اداریہ
مدیر ماہنامہ مفاہیم، کراچی
پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے۔ ایک طرف سیاسی ابتری اور دوسری طرف معاشی کسمپرسی ہے۔ ملک کا نظام فوجی بوٹ اور سودی نوٹ چلا رہا ہے اور سود بھی وہ جو عالمی سامراج کے قرضوں پر دیا جارہا ہے۔ قرضے کی قسطیں پوری کرنے کے لیے ظالمانہ ٹیکس لگا کر مہنگائی میں اضافہ کیا جا رہا ہے یہاں تک کہ ضروریاتِ زندگی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔ قیادت کا وہ فقدان ہے کہ ان مسائل کی حقیقی وجوہات جاننے کے بجائے ہر اگلا وزیر اعظم پچھلے کو لعنت ملامت کر کے خود کو سبک دوش محسوس کرتا ہے۔ عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافہ، کرونا وبا کے اثرات سمیت ہماری معاشی بدحالی کی بہت ساری مادی وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے اسوۂ یوسفی سے کام لیتے ہوئے اپنی زراعت اور دیگر معاش کو منظم نہیں کیا لیکن ہماری معاشی ابتری کی سب سے بڑی وجہ اخلاقی ہے۔ اور وہ معاصی کا ارتکاب ہے: «إِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ يُصِيبُهُ» (سنن ابنِ ماجہ) ’’بے شک بندہ اپنے ارتکاب شدہ گناہوں کے سبب اپنے رزق سے محروم ہو جاتا ہے‘‘ ۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ دنیا میں کئی نافرمانوں کو رزق میں وسعت دی گئی ہے جو حدیث کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہے تو اس کا جواب شارحین نے یوں دیا کہ یہاں رزق کی کمی سے مراد ایک تو رزقِ حلال ہے اور دوسرے وہ رزق جس پر انسان کو قناعت نصیب ہو جائے تو ان دو چیزوں کو معیار بنا کر دیکھیں تو امیروں اور غریبوں کی اکثریت ان دو چیزوں میں سے ایک سے محروم ہے۔ کئی گناہ ایسے ہیں جن کی سزا دنیا ہی میں دے دی جاتی ہے۔ ان سزاؤں میں سے ایک سزا رزق میں کمی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: «مَا ظَهَرَ الْغُلُولُ فِي قَوْمٍ إِلَّا أَلْقَى اللَّهُ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ وَلَا فَشَا الزِّنَا فِي قَوْمٍ إِلَّا كَثُرَ فِيهِمُ الْمَوْتُ وَلَا نَقَصَ قَوْمُ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِلَّا قَطَعَ عَنْهُمُ الرِّزْقَ وَلَا حَكَمَ قَوْمٌ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الدَّمُ وَلَا خَتَرَ قَوْمٌ بِالْعَهْدِ إِلَّا سُلِّطَ عَلَيْهِمُ الْعَدُوُّ» (مؤطا امام مالک) ’’کسی قوم میں (انفرادی اور اجتماعی) خیانت و غبن نہیں پھیلتا مگر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہے اور جب کسی قوم میں بدکاری پھیلتی ہے تو ان میں اموات زیادہ ہو نےلگتی ہیں اور کوئی قوم ناپ تول میں کمی نہیں کرتی مگر ان سے رزق روک لیا جاتا ہے اور کوئی قوم ناحق فیصلے کرتی ہے تو اس میں خون خرابا عام ہو جاتا ہے اور جو قوم عہد شکنی کرتی ہے تو ان پر دشمن مسلط کر دیا جاتاہے‘‘ ۔ گناہوں میں بہت بڑا اور بہت برا گناہ سود ہے جس پر اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی جانب سے اعلانِ جنگ کیا گیا ہے۔ افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ بینک کے سود کو ربا قرار دینے اور حکومت کو اس کے خاتمے کے لیے ٹائم فریم دینے کے فیصلے کے خلاف اپیل کی جا چکی ہے۔ یہ اپیل اصل میں معاملے کو کھٹائی میں ڈالنے کا ایک طریقہ ہے جیسا کہ پہلے بھی ہمارے ملک میں ایسا کیا جا چکا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے والی چیز ہے: «إِذَا ظَهَرَ الزِّنَا وَالرِّبَا فِي قَرْيَةٍ، فَقَدْ أَحَلُّوا بِأَنْفُسِهِمْ عَذَابَ اللَّهِ» (مستدرکِ حاکم) ’’جس معاشرے میں زنا اور سود پھیل جائے تو اس معاشرے نے خود کو عذابِ الٰہی کا مستحق ثابت کر دیا‘‘ ۔ اعلیٰ عدالتی فیصلوں کے باوجود شریعت کے اس حکم کو ناقابلِ تسلیم قرار دیتے ہوئے شریعت کی خلاف ورزی پر مصر؛ افراد، ادارے یا بینک اصل میں شیطانی انفیکشن کا شکار ہو چکے ہیں: ﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ (البقرۃ:۲۷۵ ) ’’وہ لوگ جو سود خوری کرتے ہیں، نہیں کھڑے ہوں گے مگر اس شخص کی طرح جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کر دیا ہو یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے حالاں کہ اللہ نے تجارت کو حلال جب کہ سود کو حرام قرار دیا ہے‘‘ ۔ آج ہم جس معاشی بدحالی کا رونا رو رہے ہیں تو اس کا براہِ راست تعلق سودی معیشت کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ» (البقرۃ :۲۷۶) ’’اللہ سود کو گھٹاتا اور صدقے کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گناہ گار کو پسند نہیں کرتا‘‘ ۔ اسی کو رسول اللہ ﷺ نے یوں بیان کیا: «مَا أَحَدٌ أَكْثَرَ مِنَ الرِّبَا إِلَّا كَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهِ إِلَى قِلَّةٍ» (سنن ابنِ ماجہ) ’’سودی لین دین سے کوئی کتنا ہی مال جمع کر لے آخر کار اس کا انجام قلت ہی ہے‘‘ ۔ سود کی قباحت و خباثت اتنی زیادہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے اسے واضح کرنے کے لیے پرلے درجے کی گھٹیا حرکت سے تشبیہ دی تاکہ لوگ سود سے متنفر ہو سکیں: «الرِّبَا سَبْعُونَ حُوبًا أَيْسَرُهَا أَنْ يَنْكِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ» (سنن ابنِ ماجہ) ’’سود کے ستر گناہ ہیں ان میں سب سے ہلکا اس کے برابر ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرے‘‘ ۔ رسول اللہ ﷺ اپنی امت پر بہت شفیق تھے اور آپ ﷺ لعنت ملامت سے بہت بچا کرتے تھے لیکن سود کی برائی ایسی تھی کہ نبیٔ رحمت ﷺ بھی لعنت بھیجے بغیر نہ رہ سکے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ، لَعَنَ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَشَاهِدِيهِ وَكَاتِبَهُ» (سنن ابنِ ماجہ) ’’رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی سود کھانے والے اور سود کھلانے والے، اس کے گواہوں اور اس کے لکھنے والے پر‘‘ ۔ رسول اللہ ﷺ کی لعنت، آخرت کی ذلت اور دنیا کی غربت سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم تمام گناہوں بالخصوص سود خوری اور سودی بینکوں میں اکاؤنٹ رکھنے اور ان کے ساتھ لین دین کرنے سے توبہ کریں۔ سچی توبہ ہی سے امید ہے کہ اخروی عذاب اور ملکی معاشی بدحالی سے بچ پائیں گے۔ قرآنِ کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کا بیان یوں ہوا ہے: ﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا ﴿١٠﴾يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا ﴿١١﴾وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ﴾ ’’پس میں نے ان سے کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو وہ آسمان سے موسلادھار بارشیں برسائے گا اور وہ تمھیں مال و اولاد میں بڑھا دے گا‘‘ ۔ امام ابنِ کثیر ان الفاظ کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ جب تم اللہ کی جناب میں توبہ و استغفار کرو گے اور اس کی اطاعت کرو گے تو تمھارا رزق وسیع کر دیا جائے گا اور زمین و آسمان کی برکتوں سے تمھیں نوازا جائے گا۔ ایک حدیث میں مختلف گناہوں پر دنیاوی عذابوں اور ذلت کا ذکر ہے اور اسی کے آخر میں اس ذلت سے نکلنے کا راستہ بھی بیان کیا گیا ہے: «لَا يَرْفَعُهُ عَنْهُمْ حَتَّى يُرَاجِعُوا دِينَهُمْ» (المعجم الکبیر) ’’اللہ اس ذلت کو ان سے نہیں اٹھائے گا یہاں تک کہ وہ دین کی طرف پلٹ آئیں‘‘ ۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہگاری کا طرزِ عمل ترک کر کے اس کی اطاعت و عبادت پر کمر بستہ ہونا چاہیے۔ ذاتی حیثیت میں سودی لین دین سے مکمل اجتناب کے ساتھ ملکی معیشت میں سے سود کے قلع قمع کرنے کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ عوام و حکمران سب کو سچی توبہ اور اصلاح کی توفیق عطافرمائے۔ِ