مولانا حافظ حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر، ماہنامہ مفاہیم، کراچی
آج ۱۸ نومبر ہے اور ہمارے اس سفر کا اہم دن ہے، کیونکہ ہمیں منبر الاقصی کی خصوصی دعوت پر ایک روزہ تربیتی نشست کے لیے منبر الاقصی کے مرکز پہنچنا ہے۔ نمازِ فجر کی باجماعت ادائی کے بعد قریبی بازار سے ناشتے کا انتظام کیا گیا۔ ادھر ناشتہ مکمل کیا اور اُدھر اطلاع ملی کہ گاڑی پہنچ گئی ہے۔ دنیا کے تمام بڑے شہروں کی طرح استنبول میں بھی دفتری اوقات میں سڑکوں پر شدید ٹریفک ہوتا ہے، لہٰذا کہیں بھی جانے کے لیے موزوں ترین وقت آٹھ بجے سے پہلے کا ہے۔ ہم نے سامان سمیٹا، بارش اور سردی کے انتظامات کیے اور نیچے اتر آئے۔ باہر ایک بڑی وین میں منبر الاقصی کے دو اہم نمائندے ڈاکٹر یوسف وردہ صاحب اور احمد صاحب ہمارے منتظر تھے۔ احمد صاحب نسلاً البانی تھے جبکہ یوسف صاحب فلسطینی تھے اور القدس کی حفاظت میں کئی مرتبہ صیہونی افواج کے مقابلے پر دادِ شجاعت دے چکے تھے۔ اِن دنوں استنبول میں فقہ اور اصولِ فقہ کی تدریس میں مشغول تھے۔ ہمیں بحرِ مرمرہ سے متصل مقام جلّالیہ میں واقع منبر الاقصی کے دفتر پہنچنا تھا جس کی مسافت دو گھنٹے تھی۔ راستے میں اپنے میزبانوں سے مختصر تعارف بھی ہوا۔ راستہ آبناے باسفورس سے گزر کر جاتا تھا لہٰذا باسفورس کو قریب سے دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ باسفورس ایک آبی گزرگاہ ہے جو بحرِ اسود اور بحرِ مرمرہ کو ملانے کا کام دیتی ہے۔ یہ گزرگاہ دنیا کی اہم ترین تجارتی گزرگاہوں میں سے ہے۔ اس کا پاٹ بہت چوڑا نہیں ہے لہٰذا ہمیں یہ نظر آتا تھا کہ صبح کے وقت سارے جہاز ایک ہی سمت جاتے ہیں اور شام کے وقت سارے جہاز اس کی مخالف سمت۔ خیر، ہم گیارہ بجے کے قریب منبر الاقصی پہنچ گئے۔ یہاں ہمیں رہائشی کمرے دکھائے گئے جہاں ہم نے سامان رکھ دیا۔ دو افراد کے لیے ایک کمرہ تھا اور ہر اعتبار سے انتہائی معیاری اور بہترین انتظام تھا۔ صفائی اور نفاست ترکوں کا خاصہ ہے اور یہ ذوق ہر ہر چیز میں نظر آتا ہے۔ منبر الاقصی بھی ترکوں کے عمدہ ذوق کا ایک چھوٹا سا مظہر تھا۔ یہاں رک کر ہم اپنے قارئین کو منبر الاقصی کا تعارف کرانا چاہیں گے، اس کے لیے ہم ایک تعارفی سہ ورقے سے مدد لیتے ہیں جو ہمارے سامنے موجود ہے، اس میں لکھا ہے:
’’منبرالاقصٰی ایک عالمی ادارہ ہے جو علما، خطبا اور مبلغین پر مشتمل ہے۔ اس کا صدر دفتر استنبول، ترکی میں ہے۔ منبر الاقصٰی دنیا بھر کے علما، خطبا اور مبلغین سے رابطہ رکھتا ہے تاکہ وہ مختلف فورمز سے مسٔلۂ بیت المقدس کی یاد دہانی کرواتے رہیں اور اسے تازہ رکھیں۔
نصب العین:دنیا بھر کے خطبا اور واعظین کے لیے ایسے مرکز کا قیام جس کے تحت بیت المقدس کی خدمت جاری رہے
