صوفی جمیل الرحمان عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم و ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی
۳۵۹ ھ میں؛مصر کے عبیدی فاطمی خلیفہ المعز لدین اللہ کے دورِ حکومت میں بیت المقدس پر عبیدیوں نے قبضہ کر لیا۔ اس خاندان نے نصاریٰ کے ساتھ خاص تعلقات استوار کیے اور ان کے ہاں شادیاں بھی کیں۔ ان کے ایک حکمران العزیز باللہ نے ایک عیسائی عورت سے شادی کر رکھی تھی۔۸۶ ۳ھ میں اس عیسائی عورت کا بیٹا الحاکم بامر اللہ الفاطمی حاکم بنا۔ الحاکم نے عیسی بن نسطور عیسائی کو اپنا وزیر بنایا اور شام میں ایک یہودی کو اپنا نائب مقرر کیا۔ ۴۶۵ ھ میں الپ ارسلان سلجوقی نے فاطمیوں سے بیت المقدس چھین کر یہاں بغداد کی عباسی سُنّی خلافت کا جھنڈا لہرا دیا لیکن یہ ایک عارضی وقفہ تھا۔ سقوطِ قدس یعنی بیت المقدس پر صلیبی قبضے کے ایک سال قبل یعنی ۴۹۱ ھ (۱۰۹۸ ء) میں فاطمیوں نے سلجوقیوں سے بیت المقدس دوبارہ حاصل کر لیا۔
صلیبی تحریک کی ابتدا
رومی عیسائی سلطنت ایک مدت سے دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ مشرقی رومی سلطنت جس کا پایۂ تخت قسطنطنیہ تھا جبکہ مغربی رومی سلطنت جس کا پایۂ تخت اٹلی کا شہر روم تھا۔ مغربی سلطنت مزید شکست و ریخت کا شکار ہو کر ذیلی ریاستوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ جبکہ مشرقی عیسائی سلطنت مسلمانوں کے ہاتھوں کمزور ہو چلی تھی۔ مذہبی طور پر کیتھولک چرچ دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔ ایک کلیساے روم اور دوسرا کلیساے یونان، قسطنطنیہ یونانی چرچ کے تابع تھا جبکہ مغربی رومی سلطنت اور اس کی ریاستوں میں رومن چرچ کا طوطی بولتا تھا۔ ابتدائی دور میں عیسائی سلطنتوں میں پوپ کو سیاسی اثر و رسوخ حاصل نہ تھا۔ لیکن بتدریج ایسے اسباب فراہم ہوئے کہ پادریوں کو اُمورِ سلطنت میں دخل اندازی کا موقع ملتا گیا۔ پادریوں کی غیر مرئی حکومت کی ابتدا، نویں صدی عیسوی کی ابتدا میں ہوتی ہے جب پوپ نے چارلس اعظم (شارلمین) کو تختِ فرانس پر بیٹھنے میں مدد کی۔ پادریوں کی غیر رسمی حکومت کا عروج پوپ الیگزینڈر دوم کا دور ہے جس نے (۱۰۶۶ عیسوی میں) فرانسیسی علاقے نارمنڈی کے حکمران ’’ولیم باسٹرڈ‘‘ کو تاجِ برطانیہ حاصل کرنے میں مدد دی۔ الیگزینڈر دوم کے بعد ہلڈی برینڈ (۱۰۷۳۔ ۱۰۸۵ عیسوی) پوپ بنا۔ اس کے دل میں مذہبی حکومت کے توسع کے خیالات پہلے ہی پختہ ہو چکے تھے۔ پوپ کے دلی ارادوں کی اظہار و تکمیل میں سیاسی حالات نے بھی اس کی معاونت کی۔ اس کا پس منظر یوں ہے کہ ۴۶۳ ھ(۱۰۷۱ ء) میں سلجوق بادشاہ الپ ارسلان نے محض پندرہ ہزار کے مختصر لشکر کی مدد سے تاریخی معرکے ملاذکر میں مشرقی رومی سلطنت کے لاکھوں کے لشکر کو نہ صرف شکستِ فاش سے دوچار کیا بلکہ شاہِ قسطنطنیہ اَرمانوس کو قیدی بھی بنا لیا جو ڈیڑھ ملین دینار فدیہ ادا کر کے آزاد ہوا۔ اگلے چند سالوں میں سلجوقیوں نے ایشیاے کوچک کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ یہاں تک کہ رومیوں کے تاریخی شہر نیقیہ پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ اب باوجود مذہبی اختلافات کے، قسطنطنیہ کے بازنطینی حکمرانوں نے مغربی روم کے عیسائیوں کی طرف ’’المدد‘‘ کی آوازیں لگائیں۔ اب پوپ ہلڈی برینڈ نے مشرقی رومی سلطنت کے دفاع اور مقدس مقامات کو ’’بے دینوں‘‘ کے قبضے سے چھڑانے کے لیے مذہبی مہم جوئی کی ضرورت پر زور دیا۔ لیکن باجود کوشش کے مسلمان مخالف ان باتوں کو قبولِ عام حاصل نہ ہوا۔ پوپ ہلڈی برینڈ کے انتقال کے بعد پوپ اربن اور پطرس راہب نے مسیحی مذہبی جنون پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ خاص طور پر پطرس راہب نے پوپ اربن کے ایما پر قریہ قریہ، بستی بستی گھوم کر ارضِ مقدس پر قابض مسلمانوں کے مسیحی عوام اور زائرین پر مظالم کی فرضی داستانیں سنائیں۔ پطرس نے لوگوں کو باور کرایا کہ خود حضرت مسیح علیہ السلام نے اسے اس کا م کے لیے نامزد کیا ہے بلکہ اس کے معتقدین میں یہاں تک مشہور ہو گیا کہ راہب کے پاس آسمان سے کوئی تحریری پروانہ بھی آیا ہے۔ راہب جہاں جاتا فرضی قصے بیان کر کے خود بھی روتا اور دوسروں کو بھی رلاتا۔ اس نے عیسائیت کو مظلوم اور مسلمانوں کو ظالم ثابت کر دکھایا۔ اور لوگوں میں ان مظالم کے خلاف کھڑے ہونے کا جذبہ بیدار کر دیا۔ چناں چہ ۱۰۹۵ عیسوی میں پیاسنزا (اطالیہ یعنی اٹلی کا دریاے پو کے کنارے کا ایک شہر) کے مقام پر مسیحی کونسل کا انعقاد ہوا۔ اس میں قسطنطنیہ کے نمائندے بھی شامل ہوئے جنھوں نے مغربی نمائندوں کے سامنے مسلمانوں کی پیش قدمی کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا اور مغربی دنیا سے درخواست کی کہ وہ ترکوں سے مشرقی سلطنت کو بچانے میں ان کی مدد کرے۔ اسی سال ایک دوسری مسیحی کونسل کا انعقاد، فرانس کے شہر کلر مانٹ میں عمل میں لایا گیا۔ یہاں پوپ اربن ثانی نے ایک جوشیلی تقریر کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف جذبات کو آگ لگا دی۔ لوگ دشمن کے مقابلے میں نکلنے کے لیے بے تاب ہو گئے۔ لوگوں کا ایک ہی نعرہ تھا ’’ارضِ مقدس یا شہادت‘‘ پوپ نے انھیں باز و اور سینے پر صلیب کا نشان بنانے کا کہا جس کی وجہ سے یہ مہم صلیبی جنگ کے نام سے مشہور ہوئی۔ پادریوں میں سب سے پہلے پوئی (فرانس) کے پادری ایڈہیمار نے خود پر صلیب کا نشان بنایا چنانچہ اسے پوپ کا نائب قرار دیا گیا۔ صلیب کا نشان ایک عظیم شعار قرار پایا۔ چناں چہ اگر کوئی مجرم اپنے سینے پر صلیب کانشان بنا دیتا تو اسے جیل خانے سے آزاد کر دیا جاتا۔ صلیب کا نشان، مزارع کو زمین دار سے نجات دلا دیتا اور مقروض کو مہاجن سے رعایت مل جاتی۔ اس طرح مختلف معاشرتی زنجیروں میں بندھے لوگ، مقدس جنگ کے لیے خود کو آزاد کرانے لگے۔
