صوفی جمیل الرحمان عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم و ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی
۵۴۹ ھ میں بارہویں فاطمی اسماعیلی خلیفہ الظافر باللہ کے انتقال کے بعد اس کا نابالغ لڑکا خلیفہ بنایا گیا تو یہ شیعی خلافت انتشار کا شکار ہو گئی۔ مختلف سرداران اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی دوڑمیں لگے تھے۔ ایک فریق نے صلیبیوں سے مدد چاہی تو دوسرے گروہ نے نور الدین زنگی سے اپنے شہر کا انتظام سنبھالنے کی درخواست کی۔ زنگی نے اپنے اہم سالار اسد الدین شیر کوہ کو دمشق روانہ کیا، اس طرح ۵۴۹ ھ میں دمشق بغیر کسی جنگ و جدل کے نور الدین زنگی کی حکومت میں داخل ہو گیا۔(واقدساہ،ص:۲۷۸)
۵۵۱ ھ میں نور الدین نے حارم قلعےکا محاصرہ کیا اور تاوان لے کر صلح کی۔ (الکامل) ۵۵۷ ھ میں دوبارہ حارم قلعے کا محاصرہ کیا گیا لیکن فتح نہ کر سکے۔۵۵۹ ھ میں ، مصر کے فاطمی والی نے فرنگیوں سے ساز باز کر کے انھیں مصر پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ اسد الدین شیرکوہ مصر کی حدود میں داخل ہو کر قلعہ بند ہو گئے اور مصری فرنگی اتحاد سے کامیابی سے دفاع کیا۔ اسی دوران نور الدین زنگی نے فرنگیوں کی توجہ مصر سے ہٹانے کے لیے اپنے بھائی قطب الدین مودود کو ساتھ ملا کر حارم پر حملہ کیا اور سخت لڑائی کے بعد قلعہ فتح کر لیا۔اس کے بعد انھوں نے آگے بڑھ کر انیاس کا قلعہ فتح کیا۔ مصر کے محاذ پر مصروف فرنگیوں کو جب اس صورتِ حال کا علم ہوا تو وہ اسد الدین شیرکوہ کے ساتھ صلح کر کے اپنےعلاقوں میں واپس ہو گئے۔ فاطمی والی شاوُر کی شرارتیں جاری رہیں۔ کچھ عرصے بعد شیرکوہ نے پھر قاہرہ کی طرف پیش قدمی کی۔ فرنگی بھی اپنے حلیف کی مدد کو آئے لیکن شیر کوہ نے متحدہ فوج کو شکست دی اور شاوُر کو قتل کر دیا ۔اس کے بعد شیر کوہ فاطمی مملکت کے مصر میں نائب مقرر ہوئے ، خلیفہ العاضد باللہ برائے نام خلیفہ تھا۔ تمام اختیارات شیرکوہ کے پاس تھے۔ شیرکوہ اپنے مرضِ وفات میں اپنے بھتیجے صلاح الدین یوسف بن ایوب کواپنی جگہ وزیر سلطنت بنا گئے۔ تھوڑے عرصے میں ایوبی نے نور الدین کے حکم کے مطابق فاطمی خلافت کا خاتمہ کر کے عباسی خلیفہ کا خطبہ شروع کر دیا۔ (الكامل فی التاريخ، واقدساہ،ص: ۲۷۹)
۵۶۱ ھ میں نور الدین زنگی نے شامی شہر مُنَيطرہ پر مختصر فوج کے ساتھ اچانک حملہ کر کے اسے فتح کر لیا۔یہاں سے بہت سا مال غنیمت اور قیدی مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔نور الدین زنگی رحمہ اللہ اپنی ریاست کو مستحکم کر چکے تھے۔ اب انھوں نے بیت المقدس کو آزاد کرانے کا عزمِ مصمم کر لیا۔ ۵۶۵ ھ میں میں نور الدین نے حلب شہر میں مسجد اقصیٰ کے لیے ایک منبر بنانے کا حکم دیا۔البتہ اس منبر کی تکمیل سے پہلے ہی آپ انتقال فرما گئے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے قدس پر جان نچھاور کرنے کا ارادہ کیے ہوئے بے شمار جاسوس بیت المقدس کی طرف روانہ کیے۔ تاکہ وہ قدس ، وہاں کے مظلوم مسلمانوں اور قابض قوتوں کے بارے میں ہر قسم کی معلومات حاصل کریں۔ تاریخی کتبوں میں ان میں سے ہر ایک نام کے آگے لکھا ہوا ملتا ہے خرج و هو یسأل الله الشهادة ’’وہ اللہ تعالٰی سے شہادت مانگتے ہوئے نکلا‘‘ ۔(واقدساہ،ص : ۲۸۲)نو ر الدین نے خود قرآن و حدیث کا علم حاصل کیا تھا۔وہ فقہا و مشایخ اور صوفیہ اور فقرا کو نزدیک رکھتے اور کہا کرتے: هؤلاء جند الله وبدعائهم ننصر على الأعداء یہ اللہ کی فوج ہے اور انھی کی دعاؤں سے ہم دشمنوں پر فتح پاتے ہیں‘‘ ۔نور الدین زنگی صوفیا و علما سے رابطہ رکھتے تھے۔ انھوں نے قوم میں جہادی روح پھونک دی۔ ایک سردار کے الفاظ میں دیکھیے : إِنَّهُ قَدْ كَاتَبَ زُهَّادَهَا وَعُبَّادَهَا وَالْمُنْقَطِعِينَ عَنِ الدُّنْيَا، يَذْكُرُ لَهُمْ مَا لَقِيَ الْمُسْلِمُونَ مِنَ الْفِرِنْجِ، وَمَا نَالَهُمْ مِنَ الْقَتْلِ وَالْأَسْرِ، وَيَسْتَمِدُّ مِنْهُمُ الدُّعَاءَ، وَيَطْلُبُ أَنْ يَحُثُّوا الْمُسْلِمِينَ عَلَى الْغَزَاةِ، فَقَدْ قَعَدَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْ أُولَئِكَ، وَمَعَهُ أَصْحَابُهُ وَأَتْبَاعُهُ، وَهُمْ يَقْرَؤُوَنَ كُتُبَ نُورِ الدِّينِ، وَيَبْكُونَ (الکامل فی التاریخ) ’’انھوں نے دنیاداری سے الگ تھلگ رہنے والے عابد و زاہد لوگوں کی طرف خط روانہ کیے جن میں مسلمانوں کو فرنگیوں کی طرف سے پہنچنے والے مصیبتوں اور قید و قتل کے حالات لکھتے تھے۔ زنگی نے ان سے اپنے لیے دعا کی درخواست کی اور یہ بھی کہ وہ لوگ مسلمانوں کو جہاد کی طرف راغب کریں۔ ان میں سے ہر ایک اپنے پیروکاروں اور ساتھیوں کو لے کر بیٹھ جاتا اور وہ نور الدین کے خط پڑھ کر رویا کرتے‘‘۔
۵۶۹شوال میں نور الدین کا انتقال ہوا۔ ان کے بعد ان کے بیٹے الملک الصالح اسماعیل حکمران بنائے گئے۔ لیکن ان کی قیادت میں مملکت متفق نہ رہ سکی اور آپس کے انتشار کے علاوہ اللہ کی نافرمانی ، شراب نوشی اور دوسری برائیوں کا ارتکاب کیا جانے لگا۔ یہ حالات دیکھتے ہوئے فرنگیوں نے ایک فوج دمشق کی طرف روانہ کی۔ الملک الصالح نے جو فوج مقابلے کے لیے روانہ کی، اس نے کثیر رقم پیش کر کے فرنگیوں کو واپس کیا۔ صلاح الدین کو جب اس کی اطلاع ملی تو وہ سخت پریشان ہوئے اور انھوں نے اسماعیل کو ملامت کی اور دمشق کی حفاظت کے لیے فوج روانہ کرنے کی پیش کش کی۔ لیکن سرداروں نے ان کے خطوط کا سختی سے جواب دیا۔اب صلاح الدین ایوبی نے شام کو اپنے قبضے میں لینے کا ارادہ کیا چناں چہ وہ دمشق کی طرف روانہ ہوئے اور پرا من طور پر قبضہ کر لیا۔حلب پر قبضے کے وقت ملک اسماعیل نے سرداروں کے ایما پر پہلے تو شیعہ عناصر کی مدد ، اس شرط پر حاصل کی کہ کامیابی کے بعد وہ شیعہ مذہب کو فروغ دے گا۔ اس فوج نے شہر سے دور قیام پذیر ایوبی پر حملہ کیا لیکن کچھ نقصان اٹھا کر شکست کھائی۔ اس کے بعد انھوں نے بھاری رقم کے عوض طرابلس کے فرنگی حکمران قومَص کی مدد حاصل کی ، لیکن ایوبی نے اس کے مقدمے کو راستے ہی میں شکست دے کر ساری فوج کو واپسی پر مجبور کر دیا۔ الملک الصالح اسماعیل حلب میں محصور ہو گئے۔انھوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی خدمت میں صلح کی درخواست کی جو قبول ہوئی اور حلب پر الملک الصالح ہی کو حاکم مقرر کر دیا گیا۔
۵۷۴ ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کو خلیفہ بغداد کی طرف سے خِلعت نیابت عطا ہوئی۔ اگلے سال ۵۷۵ ھ میں مَرْجِ عُيُون کے مقام پرفرنگیوں کے ایک متحدہ لشکر سے سلطان کا مقابلہ ہوا۔ مسلمانوں نے فرنگیوں کو عبرت ناک شکست سے دو چار کیا۔ فرنگیوں کی ایک بڑی تعداد مقتول ہوئی اور بہت سارے سرداران بھی مقتول یا اسیر ہوئے۔اسی دن ایک سمندری جھڑپ میں سلطانی افواج نے فرنگیوں کا بیڑا غرق کیا۔ فرنگیوں نے دمشق اور طبریہ کے درمیان بَيْتُ الأحْزَان کے مقام پر صلیبیوں کے لیے ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا تھا تاکہ اس علاقے میں صلاح الدین کی سرگرمیوں کو کنٹرول میں لیا جا سکے۔ صلاح الدین ایوبی کی طرف سے انھیں یہ قلعہ خالی کرنے کا کہا گیا اور ایک لاکھ روپے ان کے خرچ کی مد میں ان کو دینے کی پیش کش کی لیکن عیسائیوں نے انکار کیا۔ ۵۷۶ ھ میں ایوبی نے اس قلعے کا محاصرہ کر کے اسے فتح کر لیا۔ اس کے بعد آپ دمشق کی طرف لوٹ آئے۔اسی سال انھوں نے بَعْلَبَک کی ولایت اپنے بھتیجے فروخ شاه بن شاہنشاه کو سونپی۔ جنھوں نے فرنگیوں کو متعدد شکستیں دے کر صفد اور آس پاس کے کئی علاقے فرنگیوں کے قبضے سے چھڑا لیے۔
اسی سال ایوبی اور فرنگیوں کے درمیان صلح ہوئی۔ اس سال ایوبی نے ترکمانی علاقوں پر حملہ کر کے کثیر مالِ غنیمت حاصل کیا۔ اسی سال ریاست موصل کے حاکم سیف الدین غازی بن مودود الزنگی انتقال کر گئے جن کے بعد ، ان کے بھائی عز الدین مسعود حاکم بنائے گئے۔ خلیفہ بغداد کی طرف سے عز الدین مسعود کے حق میں سفارش موصول ہوئی کہ سروج ، رہا ، الرقہ ، حران ، خابور اور نصیبین وغیرہ کے علاقے ان کے پاس رہنے دیے جائیں۔ سلطان کا موقف یہ تھا کہ پہلے میں نے یہ علاقے اس شرط پر زنگیوں کے قبضے میں رہنے دیے تھے کہ وہ جہاد میں حصہ لیں گے لیکن چونکہ وہ جہاد نہیں کر رہے اور یہ علاقے مسلمانوں کے لیے دفاعی لحاظ سےاہم ہیں لہذا ان پر ہمارا قبضہ ضروری ہے۔ اسی سال سلطان کے بڑے بھائی شمس الدولہ توران شاہ بن ایوب ، فاتح و نائبِ یمن انتقال کر گئے۔ ۵۷۷ھ میں سلطان قاہرہ میں مقیم رہے اور کتبِ حدیث کا سماع مکمل کیا۔ اسی سال انھوں نے اسکندریہ کا دورہ کیا اور وہاں کے قلعے کی تعمیرِ نو کا جائزہ لیا۔ اسی سال الملک الصالح اسماعیل بن نور الدین زنگی والیٔ حلب انتقال کر گئے۔ان کے بعد اہلِ حلب نے والیٔ موصل عز الدین مسعود کو بلا کر اپنا شہر ان کی حکومت میں دے دیا۔ اہلِ حلب کی خواہش تھی کہ وہ علاقے جو سیف الدین غازی کے بعد ایوبی نے لے لیے تھے وہ واپس حاصل کیے جائیں۔ یہ شہ پا کر عز الدین نے رقہ وغیرہ پر قبضہ کر لیا۔ اسی دوران فرنگیوں نے صلح توڑتے ہوئے ، ملحق ایوبی علاقوں میں مسلمانوں پر حملے شروع کر دیے۔ چناں چہ ۵۷۸ ھ میں، مصر سے شام کی طرف روانہ ہوئے راستے میں سلطان نے کرک کے اردگرد فرنگی امارتوں کو تاراج کیا۔اسی عرصے میں نائبِ دمشق فروخشاہ نے طبریہ کے ارد گرد کئی علاقے فتح کیے۔ سلطان نے بھی بیسان وغیرہ کے علاقے میں حملہ کیا۔ ایک خوفناک لڑائی میں فرنگیوں کو شکستِ فاش ہوئی۔اس کے بعد ایوبی نے حلب اور اطراف کے علاقوں کی طرف فوجیں روانہ کیں تاکہ وہ اپنا قبضہ بحال کریں۔ سلطان خود فوج لے کر دوسرے علاقوں مثلا خابور ،حران ، رہا ، رقہ اور نصیبین وغیرہ پر حملہ آور ہوئے۔ یہاں کے والیوں نے آپ کی اطاعت قبول کی۔ بعد میں آپ نے حلب پر بھی قبضہ کر لیا اور اس شرط پر عماد الدین کے حوالے کر دیا کہ وہ فرنگیوں کے مقابلے میں ایوبی کی مدد کریں گے۔ انھی دنوں فقیہ مجد الدین الشافعی نے قرآن کریم کی آیت مبارکہ ﴿الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ﴾ سے اشارت لیتے ہوئے ایوبی کو بیت المقدس کی فتح کی بشارت لکھ بھیجی۔والیٔ کرک نے بحر ِقلزم میں اپنے بحری بیڑے کو مضبوط کر کے مسلمان تاجروں اور حاجیوں کا ناطقہ بند کر دیا۔ سلطان نے ان کے مقابلے میں بحری بیڑا تیار کرایا، چنانچہ مسلمانوں نے سمندر میں بھی فرنگیوں کو شکست دی، ان کی کشتیوں کو جلایا اور غرق کیا، بہت سوں کو قیدی بنایا اور بہت سوں کو قتل کیا۔۵۷۹ ھ میں ایوبی نے آمد شہر پر صلح کے ذریعے قبضہ کیا۔
ربیع الاول کے آخر میں ایوبی حلب سے نکل کر دمشق تشریف لے گئے۔جمادی الثانی میں آپ بیت المقدس کے ارادے سے نکلے، انھوں نے بیسان پر قبضہ کیا، یہاں سے عینِ جالوت کے مقام تک گئے اور ایک لشکر آگے روانہ کیا، جس کا ایک فرنگی لشکر سے مقابلہ ہوا جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ مسلمانوں میں سے ایک آدمی شہید ہوا جبکہ فریقِ مخالف کے ایک سو قیدی بنائے گئے جبکہ مقتولین بھی کثیرتعداد میں تھے۔
اس کے بعد ایوبی کا ایک فرنگی لشکر سے مقابلہ ہوا جس میں کافروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کثیر تعداد قتل ہوئی اور مسلمانوں نے دور تک ان کا تعاقب کیا اور بہت بڑی تعداد کو اسیر کیا۔ سلطان نے آگے بڑح کر کرک کا محاصرہ کر لیا لیکن فتح نہ ہو سکی۔آپ دمشق واپس لوٹ آئے۔ اگلے سال یعنی ۵۸۰ ھ میں سلطان نے؛ حلب، مصر و شام کی فوجوں کو جمع کیا اور کرک کا محاصرہ کیا، اگرچہ بعض مقابلوں میں فرنگیوں کو شکست ہوئی لیکن قلعہ فتح نہ ہو سکا۔ آپ نے دمشق واپسی کا ارادہ کیا البتہ نابلس اور بعض ساحلی علاقے فتح کرتے ہوئے آپ دمشق پہنچے یہاں آپ نے مصر اور حلب وغیرہ کی فوجوں کو واپسی کی اجازت دی۔ آپ یہاں سے حماہ، موصل ، حران ، خلاط ، الجزیرہ، دیارِ بکر وغیرہ کی طرف گئے۔ کئی علاقوں پر آپ نے قبضہ کیا اور کئی علاقوں کے حکمرانوں نے آپ کی اطاعت کا وعدہ کیا۔ایوبی کی شرط یہی ہوتی تھی کہ جب فرنگیوں سے جہاد کی نوبت آئے تو آپ نے ہماری مدد کرنی ہے۔ان دنوں سلطان سخت بیمار ہوئے۔ اور زندگی کی امید نہ رہی۔
القاضي الفاضل أبو علي عبد الرحيم کے مشورے پر آپ نے یہ نذر مانی کہ اگر اللہ مجھے صحت دے دے تو بیت المقدس کو آزاد کرانے کے لیے فرنگیوں کے مقابلے میں شدو مد سے جہاد کروں گا چاہے اپنا تمام مال اور ذخائر اس راہ میں کھپانا پڑے۔ اور والیٔ کرک پرنس اریاط کو اپنے ہاتھوں سے قتل کروں گا کیوں کہ اس نے معاہدہ شکنی کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں نازیبا کلمات کہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایوبی کو شفا دی۔ ۵۸۲ ھ میں شفایابی کے بعد سلطان دمشق میں تشریف لے گئے۔ کچھ عرصہ یہاں کے انتظامات کو دیکھنے کے بعد۵۸۳ ھ میں حضرت ایوبی دمشق سے کرک کی طرف روانہ ہوئے۔ رضاکاروں کے علاوہ آپ کی فوج بارہ ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ والیٔ کرک اریاط نے طرابلس کے حاکم قومص سے اتحاد کر لیا اور پچاس ہزار کا لشکرِ جرار مقابلے پر لے آئے۔ ایوبی رحمہ اللہ اس لشکر سے پہلو بچا کر طبریہ کی طرف نکل گئے اور اس شہر کو فتح کر لیا۔ کافروں کا لشکر طبریہ کی طرف بڑھا تو ایوبی حطین کے مقام پر چلے آئے۔ جمعے کی رات دونوں لشکروں نے اسی میدان میں بسر کی۔ یہ ہفتے کا دن اور ربیع الثانی کی پچیس تاریخ تھی۔ فرنگیوں کے لشکر کی طرف گھاس پھوس بہت زیادہ تھی جو ان کے گھوڑوں کے پیروں میں چورا چورا ہو رہی تھی۔ ایوبی نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ گھاس کو آگی لگا دی جائے۔ اس کے بعد تکبیر کی صداؤں میں عام حملہ شروع ہوا۔ شروع ہی میں مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا اور فرنگی ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور تیس ہزار فرنگی قتل کیے گئے اور ہزاروں کی تعداد میں قیدی بنائے گئے۔ ان کے تمام شہزادے اور حکمران قید ہوئے البتہ قومص بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوا۔ عیسائیوں کی صلیبِ اعظم جس کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے وہ مغلوب نہیں ہو سکتے۔ مسلمانوں نے چھین لی۔ جنگ کے بعد سلطان نے ایک عظیم خیمہ لگوایا اور تخت پر جلوہ افروز ہوئے ان کے دائیں اور بائیں قیدی تھے جو اپنا اپنا فدیہ پیش کر رہے تھے۔ آپ بعض کا فدیہ قبول فرماتے اور جو مسلمانوں کو اذیت دینے میں مشہور تھے ان کی گردن مارنے کا حکم دیتے۔ اس کے بعد فرنگیوں کے سردار پیش کیے گئے جنھیں حسبِ مراتب دائیں اور بائیں بٹھایا گیا۔ کرک کے والی پرنس اریاط کی گردن آپ نے اپنے ہاتھ سے اڑائی اور کہا کہ میں نے یہ رسول اللہ ﷺ کا بدلہ لیا ہے۔ اس کے علاوہ داویہ اور استثاریہ نامی متعصب اور دشمنِ اسلام عیسائی فرقوں کے تمام لوگوں کو آپ نے قتل کرنے کا حکم دیا۔ جس سے مسلمانوں نے بہت راحت پائی۔ اس کے بعد سلطان نے آگے بڑھ کر عَكّا پر حملہ کیا۔ قبضے کے بعد آپ نے یہاں سے چار ہزار مسلمان قیدی آزاد کرائے۔ آپ نے جمعے کی نماز یہیں پڑھائی۔ ستر سال کے بعد یہاں جمعہ ادا کیا گیا تھا۔ اس کے بعد آپ نے صَیدا، بَیروت، عسقلان، بابلُس، بیسان وغیرہ فتح کیے۔ آپ نے چھوٹے بڑے پچاس شہر فتح کیے۔ کسی جگہ مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کیا گیا ہر جگہ سے بہت سارے قیدی اور مال و متاع مسلمانوں کے ہاتھ آتا رہا۔ سلطان نے فوجوں کو انھی شہروں میں قیام کرنے اور آرام کرنے کا حکم دیا تا کہ تازہ دم ہو کر بیت المقدس کی طرف روانہ ہو سکیں۔ کچھ عرصے بعد سلطان نے بیت المقدس کی طرف روانگی کا ارادہ کیا۔ کئی علاقوں سے مجاہدین اور علما وصلحا آ کر آپ کے ساتھ شامل ہونے لگے۔ آپ کے لشکر کی تعداد ساٹھ ہزار ہو چکی تھی۔ ۲۵ رجب ۵۸۳ھ میں آپ نے بیت المقدس پہنچ کرغربی جانب ڈیرے ڈالے۔ آپ نے دیکھا کہ شہر کی خوب حفاظت کی گئی ہے۔ آپ نے پانچ دن یہاں آرام کیا۔ آپ نے اپنے لشکر کو چھوٹے دستوں میں تقسیم کیا اور ہر ایک کے ذمے دیوار کا کچھ حصہ اور برج دیے۔ اس کے بعد سلطان خود شام کی سمت قدرے فاصلے تک چلے گئے۔ فرنگیوں نے باہر نکل کر حملہ کیا اور کچھ مسلمان امرا شہید بھی ہوئے۔ اب مسلمانوں نے منجیقیں نصب کیں۔ قلعے کی دیواروں پر صلیبیں نصب تھیں اور قبۃ الصخرہ پر ان کی بڑی صلیب نصب تھی۔ سلطان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ شرقی جانب سے حملہ کیا۔ یہاں انھوں نے دیوار میں شگاف ڈالنے کے ساتھ آگ بھی لگا دی۔ پس اس طرف سے دیوار اور اس کے برج گر گئے۔ اس موقعے پر ان کے اکابر نے سلطان ایوبی کی خدمت میں امان طلب کرتے ہوئے ہتھیار ڈالنے کی پیش کش کی۔ سلطان نے فرمایا: ہم بیت المقدس بغیر کسی صلح کے؛ بزورِ قوت ہی فتح کریں گے اور یہاں کے عیسائیوں کو اسی طرح تہِ تیغ کریں گے جیسے عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضے کے وقت مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا۔ ان دنوں بیت المقدس کا حاکم بالبان بن بازِران تھا۔ اس نے امان طلب کرتے ہوئے سلطان کے پاس خود حاضر ہونے کی اجازت طلب کی جو اسے دے دی گئی۔ اس نے سلطان کے سامنے حد درجے عاجزی کا مظاہرہ کیا لیکن سلطان نے اسے عام امان دینے سے انکار کیا۔ اس پر بالبان نے کہا کہ اگر ہمیں امان نہیں دی جاتی تو میں جا کر تمام چار ہزار قیدیوں کو قتل کروں گا۔ ہم اپنی اولاد، اپنی خواتین کو خود قتل کریں گے۔ قبۃ الصخرہ کو آگ لگا کر اور اپنے گھر بار خود تباہ کر کے اس کے بعد ہم آپ کے ساتھ مرنے کے لیے جہاد کریں گے۔ اس پر سلطان صلح کی طرف راغب ہوئے۔ طے پایا کہ ہر بندہ دس دینار، خاتون پانچ دینار اور چھوٹا بچہ دو دینار فدیہ ادا کرے گا اور جو شخص ۴۰ دن تک یہ ادا نہیں کر سکے گا وہ مسلمانوں کا قیدی بنے گا اور تمام اسلحہ، تمام غلہ اور تمام گھر مسلمانوں کی ملکیت قرار پائیں گے۔ شرائط پوری کرنے والے عیسائیوں کو صور شہر کی طرف جانے کی اجازت دی جائے گی۔ جو لوگ شرط پوری نہ کر سکے وہ سولہ ہزار قیدی بنائے گئے۔ مسلمان ۲۷ رجب، جمعے کے دن بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ ایک رائے کے مطابق یہ شبِ معراج بھی تھی۔ مسلمانوں نے بیت المقدس کی صفائی کی۔ عیسائیوں کے نصب شدہ بت، خنزیر اور راہبوں سے اس مقدس مسجد اور شہر کو پاک کیا گیا۔ ان کے بنائے ہوئے محراب توڑ دیے گئے۔ قبۃ الصخرہ کو پاک پانی سے غسل دیا گیا جس کے بعد اسے عرق گلاب اور مُشک سے دھویا گیا۔ قبۃ الصخرہ اور دیگر مقامات سے صلیبیں اتار دی گئیں۔ سونا چاندی آپ نے افواج میں تقسیم کر دیا۔ بیت المقدس کی تطہیر اور اہلِ ایمان کے دخول کے بعد مسجد میں اذان دی گئی اور قرآنِ کریم کی تلاوت کی گئی۔ شعبان کی چار تاریخ کو یہاں جمعہ قائم کیا گیا۔ اذانِ جمعہ کے بعد سلطان نے شیخ محی الدین ابن الزکی کو خطبۂ جمعہ کا اذن دیا۔ جنھوں نے بیت المقدس کے فضائل، معراج کا واقعہ اور فتح کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے احسانات و انعام کا ذکر فرمایا۔ آپ نے خلفاے راشدین کے ذکرِ خیر کے بعد عباسی خلیفہ الناصر العباسی اور الملک الناصر سلطان صلاح الدین ایوبی کے لیے دعا کی۔ نماز کے بعد شیخ زین الدین ابو الحسن بن علی نجا المصری نے سلطان کی اجازت سے وعظ فرمایا۔ اس کے بعد سلطان نور الدین زنگی کا بنایا ہوا منبر، حلب سے منگوا کر بیت المقدس میں رکھوایا گیا۔ آپ نے یہاں ایک مدرسہ قائم کیا جس کو الصلاحیہ کہا جاتا ہے اور ایک خانقاہ بھی آباد کی۔ آپ نے فقہاے کرام، ائمۂ کرام اور صوفیاے کرام کے وظائف مقرر کیے۔ اس کے بعد سلطان نے صور شہر پر حملہ کیا لیکن محاصرہ طویل ہوتا گیا اور سردیوں کا موسم آگیا۔ آپ کے امرا نے مشورہ دیا کہ اس وقت ہماری فوجوں کو آرام کی ضرورت ہے اور یہاں موسم ساز گار نہیں ہے لہذا اس شہر کی فتح کو کسی دوسرے وقت کے لیے اٹھا رکھا جائے۔ سلطان نے یہ رائے قبول فرمائی اور فوجوں کو اپنے اپنے علاقے میں واپسی کا حکم دیا۔ آپ خود دمشق کی طرف روانہ ہوئے اور راستے میں عکا شہر میں کچھ انتظامات کیے۔ ۵۸۴ ھ میں انطرطوس، جبلہ اور لاذقيہ کے شہر فتح کیے اور صہیون، بکاس، بدریہ، دربساک، غراس کے قلعے فتح کیے۔ اس کے بعد انھوں نے انطاکیہ کے حاکم کو خط لکھا۔ اس نے مسلمان قیدیوں کی رہائی پر اس سے صلح چاہی۔ اس نے سات ماہ کے لیے صلح منظور کی۔ سلطان کچھ عرصہ آرام چاہتے تھے اس لیے آپ نے یہ منظور کی اور سات ماہ کے لیے صلح کا معاہدہ ہوا۔ سلطان اپنے بیٹے الملک الظاہر کی دعوت پر حلب تشریف لے گئے اور تین دن یہیں قیام کیا۔ اس کے بعد آپ بعلبک تشریف لے گئے۔ رمضان کے اوائل میں آپ دمشق تشریف لے آئے۔ یہیں آپ کو کرک کی فتح کی خبر ملی۔ چند روز آرام کرنے کے بعد آپ صغد قلعے کی طرف حملہ آور ہوئے اور محاصرہ کر لیا۔ شوال کے مہینے میں صلح کے ساتھ قلعہ فتح ہوا۔ اس کے بعد کوکب قلعہ فتح کیا جو مسلمانوں کے بدترین دشمن عیسائی فرقے استثاریہ کا گڑھ تھا۔ فتح کے بعد آپ نے تمام ظالموں کو قتل کرا دیا۔ ۵۷۹ ھ میں سلطان الملک الناصر صلاح الدین یوسف بن ایوب مبتلاے بخار ہوئے۔ قاضی ابنِ شداد، قاضی ابن الزکی، القاضی الفاضل اور دیگر قاری حضرات کی تلاوت و تلقین کے سائے میں جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ کی عمرستاون سال تھی۔ (وا قدساہ، دکتور سید حسین العَفّانی، البدایہ و النھایہ لابنِ کثیر، الكامل فی التاريخ)