پیغام:خطبا اور واعظین کے تعاون سے مسٔلۂ بیت المقدس کو ہمہ وقت پیشِ نظر رکھنا اور بیت المقدس کے رہائشیوں کی استقامت کو تقویت دینے کی کوشش کرنا۔
اہداف:
بیت المقدس کی خدمت کے لیے دنیا بھر کے خطبا اور مبلغین کی جدو جہد میں اتحاد اور یکسانیت پیدا کرنا۔
ان ممالک میں اپنے کاموں کی توسیع کرنا جہاں منبر الاقصٰی کو اجازت ہو، اور مسٔلۂ بیت المقدس کے حل کے لیے متعلقہ حکام سے روابط قائم کرنا۔
خطبا اور مبلغین کو مسئلۂ بیت المقدس کے لیے تیار کرنا اور انھیں مسجدِ اقصیٰ سے متعلق بھرپور علمی رہنمائی فراہم کرنا۔
مسئلۂ بیت المقدس سے آگاہی کے لیے ایسے خطبا اور مبلغین کی کھیپ میدانِ عمل میں اتارنا جو القدس کے معاملے میں امت کے لیے مرجع کی حیثیت رکھتے ہوں۔
مسئلۂ بیت المقدس پر امت کو مجتمع کرنے لیے خطبا اور مبلغین کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان کی کاوشوں کے نتائج منظرِ عام پر لا کر بیت المقدس کے پہرے داروں کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان کی ضروریات کی تکمیل کرنا۔
آخر میں مسند احمد کی یہ حدیث شریف درج ہے:حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبیﷺ! بیت المقدس کے بارے میں ہماری رہنمائی فرمائیے، آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ اٹھائے جانے اور جمع ہونے کی زمین ہے۔ وہاں جایا کرو اور نماز پڑھا کرو کیونکہ اس کی ایک نماز دوسری جگہوں میں پڑھی جانے والی ہزار نمازوں کے برابر ہے‘‘ ۔ انھوں نے عرض کیا: اگر کوئی وہاں جانے کی طاقت نہ رکھتا ہو؟آپﷺ نے فرمایا: ’’پس وہ ایندھن تحفےمیں بھیجے، جس سے وہاں کے چراغ روشن کیے جائیں،کیونکہ جس نے القدس کے لیے ہدیہ پیش کیا گویا اس نے وہاں نماز پڑھی‘‘۔
نمازِ ظہر کے بعد ایک کانفرنس روم میں جمع ہوئے جہاں سب سے پہلے تعارف کا دور چلا۔ تعارف کے بعد ابتدائی گفتگو کے لیے شیخ محمد العمری تشریف لائے۔ انھوں نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ شیخ محمد العمری کا کہنا تھا کہ القدس کسی ایک ملک یا کسی خطے کا نہیں مسلمانوں کا اجتماعی مسٔلہ ہے اور یہ ایک اجماعی مؤقف کا حامل ہے، امتِ مسلمہ کا کوئی طبقہ مسجدِ اقصی کے حصول کی جدوجہد میں اختلاف و انکار کا حامی نہیں۔ شیخ نے گفتگو کے اختتام پر بانئ دار العلوم دیوبند حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکرِ خیر کیا اور انھیں خراجِ تحسین پیش کیا کہ جس زمانے میں تقریباً نصف سے زیادہ مسلم دنیا کفار کے زیرِ نگیں تھی اور ایک اعتبار سے علمِ دین کے تمام مراکز نیست ونابود ہو چکے تھے، حجاز، بغداد، سمر قند و بخارا، کوفہ، قسطنطنیہ کسی بھی خطے میں علومِ دینیہ کا کوئی نمایاں مرکز باقی نہ رہا تھا، اس تاریکی میں حضرت نانوتوی نے وہ شمع روشن کی جس نے صرف ایشیا کو ہی نہیں افریقہ و یورپ کو بھی منور کر دیا اور آج تک اس شمع کا نور عالمِ اسلام کو روشن کیے ہوئے ہے۔ حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے ذکر پر ایک انجانی سی خوشی محسوس ہوئی اور سر فخر سے بلند ہو گیا۔ ہمیں بھی الحمد للہ یہ شرَف حاصل ہے کہ ہم نے حدیث شریف کا درس ان علما سے سنا جو حضرت نانوتوی علیہ الرحمۃ کے سلسلۂ علمی سے وابستہ ہیں۔