پہلی صلیبی مہم (۴۸۹ ھ۔۴۹۲ ھ / ۱۰۹۶۔ ۱۰۹۹ عیسوی)
پہلی صلیبی مہم تین سال پر مشتمل تھی۔ ۱۰۹۶ ء میں پہلا لشکر؛مشرق کی طرف روانہ کیا گیا۔ اس کی قیادت پطرس راہب نے کی۔ یہ زیادہ تر عوام الناس پر مشتمل تھا۔ یہ پہلے بازنطینی سلطنت کے پایۂ تخت قسطنطنیہ میں پہنچے اور شاہ بازنطین الکیسوس کی اشیر باد لے کر سلجوقی سلطنت کی حدود میں داخل ہوئے۔ سلجوقی بادشاہ قلیچ ارسلان نے انھیں اپنے دارالحکومت ’’نیقیہ‘‘ پہنچنے دیا اور یہاں آرام سے چن چن کر قتل کیا۔ چند ماہ بعد ایک دوسرا صلیبی لشکر ارضِ مقدس کی طرف روانہ ہوا۔ یہ منظم نائٹس اور ڈیوکس پر مشتمل تھا۔ لشکر کی قیادت گاڈ فرے (بوئیلون یعنی آڑدنس، شمالی بیلجیم کا نواب) کر رہا تھا۔ دیگر قائدین میں بالڈون اور ہیوغ (نواب آف ورمانڈوا) وغیرہ شامل تھے۔ اس کے علاوہ دیگر علاقے کے لوگ بھی اپنی فوجیں لے کر مسلمانوں سے بر سرِپیکار ہونے کی تیاری میں لگ گئے۔ ان میں مغربی بیلجیم کے علاقے فلانڈرس کا نواب رابرٹ، جنوبی اٹلی کے علاقے، ٹارنٹم یا ٹارنٹ کا نواب بوہیمانڈ اور اس کا بھانجا، نائٹ ٹنکرڈ، فرانسیسی علاقے پوئی کا اسقف ایمپر، طولوز کے علاقے کا نواب ریمنڈ و، نارمنڈی کا نواب رابرٹ، وغیرہ شامل تھے۔ ہر ایک کے ساتھ اس کی منظم سپاہ اور نائٹس کے علاوہ عوام الناس کی ایک بڑی تعداد تھی۔ صلیبیوں کی تعداد سات لاکھ سے متجاوز تھی۔ بعد میں دیگر گروہِ نصاریٰ بھی شامل ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ سقوطِ قدس کے موقعے پر، ابنِ کثیر رحمہ اللّٰہ کی روایت کے مطابق صلیبی لشکر کی تعداد، دس لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ یہ گروہ مختلف اطراف سے شام کی طرف روانہ ہوئے۔ گاڈ فرے وغیرہ کے لشکر قسطنطنیہ پہنچے۔ قسطنطنیہ کے عیسائی بادشاہ الیکسوس نے صلیبیوں کے ساتھ اس شرط پر دوستانہ معاہدے کیے کہ وہ الیکسوس کے علاقے میں امن و امان میں خلل نہ ڈالیں گے بلکہ بادشاہ کی اطاعت کریں گے۔ اس کے بدلے میں شاہِ بازنطین نے صلیبیو ں کی پشت پناہی و فراہمیٔ رسَد کا وعدہ کیا نیز گاڈ فرے کو اپنا منھ بولا بیٹا بنا لیا۔ مارچ ۱۰۹۷ ء میں صلیبی قسطنطنیہ سے شام کی طرف روانہ ہو ئے۔ بازنطینی بحری جہاز انھیں باسفورس کے مشرقی کنارے پر اتار کر واپس ہوئے۔ صلی بیوں نے نیقیہ کا محاصرہ کیا۔ سلطان قلیچ ارسلان نے ہوشیاری کے ساتھ اپنی فوج کو شہر سے باہر نکالا اور شاہِ بازنطین سے گفت و شنید کر کے شہر اس کے حوالے کردیا۔ اس طرح شہر ی آبادی صلیبیوں کے ظلم و ستم سے محفوظ ہو گئی۔ شہر پر بازنطینی پرچم لہراتا دیکھ کر صلیبی بہت تلملائے۔ اب سلطان نے صلیبیوں پر چھوٹے چھوٹے حملے کر کے انھیں بہت نقصان پہنچایا لیکن آخر کار ایک کھلی جنگ میں سلطان نے شکست کھائی اور مشرق کی طرف قونیہ تک پسپا ہو گئے۔ صلیبیوں نے ایڈیسیا (الرہا) فتح کرنے کے بعد، ۱۰۹۸ عیسوی میں انطاکیہ کامحاصرہ کر لیا جہاں سلجوق کمانڈر نے عمدگی سے شہر کا دفاع کیا لیکن ایک عیسائی عہدے دار کی غداری کے سبب صلیبی شہر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہاں انھوں نے شہری آبادی یہاں تک کہ بچوں اور عورتوں تک کا قتلِ عام کیا۔ اتنے میں سلجوقی حاکمِ موصل، قوام الدولہ کربوقا نے انطاکیہ پر حملہ کر کے صلیبیوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ صلیبی بھوکوں مرنے لگے یہاں تک کہ وہ مسلمان مُردوں کی قبریں کھود کو لاشوں سے گوشت کاٹ کرپکاتے اور کھاتے۔ تنگ آکر انھوں نے شہر سے باہر نکل ک ر مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ یہاں کربوقا نے اپنے ساتھی کمانداروں کی درست رائے کے برعکس، شہر سے نکلتے ہوئے صلیبی جتھوں کو قتل کرنے کے بجائے ان کے پورے لشکر کو باہر نکل کر صف آرا ہونے کا موقع دیا۔ اس غلط فیصلے کی پاداش میں مسلمانوں کو ایک خوفناک لڑائی کا سامنا کرنا پڑا اور آخر کا ر وہ شکست سے دوچار ہوئے۔ یوں انطاکیہ پر صلیبی قبضہ مستحکم ہو گیا۔ کئی ماہ آرام کرنے کے بعد صلیبی مَعَرَّةُ النُّعمان شہر پر حملہ آور ہوئے۔ مسلمانوں نے محصور ہو کر دفاع کیا۔ ابتدا میں مسلمانوں نے بہادری اور ہمت کا مظاہرہ کیا اور صلیبیو ں کو شہر پناہ کے نزدیک تک نہ آنے دیا۔ صلیبیوں نے لکڑی کا ایک بہت اونچا پل بنا کر وہاں سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی لیکن انھیں اس میں بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ لیکن ایک رات ایک مسلمان گروہ کسی وہم کا شکار ہو کر شہر پناہ سے اتر کر اپنے گھروں میں داخل ہو گیا۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے گروہ بھی اترنے لگے یہاں تک کہ شہر پناہ خالی ہو گئی اور عیسائی رسیوں کی سیڑھیاں لگا کر شہر میں داخل ہو گئے۔
قبضے کے بعد تین دن تک مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا اور ابنِ اثیر رحمہ اللّٰہ کی روایت کے مطابق ایک لاکھ مسلمان تہِ تیغ کیے گئے جبکہ قیدی بنائے جانے والے مردو زن اس کے علاوہ تھے۔ اس کے بعد صلیبیوں نے لاذقیہ پر قبضہ کیا اور پھر بیت المقدس کی طرف روانہ ہوئے اور بیروت، کوہِ لَبنان اور یافہ سے ہوتے ہوئے رملہ میں پہنچے جو بیت المقدس سے کچھ میل کے فاصلے پر تھا۔ جون ۱۰۹۹ عیسوی میں انھوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا۔ ایک ماہ سے اوپر کے محاصرے میں کئی بار صلیبیوں کو سخت ہزیمت اٹھانا پڑی یہاں تک کہ ایک موقع پر ان کے سپاہی بالکل دل چھوڑ بیٹھے کہ ان کے پادریوں نے مقدس روحوں کی مدد آ جانے کا اعلان کیا جس سے ان کے لشکر میں ایک نیا جوش و خروش پیدا ہوا اور وہ دیوانہ وار شہر کی دیواروں پر چڑھ دوڑے اگرچہ بہت سارے قتل کیے گئے ہوں گے لیکن ان کی کثرت کی وجہ سے حملے کے زور میں کوئی کمی نہ آئی یہاں تک کہ وہ عین اس وقت شہر میں داخل ہوئے جب مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ ادا کی جا رہی تھی۔ وحشی صلیبیوں نے مسجد کے تقدس کا بھی خیال نہ کیا اور مسجد ہی میں قتلِ عام شروع کر دیا۔ ستر ہزار سے زائد مسلمان شہید کیے گئے اور انگریز مؤرخین کے مطا بق مسجد میں خون کی ایسی ندی بہہ نکلی جس میں گھوڑے گھٹنوں تک ڈوب گئے۔ زخمیوں کو گھوڑوں کے سُموں تلے روند دیا گیا۔ مسجد کی قیمتی اشیا مثلاً سونے چاندی کی قندیلیں وغیرہ لوٹ لی گئیں۔ شیر خوار بچوں کو پاؤں سے پکڑ کر دیوار پر پٹخ دے مارا جاتا۔ کئی نامور مسلمان اور علما جان بچا کر عراق پہنچے اور دربارِ خلافت میں بیت المقدس کے عبرت انگیز واقعات سنا کر خلیفہ سے مدد چاہی۔ خلیفہ نے مختلف علما مثلا ابنِ عقیل رحمہ اللّٰہ وغیرہ کو مسلمانوں کے درمیان جہاد کی آواز بلند کرنے کا حکم دیا لیکن افسوس وہ خوابِ غفلت میں ڈوبے مسلمانوں کو متحرک نہ کر سکے۔ یہ سانحہ ماہِ شعبان ۴۹۲ ھ (۱۰۹۹ عیسوی) میں پیش آیا۔ مصر کے فاطمی عبیدی خلیفہ نے اپنے سپہ سالار، امیر افضل کو بیت المقدس کا قبضہ چھڑانے کے لیے روانہ کیا جس کی اطلاع گاڈفرے کو مل گئی اس نے آگے بڑھ کر عسقلان کے قریب فاطمی فوجوں کو جالیا۔ اس جنگ میں گاڈفرے کو فتح حاصل ہوئی اور فاطمیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں سے صلیبی آگے بڑھے اورعسقلان شہر کا محاصرہ کرلیا۔ اہلِ شہر نے بارہ ہزار دینار فدیہ دے کر جان چھڑائی۔ گاڈفرے بیت المقدس پر ایک سال حکومت کرنے کے بعد فوت ہوا۔ اس کے بعد بالڈون حکمران بنا جس نے ۱۱۰۰ عیسوی سے ۱۱۱۸ ء تک یہاں حکومت کی۔ مسلمان اگرچہ شکست کھا گئے تھے اور بہت سے علاقوں مثلاً فلسطین، قیساریہ، حَیفَ، یافا، ارسوف، طبریہ، لاذقیہ، انطاکیہ، الرہا (ایڈیسا) وغیرہ صلیبیوں کے قبضے میں تھے۔ لیکن مسلمان مختلف اطراف میں کوشش کرتے رہے۔۴۹۳ ھ میں ایک ترک سردار كُمُشتِكِين ابن الدانشمند نے ملطیہ کے نزدیک بوہیمانڈ کو شکست دی اور اسے گرفتار کر لیا۔ اپنے سردار کو چھڑانے کے لیے صلیبی تین لاکھ کا لشکرِ جرّار لے کر كُمُشتِكِين کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں انھوں نے انگورہ (انقرہ) پر حملہ کر کے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا۔ اس کے بعد وہ ملطیہ میں پہنچے جہاں كُمُشتِكِين بن دانشمند اور اسماعیل بن دانشمند صلیبیوں کے مقابلے پر آئے اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آدھے لشکر کو میدان میں اتارا اور بقیہ لشکر کو کمین گاہوں میں چھپا دیا جس نے عین لڑائی کے دوران مختلف اطراف سے صلیبیوں پر حملہ آور ہو کر ان کے چھکے چھڑا دیے۔ مسلمانوں نے اس لڑائی میں، صلی بیوں کے سابقہبزدلانہ مظالم کا بہادرانہ بدلہ لیا اور صلیبیوں کا خوب قتل کیا یہاں تک کہ ابنِ اثیر رحمہ اللّٰہ کی روایت کے مطابق صرف تین ہزار صلیبی رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر فرار ہو سکے۔ مسلمانوں نے آگے بڑھ کر ملطیہ پر قبضہ کر لیا۔ قبضے چھڑانے کے لیے انطاکیہ سے صلیبی لشکر ملطیہ پہنچا لیکن شکست کھا کر فرار ہوا۔ بوہیمانڈ ابھی تک مسلمانوں کی قید میں تھا جسے سلجوق کمانڈر باغییان کی بیٹی کے بدلے میں آزاد کر دیا گیا جو انطاکیہ کی شکست کے موقعے پر فرنگیوں کی قید میں چلی گئی تھی۔۵۰۰ ھ میں، شاہِ قسطنطنیہ اور صلیبیوں کے سردار بوہیمانڈ کے درمیان اختلافات بڑھ گئے یہاں تک کہ جنگ کی نوبت آ گئی۔ قلیچ ارسلان سلجوقی والیٔ قونیہ نے اس جنگ میں شاہِ روم کی درخواست پر اس کی حمایت میں فوج روانہ کی۔ چناں چہ متحدہ فوج نے صلیبی فرنگیوں کو شکست سے دو چار کیا۔ اس جنگ نے ارد گرد کے مسلمانوں کو صلیبیوں سے لڑنے کی ترغیب دلا دی۔۵۰۲ ھ میں طُغتِگین والیٔ دمشق نے صلیبیوں سے کئی جنگیں لڑیں۔ انھوں نے طبریہ کے علاقے میں فرنگیوں کو شکست دی۔ اس جنگ میں بالڈون کا بھانجا قیدی بن کر مقتول ہوا۔۵۰۵ ھ میں والیٔ موصل مودود بن زنگی اور امیر ایلغازی نے شام میں فرنگیوں پر حملہ کیا اور کئی اہم قلعے ان سے چھین لیے۔ ۵۰۷ ھ میں انھی افواج نے طبریہ میں فرنگیوں کو عبرت ناک شخص دے کر یہ علاقہ آزاد کرا لیا۔۵۲۷ ھ میں حلب کے اطراف میں امیرِ حلب اَسوار نے فرنگیوں کا مقابلہ کیا، پہلی بار شکست کھانے کے بعد، فرنگیوں کو شکست سے دو چار کیا۔ فرنگی پسپا ہو ئے لیکن جلد ایک نئی فوج حلب پر چڑھا لائے۔ امیرِ حلب اسوار نے امیر ِحسان البعلبکی کے ساتھ مل کر فرنگیوں کو عبرت ناک شکست دی اور ان کا خوب خون بہایا۔ عماد الدین زنگی بن آقسُنقُر (والیٔ حلب) نے ۵۴۰ کی دہائی میں فرنگیوں سے بہت سی لڑائیاں لڑیں اور بہت سے قلعے اور شہر فتح کیے۔ عماد الدین زنگی نے ۵۳۹ ھ میں الرُّہا پر حملہ کیا۔ فرنگی محصور ہو گئے لیکن قلعے سے نکل نکل کر مسلمانوں پر حملے کرتے رہے۔ تقریبا ایک مہینا ان کی جھڑپیں جاری رہیں جن میں اکثر مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا۔ آخر مسلمان قلعے کی دیواریں توڑ کر اندر داخل ہو ئے اور شہر پر قبضہ کر لیا۔ سلطان نے شہر پناہ کی تعمیرِ نو کی اور عیسائیوں سے اچھا سلوک کرتے ہوئے انھیں امان دی۔ اس کے بعد انھوں نے سَرُوج اور دریاے فرات کے شرقی کنارے پر آباد بعض دوسرے شہر آزاد کر لیے۔۵۴۲ ھ میں نور الدین زنگی نے کئی قلعے فرنگیوں سے آزاد کرا لیے۔ ۵۴۴ ھ میں نور الدین زنگی نے انطاکیہ پر حملہ کر کے قابض صلیبیوں کو شکست دی اور ان کے والی کو قتل کیا۔ لیکن جب شہر کا محاصرہ کیا تو فرنگیوں کو آس پاس سے کمک مل جانے پر وہ محاصرہ چھوڑ کر واپس آ گئے۔ ۵۴۷ ھ میں بھی نور الدین زنگی نے فرنگیوں کو عبرت ناک شکست دی۔
کتابیات:
وا قدساه
صلیبی جنگوں کے سربستہ راز
تاریخ ابن الاثیر
تاریخ ابنِ کثیر
النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة