حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ (۱۹۳۲۔۲۰۰۰ء)
سابق نائب امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت
تفسیر وتاویل کا مفہوم
تفسیر کے معنی ہیں: ’’کسی چیز کا کھولنا، ظاہر کرنا، بیان کرنا‘‘ ۔ اور اہلِ علم کی اصطلاح میں تفسیرِ قرآن کے معنی ہیں: ’’قرآنِ کریم کے معانی کو بیان کرنا اور مرادِ خداوندی کی تعیین کرنا‘‘ ۔ تاویل کے معنی ہیں: ’’پھیرنا، لوٹانا‘‘ اور اہلِ علم کی اصطلاح میں تاویل سے مراد ہے: ’’قرآنِ کریم کے الفاظ اور جملوں کو ان کی اصل مراد کی طرف لوٹانا‘‘ ۔ تفسیر وتاویل کے الفاظ عموماً ہم معنی استعمال کیے جاتے ہیں اور بعض اہلِ علم ان دونوں کے درمیان یہ فرق کرتے ہیں کہ تفسیر کا لفظ زیادہ تر مفرد الفاظ کی تشریح کے لیے استعمال ہوتا ہے اور تاویل کا لفظ جملوں کا مفہوم بیان کرنے کے لیے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ: جس فقرے کا مفہوم قطعی طور پر متعین ہو اور اس میں کسی دوسرے مفہوم کی گنجائش نہ ہو ایسے مفہوم کو بیان کرنا تفسیر کہلاتا ہے اور جہاں متعدد معانی کا احتمال ہو وہاں غوروفکر کے بعد ایک پہلو کو متعین کرنے کا نام ’’تاویل‘‘ ہے اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ: جو مفہوم منقول ہو اس کا نام تفسیر ہے اور جو اجتہاد واستنباط سے تعلق رکھتا ہو اسے تاویل کہا جائے گا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: الاتقان، نوع:۷۷) خلاصہ یہ کہ: ’’علمِ تفسیر اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآنِ کریم کے معنی بیان کیے جائیں اور اس کے احکام اور حکمتوں کو کھول کر واضح کیا جائے‘‘ ۔ (معارف القرآن، مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی، جلدِ اول، ص:۴۹)
ایک نازک ترین ذمے داری
قرآنِ کریم کی تفسیر و تشریح ایک کٹھن کام اور نہایت نازک ترین ذمے داری ہے، اس لیے کہ قرآنِ کریم حق تعالیٰ شانہٗ کا مقدس کلام ہے اور قرآنِ کریم کی تفسیر در حقیقت حق تعالیٰ شانہٗ کی ترجمانی کا نام ہے، جب ہم قرآنِ کریم کے کسی لفظ، کسی جملے یا کسی آیت کی تفسیر بیان کرتے ہیں تو گویا ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی یہی مراد ہے، اس طرح اپنے بیان کیے ہوئے مفہوم کو حق تعالیٰ شانہٗ کی طرف منسوب کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ اس سلسلہ میں ذرا سی لغزش اور سہل انگاری افتراء علی اللہ کا موجب ہوسکتی ہے، افتراء علی اللہ نہایت سنگین جرم ہے، حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ ۗ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ﴾ ’’اور اس سے زیادہ کون بے انصاف ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے یا اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھوٹا بتلادے، ایسے بے انصافوں کی رستگاری نہ ہوگی‘‘ ۔ (ترجمہ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ) سربراہانِ مملکت اور شاہانِ عالم کی ترجمانی کے فرائض ادا کرنا سب جانتے ہیں کہ کس قدر نازک ذمے داری ہے اور جو شخص اس ذمے داری پر فائز ہو اس کے لیے کیسی لیاقت ومہارت شرط ہے؟ شاہانہ رسوم وآداب اور زبان ومحاورات سے اس کا کس درجہ باخبر ہونا ضروری ہے، پھر ترجمانی کے فرائض ادا کرتے ہوئے اسے کس قدر حزم واحتیاط اور بیدارمغزی سے کام لینا چاہیے اور پھر دانستہ ونادانستہ غلط ترجمانی پر کس قدر عتاب شاہی کا اندیشہ ہے، جب سلاطینِ دنیا کی ترجمانی اس قدر نازک کام ہے تو اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شہنشاہِ مطلق، احکم الحاکمین کی ترجمانی کا کام کس قدر مشکل اور کتنا نازک ہوگا۔ قرآنِ کریم کی تفسیر اپنے اندر نزاکت کا ایک اور پہلو بھی رکھتی ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم ہی سے شاہراہِ انسانیت کی نشاندہی ہوتی ہے، اسی سے عقائد وعبادات کی مشکلیں متعین ہوتی ہیں، اسی سے معاملات ومعاشرت کی تشکیل ہوتی ہے، اسی سے حق تعالیٰ شانہٗ کی پسند وناپسند، جائز وناجائز اور حلال وحرام کی حد بندی ہوتی ہے، اسی سے اخلاقی قدریں وجود پذیر ہوتی ہیں، اسی سے انسانیت وعبدیت کے پیمانے ڈھلتے ہیں، اسی سے اسلام کا عالم گیر قانون وجود میں آتا ہے، الغرض دین ومذہب، عقائد واعمال، اخلاق ومعاشرت، سیاست وتمدن اور عدل وانصاف کے قانونی، اخلاقی اور انسانی پہلوؤں کا مدار قرآنِ کریم ہے اور ظاہر ہے کہ قرآنِ کریم کی تفسیر وتشریح میں ذرا سی بے احتیاطی بھی کتنے ہولناک مفاسد کا سبب بن سکتی ہے؟ اور ایسے بے احتیاط مفسر اور اس پر اعتماد کرنے والے کے حق میں شدید خطرہ ہے کہ یہ کتابِ ہدایت ﴿يَهْدِي بِهِ كَثِيرًا﴾ کے بجائے ﴿يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا﴾ کا منظر پیش کرے۔
تفسیرِ قرآن میں سلفِ صالحین کی احتیاط وَرزی
تفسیرِ قرآن کی اسی عظمت ونزاکت کے پیشِ نظر بہت سے سلف صالحین، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین رحمۃ اللہ علیہم تفسیر کے باب میں لب کشائی سے گریز کرتے تھے، چنانچہ جماعتِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے گل سرسبد اور انبیا کرام علیہم السلام کے بعد انسانیت کے سب سے افضل ترین شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، ان کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے قرآنِ کریم کے کسی لفظ کے معنی دریافت کیے گئے تو فرمایا: أيُّ أرضٍ تُقِلُّني وأيُّ سماءٍ تُظلني إذا قُلتُ في کتاب اللّٰه ِما لا أعلم (تفسیر ابنِ کثیر، ج:۱، ص:۵) اور سید التابعین حضرت سعید بن مسیّب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ جب ان سے قرآنِ کریم کی کسی آیت کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا جاتا تو فرماتے: إنا لانقول في القرآن شیئًا (تفسیر ابنِ کثیر، ج:۱،ص :۶) یعنی ’’ہم قرآنِ کریم کی تفسیر میں کچھ نہیں کہا کرتے تھے‘‘ ۔ یحییٰ بن سعید رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیّب رحمۃ اللہ علیہ قرآنِ کریم کی صرف انھی آیات میں لب کشائی کرتے تھے جن کا مفہوم قطعی طور پر معلوم ہوتا تھا۔ یزید بن ابی یزید رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جب سعید بن مسیّب رحمۃ اللہ علیہ سے حلال وحرام اور جائز وناجائز کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو معلوم ہوتا کہ یہ دنیا کے سب سے بڑے عالم ہیں، لیکن جب ہم ان سے قرآنِ کریم کی کسی آیت کے بارے میں سوال کرتے تو ایسے خاموش ہوجاتے گویا انھوں نے سنا ہی نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ’’اعلم الصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین‘‘ ہیں اور حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ ’’اعلم التابعین رحمۃ اللہ علیہم‘‘ ہیں، لیکن علم وفضل، دانش وبصیرت، تقویٰ وطہارت اور نورِ قلب میں بلند مرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود وہ قرآنِ کریم میں لب کشائی سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ وہ اس کی نزاکت سے باخبر ہیں اور جانتے ہیں کہ تفسیر میں معمولی بے احتیاطی کا وبال کتنا سنگین ہے۔
شرائطِ مفسر
قرآنِ کریم کی تفسیر کے لیے کیسی لیاقت درکار ہے اور ایک مفسرِ قرآن میں کن اوصاف وشرائط کا پایا جانا ضروری ہے؟ علماے امت نے اس پر تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے، حافظ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ:۹۱۱ھ) نے ’’الاتقان‘‘ کی ۷۸ویں نوع میں اس کا خلاصہ درج کردیا ہے۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: بعض اہلِ علم تو اس کے قائل ہیں کہ کسی شخص کے لیے خواہ وہ کیسا عالم وفاضل ہو قرآنِ کریم کی تفسیر جائز ہی نہیں، بلکہ جو کچھ آنحضرت ﷺ سے منقول ہے اسی پر بس کرنا ضروری ہے۔ (مگر یہ قول عام علما کے نزدیک صحیح نہیں، ناقل) اور علما کی ایک جماعت اس کی قائل ہے کہ جو شخص ان علوم میں مہارت رکھتا ہو، جو تفسیر کے لیے ضروری ہیں اس کے لیے قرآن کریم کی تفسیر جائز ہے اور یہ مندرجہ ذیل پندرہ علوم ہیں:
۱: علمِ لغت، ۲: علمِ صرف، ۳: علمِ نحو، ۴: علمِ اشتقاق، ۵: علمِ معانی، ۶: علمِ بیان، ۷: علمِ بدیع، ۸: علمِ قراءات، ۹: علمِ اصولِ دین، ۱۰: علمِ اصولِ فقہ، ۱۱: علمِ اسبابِ نزول، ۱۲: علمِ ناسخ و منسوخ، ۱۳: علمِ فقہ، ۱۴: علمِ حدیث، ۱۵: نورِ بصیرت اور وہبی علم۔
تفسیر کے آداب
اول: تفسیر کے مأخذ میں سب سے پہلا مأخذ قرآنِ کریم ہے، اس لیے مفسر کا فرض ہے کہ وہ کسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اس کے سیاق وسباق کے ساتھ ساتھ اس مضمون کی دوسری آیات کو بھی پیشِ نظر رکھے، کیونکہ قرآنِ کریم میں ایک ہی مضمون کو مختلف انداز وعنوان سے بیان کیا جاتا ہے، ایک مضمون ایک جگہ مجمل ہوگا تو دوسری جگہ مفصل، ایک جگہ مختصر ہوگا تو دوسری جگہ مطوّل، ایک جگہ مطلق ہوگا تو دوسری جگہ مقیّد، پس قرآنِ کریم کی کسی آیت سے ایسا مفہوم کشید کرنا جائز نہیں ہوگا، جو خود قرآنِ کریم کی آیاتِ بینات کے خلاف ہو۔
دوم: اسی طرح مفسرِ قرآن کا یہ بھی فرض ہے کہ کسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اس ضمن میں آنحضرت ﷺ کے قول وفعل، ہدی وسیرت اور آپ ﷺ کی سنت وطریقہ کو پیشِ نظر رکھے اور تفسیرِ قرآن میں کوئی ایسی بات نہ کہے جو آنحضرت ﷺ کی سنت ثابتہ کے خلاف ہو، کیونکہ حق تعالیٰ شانہٗ نے جس طرح قرآنِ کریم کے الفاظ آپ ﷺ پر نازل فرمائے ہیں، اسی طرح اس کی تشریح وتوضیح کا بھی خود ذمہ لیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: ﴿ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾ (القیامۃ) ’’پھر اس کا بیان کرادینا بھی ہمارے ذمے ہے‘‘ ۔ (ترجمہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ) اس آیتِ کریمہ سے واضح ہے کہ آنحضرت ﷺ کو قرآنِ کریم کی مراد (بیان) بھی حق تعالیٰ شانہٗ کی طرف سے بتائی جاتی تھی، اس لیے قرآنِ کریم کے شارح ومفسر خود حق تعالیٰ شانہٗ ہیں اور چونکہ آنحضرت ﷺ نے وحی جلی وخفی اور نورِ نبوت کے ذریعے قرآنِ کریم کو سمجھا تھا، اسی لیے آپ ﷺ قرآنِ کریم کی تشریح وتفسیر میں بھی تلمیذ الرحمٰن تھے اور امت کو قرآنِ کریم کے مفہوم ومقصود سے آگاہ کرنا بھی آپ ﷺ کے فرائض میں شامل تھا، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: ﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾ (النحل:۴۴) ’’اور آپ پر بھی یہ قرآن اتارا ہے، تاکہ جو جو مضامین لوگوں کے پاس بھیجے گئے ان کو آپ ان پر ظاہر کردیں اور تاکہ وہ فکر کیا کریں‘‘ ۔ (ترجمہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ) دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِۙ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ (النحل:۶۴) ’’اور ہم نے آپ پر یہ کتاب صرف اس واسطے نازل کی ہے کہ جن امور میں لوگ اختلاف کررہے ہیں آپ لوگوں پر اس کو ظاہر فرمادیں اور ایمان والوں کی ہدایت اور رحمت کی غرض سے‘‘ ۔ (ترجمہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ) ایک اور جگہ ارشاد ہے: ﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ﴾ (النساء:۱۰۵) ’’بے شک ہم نے آپ کے پاس یہ نوشتہ بھیجا ہے واقع کے موافق، تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اس کے موافق فیصلہ کریں جو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتلادیا ہے‘‘ ۔ (ترجمہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ) پس امت کے لیے قرآنِ کریم کے سب سے پہلے شارح ومفسر خود آنحضرت ﷺ تھے اور آنحضرت ﷺ کے تمام اقوال وافعال، احکام وفرامین اور آپ ﷺ کی سیرت وسنت، قرآنِ حکیم ہی کی شرح وتفصیل ہے، اسی حقیقت کو ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ بنتِ صدیق رضی اللہ عنہا نے ان الفاظ میں بیان فرمایا: کان خلقه القرآن(صحیح مسلم، ج:۱،ص:۲۵۶) ’’آپ ﷺ کا اخلاق قرآن تھا‘‘ ۔ مطلب یہ کہ آپ ﷺ کے اخلاق وعادات، طور وطریق اور سیرت وکردار سب قرآنِ کریم کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے اور آپ ﷺ جو کچھ بھی فرماتے یا کرتے تھے وہ سب قرآنِ کریم ہی کی تعلیم تھی، اس لیے آپ ﷺ کا ہر حکم قرآنِ کریم کا شارح تھا، اسی کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ذرا کھول کر یوں بیان فرمایا: کُلُّ ماحَکَمَ بِه رسولُ اللّٰهِ ﷺ فَهُوَ مِمّا فهمه ٗ مِنَ القرآن، قال تعالیٰ: ﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ﴾ في آیاتِ آخر (الاتقان فی علوم القرآن، ج:۲،ص:۱۷۶) ’’رسول اللہ ﷺ نے جو فیصلے بھی فرمائے وہ آپ ﷺ نے قرآنِ کریم ہی سے سمجھے تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک ہم نے آپ کے پاس یہ نوشتہ بھیجا ہے واقع کے موافق، تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اس کے موافق فیصلہ کریں جو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتلادیا ہے‘‘ ۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہٗ نے اپنے شیخ امام العصر مولانا محمد انور شاہ کشمیری قدس سرہٗ کا ارشاد نقل کیا ہے: ’’اگر نورِ بصیرت کے ساتھ احادیثِ شریفہ پر غور کیا جائے تو نظر آئے گا کہ بہت سی احادیث قرآنِ کریم کے چشمۂ صافی سے نکلی ہیں، یہاں تک کہ بہت سی احادیثِ شریفہ میں قرآنِ کریم کی تعبیرات کی طرف لطیف اشارات پائے جاتے ہیں‘‘ ۔ (یتیمۃ البیان، ص:۲۸) قرآنِ کریم کی تشریح وتفسیر کے لیے قرآنِ کریم کے شارحِ اول حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تشریح وتبیین کس قدر ناگزیر ہے اس کا اندازہ مندرجہ ذیل مثالوں سے ہوگا:
۱: قرآنِ کریم میں بار بار ’’اقامتِ صلوٰۃ‘‘ کا حکم دیا گیا ہے، کس وقت کی نماز کی کتنی رکعات ہیں؟ نماز کی شرائط وارکان کیا ہیں؟ نماز کہاں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہوتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ بیسیوں سوالات ایسے ہیں جن کی تشریح آنحضرت ﷺ نے اپنے قول وفعل سے فرمائی ہے اور ان تشریحاتِ نبوی کے بغیر کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں کہ قرآنِ کریم کے حکم ’’اقامتِ صلوٰۃ‘‘ کا مفہوم متعیّن کرسکے۔
۲: قرآنِ کریم میں بہت سی جگہ زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن زکوٰۃ کس مال پر فرض ہے؟ کس پر نہیں؟ زکوٰۃ کا نصاب کیا ہے؟ زکوٰۃ کی کتنی مقدار فرض ہے؟ یہ اور اس قسم کے تمام امور آنحضرت ﷺ کی تشریح سے امت کو معلوم ہوئے ہیں، ورنہ کوئی شخص مرادِ خداوندی کو دریافت نہیں کرسکتا تھا۔
۳: قرآنِ کریم میں حج بیت اللہ کا حکم دیا گیا ہے، لیکن حج کا طریقہ کیا ہے؟ اور اس کے ارکان ولوازمات کیا ہیں؟ ان تمام امور کی تفصیل آنحضرت ﷺ کی قولی وعملی تشریح سے معلوم ہوئی، اس کے بغیر کوئی شخص ’’قرآنی حج‘‘ کا طریقۂ کار متعیّن نہیں کرسکتا تھا۔ یہ چند مثالیں اسلام کے اہم ترین ارکان کی عرض کی گئی ہیں، جن سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ قرآنِ کریم کی مراد آنحضرت ﷺ کے قول وفعل اور ہدی وسیرت میں متشکل ہوکر سامنے آتی ہے۔