شیخ عمری کی گفتگو ختم ہوئی تو ان کے بعد فلسطین کے ایک عظیم مصنف شیخ مخلص برزق نے طویل گفتگو کی۔ شیخ مخلص کا اندازِ گفتگو نہایت عمدہ اور متاثر کن تھا۔ انھوں نے آیات و روایات سے القدس کی اہمیت واضح کی اور یہودیوں کی تردید و مذمت کی جو آج بیت المقدس کے دعوے دار اور علم بردار بنے ہوئے ہیں۔ شیخ کا کہنا تھا کہ قرآن نے جا بجا ان یہودیوں سے اعلانِ بیزاری و نفرت کیا، کبھی سفیہ یعنی بے وقوف قرار دیا، کبھی انھیں گدھے سے تشبیہ دی، کبھی ان کی مثال کتے سے دی، بار بار بتایا گیا کہ انھوں نے موسی و عیسی علیہما السلام کو اذیت دی، انبیا کی توہین کی اور انھیں شہید کیا۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ کو نعوذ باللہ بخیل قرار دیا۔ خدا نے انھیں لعنت زدہ قرار دیا اور ان پر عذاب نازل کیا۔ دوسری طرف ہمارے پیارے نبیﷺ کو جب اہلِ طائف نے اذیت دی تو آپ کی دل جوئی کا اہتمام کیا گیا۔ افضل ترین مقام یعنی مسجدِ حرام سے افضل ترین فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام کی میزبانی میں افضل ترین سواری براق پر سفر کروایا گیا۔ افضل ترین پانی آبِ زم زم سے قلبِ اطہر دھویا گیا اور پھر تمام انبیا آپ کی اقتدا میں کھڑے ہوئے۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب زمام یہودیوں کے پاس نہیں مسلمانوں کے پاس ہوگی۔ شیخ مخلص نے گفتگو کے دوران ایک اہم بات یہ بیان کی کہ اسلام اور جہاد کا تعلق کسی ملک یا وطن سے نہیں توفیقِ الہٰی اور اخلاص سے ہے۔ نور الدین زنگی ترک تھے اور فاتحِ بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کرد تھے۔ چنانچہ ہر خطے کے مسلمانوں کو القدس کی حفاظت کے لیے اپنی اپنی کوشش کرنی ہوگی۔ شیخ کی گفتگو کے بعد چند اور تقریریں ہوئیں۔
رات یہیں قیام کیا، صبح نمازِ فجر اور ناشتے کے بعد روانگی ہوئی۔ پہلا قیام اورتاکوئے مسجد یا مجیدیہ مسجد پر ہوا۔ استنبول کے علاقے بیشِک تاش میں باسفورس کے کنارے واقع یہ مسجد سلطان عبد المجید اول سے منسوب ہے۔ داخلی دروازے پر ۱۸۵۳ء لکھا ہوا ہے۔ اگرچہ حجم میں یہ مسجد بہت چھوٹی ہے لیکن طرزِ تعمیر بہت عمدہ ہے۔ مسجد سے متصل ہی ایک ساحلی مقام ہے جہاں کچھ وقت گزار کر واپس روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک مقام پر کئی دکانیں نظر آئیں جہاں مقامی کھانے فروخت ہو رہے تھے۔ انھی میں ایک چھوٹا سا ہوٹل بھی تھا جہاں ہمیں ایک دیسی سوغات پیش کی گئی۔ یہ ایک بڑے آلو پر مشتمل سوغات تھی جس میں انواع و اقسام کی سبزیاں اور زیتون بھرے ہوئے تھے۔ گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی تھے۔ اسے ترکی میں کُمپِر اور انگریزی میں Stuffed Baked Potatoesکہا جاتا ہے۔
یہاں سے روانہ ہوئے تو اگلی منزل یادگارِ شہدا میوزیم قرار پائی جہاں ۱۵ جولائی ۲۰۱۶ء کو ہونے والی ناکام فوجی بغاوت میں شہید ترکوں کی باقیات جمع کی گئیں تھیں۔(بغاوت کا تفصیلی ذکر گزشتہ اقساط میں گزر چکا ہے) ایک گاڑی اور ایک موٹر سائیکل بھی میوزیم میں موجود تھی جس پر گولیوں کے نشانات تھے۔ شہدا کی جوتیاں ترتیب کے ساتھ رکھی گئی تھیں اور دیوار پر تمام شہدا کے نام تحریر تھے۔ ایک کمرے میں بڑی اسکرین پر بزبانِ ترکی ڈاکو منٹری دکھائی گئی جس میں اس بغاوت کی تفصیلات موجود تھیں۔ فوجیوں کی نقل و حرکت اور شہریوں کے دفاع کی ویڈیوز بھی مختلف کیمروں سے حاصل کر کے ڈاکو منٹری میں شامل کی گئیں۔ پورا میوزیم اس پیغام پر مشتمل تھا کہ اپنی قوم کے لیے لڑنے اور مرنے والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جبکہ غدار دونوں جہاں کی رسوائیاں سمیٹ کر اپنا نام و نشان تک مٹا ڈالتے ہیں۔ اسی میوزیم میں سابق وزیرِ اعظم ترکی مرحوم عدنان میندریس کی تصویر اور ان کا تعارف آویزاں تھا۔ عدنان میندریس کو فوج نے عہدے سے بر طرف کیا اور سزاے موت دے دی۔ ان کا جرم یہ تھا کہ اتاترک نے صرف ترکی زبان میں اذان کی اجازت دی تھی۔ انھوں نے حکم نامہ جاری کیا کہ کسی بھی زبان میں اذان دی جا سکتی ہے اور اس حکم نامے پر انھیں قتل کر دیا گیا۔ مقدمہ آئین شکنی پر چلایا گیا۔ عدنان میندریس کو ستمبر ۱۹۶۱ء میں پھانسی دی گئی۔
میوزیم سے نکلے تو نمازِ جمعہ کا وقت قریب تھا۔ نمازِ جمعہ ترکی کی سب سے بڑی مسجد ’’چاملیجا جامی‘‘ میں ادا کرنا طے تھا اس لیے مسجد کی طرف روانگی ہوئی۔ترکی زبان میں مسجد کو ’’جامی‘‘ کہتے ہیں۔ اس چاملیجا جامی کو صدر اردگان کے حکم پر تعمیر کیا گیا اور ۷ مارچ ۲۰۱۹ء کو اس کی تکمیل ہوئی۔ استنبول کے ضلع اُسکودار کے قریب واقع چاملیجا پہاڑی پر قائم یہ مسجد دور دراز کے علاقوں سے بھی نظر آتی ہے۔ یہ اتنی بڑی اور وسیع مسجد ہے کہ اس کا احاطہ چند سطور میں ممکن نہیں۔ ۶۳ ہزار نمازیوں کی گنجائش کے ساتھ یہ مسجد صرف کشادہ ہی نہیں آرائش و زیبائش میں بھی بے مثال ہے۔ اس کا داخلی حصہ انتہائی خوبصورت منظر پیش کرتا ہے۔ اس مسجد میں چھے مینار اور ستر گنبد ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس مسجد کی منصوبہ سازی سے تکمیل تک تقریباً بیس سال کا عرصہ لگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روزنامہ مصباح، استنبول کے مطابق اس مسجد کا نقشہ فنِ تعمیرات کی ماہر دو ترک خواتین کا تیار کردہ ہے۔ تین مئی ۲۰۱۹ء کو صدر اردگان نے اس مسجد کا باقاعدہ افتتاح کیا جس میں کئی عالمی شخصیات نے شرکت کی، جن میں ایک نمایاں نام فلسطینی وزیرِ اعظم محمد اشتیہ کا ہے۔ ترکی میں چند ہی مساجد ہیں جن کے چھے مینار ہیں اور چاملیجا ان میں سے ایک ہے۔ سلطان احمد مسجد (جس کا ذکر گزشتہ اقساط میں ہو چکا) چھے میناروں کی حامل پہلی مسجد تھی۔ چاملیجا مسجد تین اعتبارات سے انفرادیت کی حامل ہے۔ اول اپنی وسعت اور کشادگی کے اعتبار سے۔ دوم چھے میناروں اور ستر گنبدوں کے اعتبار سے اور سوم یہ کہ اس کی افتتاحی عبارت قدیم ترکی زبان میں تحریر کی گئی ہے جس کا رسم عربی ہے۔ جدید تعمیرات میں کہیں بھی عربی رسم میں ترکی لکھی ہوئی نظر نہیں آئی لیکن اس مسجد میں تعارفی کتبہ عربی رسم میں تحریر کیا گیا ہے۔ دیوار پر موجود تعارفی عبارت صرف ترکی زبان میں تھی اس لیے اس کا ترجمہ نہ کر سکے۔ عبارت دو مرتبہ اوپر نیچے لکھی گئی ہے۔ دونوں ترکی زبانیں ہیں، اوپر عربی رسم میں اور نیچے انگریزی رسم میں۔
احاطے میں ایک باغ، ایک کانفرنس ہال، ایک لائبریری، ایک میوزیم اور ایک آرٹ گیلری بھی شامل ہے۔ زائرین کے لیے ایک وسیع پارکنگ بھی بنائی گئی ہے جہاں تقریباً ۳۵۰۰ گاڑیاں بیک وقت کھڑی ہو سکتی ہیں۔ طرزِ تعمیر قدیم عثمانی طرز سے مشابہ اور معمار سنان کی تعمیر کردہ مساجد سے ملتا جلتا ہے۔ مسجد کے باہر بچوں کے کھیلنے کے لیے جھولے بھی لگائے گئے ہیں۔ داخلی دروازوں پر حرم شریف کی طرح تھیلیوں کے رول لگے ہوئے ہیں جو جوتے رکھنے کے کام آتی ہیں۔ اندر مختلف مقامات پر سینکڑوں کی تعداد میں لکڑی کے ڈبے بنائے گئے ہیں جہاں جوتے رکھے جاتے ہیں۔ ہر ڈبے پر ایک نمبر لگایا گیا ہے تاکہ جوتے تلاش کرنے میں دقت نہ ہو۔لکڑی کے ان ڈبوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ہر ڈبے میں ایک سرخ اور ایک سبز بلب لگا ہوا ہے جو سینسرز سے منسلک ہے۔ ڈبہ خالی ہو تو سبز بلب جلتا ہے اور خالی نہ ہو تو سرخ بلب جل اٹھتا ہے۔ ایک مقام پر زائرین کے لیے لباس کے حوالے سے ضابطہ نظر آیاجس میں غیر ساتر لباس کے ساتھ مسجد میں داخلے کی ممانعت درج تھی۔
اندر داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ دروازے بالکل کسی شاہی محل کے دروازوں جیسے ہیں۔ ہمارے سامنے جو دروازہ ہے اس کے دائیں پٹ پر قرآنی آیت﴿إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ﴾ ’’متقی لوگ باغات اور چشموں کے درمیان رہیں گے‘‘ اور بائیں پٹ پر آیت ﴿ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ﴾ ’’(اُن سے کہا جائے گا کہ) ان (باغات) میں سلامتی کے ساتھ بے خوف ہو کر داخل ہو جاؤ‘‘ لکھی ہوئی ہے۔ دروازے کے اوپر خطاطی میں یہ عبارت درج ہے: سبحانک، ما عبدناک حق عبادتک یا معبود ’’آپ پاک ہیں، ہم نے آپ کی ویسی عبادت نہیں کی جیسی کرنے کا حق تھا، اے معبود‘‘ ۔ مرکزی دروازے پر یہ آیتِ مبارکہ درج ہے: ﴿وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَىٰ دَارِ السَّلَامِ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾ ’’اور اللہ لوگوں کو سلامتی کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے تک پہنچا دیتا ہے‘‘ ۔مرکزی ہال میں ایک بہت بڑا فانوس گنبد سے معلق ہے جو مسجد کے حسن کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ مسجد کے معماروں نے اسے زلزلہ پروف عمارت قرار دیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ خدا نخواستہ زلزلے کی صورت میں تقریباً ایک لاکھ افراد مسجد میں پناہ لے سکتے ہیں۔ مسجد میں وسیع وضو خانوں کے ساتھ ساتھ، ایک قدیم طرز کا چھتری نما وضو خانہ بھی بنایا گیا ہے جسے شادریوان کہتے ہیں۔ اب آپ کو اس مسجد سے متعلق کچھ دلچسپ باتیں بتاتے ہیں:
ٹی آر ٹی میڈیا کے مطابق مسجد کا درمیانی گنبد ۷۲ میٹر اونچا ہے جو ترکی میں شامل ۷۲ اقوام کی نمائندگی کرتا ہے۔ چھے مینار اسلام کے چھے ارکان کو نمایاں کرتے ہیں۔ پانچ تو واضح ہیں، غالباً چھٹا رکن جہاد ہے۔ ان چھے میں سے چار مینار ۱ء۱۰۷ (ایک سو سات اعشاریہ ایک)میٹر بلند ہیں۔۱۰۷۱کا عدد سلجوقیوں کی بازنطینوں کے خلاف معرکۂ ملازگرد کی فتح کی یاد دلاتا ہے جو سن ۱۰۷۱ء میں لڑی گئی۔ اس جنگ کے بعد اناطولیہ ہمیشہ کے لیے عیسائیوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔
یہ تو تھیں مسجد کی تفصیلات، بہر حال، خطبۂ جمعہ اور نماز کے بعد ہم مسجد سے باہر آئے تو سوزوکی نما ایک گاڑی نظر آئی جس پر ایک بڑا برتن رکھا ہوا تھا۔ گاڑی کے آگے قطار لگی ہوئی تھی۔ ہمارے میزبان قطار میں لگے تو ہم بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ باری آئی تو معلوم ہوا کہ شیرینی تقسیم ہو رہی ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ ترکی کی جلیبی تقسیم ہو رہی تھی۔ بتایا گیا کہ لوگ ایصالِ ثواب کےلیےاس طرح کے اقدامات کرتے رہتے ہیں۔ ایک اور دلچسپ بات جو ذکر ہونے سے رہ گئی وہ یہ ہے کہ ترکی میں جہاں کہیں بھی کوئی سیاحتی مقام بلندی پر واقع ہے وہاں سیاحوں کے لیے آہنی دوربینیں بھی نصب کی گئی ہیں جہاں سے دور تک نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ مسجد استنبول کے ایشیائی حصے میں واقع ہے۔ جبکہ ہماری رہائش یعنی فاتح بلدیہ یورپی حصے میں تھی لہٰذا واپسی پھر آبناے باسفورس سے ہوئی۔ آج رات استنبول سے بذریعہ جہاز ترکی کے دوسرے کنارے پر واقع ریحان لی شہر پہنچنا تھا اس لیے وقت تنگ تھا۔ فاتح پہنچ کر سب سے پہلے IHH (آئی ایچ ایچ جس کا تلفظ ’ای ہا ہا‘ ہے)کے صدر دفتر روانہ ہوئے۔ لیکن صدر دفتر پہنچنے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ ’’آئی ایچ ایچ‘‘ کیا ہے؟ اس کے لیے آپ اگلی قسط تک ہمارے ساتھ رہیے۔