ شیطان نے چیلنج دیا تھا کہ اے اللہ میں تیرےراستوں پر گھات لگا کر انسانوں کو گمراہ کروں گا ۔ حدیث میں اس کی چند مثالیں آئی ہیں کہ جب بندہ اسلام قبول کرنے لگتا ہے تو شیطان اس سے کہتا ہے کہ کیا تو اسلام لا کر اپنے اور اپنے اباو اجداد کے دین کو چھوڑ رہا ہے ۔ اور جب انسان ہجرت کرتا ہے تو شیطان اس کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے اور کہتا ہے: تُهَاجِرُ وَتَدَعُ أَرْضَكَ وَسَمَاءَكَ؟ , وَإِنَّمَا مَثَلُ الْمُهَاجِرِ كَمَثَلِ الْفَرَسِ فِي الطِّوَلِ ’’کیا تو ہجرت کر کے اپنی زمین اور اپنا فضا کو چھوڑ رہا ہے اور مہاجر کی مثال تو طویلے میں بندھے گھوڑے کی مانند ہے‘‘ ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: «فَعَصَاهُ فَهَاجَرَ» ’’پس بندہ شیطان کی نافرمانی کرتا ہے اور ہجرت کر گزرتا ہے‘‘ اس حدیث کے آخر میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ -عَزَّ وَجَلَّ- أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ» ’’جو کوئی بھی یہ طرزِ عمل اختیار کرے تو اللہ کے ذمے ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے‘‘ تو ان الفاظ میں شیطان کی نافرمانی کر کے دین کے تقاضے کو وطن پر ترجیح دینے کی تحسین کی گئی ہے تو معلوم ہوا کہ اللہ کے دین کے لیے وطن قربان کیا جانا چاہیے اور وطن کو ترجیح دینا شیطانی وسوسہ ہے اور اس وسوسے کو رد کرنا ہی دینی رویہ ہے۔وطن کی محبت کا یہی دینی تصور ہے جو اقبال کے ہاں وطنیت میں ملتا ہے ۔
ہے ترکِ وطن سنتِ محبوبِ الہی |
دے تو بھی نبوت کی صداقت کی گواہی |
نبوت کی صداقت کی گواہی ترکِ وطن کی صورت میں دینے کی نوبت وہاں آئے گی جہاں ہجرت ’’وجوب‘‘ کے درجے میں ہو ۔ فرمان نبوی «لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الفَتْحِ» (صحیح بخاری ) ’’فتح کے بعد ہجرت نہیں رہی‘‘ اس کا ایک خصوصی مطلب بھی ہے لیکن عمومی راہنمائی اس سے یہ ملتی ہے کہ فَلَا تَجِبُ الْهِجْرَةُ مِنْ بَلَدٍ قَدْ فَتَحَهُ الْمُسْلِمُونَ (فتح الباری) ’’پس کسی بھی شہر سے ہجرت کرنا واجب نہیں ہے جب کہ مسلمان اسے فتح کر چکے ہوں‘‘ تو اب اہلِ پاکستان کے لیے ہجرت کی یہ صورت تو باقی نہیں رہی البتہ نبوت کی صداقت کی گواہی ہجرت کی ایک دوسری قسم سے دی جا سکتی ہے بلکہ ضرور ہی دینی چاہیے ۔ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ افضل ہجرت کیا ہے تو فرمایا: «أَنْ تَهْجُرَ مَا كَرِهَ رَبُّكَ عَزَّ وَجَلَّ»(مسند احمد) کہ ’’تو اللہ کے ناپسندیدہ کو ترک کر دے‘‘ تو اہلِ پاکستان وہ جو وطن کی محبت کے داعی و شیدائی ہیں ان کے لیے کرنے کا پہلا کام تو یہ ہے کہ اللہ کی نافرمانی کو ترک کریں اور دوسرا یہ کہ وطن کی محبت سے سرشار ہو کر وطن کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں ، وطن عزیز کی دینی ومذہبی بنیادوں کو مضبوط کریں اور اسے اسلام کا گہوارا بنانے کی کوشش کریں عوام ہوں یا حکمران سب سے ہماری عرض یہی ہے کہ وطن کی محبت کا بہانہ بنا کر اسلام کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں۔
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے |
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے |
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے |
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملادے |